رتن ناتھ سرشار ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے نذیر احمد کے دوش بہ دوش اردو ناول کا بنیادی تصور عطا کیا۔ 1878ء کے قریب جب انگریزی اثرات کے زیر اثر اردوناول کا خاکہ مرتب ہورہا تھا ان کا شہرۂ آفاق ناول فسانہ آزاداودھ اخبارمیں شائع ہونا شروع ہوا۔ ان سے کچھ ہی دنوں پہلے نذیر احمد مراۃ العروس اور نبات النعش کی تخلیق کرچکے تھے اور اردو ادب میں اس عظیم ادبی سلسلہ کی داغ بیل پڑ چکی تھی جس نے آج عروج کی انتہائی بلندیاں چھولی ہیں۔نذیر احمد اس سلسلہ کی پہلی کڑی ہیں لیکن نذیر احمد کے ناولوں نے فسانہ آزاد کی اشاعت تک کوئی خاطر خواہ بلندی حاصل نہیں کی تھی ۔دراصل نذیر احمد کے ناول مقصدی ناول تھے اور ابتک اپنے ناولوں میں نذیر احمد فنکار سے زیادہ واعظ اور ادیب سے زیادہ سماجی مصلح کے روپ میں ظاہر ہوئے تھے۔ بقول وقار عظیم نذیر احمد فسانہ مبتلا میں واعظ اور مصلح کا لبادہ اتار کر فنکار کے نازک لباس میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں ۔ فسانہ مبتلا فسانہ آزاد کے بہت بعد کی تخلیق ہے۔
سرشار نے نذیر احمدسے پہلے ہی ناول نگار کو فنکار کا دیدہ زیب پیراہن عطا کردیا تھا۔ جس کی جھلک ہمیں فسانہ آزاد میں نظر آتی ہے ۔ فسانہ آزاد پر بہت سارے اعتراضات کئے جاسکتے ہیں اورکئے جاتے رہے ہیں لیکن سرشار کی اس خوبی سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہ بنیادی طور پر ادیب و فنکار ہیں۔ ادیب سماجی مصلح بھی ہوتا ہے لیکن وہ بنیادی طور پر صرف فنکار ہی ہوتا ہے اور اس کی یہی فنکاری اسے دوسرے سماجی مصلحوں سے امتیازی حیثیت عطا کرتی ہے ۔ سرشار کے ناولوں کی سب سے بڑی خوبی ان کی یہی فنکاری ہے اور یہ اسی فنکاری کی برکت ہے کہ اردو ادب کو خوبی جیسا لازول کردار ناول کے ابتدائی دور ہی میں مل گیا۔
سرشار کی تصنیفات کا دائرہ کافی وسیع ہے لیکن ان کے تین ناول سیر کہسار، پی کہاں اور فسانہ آزاد عوام و خواص میں خاص طور پر مقبول ہوئے ۔ ان میں بھی فسانہ آزاد سب سے زیادہ اہمیت کا مالک ہے ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ سرشار کا مکمل ترین ناول ہے ہوسکتا ہے بعض لوگ سیر کہسار کو ربط و تسلسل کی بنا پر فسانہ آزاد سے اچھا ناول قرار دیں۔ فسانہ آزاد کی اہمیت کا سبب دوسرا ہے ۔ فسانہ آزاد میں سرشار کی فنکاری کا تاریک ترین رخ بھی نظر آتا ہے اور روشن ترین رخ بھی۔ اور اسی لئے سرشار کی فنکاری اور ان کی عظمت کے متواتر اندازے کے نقطہ نظر سے فسانہ آزاد کافی اہم ناول بن جاتا ہے ہم بھی اسی ناول کی روشنی میں سرشار کا ایک مطالعہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ان کی خدمات اور ان کی حیثیت کا ایک متوازن احساس حاصل کیاجاسکے ۔
"فسانہ آزاد" سرشار کے اور ناولوں کی طرح کسی سوچی سمجھی اسکیم کے تحت نہیں لکھا گیا ۔ بلکہ یہ ایک ایسی داستان ہے جسے انہوں نے اودھ اخبار کے لئے قلم برداشتہ لکھنا شروع کیا تھا۔1878ء میں جب انہوں نے فسانہ آزاد کا آغاز کیا تو ان کے پیش نظر نہ تو کوئی اخلاقی یا اصلاحی مقصد تھا اور نہ اپ نے دور کی عکاسی، وہ صرف عوام کی دلچسپی کے لئے ایک ایسے انسان کے گرد واقعات کے تانے بانے بن رہے تھے جس کی شخصیت اس زمانے کی ذہنیت کو متاثر کرسکے ۔ لیکن آگے چل کر جب انہوں نے فسانہ آزاد کی مقبولیت کا اندازہ لگایا تو انہیں فکر ہوئی کہ ان واقعات کو کسی طرح تسلسل کی لڑی میں پرونا چاہئے، آزاد کی جنگ روم میں شرکت کے لئے روانگی اسی خیال کانتیجہ ہے ، ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ بھی خیال پیدا ہوا کہ اور خوبیوں سے بھی اسے سنوارا جائے ۔ چنانچہ اپنے معاشرت کا خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی ، بیگماتی زبان برتی اور کرداروں کے ارتقائی تسلسل کی طرف توجہ کی ۔
چونکہ کہانی کادائرہ بہت محدود تھا اس لئے انہیں اوروں کے مقابلے میں کافی آزادی ملی اور وہ مختلف پہلوؤں پر مفصل گفتگو کرنے میں کامیاب ہوسکے ۔
اس ناول کی کہانی یا بنیادی موضوع بہت محدود ہے ، آزاد جو طبیعت کے لحاظ سے ایک آزاد منش، عاشق سیرت اور رنگ روپ کے لحاظ سے خوبصورت نوجوان ہیں۔حسن آرا پر عاشق ہوتے ہیں۔ اس کی خواہش اور اجازت کے مطابق لڑائی میں حصہ لینے کے لئے ایک ملازم خوجی کو ساتھ لے کر روم چلے جاتے ہیں اور وہاں سے واپسی کے بعد حسن آرا سے شادی کرلیتے ہیں ۔صرف اتنی داستان ہے جسے سرشار نے چار ضٗخیم جلدوں میں قلمبند کیا ہے ۔ ظاہرہے جب کہانی کا دائرہ اتنا محدود ہوگا اور یہ کہانی چار ضخیم جلدوں میں پھیلائی جائے گی تو رطب یابس اور غیر متعلق باتوں کا آجانا ناگزیر ہوگا ۔ اس لئے سرشار نے فسانہ آزاد میں بڑی بڑی قلا بازیاں کھائی ہیں اور کہانی کی محدود فضا کو وسعت دینے کے لئے نئی نئی باتیں اور نئے نئے گوشے پیدا کئے ہیں ۔ فسانہ آزاد کی طوالت میں "دراز کردم" کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حکایت لذیذ بود ،بلکہ انہوں نے لذت پیدا کرنے کی کوشش اس لئے کی ہے کہ 'دراز کردن' ان کا مقصد تھا اور یہ مقصد اس لئے تھا کہ زیادہ سے زیادہ دنوں تک قارئین کی دلچسپی اخبار سے وابستہ رکھی جاسکے۔
پلاٹ کے لحاظ سے سرشار کا یہ ناول بے حد کمزور ہے ۔ ایک لحاظ سے فسانہ آزاد کاتاریک ترین رخ یہی ہے کہ اس کے پلاٹ میں مختلف قصے ہیں جنہیں ایک لڑی میں پرو دیا گیا ہے۔ لی کن یہ قصے اپنی اپنی جگہ خود ایک الگ دنیا رکھتے ہیں ان میں کوئی ربط نہیں ہے کوئی سلسلہ نہیں ہے صرف ایک آزاد کا کردار ایسا ہے جس کے ذریعہ مصنف ربط پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ سرشار کا یہ سہارا کہیں کہیں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں لیکن عام طور پر یہ سہارا بھی ان کے کام نہ آسکا، جس کی وجہ سے فسانہ آزاد امیر حمزہ کی داستان کا رنگ تو ضرور اختیا رکر گیا البتہ ناول کی وہ شان اس میں نہ آسکی جو خود ان کے ناول سیر کہسار میں ہے ۔ لیکن اس ناول کے بہت سے روشن پہلو بھی ہیں۔ اس کی کردار نگاری ، سماجی پس منظر کی عکاسی اور زبان و بیان کی تراش خراش اس کے وہ پہلو ہیں جنہوں نے اس میں بے پناہ جاذبیت پیدا کردی ہے ۔ فسانہ آزاد کا سارا حسن صرف اپنے ماحول کی پوری مشرح اور مبسوط عکاسی ، خوجی، آزاد، اللہ رکھی، حسن آرا، سپہرازار وغیرہ کے کرادروں کی پیش کش اور لکھنو کی بیگماتی زبان کے برتاؤ میں پوشیدہ ہے ۔
فسانہ آزاد میں جو ماحول سرشار نے پیش کیا ہے ۔ وہ نوابی تہذیب کے زوال کا ماحول ہے، لکھنو کی نوابی تہذیب سلطان عالم واجد علی شاہ کے مٹار برج سدھار نے کے بعد جب زوال پذیر ہوئی تو اس نے عروس البلاد لکھنو کی عام فضا میں بہت سی ایسی باتیں پیدا کردیں جن کی وجہ سے لکھنو کی ترقی ایک مدت تک رکی رہی ۔ فسانہ آزاد میں انہیں حالات کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ لکھنو کی برکت جو نوابین اودھ کے قدموں سے منسلک تھی ختم ہوگئی۔ اب نہ قیصر باغ اور چھتر باغ کی وہ رنگینیاں ہیں اور نہ نیلم پری اور پکھراج پری کے رقص و رنگ ، نہ جیب میں اتنا پیسہ تھا اور نہ ہاتھ میں اقتدار، لیکن اس تہذیب نے یہاں کے رہنے والوں کی عادتیں کچھ اس طرح سے بگاڑ دی نہیں، اور ان کے ذہن پر کچھ اس طرح کے اثرات کی گہری چھاپ پڑ چکی تھی کہ اس تباہی اور بدحالی کے دور میں بھی اپنی اہمیت کا جھوٹا احساس ایک آن، ایک انداز، ایک بانکپن موجود ہے ۔سرشار نے لکھنو کی معاشرت کے جو نقشے پیش کئے ہیں ، ان میں بڑی جان ہے، اس کام کی وہ کیفیت ہے جو ہماری نگاہوں کے سامنے اس دور کے لکھنو کی پوری فضا اور ماحول کا نقشہ پیش کرتی ہے ۔وہ پورا ماحول جو لکھنو کے نوابی دور اور سائنسی تہذیب کے عہد کی یادگار ہے اپنی تمام کرشمہ سازیوں کے ساتھ ہماری نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگتا ہے ۔
ان کے کرداروں کی بھی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ وہ اس معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آزادکے اس ناول میں بہت سے کردار ہیں ۔ ان کے طبقے الگ نظر آتی ہے ۔وہ ہمارے ساتھ محفلوں اور جلسوں ہی میں نہیں، چالوں اور کیمپوں میں بھی بیٹھے دکھائی پڑتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ فسانہ آزاد میں جو اپنائیت، جوبے تکلفی اور جول گاؤ ملتا ہے نذیر احمد کی زیادہ تر تصانیف اس سے مبرا ہیں۔
اردو ناول نگاری کی ان روایات کے جنم داتا کی حیثیت سے سرشار ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے ۔
ماخوذ از کتاب: اردو سے ہندوؤں کا تعلق
مصنف: اجمل اجملی (سن اشاعت: 1979)
ناشر: الہ آباد لٹریری کلچرل اسوسی ایشن، الہ آباد
مصنف: اجمل اجملی (سن اشاعت: 1979)
ناشر: الہ آباد لٹریری کلچرل اسوسی ایشن، الہ آباد
Ratan nath Sarshar, an innovative creator of Urdu novel tradition. Essay by: Molvi Mohammad Murtaza
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں