تلنگانہ کے 88 اسمبلی حلقوں میں شاندار کامیابی کے ساتھ ٹی آر ایس کی واپسی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-12

تلنگانہ کے 88 اسمبلی حلقوں میں شاندار کامیابی کے ساتھ ٹی آر ایس کی واپسی


تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے ریاست کے دوسرے اسمبلی انتخابات میں بےمثال کامیابی درج کراتے ہوئے 119 حلقہ جات میں سے 88 حلقوں میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔
کارگزار وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راؤ گجویل سے 51 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب قرار پائے۔ ٹی آر ایس امیدوار ٹی ہریش راؤ نے مسلسل چھٹی مرتبہ اسمبلی کیلئے کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے جملہ 1,18,699 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ سرسلہ سے کے۔ٹی۔راما۔راؤ نے تقریباً نوے ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی درج کی۔

ریاست سے ٹی۔آر۔ایس کو بیدخل کرنے کیلئے عظیم اتحاد (مہاکوٹمی) تشکیل دیا گیا تھا جس میں کانگریس کے ساتھ تلگودیشم ، سی پی آئی اور ٹی جے ایس بھی شامل تھے۔ اس عظیم اتحاد میں شامل کانگریس-آئی کو 19 حلقوں سے اور تلگودیشم کو محض دو حلقوں سے کامیابی ملی ہے۔ حیدرآباد میں مجلس اتحاد المسلمین نے اپنا اثر برقرار رکھا ہے اور اس کی تمام 7 نشستوں پر دوبارہ شاندار واپسی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ تحلیل شدہ اسمبلی میں بی جے پی کی جہاں 5 نشستیں تھیں اب وہ گھٹ کر صرف ایک رہ گئی ہے۔ گوشہ محل سے راجہ سنگھ نے حسب روایت اپنی نشست پر قبضہ برقرار رکھا۔

جبکہ بی۔جے۔پی کے تمام اہم قائدین جیسے ریاستی صدر کے لکشمن ، جی کشن ریڈی اور دیگر شکست سے دوچار ہوگئے ہیں۔ ٹی۔آر۔ایس کے شکست خوردہ وزرا میں جے کرشنا راؤ ، ٹی ناگیشور راو ، پی مہیندر ریڈی، اجمیرا چندولال اور سابق اسپیکر اسمبلی مسٹر مدھو سدن چاری بھی شامل ہیں جنہیں رائے دہندوں نے مسترد کر دیا ہے۔ کانگریس کے جن اہم قائدین کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے ان میں سابق قائد اپوزیشن کے جانا ریڈی ، قائد اپوزیشن کونسل محمد علی شبیر ، سابق وزرا ڈاکٹر جے گیتا ریڈی ، ڈی کے ارونا ، ٹی جیون ریڈی ، کے وینکٹ ریڈی ، دامودر راج نرسمہا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹار کمپینر سمجھے جانے والے اے ریونت ریڈی ، سابق ایم پی پونم پربھاکر ، مسٹر پونالہ لکشمیا کو رائے دہندوں کی حمایت نہیں مل سکی ہے۔

دریں اثنا نائب وزیر اعلیٰ محمد محمود علی نے اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس کی شاندار کامیابی پر عوام سے اظہار تشکر کیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ تلنگانہ کے تمام طبقات نے ٹی آر ایس کی مکمل تائید کی جس کے نتیجہ میں 2014 ء سے زیادہ نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ محمود علی نے کہا کہ ٹی آر ایس حکومت کی چار سالہ کارکردگی کے حق میں عوام نے ووٹ دیتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ کے سی آر حکومت نے ان کی بھلائی کیلئے جو اقدامات کئے، اس سے وہ مطمئن ہیں۔ محمود علی نے کہا کہ تمام طبقات اور بالخصوص اقلیتوں میں کھل کر ٹی آر ایس کے حق میں ووٹ کا استعمال کیا۔ انہوں نے ان تمام جماعتوں اور تنظیموں سے اظہار تشکر کیا جنہوں نے ٹی آر ایس کی تائید کا اعلان کیا تھا ۔
علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد سال 2014 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس کو 63 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی جبکہ کانگریس نے 25 ، تلگودیشم نے 15 ، مجلس نے 7 حلقوں اور بی جے پی نے 5 اسمبلی نشستیں حاصل کی تھیں۔
اس دفعہ موافق تلنگانہ جذبات کی لہر کے علاوہ وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راؤ کی مقبول عام عوامی اسکیمات کے نتیجہ میں اپوزیشن ریاست میں کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

ٹی آر ایس سربراہ و کارگزار وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راؤ نے اسمبلی انتخابات میں عظیم کامیابی کو عوام کی جیت قرار دیا ہے۔ نتائج کے اعلان کے بعد تلنگانہ بھون میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کے سی آر نے دوسری میعاد میں عوام کی فلاح و بہبود اور ریاست کی ترقی کو پہلی میعاد کی طرح ترجیح دینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام طبقات کی خوشحالی ، غربت کا خاتمہ اور کسانوں کی بھلائی ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ مسلمانوں اور ایس ٹی طبقات کو تحفظات میں اضافہ کے وعدہ پر قائم رہنے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس سلسلہ میں سنجیدگی سے اقدامات کرے گی کیونکہ علحدہ تلنگانہ ریاست میں مسلمانوں اور گریجنوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔
کارگزار وزیراعلیٰ نے کہا کہ ٹی آر ایس کی کامیابی میں کسانوں ، خواتین ، دلتوں ، اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کا مکمل تعاون اور تائید شامل ہے۔ ان تمام کی دعاؤں اور نیک تمناؤں سے ٹی آر ایس کو کامیابی حاصل ہوئی جس کے لئے میں شکرگزار ہوں۔ انہوں نے پارٹی قائدین اور کارکنوں سے بھی اظہار تشکر کیا جو گزشتہ تین ماہ سے انتخابی مہم میں مصروف رہے۔ کے سی آر نے کہا کہ نتائج توقع کے مطابق ہیں اور قائدین اور کارکنوں کو چاہئے کہ وہ تکبر اور غرور سے گریز کرتے ہوئے بردباری کا مظاہرہ کریں۔

Telangana election results 2018: TRS gets two-thirds majority

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں