حیدرآباد کے مشاعرے - از اقبال جہاں قدیر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-31

حیدرآباد کے مشاعرے - از اقبال جہاں قدیر

hyderabadi-mushaira
شروع شروع مہاراجہ چندو لال شاداں کی دیوڑھی میں خاص شعری محفلیں منعقد کی جاتی تھیں۔ بعد کو ان کے نواسے مہاراجہ کشن پرشاد شاد سابق مدار المہام حکومت آصفیہ نے اپنے فطری ذوق کی بنا پر باقاعدہ مشاعروں کی داغ بیل ڈالی۔ مہینے میں ایک یا دو بار اپنے یہاں طرحی اور غیر طرحی مشاعرے منعقد کرتے تھے۔ مصرع ہائے طرح فارسی اور اردو میں دئیے جاتے تھے۔ ان مشاعروں میں عموماً مندرجہ ذیل شعرائے کرام شریک ہو کر ا پنے کلام سے حاضرین کو مستفید کیا کرتے تھے:
  • استاد شاہ آغا شوستری
  • راجہ گردھای پرشاد باقی
  • مولوی عبدالعلی و الہ
  • عبدالجبار آصفی
  • ترک علیشاہ ترک
  • غلام قادر گرامی
  • ضیا یار جنگ ضیاء
  • غلام مصطفی رسا
  • فصاحت جنگ جلیل
  • اختر یار جنگ اختر
  • حیدریار جنگ نظم طبا طبائی
  • تراب یار جنگ سعید
  • جوش ملیح آبادی
  • فانی بدایونی
  • ضامن کنتوری
  • ماہر القادری
  • حکیم آزاد انصاری
  • حیرت بدایونی
  • پنڈت سورج بھان تھانوی میکش
  • کاظم علی باغ
  • عابد مرزا بیگم
  • طلعت یزدوی
  • مسعود علی محوی
  • راجہ نرسنگ راج عالی
  • محبوب راج محبوب
  • نواب لطف الدولہ لطف
  • عبداللہ خاں کامل
  • مہدی حسین الم
  • امین الحسن بسمل
  • نادر علی برتر
  • آفتاب علی خاں مہر
ان مشاعروں کے سلسلے مہاراجہ کرشن پرشاد کے مدارالمہام ہونے تک جاری رہے۔ اس کے بعد مہاراجہ کی مصروفیت بڑھ جانے سے یہ مشاعرے متاثر ہو گئے۔
اسی طرح جلیل منزل میں فصاحت جنگ جلیل کے یہاں بھی خاص خاص مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ نظام کالج کے مشاعرے آفتاب علی خاں مہر کے زیر اہتمام مہاراجہ شاد کی صدارت میں باقاعدگی کے ساتھ منعقد کئے جاتے تھے۔ تراب یار جنگ سعید بھی اپنے یہاں مخصوص شعری محفلیں منعقد کرتے تھے۔ کاظم علی باغ کے مکان واقع چپل بازار میں طرحی مشاعرے ہوا کرتے تھے۔

حسینی علم میں نرسنگ لاج عالی کی دیوڑھی میں بھی مہاراجہ شاد کی صدارت میں سالانہ مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ اس طرح حیدرآباد میں شعری ذوق پروان چڑھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محرم اور صفر کے مہینوں میں نواب تہور جنگ اور نواب ماہر الدولہ اپنے یہاں لکھنؤ سے مشہور اور معروف مرثیہ گو شاعروں کو مدعو کر کے روزانہ مجلس میں ان سے مرثیے پڑھواتے تھے ۔ چنانچہ آسمان مرثیہ گوئی کے آفتاب تاباں میر ببر علی انیس، تہور جنگ کی دعوت پر حیدرآباد آئے اورمحرم کا پورا دہا مرثیے سناتے رہے ۔
بہرالدولہ کے شادی خانے کے علاقے سالار جنگ میں پیارے صاحب رشید کے علاوہ کئی مشہور شعرا ہر سال ماہ صفر میں حیدرآباد آکے اپنے مرثیے پڑھا کرتے تھے ۔ رشید صاحب کو سننے کے لئے نواب میر محبوب علی خاں آصف بہ نفس نفیس شادی خانہ میں تشریف لاتے تھے اور رشید صاحب کی خواہش پر اپنا سلام بھی ان سے پڑھواتے تھے ۔
مسز سروجنی نائیڈو کے گھر 'گولڈن تھریشولڈ [The Golden Threshold]' پر بھی مخصوص شعری محفلیں منعقد ہوتی تھیں جن میں گنے چنے شعرا اپنا کلام سناتے تھے ۔
سلطان دکن آمد سلطان الشعراء معظم جاہ شجیح کی صدارت ہی میں جامعہ عثمانیہ کے افتتاح کے سلسلہ میں ایک شاندار غیر طرحی مشاعرہ منعقد کیا گیا تھا جس میں تسلیمات اکبر آبادی، شور ناگپوری، فانی بدایونی، نواب قدرت نواز جنگ، شہید یار جنگ شہید اور یونیورسٹی اسٹاف اور خلیفہ عبدالحکیم اور ایک دو طلبا۔ اس طرح پرنس کو شامل کر کے گیارہ شاعروں کا کلام پیش کیا گیا۔ جس میں کسی کو داد دینے کی اجازت نہیں تھی۔

اس کے بعد مولانا حمید الدین قمر فاروقی صدر جمعیت علما کے ادارہ شرقیہ میں سال میں ایک دو یادگار مشاعرے منعقد ہوتے رہے جن کی صدارت عموماً جگر مرادآبادی نے کی اور ایک مرثیہ حسرت موہانی نے اور ان کے علاوہ فانی بدایونی، پروفیسر سراج الدین شمیم وغیرہ نے بھی صدارت فرمائی۔ ان مشاعروں میں کہنہ مشق غزل گوؤں کے علاوہ جامعہ عثمانیہ کے نظم گو شعراء مخدوم محی الدین بھی شریک ہوتے تھے۔

آج کل صفی سوسائٹی اور مختلف ادبی انجمنوں کے ادبی مشاعرے جاری ہیں۔ ادبی ٹرسٹ حیدرآباد کا سالانہ مشاعرہ بڑے اہتمام سے نمائش کلب حیدرآباد میں منعقد کیا جاتا ہے ۔ جس میں کثیر تعداد میں مقامی شعراء کے علاوہ بیرونی مہمان شعرا بھی مدعو کئے جاتے ہیں۔ اس مشاعرے میں ہزاروں سامعین شریک ہوتے ہیں اور آدھی رات تک صبر و سکون کے ساتھ شعراء کی تخلیقات سے محظوظ ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ زندہ دلان حیدرآباد کا مشاعرہ بھی ہر سال ترتیب دیا جاتا ہے اور اس میں بھی مقامی شعراء کے علاوہ بیرونی مزاج نگار شعراء حصہ لیتے ہیں۔

آداب مشاعرہ:
فرش پر سب شعراء حلقہ کی شکل میں بیٹھتے۔ قاعدہ تھا کہ نئے اور نوجوان شعراء کو پہلے شعر کہنے کاموقع دیا جاتا تھا۔ بعد میں بڑے اور بزرگ شعراء اپنا کلام سناتے تھے۔ شمع جس کے سامنے پیش کی جاتی، باری باری وہ شعرا اپنا کلام سناتے اور واہ واہ سے داد حاصل کر لیتے تھے۔

ماخوذ:
کتاب "حیدرآباد کی مشترکہ تہذیب" (سن اشاعت: فروری 1985)
تالیف: اقبال جہاں قدیر

The Mushairas of Hyderabad. Article: Iqbal jahan Qadeer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں