میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:22 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-08

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:22



اور تو اور میں نے سنا ہے کہ تم جاپان بھی پہنچ گئیں اور مجھے اس کی خبر نہیں۔ اگر پہلے ہی اطلاع مل جاتی تو کیا میں تمہیں روکتا؟ خوشی خوشی تمہیں خدا حافظ کہتا اور تمہاری بانہوں پر دونوں طرف امام ضامن باندھتا اور ایک ذہنی ربط قائم رہتا اور مجھے معلوم ہوتا کہ کن کن ممالک کا سفر کر رہی ہو!!
ویسے سیاحت بری چیز نہیں ہوتی۔ تم نے اچھا ہی کیا کہ آج کل دنیا جہاں کی سیر کر رہی ہو اور نئے نئے مقامات اور شہروں کو دیکھتی پھر رہی ہو، لیکن جاپان جانے کی تمہیں کیا سوجھی؟ تنہا گئیں، یا کسی کے ساتھ؟ ابھی حال میں مجھے معلوم ہوا کہ تم جاپان میں مستقل طور پر مقیم ہو اور بفضل تعالیٰ خیریت سے ہو ۔ وہاں کے عوام تمہیں ٹوٹ کر چاہتے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ میرے دوست مجبتیٰ حسین کو انہوں نے ڈھیروں تحفے دئیے۔ اتنے تحفے کہ قریبی رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کرنے کے بعد بھی ختم ہونے نہیں پائے ۔بہر حال تم خوش قسمت ہو ۔ تمہارے ٹھاٹ باٹ سن کر دل کو ایک گونہ سکون نصیب ہوا۔ لیکن میرے شبہات اور وسوسے میرے دل میں اب بھی باقی ہیں۔ تم یقیناً پوچھو گی کہ آخر وہ کیا ڈر ہے اور کیا خوف ہے جو مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے ۔ میں تمہیں بتاتا ہوں۔ میرا ڈر یہ ہے کہ کہیں جاپانی تمہارا خوبصورت DOLL بنا کر تمہیں ورلڈ مارکٹ میں اکسپورٹ نہ کر دیں۔
اردو کا ڈال DOLL ۔۔۔۔ ایک ایک روپیہ
غالب اور میر کا۔۔۔۔ ایک ایک روپیہ
سستا لگا دیا ۔۔۔۔ ایک ایک روپیہ
جاپانی اردو کا کھلونا۔۔۔۔ ایک ایک روپیہ

کیوں اتر گیا نہ چہرہ!
میں تو تمہیں چھیڑ رہا تھا۔ صرف یہ جاننے کے لئے کہ اس بات کا تم پر کیا نفسیاتی رد عمل ہوگا اور تم نے فوراً اپنے اداس چہرے سے اپنے دل کی بات کہہ دی ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے اپنے سچے جذبے اور احساس کا اظہار کیا۔ لیکن شعور کا نہیں کیوں کہ تم جاپانی قوم کو نہیں جانتیں۔ اصل میں جاپانی ایک زندہ اور فعال قوم کا نام ہے اور آج دنیا کے بازار پر اسی کا قبضہ ہے۔ ہیروشیما ان کا وہی تو شہر ہے جس پر ایٹم بم گرایا گیا تھا اور جس کے نتیجے میں دو لاکھ ساٹھ ہزار آدمی پلک جھپکتے ہی ختم ہو گئے تھے۔ لیکن جاپانیوں نے بڑے ہی صبر و سکون کے ساتھ اس المیے کو سہا اور پھر تعمیری کاموں میں مصروف ہو گئے اور آج ہیروشیما جاپان کا جگ مگ کرتا ہوا ایک خوبصورت شہر ہے ۔ یہ اگست 1945ء کا واقعہ ہے لیکن ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے سے ٹھیک دو سال پہلے یعنی 1943ء کو ایک اور خوفناک بم ہمارے ملک کے شہر بنگال پر پھینکا گیا تھا۔ جانتی ہو اس بم کا کیا نام تھا؟ اس کانام تھا :
بھوک کا بم!
اور اس کے گرتے ہی تیرہ لاکھ آدمی کلکتہ کی سڑکوں پر فاقے سے تڑپ تڑپ کر مر گئے ۔ تیرہ لاکھ آدمی جن کا تاریخ میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اور جو روٹی کے ایک ایک ٹکڑے اور مٹھی بھر اناج کے لئے۔۔۔
بھوکا ہے بنگال رے ساتھی۔۔ بھوکا ہے بنگال۔۔۔
وامق جونپوری کی آواز سارے ملک میں گونجی۔ اور کرشن چندر نے ان داتا لکھی اور اسی قحط کے بارے میں باپو جی نے کہا تھا کہ اب ہندوستان کو آزادی سے کوئی روک نہیں سکتا۔
لیکن تیرہ لاکھ آدمی انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے نہیں مارے گئے بلکہ بھوک سے سسک سسک کر ایڑیاں رگڑتے ہوئے مر گئے ۔ شاید دنیا کی بڑی سے بڑی جنگ میں بھی اتنا جانی نقصان نہیں ہوا ہوگا۔ یہ خالی پیٹ مر گئے جب کہ بنگال اور کلکتے کے گوداموں میں اناج ٹھسا ٹھس بھرا ہوا تھا لیکن انہوں نے کسی گودام کو لوٹا تو دور لوٹنے کا تصور تک نہیں کیا۔ عدم تشدد کی جئے۔

ایٹم بم سے زیادہ بھوک کا بم خوفناک اور تباہی مچانے والا ثابت ہوا اور اس بم کو پھینکنے والا کوئی ہٹلر ، کوئی مسولینی اور چنگیز خان کی اولاد نہیں تھا بلکہ وہ برٹش سامراج تھا جس نے ہمیشہ ڈیموکریسی کی باتیں کیں اور غیر منقسم ہندوستان کے چالیس کروڑ انسانوں کو اپنا غلام بنائے رکھا۔
بنا کسی جنگ اور قتل و خون کے ہندوستان کو آزادی ملی۔ یہ دنیا کی تاریخ کا بڑا اہم واقعہ ہے، لیکن آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد دوسرا بڑا اور اہم واقعہ یہ ہے کہ اب تک لاکھوں افراد آپس میں لڑ کر مر گئے اور اب بھی لڑ رہے ہیں۔ مذہب، صوبہ اور زبان کی بیادوں پر اور ہر ایک دوسری زبان والے سے یہی کہتا ہے کہ اس کی زبان سب سے برتر اور عظیم ہے۔
1956ء میں ایک لسانی تقسیم عمل میں آئی اور اس کے ساتھ ہی عوام کی بھی تقسیم عمل میں آئی اور اس وقت کوئی یہ کہنے کے لئے تیار نہیں کہ پہلے وہ ہندوستانی ہے اور بعد میں سب کچھ۔
میں پنجابی ہوں۔
میں بنگالی ہوں۔
میں کرناٹکی ہوں۔
میں آندھرائی ہوں۔
میں مہاراشٹرین ہوں۔
میں۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں!!!
اصل ہندوستان جس کا خواب اس ملک کے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں نے دیکھا تھا وہ کہیں ٹوٹ کر بکھر گیا ہے۔ وہ ہندوستان جہاں کوئی بھوکا نہیں رہے گا اور سب کو روٹی کپڑا اور مکان ملے گا اور سب کو ترقی کے مساوی مساوی مواقع حاصل رہیں گے اور سب آپس میں بھائی بھائی کی طرح رہیں گے ۔
کہاں ہے وہ ہندوستان؟!
میں ڈھونڈ رہا ہوں ۔ لیکن مجھے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ میرے سامنے دور دور تک اندھیرا ہے ۔


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-22

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں