میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:24 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-10

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:24



خیراتی دواخانے کے کسی بھی وارڈ کے بستر پر جب اردو نظر نہ آئی تو مجھے گونہ اطمینان نصیب ہوا۔ ویسے ڈھونڈنے کو میں اسے ڈھونڈ رہا تھا لیکن اندر ہی اندر دل اور روح کے کسی گوشے میں ایک دعا ایک پیاسے اور بے چین پرندے کی طرح منہ کھولے ہوئے آسمان کو تک رہی تھی کہ مجھے اردو نہ ملے ۔ میں اسے دوسرے درجنوں نامعلوم تباہ حال مریضوں کی طرح فرش پر پڑا ہوا دیکھ نہیں سکتا ۔ شاید وہ لمحہ میری زندگی کا سب سے بڑا جذباتی لمحہ ہوگا ۔ جب میں اسے میلے کچیلے بستر پر پڑا کراہتا ہوا دیکھوں۔میں نہیں جانتا اور میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتا کہ اس نازک لمحے میں، میں کیا کچھ کر گزروں گا، شاید میرے اندر کوئی طوفان اٹھے۔ اور میں کسی آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھٹ پڑوں۔
اڑااڑا دھم۔۔۔۔اڑااڑ۔۔۔۔
آگ لگی رے آگ۔۔۔۔۔۔۔۔!!
بچاؤ۔۔۔بچاؤ۔۔۔
مریض چیخ رہے ہیں!
خیراتی دواخانے کے دیو جیسے لوہے کے گیٹ کو عبور کرنے کے بعد جب میں باہر نکلا تو مجھے یوں لگا جیسے میں وہ قیدی ہوں جسے ابھی ابھی جیل سے رہا کیا گیا ہو ۔میں نے اطمینان کی سانس لی ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے اپنی دیوانگی کا احساس ہوا کہ میں اردوکو آخر کہاں ڈھونڈ رہا تھا۔
مجھے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا۔ میں نے سوچا، اردو یقیناً کسی نہ کسی موڈرن نرسنگ ہوم میں ہوگی۔ ساتھ ہی میں نے شہر کے تمام نرسنگ ہومس کی فہرست مرتب کی اور دوسرے ہی دن میں نے انہیں جیسے کھنگال ڈالا۔ یہاں مجھے انکوائری کلرک سے وہی تلخ تجربہ ہوا جو خیراتی ہاسپٹل میں ہوا تھا۔ فرق اتنا تھا کہ وہاں کے کلرک نے تھوڑے بہت اخلاق کا مظاہرہ کیا تھا لیکن یہاں کے تمام کلرک ایک جیسے تھے ۔ ان سبھوں نے یہی کہا:
جنٹلمین! ڈونٹ ویسٹ اور ٹائم! یو فرسٹ گٹ آؤٹ فرم ہیئر!

ایسے میں دل سے ایک آواز آئی۔ کہیں اردو کو ہارٹ اٹیک تو نہیں ہوا ہے؟ ظاہر ہے یہ آواز ایک وہم سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی، لیکن اس کے باوجود وہم آدمی کی ساری نفسیات کو متاثر کر دیتا ہے ۔ اس کے پیچھے کوئی منطق ہوتی ہے اور نہ کوئی دلیل میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ میں دوڑا دوڑا آرتھو پیڈک ہاسپٹل پہنچا!
شام کا وقت تھا ، لوگ اپنے اپنے عزیزوں اور دوستوں کی مزاج پرسی کے لئے دواخانے میں آ رہے تھے ۔ ان کے ہاتھوں میں ٹوکریاں تھیں اور ٹوکریوں میں پھل تھے۔ میں خالی ہاتھ آیا تھا۔ اس لئے کہ میں نہیں جانتا تھا کہ ڈاکٹروں نے اردو کو کس قسم کی غذا کھانے کے لئے کہا تھا ۔ اور کون کون سے پھل اس کے لئے حیات بخش اور مفید تھے اور کس کس سے منع کیا تھا؟ اگرمیں کچھ لاتا اور بدپرہیزی کی وجہ سے اردو کو کچھ ہو جاتا تو شاید میں خود کو عمر بھر معاف نہ کرتا اور دشمنوں کو ہنسی اڑانے کا اور موقع مل جاتا۔ میں نے سوچا پہلے تو میں اردو سے مل لوں ۔ اس کے بعد متعلقہ ڈاکٹر سے پوچھوں گا کہ اب اس کی صحت کا کیا حال ہے؟ اور کون سی غذا اسے دی جانی چاہئے ۔ لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ وہ کس وارڈ میں ہے؟

آرتھوپیڈک ہاسپٹل کے بڑے ہال میں دو انکوائری کونٹر تھے۔ ایک دوسرے کے مقابل ۔ ایک کونٹر پر کلرک ان حضرات کو اٹنڈ کر رہا تھا جن کے عزیز کسی کار ایکسیڈنٹ میں زخمی ہو کر بےہوشی کی حالت میں دواخانے لائے گئے تھے۔ دوسرے کونٹر پر کلرک دل کے ان مریضوں کا وارڈ نمبر اور بیڈ نمبربتا رہا تھا جو آج یا کل یا ایک ہفتہ قبل شریک ہوئے تھے۔ ایمرجنسی کیس کے مریض انٹنسیو کیر میں رکھے گئے تھے اور وہاں کسی کو جانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔
اس کلرک کے قریب جا کر میں نے کہا: سر!
لفظ "سر" کے ساتھ ہی کلرک فوراً میری طرف متوجہ ہو گیا جیسے یہ صرف ایک لفظ ہی نہیں تھا بلکہ وہ شہد تھا جو اس کے حلق اور اس کی روح میں ٹپکا تھا ۔ میں شاید وہ پہلا شخص تھا جس نے اسے بےحد احترام کے ساتھ پکارا تھا: سر!
وہ مسکرایا ۔ میں بھی مسکرایا ، جیسے مسکراہٹ کی زبان مین ہم نے خود ایک دوسرے کو سمجھا ہو۔ میں نے کہا اور اسی لہجے میں کہا:
سر ! آ پ کے ہاسپٹل میں میری ایک عزیزہ شریک ہوئی ہے ۔ براہ کرم اس کا وارڈ نمبر اور بیڈ نمبر دیجئے۔
کیا نام ہے اس کا؟
"اردو۔۔۔"
"اردو؟" کلرک نے جیسے اپنا منہ کھول دیا۔
"میں نے کہا، اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے سر ! یہ تو میری محبوبہ کا نام ہے"۔
"اوہو۔۔ آئی سی!" کلرک مسکرایا۔ جیسے لفظ محبوبہ کے ساتھ ہی ساری بات اس کی سمجھ میں آ گئی ہو۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس کی بھی کوئی محبوبہ تھی یا ہے اور وہ بھی عشق فرماتا تھا یا عشق فرماتا ہے۔ بہرحال محبوبہ کا نام سنتے ہی وہ مسکرا کر اس موٹے رجسٹر پر جھک گیا جو اس کے سامنے نیلے آسمان کی طرح پھیلا ہوا تھا اور جس پر نامعلوم افراد کی نامعلوم محبوبائیں آخری رات کے چاند تاروں کی طرح جھلملا رہی تھیں ۔ کیا جانے کب کون سا تارہ بھڑکتے ہوئے چراغ کی طرح روشنی دے کربجھ جائے !
نوجوان کلرک ایک ایک نام پر اپنے قلم کو رجسٹر پر رکھتا ہوا کہتا جاتا تھا :
"نو۔۔ نو۔۔ No ۔۔ No !!"
"اس نام کی تو یہاں کوئی انٹری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کیا اور بھی کوئی نام ہے؟"
میں نے کہا: ہاں سر! اور بہت سے نام ہیں اس کے ۔ بڑے لاڈ کی ہے نا۔
کلرک نے ہنستے ہوئے اپنا سر اٹھایا اور مجھے دیکھتے ہوئے بولا:
"اچھا تو بتائیے اور نام۔ شاید ان میں سے کسی نام کی انٹری مل جائے"۔
میں نے کہا: "آپ بالکل سچ کہتے ہیں، میری تقدیر اگر وہ مجھے مل جائے۔ میں نام گنتا جاتا ہوں آپ دیکھتے جائیے سر!
"ہاں، ہاں کہئے"۔
میں کہتا جا رہا تھا، جیسے جیسے مجھے نام یاد آ رہا تھا، اس میں کوئی ترتیب نہیں تھی!
"لشکری۔
ہندوی۔
دکنی۔
گجری۔
ریختہ
دہلوی
اردوئے معلی
شاہ جہانی
ٹکسالی"

"NO۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔NO۔۔۔۔۔۔۔NO ۔۔۔ نو۔۔۔۔نو۔۔۔۔نو!!"
کلرک نے جیسے چیختے ہوئے کہا!!
اس بار اس کا لہجہ ہی نہیں بدلا بلکہ وہ غصے سے جیسے کانپ رہا تھا۔ اس نے مٹھیوں کو بند کر کے دانتوں کو کٹکٹاتے ہوئے کہا:
"محبوبہ کے بچے۔۔ یہاں سے چلے جاؤ۔ ورنہ ۔۔۔۔"


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-24

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں