میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:23 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-09

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:23



A HOUSE DIVIDED ، 'گھر جو تقسیم ہو گیا' کے عنوان سے ایک صاحب نے انگریزی زبان میں ایک کتاب ہی لکھ دی ہے ۔اور ان صاحب کا نام ہے "امرت رائے"۔ یقیناً تم انہیں جانتی ہوں گی۔ اگرنہیں تو پھر منشی پریم چندکو جانتی ہو۔ یہ انہیں کے فرزند ہیں ۔ پریم چند جنہوں نے اردو میں درجنوں ناول اور سینکڑوں افسانے لکھے ہیں اور جنگ آزادی کی لڑائی میں قلم کو ہتھیار بنا کر اردو کو اپنا سب کچھ دے دیا ۔ لیکن ان کے بر خوردار کا خیال ہے کہ ملک کی تقسیم کی ذمے دار تم ہو۔ صرف تم!
کیا نکتہ نکالا ہے ان صاحب نے۔ اردو کے میر جعفر اور میر صادق اس نکتے پر تالیاں بجا رہے ہیں لیکن تالیاں بجاتے ہوئے وہ اس بات کو بھول گئے کہ وہ اپنے اس عمل سے خود کی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ تمہارا اور اردو بولنے والوں کا وہ کیا بگاڑ لیں گے ۔ البتہ ان کی اس حرکت سے ہم سب کو اتنا ضرور فائدہ ہوا اور سمجھ میں آ گیا کہ وہ کیا ہیں اور کیا تھے!
امرت رائے کہتے ہیں "ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہندی اور اردو الگ الگ زبانوں میں تقسیم ہوئی اور جب یہ زبان دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تو اس کا نتیجہ دو ملکوں کی تقسیم کی صورت میں برآمد ہوا ۔ وغیرہ وغیرہ"۔
اس کا بہت ہی اچھا اور سائینٹفک جواب میرے ایک افسانہ نگار دوست محسن علی نے ان الفاظ میں دیا ہے:
"رائے صاحب کی باتوں پر غور کیا جائے تو پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی زبان کسی مخصوص سوچی سمجھی اسکیم کے تحت بنائی بھی جا سکتی ہے یا عام طور پر تسلیم کی ہوئی یہ بات صحیح ہے کہ کوئی زبان کسی شعوری کوشش کے تحت نہیں بنائی جا سکتی بلکہ یہ اپنے آپ مختلف لازمی عوامل و محرکات کے ساتھ ایک بہتے ہوئے دھارے کی طرح دھیرے دھیرے آگے بڑھتی رہتی ہے اور نشو و نما پاتی ہے اور اردو کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک فطری عمل تھا کوئی تخلیق کسی پروجیکٹ اور کسی میکانیکل عمل کا نتیجہ نہیں ہوتی ۔ ماں کی کوکھ میں بچے کی پرورش، لڑکی یا لڑکے کی آرزو میں باپ یا پھر ماں کی دعا یا خواہش یا ارادے کو کوئی دخل نہیں ہوتا ۔ ورنہ لوگ اپنی پسند کی اولاد جب چاہے پیدا کر لیتے اور جب چاہے انہیں دنیا میں آنے سے روک دیتے۔ اردو کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ اردو بھی تخلیق کے اسی نیچرل پروسس کا نتیجہ ہے۔"
اپنے اس مختصر مضمون میں محسن علی نے ہم سب کو یوں آئینہ دکھایا ہے :
"دنیا کی دوسری قومیں نئے آسمانوں کی تلاش میں کامران نظر آتی ہیں اور ایک جہانِ تازہ کی تخلیق میں سرگرداں ہیں لیکن ہم ہماری پرانی تہذیب کے کھنڈرات میں اپنی بقا اور وسائل حیات کی تلاش میں کھوئے ہوئے ہیں"۔
افسوس ۔۔۔ صد افسوس!!
اب امرت رائے اور ان کے دوستوں کو اس بات کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹ لینا چاہئے ۔ راج بہادر گوڑ نے بھی ان کی تصنیف کی بڑی مذمت کی ہے ۔ اب اور کیا چاہئے
اطلاعاً عرض ہے۔ جاپان سے بات چلی تھی ۔ پھر کہاں سے کہاں ہوتی ہوئی کہاں تک پہنچی۔ تم نے دیکھا نا زندہ قوم کیا ہوتی ہے؟ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ کہاں ہم اور کہاں جاپان۔


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-23

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں