اقبال متین - چہرہ نما - از سلیمان اریب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-26

اقبال متین - چہرہ نما - از سلیمان اریب

iqbal-mateen
میں ذاتی طور پر کسی تخلیقی فن پارے پر خواہ وہ شاعری ہو یا افسانہ نازل ہو یا ڈراما کسی اور سے دیباچہ مقدمہ لکھوانے کا قائل نہیں ہوں ۔ ہاں مصنف خود لکھے تو لکھے بلکہ بعض صورتوں میں تو مصنف کا دیباچہ"ضروری" ہوجاتا ہے اور ایسی بھی دو چار مثالیں موجود ہیں کہ بجائے خود دیباچہ اتنا وقع ہوگیا ہے کہ اصل تصنیف سے ہٹ کر ادب میں اس کی بھی ایک علاحدہ حیثیت تسلیم کرلی گئی ہے ۔
گو کسی اور سے دیباچہ یا مقدمہ لکھوانے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ دراصل اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں پڑھنے والوں کی رائے کو ہموار کیاجائے ، گویا مقدمہ نگار مصنف اور قاری کے درمیان ایک شخص رابطہ کا فرض انجام دیتا ہے اور عام طور پر دیباچہ یا مقدمہ کسی ادیب کی پہلی پیش کش پر محض اس وجہ سے بھی لازمی سمجھاجاتا ہے کہ ادبی حلقوں میں اس ادیب کابھرپور تعارف ہوجائے اور اس کی پہلی پیشکش کی پذیرائی میں آسانی پیدا ہو، لیکن مقدمہ نگار جو فرض اپنے سرلیتا ہے وہ بھی کچھ کم اہم اور نازک نہیں ۔ اسے بہت ذمہ داری کے ساتھ کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں اظہار خیال کرنا چاہئے اور حتی المقدور ابی دیانت داری کے رشتے کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہئے لیکن ادھر یہ رسم چل پڑی ہے کہ اس سیدھے سادے مقصد کے حصول کے لئے ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جو بڑے نام رکھتے ہیں لہذا ہوتا یہ ہے کہ وہ یا تو مصنف کی حوصلہ افزائی کی خاطر یا پھر شرافت اور مروت میں ایسی غیر ذمہ دارانہ باتیں لکھ جاتے ہیں جن کا تعلق دور دور تک نہ تصنیف سے ہوتا ہے اور نہ مصنف سے چنانچہ اکثر کتابیں پ ڑھنے کے بعد مقدمہ کا دردناک پہلو یہ ہے کہ اس سے نہ مصنف کا بھلا ہوتا ہے اور نہ مقدمہ نگار ہی کا اعتبار باقی رہتا ہے ۔ دونوں کی رسوائی ہوتی ہے ، حق تو یہ ہے کہ جس ادب پارے میں جان نہ ہوگی اس مین کسی بڑے سے بڑے ادیب یا نقاد کا قلم معجز رقم بھی روح نہ پھونک سکے گا اور جس ادب پارے میں خود زندہ رہنے کی صلاحیت ہوگی وہ کسی عیسیٰ نفس کی تلاش نہیں کرے گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں "اجلی پرچھائیاں" پر جو دیباچہ لکھ رہا ہوں تو کس حیثیت میں اور کیا سمجھ کر ۔ حیثیت میری یہ ہے کہ میں اقبال متین کا دوست ہوں اور اس کے زیر نظر افسانوی مجموعے کا ناشر بھی اور سمجھتا یہ ہوں کہ میری دیباچہ نگاری سے اسے کوئی فائدہ نہ پہنچے گا البتہ اقبال متین نے کیا سمجھ کر یہ گھاٹے کا سودا کیا یہ میں نہیں جانتا ۔ شاید یہ بھی دوستی ہی کی کوئی ادا ہو۔
اقبال متین کی ادبی زندگی کا آغاز شعر گوئی سے ہوا۔ یہ کوئی 43 یا 44ء کی بات ہوگی لیکن وہ شاعر جس کے مستقبل سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کی جاتی تھیں آہستہ آہستہ کجلانے لگا اور چار پانچ سال کے بعد پھر جو اقبال متین سامنے آیا تو وہ شاعری کا لبادہ اتار کر افسانہ نگار بن چکا تھا۔ شکر ہے کہ افسانہ نگار اقبال متین نے ہمیں مایوس نہیں کیا اور "چوڑیاں" جیسی پہلی ہی کہانی لکھنے کے بعد ادھر بیسیوں خوبصورت کہانیاں تخلیق کرکے اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر وہ شاعری ترک کر کے افسانہ نگاری اختیار نہ کرتا تو یقینا اردو افسانہ ایک اچھے فنکار سے محروم رہ جاتا۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر اردو ادب کا جائزہ لیا جاوے تو شاعری اور افسانہ نگاری کی اصناف ہی ایسی ہیں کہ ان میں ہمارے اہل قلم نے زیادہ جولانیاں دکھائی ہیں اور آج بھی اردو شعر و افسانہ کا ایک قابل لحاظ حصہ اتنا بلند ہے کہ ہم اسے فخر کے ساتھ ہندوستان کی کسی بھی زبان کے شعری و افسانوی ادب کے مقابلے ہی میں کیا دنیا کی بہت سی زبانوں کے شعری و افسانوی ادب کے مقابلے میں رکھ سکتے ہیں ۔ اور میں بلا خوف تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد جو افسانہ نگار بھارت اور پاکستان میں ابھرے ہیں اور جنہوں نے اردو افسانہ نگاری کی ناک کو اونچا کیا ہے ان میں ایک اقبال متین بھی ہیں ۔ اب یہ بات دوسری ہے کہ حیدرآباد کی مٹی کی منکسر المزاجی اور آج بھی اردو ادب میں پھیلی ہوئی صوبہ واریت ، گروہ بندی اور احباب نوازی نے اقبال متین کو قابل اعتنا نہ سمجھا ہو اور وہ بھی ان غیر ادبی مظاہروں کی پروا کیے بغیر لکھے جارہا ہو۔
اقبال متین فکر کے لحاظ سے رومانی اور عقیدے کے لحاظ سے ترقی پسند ہے لیکن وہ ادب میں کسی ازم کا قائل نہیں۔ اس کا خیال ہے کہ ادب کو پہلے ادب ہونا چاہئے پھر سب کچھ جو اچھا ادب ہوگا وہ کسی رنگ کاہوتے ہوئے بھی سب کے لیے قابل قبول ہوگا ۔ اس میں درمندی بھی ہوگی اور انسان دوستی بھی اور اس میں غم ذات سے لے کر غم کائنات تک ہر غم کے لئے گنجائش ہوگی ۔ اگر ادب کی متذکرہ بالا تعریف کی تائید میں اقبال متین کی کوئی کہانی پیش کی جائے تو آپ کو اس میں اچھے ادب کی بہت سی خوبیاں مل جائیں گی ۔

یوں اقبال متین کہانی کی کسی بندھی ٹکی ٹکنک کا پابند نہیں لیکن وہ کہانی کو ایک مشاق مشاطہ کی طرح بنا سنوار کر اور نوک پلک سے آراستہ کر کے اہل نظر کے سامنے لاتا ہے ۔ وہ کہانی کے ضروری اجزا کے ساتھ دوسرے فنی نکات پر بھی پوری توجہ صرف کرتا ہے اور خاص طور پر کردار نگاری اور جزئیات نگاری میں تو اسے ید طولی حاصل ہے ۔ وہ ا پنی کہانی کے لئے کبھی کوئی ایسا کردار نہیں چنے گا جس سے وہ نہ مل چکا ہو ۔ بلکہ جب تک خود کردار کی طرف سے یہ اصرار نہ ہو کہ جب تم مجھ سے، مجھ سے زیادہ واقف ہو تو پھر مجھ پر کیوں نہیں لکھتے۔ اس پر اقبال متین کہے گا کہ تمہاری خواہش ہو تو میں تم پر آج ہی کہانی لکھوں گا مگر ایک شرف پر کہ میرا کیمرہ جس میں اکسرے کی مشین بھی لگی ہے اگر تمہارے ظاہری خدو خال کے ساتھ تمہاری روح کے ڈھکے چھپے گوشوں کو بھی اجاگر کردے تو مجھے برا بھلا نہ کہنا اور جب کردار کی طرف سے اقبال متین کو اجازت مل جائے گی تو پھر وہ بڑی بے دردی اور بڑی ہمدردی سے اس کردار کو کاغذ پر منتقل کردے گا۔چنانچہ آپ چھگن چاچا سے گاؤں میں ملیے یا برہان سے اسٹیشن والی سڑک پر ، رام دیا سے آروند گھوش کی تعلیمات پر تبادلہ خیال کیجئے یا شیکھر کے ساتھ ہرن کے شکار پر جائیے، بیگم سے راست اس کے جسم کا مول تول کیجئے یا ہارڈنگ کے ساتھ کوالٹی میں آخری باروسکی پیجئے آپ کو کوئی کردار اجنبی نہیں لگے گا سب آپ کے شناسا ، دوست، عزیز رشتہ داراور پیارے نکلیں گے اور ہوسکتا ہے کہ کسی کردار کے روپ میں آپ کو خود اقبال متین نظر آجائے اور آپ جھجک کر پیچھے ہٹ جائیں ، اگر کہانی میں کردار نگاری کی کوئی اہمیت ہے اور اپنے زندہ کرداروں کے بل بوتے پر کوئی افسانہ نگار زندہ رہ سکتا ہے تو اس مجموعے کی حد تک ہی چھگن چاچا برہان، ماسٹر صاحب اور رام دیال اقبال متین کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔

بعض شاعروں کی طرح بعض افسانہ نگار بھی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس موضوعات کی کمی ہوتی ہے ، اور ان کے فن کا انحصار محض طرز ادا اور حسن بیان پر ہوتا ہے ۔ وہ متضاد اور مختلف موضوعات پر یکساں قدرت کے ساتھ نہیں لکھ سکتے اور بعض افسانہ نگار ایسے ہوتے ہیں کہ تنوع اور بو قلمونی کے شوق میں ایسے موضوعات پر بھی کمندیں ڈالتے ہیں جو ان کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں ، ظاہر ہے کہ پہلی صورت میں اگر ہم کسی ایسے افسانہ نگار کے دوچار افسانے پڑھ لیں تو پھر ہم اس کا کوئی بھی افسانہ پڑھیں یہ محسوس ہوگا کہ یہ افسانہ تو پڑھا ہوا ہے اور دوسری صورت میں ہم کسی ایسے افسانہ نگار کے سب افسانے پڑھ بھی لیں تو دو چار افسانے ہی کام کے نکلیں گے لیکن اقبال متین نہ پہلی شق کے افسانہ نگاروں میں ہے نہ دوسری شق کے اس کے ہاں موضوع کی یکسانیت بھی نہیں ملتی اور ہر طرح کے موضوعات پر خامہ فرسائی کرنے کا شوق فضول بھی نہیں پایاجاتا۔ وہ ایسے ہی موضوعات کا انتخاب کرتا ہے جن سے وہ بوجوہ احسن عہدہ برا ہوسکتا ہے ، یہ احتیاط یہ سنبھلا سنبھلا ہوا انداز دراصل اقبال متین کا مزاج ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں اس کی آبرو بچائے ہوئے ہے۔

شاعری، افسانہ، اور دوسری اصناف ادب کے لئے بھی یہ مسئلہ ہمیشہ متنازعہ فیہ رہا ہے کہ زبان کیسی ہونی چاہئے ۔ عام طور پر سادہ اور سہل زبان کی تائید شدومد سے کی جاتی ہے لیکن زبان سے خیال اور نفس مضمون کے تعلق سے قطع نظر حقیقت تو یہ ہے کہ کسی شاعر، افسانہ نگار یا ادیب کی شخصیت کا اظہار اس کی زبان اور طرز تحریر ہی سے ہوتا ہے لہٰذا کسی فنکاریا ادیب سے یہ مطالبہ کس طرح کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایسی ہی زبان لکھے۔
اقبال متین کی تحریر میں بھی اس کی شخصیت صاف جھلکتی نظر آتی ہے، جو عبارت ہے آرستگی، سلیقہ مندی اور ایک پر تکلف رکھ رکھاؤ سے۔ ساتھ ہی اقبال متین اپنے افسانوں میں حیدرآباد کے محاورے اور مقامی زبان کے الفاظ بھی بڑے چاؤ سے استعمال کرتا ہے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ اہل زبان اس پر ناک بھوں چڑھائیں گے۔ اس خصوص میں اس کا استدلال یہ ہے کہ جب اہل دہلی اور اہل لکھنو اپنے محاورے اور روز مرہ پر اصرارکر سکتے ہیں تو ہم کو کیوں اپنی زبان استعمال کرنے کا حق نہیں دیا جاتا؟ اور کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس استدلال میں کوئی وزن نہیں ہے ؟

پوری انسانی تاریخ حق و باطل نیکی و بدی اور تعمیر و تخریب کی آویزش کا ایک ایسا مرقع ہے جس میں انسان کہیں یزداں کی صورت میں خیر محض بناہوا ہے تو کہیں اہرمن کے روپ میں مجسم شر اور کبھی کبھی تو یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ دراصل وہ ہے کیا؟ لیکن ایک ابن آدم ابن مریم کو صلیب پر چڑھاتا ہے تو ایک ابن آدم رحمت اللعالمین بن کر آتا ہے اور میرے نزدیک اقبال متین کے فن کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ انسان کی تصویر کے تاریک ترین رخ کو سامنے لانے کے باوجود انسان کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے ۔
مجھے بے حد خوشی ہے کہ اقبال متین کے افسانوں کا پہلا مجموعہ مکتبہ"صبا" کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے اور میرا ایقان ہے کہ روز بروز متین کا فن اور نکھرے گا اور سنورے گا۔

29 جولائی 1960ء
سلیمان اریب
اے۔ سی۔ گارڈز، سیف آباد، حیدرآباد دکن۔


ماخوذ از کتاب:
(دیباچہ) "اجلی پرچھائیاں" (افسانوی مجموعہ)
مصنف: اقبال متین
ناشر: مکتبہ صبا ، حیدرآباد۔ سن اشاعت: اگست 1960

A preface of Iqbal Mateen's short-stories book "Ujli Parchai'yaaN"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں