میاں بیوی میں محبت اور نفرت کا تعلق - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-01

میاں بیوی میں محبت اور نفرت کا تعلق

love-hate-relationship
میاں بیوی میں محبت اور نفرت کا تعلق [Love/Hate Relationship]

بہت سے مرد اور خواتین اپنی ازدواجی زندگی سے متعلق مسائل پوچھتے ہیں تو ان کی کاؤنسلنگ سے بعض اوقات احساس پیدا ہوتا ہے کہ اپنے مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں ازدواجی زندگی کے مسائل اور حل پر کچھ نہ کچھ تھیورائیزیشن کر سکتا ہوں۔ فرائیڈ وغیرہ نے بھی کون سی سائیکالوجی پڑھی تھی لیکن انہوں نے اپنے کلائنٹس کے کیس اسٹڈیز کے مطالعے سے سائیکالوجی کے ایک اسکول آف تھاٹ کی بنیاد ضرور رکھ دی۔ اور فی زمانہ یہ کام وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ سائیکالوجی میں بھی اصلا تخلیقی کام یہی ہے۔ لوگوں کے رویوں پر غور کر کے ان کے پیچھے موجود ذہن کی ورکنگ کو سمجھ جانے والا ہر شخص ایک اچھا سائیکالوجسٹ ہو سکتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لوگ ان موضوعات پر میرے اس طرح بات کرنے کو پسند کرتے ہیں تو بعض نہیں بھی کرتے۔ تو جو نہیں کرتے تو میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ میں ایز اے شریعہ اسکالر نہیں بلکہ ایز اے سائیکالوجسٹ ان موضوعات پر بات کرتا ہوں کہ شریعہ اسکالر سے لوگوں کو اس قسم کی باتوں کی امید نہیں ہوتی۔

شریعہ اسکالر یا تو اس وجہ سے ان موضوعات پر بات نہیں کرتے کہ انہیں ان باتوں کی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی یا اس وجہ سے کہ سوجھ بوجھ تو ہوتی ہے لیکن ایسی باتیں کرنا ان کے مقام اور تقدس کے منافی ہوتی ہیں۔ تو بہرحال جو بھی وجہ ہو، اس سے انکار ممکن نہیں کہ سوسائٹی میں یہ مسائل موجود ہیں اور کسی نہ کسی کو ان پر بات کرنی ہے۔ تو میں بھی اسی لیے کرتا ہوں۔ تو ہمارا موضوع یہ ہے کہ کیا ایک ہی شخص سے آپ ایک وقت میں محبت اور نفرت کر سکتے ہیں؟ تو یہ عین ممکن ہے۔ میرے پاس ایسے بہت سے کیسز آتے ہیں کہ جن میں میاں بیوی ایک ہی وقت میں اپنے پارٹنر کے ساتھ محبت اور نفرت کے تعلق میں بندھے ہوتے ہیں لہذا میں تو اس کا بالکل انکار نہیں کرتا۔ اب کچھ لوگ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی شخص سے دو متضاد قسم کے تعلق کا ہونا چونکہ منطقی طور ممکن نہیں لہذا پارٹنر سے نفرت بھی دراصل محبت ہی ہوتی ہے تو میرے نزدیک یہ تشریح درست نہیں۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پارٹنر سے نفرت کی وجہ اس سے محبت ہوتی ہے۔ اور محبت جتنی شدید ہو، نفرت بھی اتنی ہی شدید ہوتی ہے۔

اپنے پارٹنر کو قتل کرنے والے بعض قاتلوں سے جب قتل کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے قتل کی وجہ محبت بتلائی نہ کہ نفرت۔ تو محبت کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیرت نے انہیں قتل پر اکسایا۔ پس محبت کا تعلق مجرد نہیں رہتا بلکہ مزید کچھ تعلق پیدا کرتا ہے یا بچے جنتا ہے اور اس عمل کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ ہمارے ہاں عموما سات سے چودہ سال کے مابین کی ازدواجی زندگی میں یہ تعلق ڈویلپ ہوتا ہے۔ اور اس عرصے میں اس تعلق کے بننے کی کچھ معاشرتی اور نفسیاتی وجوہات ہیں لیکن میں ان میں فی الحال نہیں جانا چاہتا البتہ اس کی ایک بڑی وجہ ایک پارٹنر کا دوسرے کو دبانا یا چڑھائی کرنا ہے یا دوسرے کا یہ محسوس کرنا کہ وہ مجھے دبا رہا ہے یا بلاوجہ چڑھائی کر رہا ہے۔

اگر آپ ایک وقت میں اپنے پارٹنر سے بہت خوش ہیں اور دوسرے وقت میں اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے تو آپ محبت اور نفرت کے تعلق میں مبتلا ہیں۔ اور اگر آپ کی ازدواجی زندگی میں ناراضگی، علیحدگی اور پھر صلح صفائی (break-ups & make-ups) کا عمل جاری رہتا ہے تو آپ اپنے پارٹنر کے ساتھ اس ریلیشن شپ میں مبتلا ہیں۔ اسی طرح اگر آپ اپنے پارٹنر سے علیحدگی یعنی طلاق یا خلع چاہتے ہیں اور عملا علیحدہ ہوتے نہیں ہیں تو آپ اس ریلیشن شپ میں مبتلا ہیں۔ اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے حالات کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے اور آپ اچھی ازدواجی لائف سے مایوس ہیں تو آپ اس ریلیشن شپ میں مبتلا ہیں۔ دیکھیں، یہ نفرت کا تعلق چھوٹے چھوٹے غلط رویوں کے سبب سے چھٹانک بھر جمع ہوتا رہتا ہے اور پھر ایک وقت میں بغض کا ایک تناور درخت بن جاتا ہے کہ جسے آپ اپنی محبت کے دریا میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ اتنا قدر آور ہو چکا ہوتا ہے کہ چھپائے چھپتا نہیں ہے کہ اس کے پھلنے پھولنے میں کئی سال گزرے ہیں۔

حل اس کا کیا ہے؟ دو کام کر لینے سے کافی بہتری آئے گی کہ نفرت کے اس درخت کی جڑیں کھوکھلی ہونا شروع ہو جائیں گی۔ اور اس کے لیے ہمت میرے خیال میں شوہر کو کرنی چاہیے کہ وہ بڑا ہے۔ ایک تو جب کھانے پر بیٹھیں، پہلا لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنے کو فرض سمجھ لیں، بھلے ناراضگی ہو یا صلح۔ اور دوسرا روزانہ ایک بستر پر ایک دوسرے سے چپک کر سونا شروع کریں کہ جسم کا مس کرنا اندر کی نفرت کو کھوکھلا کرتا ہے۔ اب اس میں بیویوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ شوہروں کو اور توقعات لگ جاتی ہیں کہ جن کو پورا کرنے کے لیے ان کا ذہن تیار نہیں ہوتا یعنی ازدواجی تعلق۔ تو شوہروں کو اس معاملے میں یعنی ازدواجی تعلق قائم کرنے کے لیے دنوں کی تخصیص کر لینی چاہیے جیسا کہ تیسرے یا چوتھے یا ساتوِیں یا دسویں دن کی تخصیص۔ اور درمیان کے دنوں میں چپک کر سونے سے میری مراد صرف سونا ہے، ازدواجی تعلق قائم کرنا نہیں۔ پھر ضرور بہتری آئے گی، ان شاء اللہ عزوجل۔

ازدواجی تعلق میں بے قاعدگی اور کثرت [se x addiction & irregularity]

میاں بیوی میں محبت/ نفرت کے تعلق (love-hate relationship) پر ایک تحریر لگائی تھی کہ جس کا خلاصہ تھا کہ اگر میاں بیوی میں محبت کے ساتھ نفرت کا تعلق بھی پیدا ہو جائے تو اس نفرت کو ختم کرنے کی ایک اچھی تدبیر یہ ہے کہ وہ آپس میں چِپک کر محض سویا کریں کہ جسم کے مَس کرنے سے نفرت کی دیوار کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی ہیں۔ اور یہ ایک نفسیاتی تجزیہ تھا۔ بہرحال اس پر بعض دوستوں نے یہ کہا کہ میاں بیوی میں محض سونا تو ایک مذاق کی بات ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ تو میں پہلے بھی عرض کر چکا کہ ہم لوگ ابھی سوچ رہے ہیں کہ ہمیں ازدواجی رویوں (se xual behaviors) پر گفتگو کرنی بھی چاہیے یا نہیں اور مغربی دنیا ان پر کافی ریسرچ کر کے تھیوریز دینے کی پوزیشن میں آ چکی بلکہ دے رہی ہے۔ اور ہمارے پاس اسلامی تناظر میں اس موضوع پر بات کرنے کے لیے سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہ بھی بات کرنے کا کوئی موضوع ہے کیا!

تو میاں بیوی آپس میں محض چپک کر سو سکتے ہیں اور یہ بالکل ممکن ہے بشرطیکہ ان کے ازدواجی تعلق میں باقاعدگی (regularity) ہو۔ انسان اگر ایک خاص وقت پر کھانا کھانے کو اپنی عادت بنا لے تو بے وقت کھانا سامنے آ جائے تو طبیعت اس پر مائل نہیں ہوتی۔ تو جنس بھی بھوک کی طرح ایک جبلت (instinct) ہے اور جبلت ہونے کے اعتبار سے دونوں کو باقاعدہ کرنا (regularize) کرنا ممکن ہے۔ کئی لوگوں کو کھانے میں اپنے آپ کو ریگولر کرنا مشکل لگتا ہے تو یہ کسی فرد کے اعتبار سے مشکل ہو سکتا ہے لیکن انسانوں کی ایک بڑی تعداد دن میں تین مرتبہ یا دو مرتبہ یا ایک مرتبہ ہی کھانا کھاتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ جب چاہا چرنا شروع کر دیا۔ اس طرح اپنی جبلت کو تو حیوان پورا کرتے ہیں۔ انسان ایک باشعور مخلوق ہے، اسے اپنی جبلتوں کو ایک نظام میں ایک ترتیب سے پورا کرنا چاہیے، اس میں کس کو اختلاف ہو سکتا ہے؟ جس طرح کھانے کی زیادتی جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے تو سیکس کی کثرت ذہنی صحت کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکس کی زیادتی کو ماہرین نفیسات کی ایک بڑی تعداد کے ہاں اخلاقی انتشار (behavior disorder) میں شمار کیا جاتا ہے۔

کنزے انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ (Kinsey institute of research in s ex) کی ایک ریسرچ کے مطابق 18-29 سال کی عمر کے جوڑے سال میں 112 مرتبہ یعنی ہر تین دن بعد، 30-39 سال کی عمر کے جوڑے سال میں 86 مرتبہ یعنی چار دن بعد اور 40-49 سال کے جوڑے سال میں 69 مرتبہ یعنی پانچ دن بعد ازدواجی تعلق قائم کرتے ہیں۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق 15-20 فی صد جوڑے سال میں دس مرتبہ سے بھی کم مرتبہ ازدواجی تعلق قائم کرتے ہیں۔ تو قرآن مجید کا انداز اصولی ہے کہ کھانے پینے میں زیادہ پابندی نہیں لگائی لیکن اسراف سے منع کر دیا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا۔ ترجمہ: کھاؤ، پیو اور اسراف نہ کرو۔ تو دن میں دس مرتبہ کھانا کھانا منع تو نہیں ہے لیکن کھانے کی یہ بے قاعدگی مضر صحت ضرور ہے۔ تو جبلتوں کو کسی نظام میں لا کر مہذب بنانا تو یہ انسان سے مطلوب ضرور ہے کہ یہ خود اس کی صحت کے لیے بہتر ہے۔ اسی لیے جنس کی جبلت کو مہذب بنانے کے لیے بھی کچھ پابندیاں لگائی گئی ہیں جیسا کہ حیض کے دنوں میں تعلق قائم کرنے سے منع کیا گیا۔

تو عورتوں میں ازدواجی تعلق قائم کرنے سے جو آوازاری موجود ہوتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ مردوں کی طرف سے ازدواجی تعلق میں بے ضابطگی (irregularity) بھی ہے۔ عورت کی سوچ ہوتی ہے کہ مرد کا تو بس ہر وقت کا یہی مطالبہ ہوتا ہے۔ تو جب شوہر اس تعلق میں ریگولر ہو جاتا ہے تو عورت کی اس عمل سے آوازاری کسی حد تک کم ہو جاتی ہے کہ وہ اچانک تعلق کی خواہش سے بہت گھبراتی ہے اور باقاعدہ تعلق (planned s ex) کے لیے اس میں قبولیت (acceptance) زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اس کے لیے ذہنا تیار ہوتی ہے بشرطیکہ شوہر اور بیوی میں کمیونیکیشن اچھی ہو اور یہ سب معاملات کمیونیکیشن سے طے ہوئے ہوں۔ اور جب عورت کو یقین ہو جائے گا کہ مرد اس معاملے میں ریگولر ہو گیا ہے تو پھر اسے مرد کے ساتھ سونے میں کوئی عدم تحفظ (insecurity) محسوس نہیں ہو گا کہ وہ ساتھ سونے سے بچنے کے لیے بہانے بنائے۔

پھر یہ کہ اگر باہمی کمیونیکیشن سے یہ طے پا گیا کہ ہر روز تعلق قائم کرنا ہے تو کوئی حرج نہیں، کر لیں کہ نومولود (new born) کا پیٹ بھرنے کے لیے وقت کا تعین ممکن نہیں ہوتا اور وہ وقت کے ساتھ اپنی بھوک کی جبلت کو کنٹرول کرنا اور ایک خاص وقت میں پورا کرنا سیکھتا ہے۔ لیکن تعلق قائم کرنے کے بعد تو دوسری طرف منہ کر کے نہ سو جایا کریں ناں کہ پیٹ بھر گیا ہے تو بس پیٹ بھرنا ہی مقصد عظیم تھا نہ کہ میاں بیوی کے مابین محبت کے تعلق کو استوار رکھنا اور نفرت کی دیواریں توڑنا۔ تو اب چپک کر سونے میں کیا رکاوٹ ہے؟ تو اب واضح ہو گیا کہ اگر میاں بیوی آپس میں بغض محسوس کریں تو اسے دور کرنے کے لیے کیسے اس تدبیر پر عمل کر سکتے ہیں جس کا ذکر ہم نے پچھلی پوسٹ میں کیا ہے۔

***
اسسٹنٹ پروفیسر، کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور
mzubair[@]ciitlahore.edu.pk
فیس بک : Hm Zubair
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

Love/Hate Relationship between Husband and wife. Article: Dr. Hafiz Md. Zubair

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں