علی گڑھ تحریک - مضمون از پروفیسر نور الحسن نقوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-05

علی گڑھ تحریک - مضمون از پروفیسر نور الحسن نقوی

ہندوستانی مسلمانوں کی بربادی کا آغاز تو اسی وقت ہوگیا تھا جب مغل سلطنت کے آفتاب کو گہن لگنا شروع ہوا لیکن یہ بربادی مکمل اس وقت ہوئی جب 1857ء کی بغاوت ناکام ہوگئی اور مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ سرسید نے درست فرمایاکہ:
"کوئی آفت ایسی نہی تھی جو اس زمانے میں ہوئی اور یہ نہ کہا گیا ہو کہ مسلمانوں نے کی، کوئی بلا آسمان پر سے نہیں چلی جس نے زمین پر پہنچنے سے پہلے مسلمانوں کا گھر نہ ڈھونڈا ہو، جو کتابیں اس ہنگامے کی بابت تصنیف ہوئیں ان میں بھی ہی کہا گیا کہ ہندوستان میں مفسد اور بد ذات کوئی نہیں مگر مسلمان، مسلمان، مسلمان کوئی کانٹوں والا درخت اس زمانے میں نہیں اگا جس کی نسبت یہ نہ کہا گیا ہو کہ اس کا بیج مسلمانوں نے بویا تھا اور کوئی آتشیں بگولا نہیں اٹھا جو یہ نہ کہا گیا ہو کہ مسلمانوں نے اٹھایا تھا۔"
جس قوم پر یہ الزامات ہوں اور جس کے بارے میں حکومت کا یہ رویہ ہو اس کا انجام تباہی بربادی کے سوا کیا ہوسکتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں گھر اجڑ گئے ۔ بے شمار لوگ مارے گئے، ہر طرف پھانسی کا بازار گرم ہوگیا۔ ہر گلی کوچہ تختۂ دار بن گیا ۔ ہزاروں مسلمان سرکاری ملازمت سے برطر کردیے گئے ۔ ان کی جائدادیں ضبط کرلی گئیں اور انجام کار مسلمانوں کے گھر ماتم کدے بن گئے ۔
اس وقت ایک درد مند دل رکھنے والا انسان ایسا تھا جو مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنے والی اس قیامت کو بہت نزدیک سے دیکھ رہا تھا ۔ بے گناہوں کو برباد ہوتے دیکھ کر اس کا دل تڑپ اٹھا مگر انہیں بربادی سے بچانے کی کوئی تدبیر کارگر ہوتی نظر نہ آتی تھی ، اسے مایوسیوں نے آگھیرا کہ ترک وطن پر آمادہ ہوگیا لیکن دل میں قوم کا درد تھا۔ غیرت نے گوارانہ کیا کہ اپنے بھائیوں کو مصیبت میں چھوڑ کر خود گوشہ عافیت میں جا بیٹھے ۔ اس نے ہجرت کا ارادہ ترک کردیا اور "ایک مدت اسی غم میں پڑا سوچتا رہا کہ کیا کیجئے جو خیالی تدبیریں کرتا تھا کوئی بن پڑتی معلوم نہ ہوتی تھیں۔ جتنی امیدیں باندھتا تھا سب ٹوٹ جاتی تھیں ۔ آخر یہ سوچا کہ سوچنے سے کرنا بہتر ہے ۔ کرو جو کچھ کرسکو۔ ہو یا نہ ہو۔ اسی بات پر دل ٹھہرا، ہمت نے ساتھ دیا اور صبر نے سہارا اور اپنی قوم کی بھلائی میں قدم تاڑا۔" یہ مردانا و دلیر کون تھا؟ قوم کا محسن و مسیحا سرسید!
سرسید کے شب و روز اب اس کوشش میں صرف ہونے لگے کہ کسی طرح قوم کو اس آفت سے نجات ملے اور اس کا کھویا ہوا وقار بحال ہو۔ انہوں نے مسلمانوں کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے کتابیں لکھیں ۔ حکمرانوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کو انجمنیں بنائیں مسلمانوں کوخواب غفلت سے بیدا کرنے کے لئے مضامین لکھے، انکے حوصلے بڑحانے کے لئے جا بجا تقریریں کیں اور قوم سے یہ انعام پایا کہ ان پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ کفر کے فتوے لگے۔ غداری کی تہمت لگی ۔ انہیں مسلمانوں کا دشمن، انگریزوں کا پٹھو اور عیسائیوں کا طرفدار بتایاگیا مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنے بارے میں لکھا تھا:
"وہ قومی بھلائی کا پیاسا اپنی قوم کی بھلائی کی فکر کرتا ہے ، دن رات اپنے دل کو جلاتا ہے ، ہر وقت بھلائی کی تدبیریں سوچتا ہے ۔ ان کی تلاش میں دور دراز کا سفر اختیار کرتا ہے ۔ یگانوں بیگانوں سے ملتا ہے۔ ہر ایک کی بول چال میں اپنا مطلب ڈھونڈتا ہے ۔ مشکل کے وقت ایک بڑی مایوسی سے مدد مانگتا ہے ۔ جن کی بھلائی چاہتا ہے انہیں کو دشمن پاتا ہے۔ شہری وحشی بتاتے ہیں۔ دوست آشنا دیوانہ کہتے ہیں ۔ عالم فاضل کفر کے فتووں کا ڈر دکھاتے ہیں۔ بھائی بند، عزیز اقارب سمجھاتے ہیں اور پھر یہ شعر پڑھ کر چپ ہوجاتے ہیں۔
وہ بھلا کس کی بات مانے ہیں
بھائی سرسید تو کچھ دوانے ہیں

یہ دیوانگی آخر کار رنگ لائی ، پتھر پسیجا، لوہا پگھلا اور بہہ نکلا۔ سرسید کی پیہم کوشش سے مسلمانوں میں بیداری کے آثار پیدا ہوئے۔ نیند کے ماتے آنکھیں ملنے اور گہری نیند سونے والے کروٹیں بدلنے لگے۔ انہوں نے محنت و جفا کش کا سبق سیکھا ۔ ان میں اجتماعی قوت کا احساس بیدار ہوا ۔ وہ دین کے ساتھ ساتھ یہاں دنیا کی اہمیت کو بھی سمجھنے لگے ۔ وہ قوم جس کے جانبر ہونے کے آثار نظر نہ آتے تھے ۔ سرسید کی کوشش سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوگئی ۔ سرسید کی یہ کوشش سر سید تحریک کہلائی اور چونکہ اس کا مرکز علی گڑھ تھا اس لئے علی گڑھ تحریک کے نام سے بھی یاد کی گئی۔ یہ دراصل ایک اصلاحی تحریک تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ان کو دور کرنا اس کا مقصد تھا، علی گڑھ تحریک کے پانچ مختلف پہلو تھے ۔ تعلیم، سیاست، مذہب ، ادب اور معاشرت ۔ ذیل میں ان پانچوں پہلوؤں پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جارہی ہے ۔

1۔تعلیم
سرسید کے نزدیک ہندوستانی مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب تعلیم کی کمی تھی اور تسلیم سے سر سید کی مراد تھی جدید تعلیم۔ وہ کہا کرتے تھے کہ تعلیم ہر مرض کی دوا ہے ۔ یہ حاصل ہو تو سب کچھ حاصل ہوجاتا ہے ۔ مسلمان اگر جدید تعلیم سے بہرہ ور ہوجائیں تو جن حقوق سے وہ محروم ہیں آپ سے آپ حاصل ہوجائیں گے ۔ ایک تقریر میں انہوں نے کہا تھا:
"دوستو! یہ نہ کہنا کہ مجھ کو اس انگریز کے مانند جس کو صرف اموہ رنگنا آتا تھا۔ اموہ رنگ ہی بھاتا ہے ۔ مگر میں سچ کہتا ہوں کہ جو چیز تم کو اعلا درجے پرپہنچانے والی ہے وہ صرف ہائی ایجوکیشن ہے ۔ جب تک ہماری قوم میں ایسے لوگ نہ پیدا ہوں گے ہم ذلیل رہیں گے اور اس عزت کو نہ پہنچیں گے جس کو پہنچنے کو ہمارا دل چاہتا ہے۔"
چناںچہ سرسید نے ساری زندگی اس کوشش میں بسر کردی کہ کس طرح مسلمان تعلیم سے بہرہ مند ہوجائیں۔ انگریزوں کے نظام کو دیکھنے اور سمجھنے کے لئے انہوں نے انگلستان کا سفر بھی کیا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ بنگال میں راجا رام موہن رائے کی کوشش سے جدید تعلیم کا شوق پیدا ہوچلا ہے ۔ بنارس میں بھی ایک رئیس نرائن گوشال کے عطیے سے ایک انگریزی اسکول قائم ہوچکا تھا مگر مسلمانوں کے دل میں یہ بات گھر کرچکی تھی کہ جو انگریزی پڑھے گا وہ لا محالہ عیسائی ہوجائے گا ۔ اس لئے سرسید کو طرح طرح کی مخالفتوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ پھر بھی انہوں نے ایک زبردست تعلیمی منصوبہ تیار کیا اور اللہ کا نام لے کر اس راستے پر قدم اٹھادیا۔
علی گڑھ میں کالج کا قیام: محمدن اینگلو اورنٹیل کالج( مدرسۃ العلوم) کے نام سے علی گڑھ میں ایک کالج قائم کیا گیا جو ترقی کرتا رہا اور اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے موجود ہے ۔ اس کالج میں جدید مغربی علوم اور قدیم مشرقی علوم دونوں کے شعبے الگ الگ تھے۔ پہلا شعبہ تو ترقی کرتا رہا لیکن دوسرا اچھی طرح پھل پھول نہ سکا ۔ سرسید کے فرزند جسٹس محمود کو شکاتی تھی کہ اس کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں کی گئی۔
مسلم ایجوکیشنل کانفرنس: علی گڑھ کالج دراصل اعلا تعلیم کے لئے قائم کیا گیا تھا سارے ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیمی ضرورت صرف ایک کالج سے کسی طرح پوری نہیں ہوسکتی تھی ، اس لئے سرسید کا منصوبہ یہ تھا کہ ملک کے ہر شہر اور ہر قصبے میں ابتدائی تعلیم کا انتظام ہو اور اس کے لئے مدرسے قائم کئے ج ائیں ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے سر سید نے پہلے محمڈن ایجوکیشنل کانگریس کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ، پھر اس کا نام بدل کر محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس اور آخر کار مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کردیا۔
اس کانفرنس کے اجلاس ہر سال الگ الگ مقامات پر ہوتے تھے اور سید اسے کامیاب کرنے کے لئے خود بہت کوشش کرتے تھے جہاں اجلاس ہونے والا ہوتا وہاں کئی دن پہلے خود پہنچ جاتے ، اس علاقے کی تعلیمی حالات کا جائزہ لیتے اور رپورٹ تیار کرتے ۔
یہ ادارہ نہایت اہم تھا اگریہ ادارہ تندہی سے کام کرتا رہتا تو اس سے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے میں بہت مدد ملتی لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔
سائنٹی فک سوسائٹی: سرسید جانتے تھے کہ مسلمان آسانی سے انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے ۔ اس لئے انہوں نے یہ پروگرام بنایا کہ دوسری زبانوں میں علم کے جو ذخیرے موجود ہیں انہیں اپنی زبان میں منتقل کرلیا جائے ۔ چنانچہ محمڈن کالج اور مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے بھی پہلے انہوں نے سائنٹی فک سوسائٹی قائم کی ۔ اس وقت سر سید غازی پور تھے سوسائٹی کا دفتر بھی وہیں قائم ہوا بعد کو یہ علی گڑھ منتقل ہوگیا۔
سوسائٹی نے کچھ اہم کتابوں کے ترجمے کراکے شائع کئے مگر یہ مفید کام جاری نہیں رہ سکا۔ دراصل سر سید کو احساس ہوگیا تھا کہ ترجموں سے کام چلنے والا نہیں۔ انگریزی زبان میں جو کتابیں موجود ہیں ان سے پورا فائدہ اسی صورت میں اٹھایا جاسکتا ہے کہ ہمارے نوجوان انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کریں۔
ذریعہ تعلیم: شروع میں سر سید کا خیال تھا کہ مادری زبان ہی کو ذریعہ تعلیم ہونا چاہئے کیونکہ مادری زبان کے ذریعے ہر مضمون کو سمجھانا آسان ہے ۔ دوسرے یہ کہ اپنی زبان میں کوئی علم حاصل کیاجائے تو طالب علم پر کم زور پڑتا ہے اور وہ کم وقت میں بہت کچھ سیکھ لیتا ہے ۔ تیسری بات یہ کہ جو علم اپنی زبان میں حاصل کیاجائے وہ پوری طرح ذہن نشین ہوجاتا ہے لیکن جلد ہی اپنی رائے کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے ، انہوں ے مشرقی علوم کو بھی خیرباد کہہ دیا اور مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا بھی خیال چھوڑ دیا۔
ہندوستانی مسلمانوں پر سر سید کا بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے جدید تعلیم کی اہمیت واضح کی ، جدید تعلیم کے ادارے قائم کئے اور مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ وقف کردیا۔

2۔ سیاست

سرسید پر بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے انگریزی حکومت کی حمایت کی اور کانگریس کی مخالفت کی ۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ علی گڑھ تحریک اسی لئے وجود میں آئی کہ تحریک آزادی کی مخالفت کی جاسکے ، لیکن یہ الزام درست نہیں ۔ سر سید کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لئے اس زمانے کے حالات کا سمجھنا ضروری ہے جن کو اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیاجارہا ہے۔
1857ء کی ناکام بغاوت: ہندوستان میں انگریزوں کے خلا ف نفرت بہت شدید تھی ، اندر اندر لاوا پکتا رہا۔ آخر کار ہندو مسلمانوں نے مل کر بغاوت کردی لیکن نہ تو ان کے پاس اسلحہ تھا نہ تنظیم تھی اور نہ کوئی ایسا رہنما جو انہیں صحیح راستہ دکھاسکے ۔ اس لئے بغاوت ناکام ہوگئی۔
جب یہ بغاوت ہوئی تو سر سید انگریزی سرکار کے ملازم تھے ۔ انہوں نے جان پر کھیل کر انگریزوں کا ساتھ دیا اور بیسیویوں انگریزوں کی جانیں بچائیں۔ امن ہوجانے کے بعد انہوں نے ایک کتاب اسباب بغاوت ہند لکھی اور یہ ثابت کیا کہ بغاوت کے ذمہ دار ہندوستان نہیں بلکہ انگریز ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی رعایا کی شکایت کو جاننے تک کی کوشش نہیں کی۔
کچھ ہی دنوں میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ انگریز حاکم صرف مسلمانوں کو قصور وار سمجھتے ہیں، سر سید نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ ہندو مسلمان دونوں آزادی کی اس تحریک میں شریک تھے لیکن سارا الزام مسلمانوں کے سر آیا۔ ہزاروں بے قصوروں کو سر عام پھانسی دی گئی۔ بے شمار مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط ہوئیں اور ان گنت مسلمان سرکاری ملازمتوں سے برطرف کردئیے گئے ۔ سرسید نے رسالہ لائل محمڈنز آف انڈیا لکھ کر یہ واضح کرنے کی کوشش کہ کہ مسلمان بھی انگریزوں اتنے ہی وفادار ہیں جتنے ہندو۔ سر سید کی خواہش یہ تھی کہ مسلمانوں پر جو مظالم ہورہے ہیں انہیں کسی طرح روکا جائے اور حاکموں کے دل میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی جو آگ بھڑک رہی ہے اسے ٹھنڈا کیاجائے ۔
آل انڈیا کانگریس کا قیام: جس زمانے میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی قائم ہوئی ۔ یہ وہی زمانہ تھا جب سر سید انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان کی خلیج کو ختم کرنا چاہ رہے تھے ۔ دو سال تک وہ چپ رہے اور کانگریس کی سر گرمیوں کا گہری نظر سے جائزہ لیتے رہے۔ جب انہیں اندازہ ہوگیا کہ کانگریس حکومت سے تصادم کی پالیسی پر چل رہی ہے تو انہوں نے مسلمانوں کو کانگریس سے دور رہنے اور اپنی ساری توجہ تعلیم پر مرکوز کردینے کا مشورہ دیا۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمان شعلہ خو ہیں۔ 1857ء کی طرح وہ آگے آگے ہوجائیں گے اور پھر سے انگریزوں کے عتاب کا نشانہ بنیں گے ۔ سر سید کے سوچنے کا یہ انداز کم لوگوں کو پسند آیا لیکن پنڈت جواہر لال نہرو نے اسے سراہا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ سر سید کی یہ خواہش کہ مسلمان سب کچھ بھول کر تعلیم کی طرف متوجہ ہوجائیں نہایت مناسب تھا کیوں کہ وہ اقتصادی اعتبار سے بھی اور تعلیم کے مقابلے میں بھی پسماندہ تھے اور ہندوؤں سے بہت پیچھے تھے۔
سر سید نے خود کہا ہے کہ میں آزادی کا دل دادہ ہوں اور جانتا ہوں کہ وہ دن ضرو ر آئے گا جب ہندوستانی خود اپنی تقدیر کے مالک ہوں گے اور اپنے لئے آپ قانون بنائیں گے لیکن ابھی وہ دن دور ہے ۔ ابھی اس دن کے لئے تیاری ضروری ہے اور وہ تیاری ہے اپنے نوجوانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنا۔ سر سید کی یہ رائے درست تھی ۔ مسلمان نوجوان تعلیم پانے کے بعد جوش و خروش کے ساتھ تحریک آزادی میں شریک ہوئے اور وہ مرد جہاد جس نے اس ملک کی سر زمین میں پہلی بار مکمل آزادی کا مطالبہ کیا وہ اسی درس گاہ یعنی محمڈن کالج کا فرزند حسرت موہانی تھا۔

3۔مذہب
علی گڑھ تحریک پر برابر بے دینی کی تہمت لگائی جاتی رہی حالانکہ اس تحریک کے بانی سرسید خود ایک دین دار انسان تھے۔ یہ درست ہے کہ ان کے مذہبی نظریات اور وں سے مختلف تھے مگر یہ بھی درست ہے کہ وہ اپنے نظریات دوسروں پر تھوپنا نہیں چاہتے تھے۔ حد یہ ہے کہ محمڈن کالج کے شعبۂ دینیات میں انہوں نے دخل دینے سے ہمیشہ گریز کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ یہ ذمہ داری علمائے سہارنپور قبول فرمالیں مگر وہ کسی طرح کالج سے تعاون کو آمادہ نہ تھے۔
سرسید کے دوستوں کو بھی شکایت تھی کہ وہ دینی مسائل پر اظہار خیال کرتے ہیں جس سے کالج کو نقصان پہنچتا ہے ۔ ایک بارمولوی نذیر احمد نے سخت لہجے میں سر سید سے سوا کیا کہ آپ کو تہذیب الاخلاق میں لکھنے کے لئے مذہب کے سوا اور کوئی مضمون نہیں سوجھتا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ ہم بھی مذہبی معاملات میں دخل دینا نہیں چاہتے مگر کیا کریں جب ہم کسی کام کے کرنے کو کہتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ مذہباً گناہ ہے اور جب کسی کام کے کرنے کو منع کرتے ہیں تو کہاجاتا ہے کہ مذہب کی روسے ثواب ہے ۔ مجبور ہوکر ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ جس چیز کو آپ نے مذہب سمجھ لیا ہے وہ مذہب ہے ہی نہیں ۔
دوسری بات یہ کہ علی گڑھ تحریک کا زمانہ سائنس کا زمانہ تھا ۔ اسوقت ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا جاتا تھا اور جو چیز اس پر پوری نہ اترے اسے رد کردیاجاتا تھا ۔ اس لئے سر سید نے مذہب کو عقل کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ہم اسے مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوزخ کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں آگ دہک رہی ہو بلکہ جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو آخر کار اس گناہ کے خیال سے اسے تکلیف ہوتی ہے۔ یہی دوزخ ہے ، نیک کام کر کے انسان خوش ہوتا ہے ۔ یہی دراصل جنت ہے ۔ گویا جنت اور دوزخ صرف استعارے ہیں۔ وہ معراج کو جسمانی نہیں مانتے صرف ایک خواب بتاتے ہیں۔ وحی کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ کوئی فرشتہ(جبرئیلؑ) خدا کا پیغام لے کر نہیں آتا تھا۔ بلکہ رسول کریم ؐ کے دل میں جو بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آجاتی تھی اسی کا نام وحی ہے ۔ سر سید کے یہ تمام خیالات مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہیں ۔ یہی بات ہے کہ سر سید کے مذہبی خیالات سے مسلمان اتفاق نہیں کرسکے بلکہ سر سید کے ان خیالات کے سبب قوم ان کی تعلیمی مہم سے بھی بیزار ہوگئی۔

4۔ ادب
اردو ادب کے فروغ میں علی گڑھ تحریک کا کارنامہ نہایت عظیم الشان ہے ۔ یہ اسی تحریک کا کارنامہ ہے کہ اردو نثر جس کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا اور اردو شاعری جس کا بیشتر سرمایہ حسن و عشق کی داستان تک محدود تھا دیکھتے ہی دیکھتے اس نثر اور نظم دونوں نے ترقی کی بہت سی منزلیں طے کرلیں۔
اردو نثر: سر سید نے درست فرمایا ہے کہ اردو نثر میں لفاظی، عبارت آرائی، جھوٹ اور مبالغے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ شاعری کی حالت اس سے زیادہ خراب تھی ۔ اردو شاعری میں قصیدے اور غزل کے سوا اور کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔ اردو قصیدہ جھوٹی خوشامد سے پُر تھا۔ اور اردو غزل عشقیہ مضامین سے باہر قدم نہ رکھتی تھی ۔ سر سید نے اپنے مضامین اور تقاریر میں ان خرابیوں کی طرف بار باراشارے کئے۔ مولانا حالی نے مقدمہ شعرو شاعری میں تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر اظہار خیال کیا۔ غرض علی گڑھ تحریک کی بدولت اردو شعروادب کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیاجانے لگا اور ایک عظیم انقلاب کے لئے راہ ہموار ہوگئی۔
سر سید خود نثر نگار تھے ۔ انہوں نے عبارت آرائی اور مبالغے سے دامن بچاتے ہوئے خود مضمون لکھے ۔ ادب، مذہب، سیاست، تعلیم، معاشرت ، اقتصادیات تمام موضوعات پر قلم اٹھایا اور جدید اردو نثر کی بنیاد ڈالی ۔ انہوں نے خود بہت کچھ لکھا اور جو اہل علم ان کے زیر اثر تھے ان سے لکھوایا ۔ جن اہل قلم کی سر سید نے تربیت کی تھی آگے چل کر انہوں نے نوجوان نثر نگاروں کی رہنمائی کی اوراردو نثر کا کارواں تیزی سے چل نکلا۔ حالی، شبلی ،محسن الملک، وقار الملک اور مولوی چراغ علی نے تو سر سید کے قریب رہ کر فیض اٹھایا۔ مولانا محمد حسین آزاد نے دور رہنے کے باوجود سر سید کی رہنمائی حاصل کی ۔ مولوی نذیر احمد کے اصلاحی ناول علی گڑھ اورسر سید تحریک کا ہی نتیجہ ہیں۔ مولوی ذکاء اللہ کے بیٹے مولوی عنایت اللہ ، مولوی عبدالحق اورمولوی وحید الدین سلیم نے سر سید کے قدموں پر بیٹھ کر نثر لکھنی سیکھی۔
تہذیب الاخلاق: اپنے اصلاحی خیالات کو عام کرنے اور اپنے پروگرام کی اشاعت کے خیال سے سر سید نے ایک رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ انگلستان میں انہیں معلوم ہوا تھا کہ بہت پہلے جب وہاں بھی طرح طرح کی خرابیوں نے جڑ پکڑ لی تھی تو ایڈیسن اور اسٹیل نے اصلاح کے ارادے سے ایک رسالہ جاری کیا تھا جس کی پیشانی پر لکھا تھا"سوشل ریفارمر"اس کا ترجمہ ہوا" تہذیب الاخلاق" گویا سر سید نے اسی وقت تہیہ کرلیا تھا کہ ہندوستان واپس آکر وہ بھی ایک اصلاحی رسالہ نکالیں گے ۔
جب رسالہ جاری ہوا تو سر سید کے انقلابی خیالات سے بہت سے لوگوں نے اختلاف کیا ، ہوتا یہ تھا کہ سر سید نے کوئی مضمون لکھا ، ان کے کسی مخالف نے فوراً اس کا جواب لکھا۔ پھر سر سید نے فی الفور اس جواب کا جواب لکھا ۔ اس طرح بے تکلف اور قلم برداشتہ نثر لکھی جانے لگی۔بناؤٹی زبان سے اردو نثر کا پیچھا چھوٹا۔ پڑھنے والوں کو قائل کرنے کے لئے مدلل نثر لکھنے کا رواج ہوا۔ اسی کو استدلالی نثر کہتے ہیں ۔ اردو میں جس کی شروعات کا سہرا سر سید اور علی گڑھ تحریک کے سر ہے ۔ اس تحریک کے اثر سے ایک بناوٹی زبان علمی زبان بن گئی۔
اردو شاعری: سر سید جانتے تھے کہ دنیا میں شاعری سے بڑے کام لئے گئے ہیں حالی نے تو مقدمہ شعروشاعری میں اس کی کئی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ سر سید کی خواہش تھی کہ اردو شاعری مفید اور کارآمد ہو ۔ سوتی ہوئی قوم کو بیدار کرنے میں مدد دے اور زندگی کو بہتر بنانے کا فریضہ ادا کرے۔ وہ کہا کرتے تھے "کاش کوئی شاعر ایسی نظم لکھتا جس سے سوتی ہوئی قوم جاگ اٹھتی" آخر حالی نے سر سید کی یہ فرمائش پوری کی، انہوں نے ایک مسدس لکھی جس کا نام تھا"مدوجزر اسلام" قوم کو ترقی کے لئے آمادہ کرنا اس نظم کا مقصد تھا۔ سر سید کہاکرتے تھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سوال کرے گا کہ تونے دنیا میں کیا تو جواب دوں گا۔ حالی سے یہ نظم لکھوائی۔ بس اسی سے میری بخشش ہوجائے گی۔
آگے چل کر اقبال نے قوم کی بہتری کے لئے جو شاعری کی اس سے سر سید کے خواب کی تعبیر کہنا چاہئے۔ مختصر یہ کہ سر سید اور علی گڑھ تحریک نے اردو شعرو ادب کی دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کردیا۔ اس تحریک کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔

5۔ اصلاح معاشرت
وہ زمانہ ہماری قوم کی پستی اور بد حالی کا زمانہ تھا ۔ کوئی عیب ایسا نہ تھا جو ہماری قوم میں نہ پایاجاتا ہو۔ ان سماجی خرابیوں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ اس مضمون میں ان سب کا گنانا ممکن نہیں ۔ بہر حال ان میں سے چند کا یہاں اختیار کے ساتھ ذکر کیاجاتا ہے ۔

جہالت: سب سے بڑا عیب یہ تھا کہ جہالت مسلمانوں میں عام تھی۔ جو تعلیم سے محروم ہو وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے ۔ سر سید کو یقین تھا کہ جہالت دور ہوجائے تو سارے عیب دور ہوجائیں گے ، چنانچہ انہوں نے اسی پر زور دیا ، علی گڑھ تحریک اسی لئے وجود میں آئی تھی کہ اس عیب کو دور کیاجائے ۔

کاہلی: یہ بہت بڑا عیب ہے اور اس نے بڑے بڑے ملکوں اور بڑی بڑی قوموں کو برباد کیا ہے، جو ہاتھ پاؤں نہیں ہلاتے ان کا انجام تباہی ہوتا ہے ۔ کاہلی صرف یہی نہیں کہ آدمی ہاتھ پاؤں سے کام نہ لے بلکہ اپنے مسائل پر غورنہ کرنا بھی کاہلی ہے ۔ سر سید اور علی گڑھ تحریک نے قوم کو عمل اور جدو جہد کی طرف متوجہ کیا۔

طرز گفتگو: اچھے انسان کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ اچھے انداز سے گفتگو کرتا ہو ۔ گالی گلوچ اور بد زبانی سے بچنے اور شائستہ مہذب طریقے سے گفتگو کرنے سے انسان کو عزت ملتی ہے ۔

کھانے کے آداب: اسلام نے کھانے کے آداب پر بہت زور دیا ہے مگر ہم نے اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں کی۔ سر سید نے اس موضوع پر ایک رسالہ بھی لکھا ۔ انہوں نے بتایا کہ سالن میں انگلیاں ڈالنا ، پھر ان انگلیوں کو چاٹنا، کھانے کے بعد کھانس کھانس کر بلغم نکالنا ، ہڈیاں چچوڑ کر دستر خوا پر رکھتے جانا ایسی عادتیں ہیں جن سے دیکھنے والوں کو گھن آتی ہے ، سر سید کے بعد بھی علی گڑھ نے کھانے کے آداب پر بہت زور دیا۔
خوشامد، بحث و تکرار ، ریا کاری، ظاہری داری ، قومی نفاق، تعصب اور بری رسموں کو ترک کرنے کا ہمیشہ سر سید نے مشورہ دیا ۔ تہذیب الاخلاق نے اس سلسلے میں بہت بڑی خدمت انجام دی اور لوگوں کے دلوں میں ان عیبوں کو دور کرنے کی خواہش پیدا کردی۔
غرض یہ کہ ہماری زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو سر سید اور علی گڑھ تحریک کے احسان سے گراں بار نہ ہو ۔ اس تحریک نے بے عملوں کو جہد و عمل کا درس دیا۔ ماضی کے پرستاروں کو حال کی اہمیت سے آشنا کیا۔ تنگ نظروں کو وسعت نظر سکھلائی ، بزرگوں کے کارناموں پر فخر کرنے والوں کو اپنی ذات میں خوبیاں پیدا کرنے پر آمادہ کیا۔ مشرق کے پجاریوں کو مغرب کے کارناموں سے آشنا کیا۔ دنیا کو بے حقیقت جاننے والوں کو دنیا میں نیکی کمانے اور آخرت کے لئے توشہ جمع کرنے کا راستہ دکھایا ۔ اس عظیم الشان تحریک نے سوتوں کو جگایا اور مردوں میں جان ڈالی۔ مختصر یہ کہ سر سید اور علی گڑھ تحریک نے ہندوستانی مسلمانوں کو زندہ قوموں کی طرح زندگی گزارنے اور سر بلند ہوکر جینے کا سلیقہ سکھایا۔

ماخوذ از مجلہ:
سہ ماہی "ادیب" (خصوصی شمارہ: اردو زبان و ادب کا تاریخ نمبر)
جلد:17 ، شمارہ: 3-4 ، جولائی تا دسمبر 1993
مدیر و مرتب: ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ
ناشر: رجسٹرار جامعہ اردو ، علیگڑھ۔

The Aligarh movement. Article by: Prof Noorul Hasan Naqvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں