ہندوستان پر اولین بحری پیش قدمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-27

ہندوستان پر اولین بحری پیش قدمی

first-naval-attack-on-india
ہندوستان پر یہ اولین پیشقدمی اولاً بحری راستے سے آغاز ہوتی ہے اس لئے کہ ہندو عرب میں یہی راستہ نزدیک ہے۔ بقول لی بان “عربوں کے تعلقات ہندوستان کے ساتھ ابتدائً زمانہ تاریخی سے شروع ہوئے ہیں ، جس وقت یمن کے بندروں سے ہندوستان کو جہاز جانے لگے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے بہت ہی قریب تھا۔”
جزیرہ نما عرب میں ایک ضابطہ کے قیام کے ساتھ یہ ساحل عرب سے روانہ ہونے والے جہازوں نے عربوں کے لئے سمندر کھول دئیے ، اس وقت کوئی بحری بیڑہ ایران اور ہندوستان میں ان کو روکنے والا موجود نہ تھا۔
فاروق اعظم کے والی بحرین و عمان عثمان بن ابی العاص ثقفی نے 15م 636ء میں یا فتح مداین کے ایک سال بعد جہازوں پر فوج سوار کر کے تانہ پر بھیج دی۔ یہ وہی تانہ ہے جو بمبء کے قریب ہے اور جہاں آچار صحابہ کا وجود مانا گیا ہے اور جو قدیم زمانے میں علاقہ کوکن کا دارالحکومت تھا۔ عثمان نے اپنے بھائی حکم کو بروص پر روانہ کیا اور دوسرے بھائی مغیرہ بن ابی العاص کو دیبل پر جہاں اس نے غنیم پر فتح پائی، فاروق اعظم بحری فوج کشی کو اس بنا پر پسند نہیں فرماتے تھے کہ بیس جہازوں کا ایک بیڑہ جو روم بھیجا گیا تھا طوفان میں غرق ہوا تھا ۔ چنانچہ اس کے بعدبحری فوج کشی کی اجازت نہیں دی جارہی تھی ۔ اور اسی وجہ سے ہندوستان کی اس پہلی بحری فوج کشی پر جو ان کی بلا اجازت ہوئی تھی ان کا عتاب صادر ہوا ۔ بہر کیف فوج کشی کی مسدودی سے قطع نظر عربوں کا تجارتی اثر جہازوں کے ذریعہ سے روز بروز بڑھتا جارہا تھا۔ جو ہماری دوسری تصنیف سواحل ہند پر مسلمانوں کا توطن کا موضوع ہے ۔

فوج کشی براہ خشکی
اب اسلامی فوجیں یاسر بازان راہ خدا ساسانیوں کے پائے تخت سے آگے بڑہی تھیں۔ ایران چونکہ اس وقت بڑے بڑے جاگیر داروں پر منقسم تھا لہٰذا کسری کا خاتمہ ہونے کے بعدبھی ہر صوبہ میں معرکہ آرائی درکار ہوتی تھی۔ چنانچہ تقریباً نو سال کے بعد اسلامی فوجیں 23 م 644ء میں نہر مکران پر پہونچ گئیں ، اور نامہ فتح کے ساتھ چند ہاتھی بھی مدینے میں بھیجے گئے ۔
مکران کا نصف حصہ آج کل بلوچستان کہلاتا ہے ، بقول عبدالحلیم صاحب شرر اس زمانے میں سارا بلو چستان سندھ میں ہی شمار کیاجاتا تھا اور راجہ سندھ کے قبضہ میں تھا ۔ بلوچ کے نام نے ہنوز کسی حصہ ملک کو اپنا نہیں بنایا تھا ۔ مکران اور سیستان سے سندھ کی حدیں ملی ہوئی تھیں۔
اس سر زمین کی جو کیفیت فاروق اعظم ؓ کے روبرو پیش کی گئی اس کے سننے کے بعد فرمان ہوگیا کہ دریاکے اس پار فوج کشی نہ کی جائے ۔ اسی کے قریب قریب ایک ایرانی غلام کے خنجر سے فاروق اعظم کو وہ شہادت نصیب ہوئی جو صحابہ کرام کو بظاہرموت سے ڈرانے والی اس دلفریبیوں سے بھری زندگی میں سب سے زیادہ مرغوب چیز تھی۔ اگرچہ بقول آغا خاں “فاروق اعظم کی قابل افسوش شہادت سے اسلام کو ایسا صدمہ پہنچا کہ اس کا اثر اب تک زائل نہیں ہوا۔” لیکن ابھی فاروقی اصول بحال و برقرار تھے اور ان کا اثر زندہ تھا ۔ چنانچہ خلاف عثمانی میں کابل غزنی اور موجودہ بلو چستان مستقل اسلامی صوبے بن گئے ۔ مہلب نے کابل کے راستے سے ہندوستان میں قدم رکھا۔
اویلبسکم شیعا و یذیق بعضکم باس بعض۔ کی تصدیق سامنے آتی ہے جس کے بعد بجائے نظام مساوات و جمہوریت شان حکومت قیصری کا انداز پیدا ہونے لگتا ہے بقول ابن عمر سنت ابوبکر و عمر کے عوض سنت کسریٰ و قیصر کی تقلید ہونے لگتی ہے ۔ قصہ مختصر جب ایک زبردست سلطنت قائم ہوجاتی ہے تو اس کے بعد زیادہ تر باغراض سیاست فارورڈ پالسی کا دور دورہ ہوتا ہے ۔

فتح سندھ
حجاج بن یوسف عربوں کے پاس اپنے سیاسی اغراض کے پورا کرنے میں کیسا ہی ظالم مشہور ہو لیکن یہی حجاج اس وقت کی اسلامی دنیا سے باہر اسلامی تہذیب کا راہ نما بنتا ہے ۔ اس کی قرآن میجد کی خدمت مشہور ہے ۔ اسلامی دور دورہ سے ذرا پیشتر جب ساسانیوں نے ایران میں آخری سنبھالا لیا تھا تو ایرانی تاجدار نے سندھ پر حملہ کر کے سندھ کے راجہ سی ہرس کو شکست دے کر مار ڈالا تھا ۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ساہسی تخت نشین ہوا تھا جو لا ولد تھا ۔ اس کے مرنے کے بعد حکومت بجائے کاندان اہل شمشیر ایک پنڈت برہمن کے بیٹے چچ کے ہاتھ آئی جو اس کے دربار میں باثر بن گیا تھا ۔ چچ کا زمانہ آغاز حکومت تقریباً وہی ہے جب کہ نبی امی عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میںہجرت فرمائی ۔ اس کے قریب قریب زمانے میں مشہور چینی سیاح ہیون چوئنگ نے ہندوستان کی سیاحت کی ہے ۔(47م 629ء سے 626ء تک) ۔ چچ نے طوائف الملوکی دور کی اور ایک سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس وقت دریائے بیاس کے ایک کنارے ایک حصہ ملک ترک نسل حکمرانوں کے قبضہ میں بھی تھا۔
اس وقت برہمنی مذہب دوبارہ قائم تو ہوگیا تھا لیکن اس کے دوش بدوش بدھ کا اثر بھی باقی تھا۔ بدھ کی عبادت گاہیں آباد تھیں اورمرتاص بدھ ملک میں ہر طرف عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ، ملک کی معاشرت اور مختلف طبقات میں باہم منافرت کی خلیج حائل تھی۔ جات اور لوہان جو قدیم قومیں تھیں ان سے نہایت ذلت کے ساتھ برتاؤ کیاجاتا تھا۔ چچ کے بعد اس کا بھائی چندر جس کو بدھ مذہب سے عقیدت تھی اور اس کے بعد چچ کا بیٹا داہر تخت نشین ہوا جو غالباً بدھ کا مخالف تھا اس لئے ممکن ہے کہ وہ عوام الناس میں ہر دلعزیز نہ ہو۔ کہاجاتا ہے کہ نجومیوں کے قول سے وہ اپنی بہن سے عقد نکاح رسماً عمل میںلایا تھا اور اس فعل کی وجہ سے بھی عام طور پر ہر دلعزیز نہ رہا تھا۔ اتفاقاً ایک عرب محمد علائی نے ابن اشعث کو قتل کر کے عمان سے جہاز کے ذریعہ سے (جو کھلا ہوا راستہ تھا) پانچ سو اہل قبیلہ کے ساتھ سندھ میں پناہ لی تھی ۔ اس کی مدد سے راجہ داہر کو ایک دوسرے راہ کے مقابلہ میں کامیابی ہوئی ۔ اس نے ان نووارد عربوں کی قدرومنزلت کی اور ان کو اپنے دربار میں جگہ دی ۔ یہ گویا حجاج کے ساتھ چھیڑ تھی ۔ اس کے ساتھ ایک اورواقعہ ہوگیا ۔ اسلامی اثر سمندر کے راستے سے تجارتی طور پر دن بدن بڑھ رہا تھا ۔ سیلون کا راجہ مسلمان ہوچکا تھا۔ عرب تاجر وہاں بس گئے تھے ۔ سیلون سے چند جہاز مسلمانوں کو لئے ہوئے عر ب جارہے تھے سواحل ہند پر دیبل کے مید لوگوں سے بعض دریائی لٹیروں نے چھوٹی چھوٹی کشتیوں سے ان جہازوں کو گھیر کر سامان لوٹ لیااور چند مسلمان لڑکیوں کو بھی پکڑ لے گئے ۔ گرفتار ہونے کے وقت ایک لڑکی بے تحاشا چلااٹھی”یا حجاج” اس یا حجاج کی خبر نے حجاج کے دل کو اس طرح تڑپا دیا جس طرح آئندہ زمانہ میں “یا معتصم” نے معتصم کو ۔
سواحل ہند پر مسلمانوں کے توطن کے جو روایات ہیں ان میں کہاجاتا ہے کہ حجاج کے ظلم سے عرب ساحل ہند پر آکر بس گئے ۔ دراصل حجاج کا ظلم نہیں بلکہ اس کی ہمدردی تھی ، چونکہ اس کا ظلم اسلامی تاریخ میں ضرب المثل ہے لہٰذا بد نصیبی سے اس کی ہمدردی بھی داخل ظلم ہوگئی۔
فتح سندھ کے تفصیلی دلچسپ واقعات سلطنت آصفیہ کے بحر کرم سے مولوی عبدالحلیم صاحب شرر نے اردو میں جمع کردئے ہیں ۔ اور ان سے صاف صاف نظر آتا ہے کہ یہ ملک گیری، اگرچہ خلافت راشدہ کے مبارک زمانے میں نہ تھی لیکن وہ اصول ابھی تک اس قدر تازہ تھے کہ قریب قریب وہی اثر یہاں بھی مترتب ہوا جو شام ، بصرہ، عراق وغیرہ ممالک مفتوحہ خلافت راشدہ میں ، جس طرح شام و مصر ہمیشہ کے لئے اسلامی خطے بن گئے یا یوں کہو کہ اصلی باشندے مسلمان ہوگئے اسی طرح سندھ بھی نیک مزا ج فاتحین کے اعلیٰ اور رحمدل برتاؤ کی بدولت اس قدر اسلامی رنگ میں آگیا کہ آج اس کی آبادی میں دوسرے صوبہ جات ہند سے یہ حیرت انگیز بتائن ہے کہ(25) لاکھ کی آبادی میں سہ ربع سے زیادہ آباد ہیں۔ کثرت آبادی میں ہندوؤں کے قائم مقام یہاں سندھی مسلمان ہیں گویا مسلمان اصلی باشندہ ملک ہوگئے جیسے شام و مصر میں۔ یہ حیرت انگیز فرق اس امر کا قوی ثبوت ہے کہ جس قدر رواداری برتی جائے اسی قدر اس کے نتائج قوی اور دیرپا ہوتے ہیں۔ اس آبادی میں گو عربی النسل بھی ضرور ے لیکن بڑاحصہ ان سندھی مسلموں کا ہے جن میں اگرچہ تین سو ذاتیں بیان کی جاتی ہیں لیکن اخوت اسلامی اور عربی تہذیب کی بدولت سب ذاتیں ملی جلی رہتی ہیں۔ اور ہر ہر ذات کے جدا رہنے کے قدیم دیسی قواعد ٹوٹگئے ہیں ۔ یہ مشہور فاتح سندھ محمد بن قاسم اگرچہ سترہ سال کا کم عمر نوجوان ہے لیکن اپنی رائے و تدبیر اور کیرکٹر میں ساٹھ سالہ ثابت ہوتا ہے ۔ اور اس کی عالی مشربی اور بے داغ کیریکٹر کا نمونہ آئندہ بہ مشکل ملتا ہے ۔ دراصل تمام انتظام سندھ سے سیکڑوں سے کوس کے فاصلہ پر بصرہ میں حجاج نے خود اپنے ہاتھ میں رکھاتھا ۔ اور وہیں سے تمام تفصیلی ہدایات وصول ہوتے تھے ۔ ہر تین دن میں پٹہ پہنچتا تھا ۔ اگرچہ پیش قدمی خشکی کے راستے سے ہوئی تھی لیکن پانچ منجنیق جہازوں کے ذریعے سے لائے گئے ۔ جن میں سے ہر ایک کے چلانے کے پانچ سو آدمی درکار ہوتے تھے ۔ یہ منجنیق دیبل کے محاصرہ میں کس مقام پر کس طور سے قائم کی جائے۔ اس میں بھی حجا ج کی ہدایت کے مطابق عمل کی گیا اور عروس نامی منجنیق نے دیبل کے مشہور مندر کو منہدم کردیا۔
یہی حجاج ہمیشہ خطوط میں اللہ پر بھروسہ رکھنے کی تلقین کرتا ہے اور یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ جہاں کوئی قدیم مقام یا مشہور شہر ہو تو وہاں مسجد و منبر ضرور قائم کئے جائیں۔
جس قدر جلد اسلامی اثر پھیل رہا تھا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ راجہ داہر کے پاس جو سفارت بھیجی گئی ، اس میں مولانا اسلامی نام ایک دیسی نو مسلم بزرگ بھی تھے جو دیبل کے ہندو شرفا میں سے تھے۔محمد بن قاسم حیدرآباد سندھ کے حوالی میں دریائے سندھ سے پار اترا ، ہندوستانی اعتقادات نجوم سے ہراساں ہورہے تھ۔ دس رمضان 93م 712ء کو معرکہ کارزار میں داہر اس بو قلموں دنیا سے اٹھ گیا ۔ اور محمد بن قاسم کا ستارہ اقبال چمک اٹھا۔ بہت جلد تمام سندھ سے ملتان تک اس کا قبضہ ہوگیا ۔ کشمیر تک اس کے حدود قلمرو وسیع تھے ۔ اس زمانہ میں پنجاب کا باین ہیئت کذائی نام و نشان نہ تھا۔ بلکہ وہ سندھ ہی میں داخل تھا ۔ پنجاب مین اسلامی آبادی جو زیادہ ہے اس کی وجہ بھی تقریباً یہی برکات قرونِ اولی ہیں۔ پنجاب میں بھی ان ہی مقامات میں اسلامی آبادی زیادہ پائی جائے گی جو زیادہ تر سندھ و ملتان کے مابین ہیں۔

محمد بن قاسم کا طرز عمل
محمد بن قاسم کے طرز عمل کو خود راجہ داہر کے وزیر سی ساکر نے اس طرح ادا کیا ہے کہ منصف مزاج امیر نے جو آئین و قوانین جاری کئے ہیں ان سے تمام ممالک ہند میں اسکی عظمت و لیاقت کا سکہ بیٹھ جائے گا۔ آپ تمام رعایا اور مالگزاروں کو خوش رکھتے ہیں۔ قدیم مروجہ طریقے ہی سے اور گزشتہ ضوابط کے مطابق آپ مالگزاری وصول کرتے ہیں۔ کسی نئی مستزاد رقم یا جدید تکس کا بار آپ کسی شخص پر نہیں ڈالتے اور اس کی پابندی صرف خود ہی نہ کرتے بلکہ اپنے تمام عہدیداروں اور سرداروں کوبھی انہی قواعد کی پابندی کے لئے ہدایت کرتے رہتے ہیں۔مندر علی حالہ آباد رہے ۔ حجاج کے فرمان موجود ہیں کہ کوئی شخص ا پنے مذہب کی پیروی سے نہ روکا جائے مسیحیوں کو جو رعایتیں شام میں حاصل تھیں ، وہی ہندوؤں کو سندھ میں۔ گویا اہل کتاب کا سا برتاؤ روا رکھ اگیا ۔ انتظام حکومت بھی ان کے ہاتھ میں بحال رکھا گیا جس کا ایک مادی ثبوت قطع نظر روایات کتابی کے وہ ہند و برہمن موجود ہیں جو عامل کے لقب سے مشہور ہیں۔
پہلی صدی ہجری کا آخری حصہ ہے۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے فتوحات کا دور دورہ ہے۔ محمد بن قاسم کی طرح قتیبہ ترکستان میں بڑھتا چلا جارہا ہے ۔حجاج نے دونوں سپہ سالاروں کو حکم دیاکہ تم دونوں کوبڑھتے ہوئے چین تک جانا چاہئے۔ اللہ کا نام لے کر بڑھتے چلے جاؤ، جو پہلے مملکت چین میں داخل ہوگا اس کو اپنے تمام مفتوحہ بلاد اور نیز اپنے ہمسر سپہ سالار پر حکومت ملے گی۔
پیش قدمی اصول مسالت پر ہوتی تھی ۔ چنانچہ ولید نے اپنی طرف سے ایک خط راجہ قنوج کے نام لکھ کر محمد بن قاسم کے پاس بھیجا کہ یہ خط راجہ کے پاس بھیجا جائے ۔ اودے پور تک دس ہزار سواروں کے ساتھ قاصد حکیم شیبانی آیا۔ یہاں سے اس کا قاصد زید بن عمروکلابی راجہ قنوج کے دربار میں حاضر ہوا ، جو اس وقت ہندوستان کا نامور دربار تھا۔ راجہ نے سخت کلامی کے ساتھ ایلچی کو واپس کیا۔ پیش قدمی کی تیاریاں ہورہی تھیں لیکن مشیت ایزدی یہی تھی کہ اسلامی سرحد اس وقت اسی حد تک ہو۔95ء میں حجاج مر گیا ۔ اور اسکے آٹھ مہینے کے بعد ولید بھی سلیمان کو ولی عہدی سے معزول کر کے اپنے بیٹے کو اپنا جانشنین بنانے کے خیالات میں اس دنیا سے کوچ کرگیا۔ سلیمان نے تخت حکومت پر بیٹھتے ہی اپنے تمام مخالفین سے بدلہ لینا ضروری سمجھا۔قتیبہ اور موسی بن نصیر کی طرح محمدبن قاسم بھی نہ صرف معزول کرکے واپس طلب کیا گیا، بلکہ واسط میں قید کیا گیا اور اسی حالت قید میں یہ نامور فاتح دنیا سے اٹھ گیا۔ خود ہندوؤں نے اس کا سخت ماتم کیا۔ اس کی یادگار میں اس کی مورت بنائی۔
بہر نوع حجاج اور محمد بن قاسم نے جو نیا ملک حاصل کیا تھا وہ بدستور اسلامی صوبہ رہا۔ عام طو رپر جو یہ خیال تاریخ میں داخل ہوگیا تھا کہ سندھ کچھ بہت مدت تک مسلمانوں کے تصرف میں نہیں رہا، وہ عربی تاریخوں سے بے خبری کی بنا پر تھا۔ جب سے سندھ اسلامی عملداری میں آیا مغربی ڈپلومیسی کے دور دورہ تک وہ اسلام ہی کے زیر نگیں رہا۔ سر ہسری ایلیٹ اور مولوی عبدالحلیم شرر تاریخ ہند کے اس حصہ کو روشنی میں لاچکے ہیں۔ بلکہ یہ واقعہ بھی نوٹ کے قابل ہے کہ دربار سندھ میں جو عرب پناہ گزیں موجود تھے اور جنہیں داہر کا پسماندہ جے سنگھ اپنے ساتھ کشمیرلے گیا ان میں حمیم بن سامہ بھی تھا اورجو علاقہ جے سنگھ کو دربار کشمیر سے بطور جاگیر ملا وہ جے سنگھ کے مرنے کے بعد حمیم ہی کو ملا ، کیونکہ رعایا اس سے خوش تھی اور کشمیر کے راجہ اس کی عزت کرتے تھے۔ چچ نامہ کے زمانہ تک اس علاقہ کی حکومت حمیم ہی کے خاندان میں چلی آرہی تھی ۔ کشمیر میں بھی اسلامی آبادی ہی اصلی باشندوں کی آبادی ہے ۔
100ء میں خطوط اور سفارتوں کے ذریعہ سے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے ہند کے تمام راجاؤں کو اسلام کی تبلیغ کی ۔ چنانچہ بعض راجاؤں نے اسلام قبول بھی کرلیا ۔ دوسری صدی کے اوائل میں ہشام کے زمانہ میں جنید والی سندھ تھا جس نے پھر پیشقدمی کا سلسلہ جاری کیا۔ مارواڑا اور مالوہ تک اس کی پیشقدمی ہوئی اس زمانہ میں محمد بن قاسم کا بیٹا عمر و بھی سندھ میں آیا۔ اولاً وہ والی وقت حکم کا مشیر خاص تھا۔ حکم نے دریائے اٹک کے دہانہ کے مشرق طرف شہر محفوظہ آباد کیا تھا۔
عمرنے بھی اپنی فتح کی یادگار میں دریائے سندھ کے دہانہ کے مغربی کنارے پر منصورہ آباد کیا جو اس کے بعد ایک عرصہ تک سندھ کادارالامارہ رہا۔
سندھ عرب آبادی کی وجہ سے بالکل شام کا ایک نمونہ نظر آتا ہے۔ عربی وضع قطع جو دمشق میں نکلتی ہے وہ ملتان، منصورہ آباد بھی فوراً آجاتی ہے ۔ علمی اورمذہبی حلقہ ہائے درس سندھ میں بھی اسی طرح ہیں جس طرح اور دنیائے اسلام میں۔ چنانچہ دوسری صدی کے مشہور محدثین میں ابو معشر السندی کا نام بھی ممتاز طور پر نظر آتا ہے ۔ ابو عطا سندی نامور عربی شعر ہے اور یہی اثر یہاں کے باشندوں پر پڑتا ہے ۔ بقول بی بوسٹن سندھ کا ہندو آدھا مسلمان ہے ۔ سندھی زبان عربی ادب کے اثر سے بھری ہوئی ہے ، بہت سے عربی ترجمے اس میں موجود ہیں۔

ماخوذ از کتاب: عہد سلف
مصنف: مولوی محمد مرتضیٰ
سن اشاعت: اپریل1930ء(حیدرآباد، دکن)

First naval attack on india. Essay by: Molvi Mohammad Murtaza

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں