میری مرغیاں - انشائیہ از ڈاکٹر زینت ساجدہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-08

میری مرغیاں - انشائیہ از ڈاکٹر زینت ساجدہ

Meri murghiyaaN. Humorous Essay by Dr. Zeenat Sajida
خدا جانے کیوں بیٹھے بٹھائے مجھے خیال آیا کہ مرغیاں پالی جائیں ۔ کٹ کٹ کرتی اِدھر اُدھر پھریں گی ، آنگن بھرا بھرا لگے گا اور رونق آجائے گی ۔ ادھر میرے جی میں یہ بات آئی اُدھر میں نے اعلان کردیا کہ اب اس گھر میں مرغیاں پلیں گی ۔ سب تو یونہی ہنسنے لگے کہ بھئی شوق ہوتو کوئی ڈھنگ کا ہو ۔ یہ کیا تم مرغیاں پالنے چلی ہو ، ہٹاؤ اسے ، مگر دادی اماں نے صاف کہہ دیا کہ مرغیاں ہمارے ہاں پَل نہیں سکتیں ۔ راس نہیں ۔ خدا جانے یہ کیوں نہیں کہتیں کہ چلو زندگی ختم کردو یہ بھی راس نہیں ۔ اب لگیں واقعات گنوانے ، راشد نے ایک دفعہ ننھے میاں کی پیدائش سے پہلے دس بارہ مرغیاں پالی تھیں ۔ وبا آئی ، ساری مرگئیں ۔ شمسہ نے گاؤں میں سو سے زیادہ پول پال رکھی تھی ۔ ایک سے ایک مرغی خوب صورت اور بانکی مگر وہ ساری یا تو چوری گئیں یا مرکھپ گئیں ۔ اب بھلا پھر یہ جھنجھٹ کون مول لے۔ محنت اکارت جائے تو خوامخواہ دکھ ہو ۔ مجھے یہ سب کچھ سن کر غصہ ہی آگیا ۔ محض اتفاق کی بات ہے کہ مرغیاں مرگئی ہوں گی ، چلو انہوں نے قاعدہ کلیہ بنالیا ۔ میں تو پال کر ہی رہوں گی ، ضرور پالوں گی ، کب تک یونہی اوروں کی لاٹھی پکڑے راستہ ٹٹولوں ۔ کچھ اپنی ہمت پر بھی بھروسہ ہونا چاہئے ۔ زندگی تجربات کا نام ہے اور تجربوں کا آغاز یہیں سے سہی ۔ ۔
خیر ارادہ تو میں نے کرلیا ۔ یوں بھی ارادہ کرنا ہمارا کام ہے خدا اسے پورا کرہی دیتا ہے ۔ منگل کے دن میں نے بندو کو منگل ہاٹ بھیجا اور دو مرغیاں منگوائیں ۔ مناسب یہی معلوم ہوا آغاز چھوٹے پیمانے پر ہی کیا جائے ۔ یہ مرغیاں بھی شاید جنگ لڑنے جارہی ہیں ۔ تب ہی تو اتنی مہنگی ہوگئی ہیں ۔ بندو مرغیوں کی قیمت دے کر ہاٹ سے دو ننھے ننھے چوزے لیتا آیا ۔ انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے ۔ مجھے بڑا بُرا لگا مگر میں کب ہار ماننے والی ہوں ۔ میں نے بھی اطمینان اور مصنوعی خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا ، اچھا ہوا کہ چوزے لے آئے ۔ بہت جلد ہل جائیں گے اور اگر دیکھ بھال کروں گی تو جلد ہی بڑے ہوجائیں گے ۔ بڑے پیار سے میں نے انہیں دانا کھلایا ۔ نوگرفتار گھبرائے گھبرائے اِدھر اُدھر دوڑے دوڑے پھرتے ۔ ماں کی پنکھ سے کتنی جلدی جُدا ہوگئے تھے ۔ قسمت انہیں کہاں سے کہاں کھینچ لائی تھی ۔ یہاں زمین آسمان سب ان کے لیے نئے تھے ۔ اس لیے سہمے سہمے پھرتے تھے ۔ جیسے کوئی نئی نویلی دلہن سسرال آئی ہو ۔ اور ذراسی آہٹ سے چمک جائے ۔ مگر پیار میں وہ قوت ہے کہ جانور بھی رچ جاتا ہے ۔ انہیں گود میں اٹھالیتی ، سینے سے لگاتی ، پیار کرتی اور ان کے دانہ پانی کا خیال رکھتی ۔ وحشت رفتہ رفتہ کم ہوتی گئی ۔ گھر سے مانوس ہونے لگے ، جونہی میں قیمے کی گولیاں بناکر آواز دیتی دونوں دوڑے دوڑے آتے ، پر پھٹپھٹاتے ، گردن لمبی نکال کر اپنی گول گول آنکھوں سے دیکھتے ، جن میں اب اجنبیت نہیں رہی تھی ۔ میں انہیں وہ سب کچھ دے رہی تھی جو ایک انسان حیوان کو دے سکتا ہے ۔ اس کے بدلے شاید ان کے پاس گونگی محبت تھی ۔
دن گزرتے گئے ۔ اللہ آمین سے دونوں پلتے رہے ۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں اس حاسد آسمان کی نظر نہ لگ جائے ۔ اس لیے میں دُعائیں مانگتی کہ یہ ہر شر سے محفوظ رہیں اور ایک سے اکیس ہوجائیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں نے پر پرزے نکالنے شروع کئے ۔ چوزے پن کا دور سلامتی سے ختم ہوگیا ۔ اب مرادوں کے دن لگے ۔ ایک مرغا بنا اور ایک مرغی ۔ مرغا کیسا سینہ تانے ، بازو پھیلائے ، اکڑااکڑا پھرتا اور مرغی ڈری سہمی لجائی شرمائی اس کے ساتھ ساتھ ہوتی ۔ اب دانا کھانے میں دونوں کی لڑائی نہ ہوتی ۔ مرغی دانہ چگتی اور مرغا فخریہ انداز سے سینہ تانے کھڑا رہتا ۔ کیوں نہ ہو آخر میرا مرغا تھا ۔ سوسائٹی کے سارے آداب سے واقف اب یہ اور بات ہے کہ میں ذرا بھی تہذیب والی نہیں ۔
پہلے پہل ہمارے گھر کا بلاوڑ بڑا کودتا پھاندتا اور غُراتا رہا ۔ محبت میں شرکت کسی کو گوارا نہیں مگر میں نے بھی اس کو خوب سمجھا دیا کہ بھائی ہمارے گھر میں تمہارا گزارا اس وقت ہوسکتا ہے کہ۔۔۔ تم سمجھوتہ اختیار کرو ۔ میری مرغیوں کے آگے آنکھیں نہ چمکاؤ ۔ اگر اچھا سلوک چاہتے ہوتو ان سے دب کر رہو ۔ میں انہیں چاہنے لگی ہوں ، تم بھی انہیں چاہا کرو ۔ بس پھر میں تم سے خوش رہوں گی ۔ تمہارے معمول میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ ہمارا بِلاّ بات پہچانتا ہے ۔ موقع محل جانتا ہے ، اس نے بھی اپنی بھلائی سوچی اور سمجھوتہ کرنا ہی بہتر جانا ، بس اب کیا تھا ۔
کچھ دن یونہی گزر گئے ۔ پھر میں نے سوچا یہ ایک مرغا مرغی تو لنڈورے سے لگتے ہیں ۔ایک اور جوڑا خریدنا چاہئے ۔ ہمارے ایک بھائی گاؤں گئے ہوئے تھے ۔ انہیں میرے شوق کا حال معلوم تھا ، اس لیے لوٹتے وقت میرے لیے وہ ایک جوڑا مرغیوں کا لیتے آئے ۔ مرغا اونچا پورا ، لمبا تڑنگا تھا اور مرغی بھی موٹی تازی ! انہیں دیکھ کر جی خوش ہوگیا ۔ چلو دو سے چار ہوئے ۔ آنگن کی رونق دوبالا ہوگئی ۔ مگر لیجئے میرا وہ چین آرام عنقا ہوگیا اچھی خاصی پرسکون زندگی پر رقابت کی پرچھائیاں منڈلانے لگیں ابھی تک دو ہی تھے ۔ میں تجھ سے خوش تو مجھ سے راضی ۔ مگر اب آنگن کی بادشاہی کے دو دعوے دار ہوگئے ۔ پہلے والا اپنی قدامت کا رعب جماتا اور نیا مرغا اپنی قوت بازو پر اکڑتا ۔ دونوں میں لڑائیاں ہونے لگیں ۔ دو دو چونچیں ہر وقت ہوتی رہتیں ۔ میں حیران کہ آخر کیا کروں ۔ دل کو رووں کہ جگر کو پیٹوں ۔ لاکھ سمجھاتی ہوں پر کوئی مانتاہی نہیں ۔ ایک اکڑ کر بانگ دیتا ہے تو دوسرا پھیپھڑوں کی پوری قوت صرف کرکے محلے کے اس سرے سے اس سرے تک خبر کردیتا ہے کہ دیکھو یہاں ہم ہیں ایک نوجوان مرغ ۔ ہمیشہ گردن پھولی اور چونچیں تیز ۔ دو مرغوں میں مُلاّ مُردار۔ میں کبھی اسے بہلاؤں کبھی اسے پھسلاؤں ۔ بھئی تم دونوں میں سے ایک دل بڑا کرلے ۔ وہ نیا نیا آیا ہے ۔ طور طریق کیا جانے تو چھوٹا ہے چپ رہ جا ، وہ آپ ہی سمجھ جائے گا ۔ اس سے کہتی ہوں کہ بھئی دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کیسا ، تو بڑا ہے ۔ شفقت کو شیوہ بنا ، درگزر سے کام لے ۔
ادھر مرغیوں میں بھی جھگڑے ہونے لگے ۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ۔ اب دونوں کی جو چشمک شروع ہوئی تو جینا دو بھر ہوگیا ۔ اچھی خاص نند بھاوج کی لڑائی تھی ۔ اس کی بات پر وہ ناک بھوں چڑھائے ۔ اس کی بات پر وہ منہ بنائے ۔ میں بہتیرا کہوں کہ بھئی تو پرانی ہے ، گھر کی بیٹی ہے ، تو ہی غم کھالے۔ جی بڑا کرلے چار روز میں بہو کو آپ ہی سمجھ آجائے گی ۔ اس سے لاکھ کہوں کہ بہو تو آخر بہو ٹھہری گھر بار تیرا مگر گھر کی بیٹی سے لاگ ڈانٹ کیسی ۔ اس سے اچھا سلوک کرنا ، آنچل پھیلا کر دعا دے گی تو جنم جنم تیری نسل پھیلتی پھولتی رہے گی ۔ مگر قسم لے لو جو ان کے کان پر جوں بھی رینگے ۔ دانا کھلاتے وقت الگ آفت ۔ شام کو ڈربیّ میں بند کرتے وقت الگ مصیبت ۔ ادھر سارے گھر والے میرے سر ہوگئے کہ بھئی قصہ ختم کرو اب ، چھری پھیر دو گردن پر ۔ پہلے ہی بچوں کا شور کیا کم تھا جو تم نے یہ نئی آفت مول لی ، کان پھٹے جاتے ہیں صحن گندا ہوتا ہے ۔ میں اکیلی آخر کس کس کو سمجھاؤں ۔ پھر بھی میرا ہی دل گردہ تھا کہ سہے جاتی ۔ ساحل لاکھ چھینٹے اڑائے سمندر کا کام بردباری ہے ۔ سب لاکھ جھنجھلائیں میں اپنا کیے جاتی ۔ میرے مرغا مرغی تھے ۔ میں جان دیتی تھی ۔ مگر کوئی اور کیوں ان کے نخرے سہتا ۔ ہر ایک گالیاں دیتا ، کوستا کاٹتا ۔ میں سہم جاتی ۔ اٹھان اچھی تھی ۔ بڑے مرغ کا تو پانچ سیر وزن ہوگا ۔ سارے محلے میں اس کا ساگرد مشکل سے ملے گا ۔ جب دونوں مرغیوں نے پہلے پہل انڈے دیئے تو میں نے سارے گھر والوں میں تقسیم کردیئے کہ نظر نہ لگے اور اگلی جھول میں اور زیادہ انڈے دیں ۔ ۔
گھر کے اندر تو میں سو سو جتن کرتی مگر گھر کے باہر تو میرا اختیار نہ تھا ۔ اور نہ یہ میرے کہنے میں ایسے تھے کہ پردے بٹھادیتی مرغ ذات جب تک ادھر اُدھر ٹھونگ نہ مارے ، پنجہ نہ مارے ، پنجہ نہ چلائے چین نہیں پڑتا اتفاق سے کسی دن آنگن کا دروازہ کھلا رہ گیا ، کسی کو کیا غرض پڑی تھی کہ اس طرف دھیان دیتا۔ اِدھر بڑا مرغ چہل قدمی کو باہر نکلا اُدھر کوئی لفنگا لے اڑا ۔ خدا جانے کب سے نیت بُری تھی ۔ ۔۔۔ قیامت میں کیا منہ دکھائے گا ۔ دمڑی کی اوقات ، موا ، اٹھائی گیرا ۔ میں بڑبڑاتی رہی مگر وہ تو چمپت ہوگیا ۔ خدا جانے کاٹ کے کھاگیا یا چوک میں لے جاکر اونے پونے بیچ ڈالا ۔ ان گدھوں کو زعفران کی کیا قدر !
گھر میں بھلا کون مجھ سے ہم دردی کرتا ۔ لوگوں کو تو ہنسنے کا موقع ہاتھ آگیا ۔ کسی کا گھر جلے اور یہ آگ تاپنے پہنچ جائیں ۔ دادی اماں نے تو کہہ دیا ۔ میں نہ کہتی تھی مرغیاں مت پال ، راس نہیں ۔ لے اب چکھ مزا ۔ جانے کس مفت خورے کے ہتھے چڑھ گیا کاٹ کر کھالیتے تو چیز ہوتا ۔
میں جلی بھنی بیٹھی تھی ۔ اب جو گھر والوں نے فقرہ بازی شروع کی تو ضد آگئی ۔ سب چھیڑنے لگے کہ چلو بھئی کسی گاؤں میں جاکر اور مرغیاں پالو ۔۔۔ اتفاق کی بات ہے دوسرے دن منگل تھا ۔ میں نے اب کی دفعہ مرغیاں منگوائیں ۔ مرغوں کی لڑائیاں چکاتے چکاتے تھک گئی تھی ۔ مرغیاں لڑیں گی تو پھر مل جائیں گی ۔ لوگ کیا چار چار بیویاں نہیں سنبھال کر رکھتے ۔ مرغا بھی ڈانٹ ڈپٹ کر رعب جماکر ، پیار محبت کا ڈھونگ رچا کر کسی طرح انہیں قابو میں رکھ ہی لے گا ۔
ایک مرغی تو بڑی چست ، چالاک ، شوخ اور شریر تھی ۔ ابھی ادھر ابھی اُدھر ۔بجلی کی سی تڑپ تھی اس میں ۔ دوسری پاپری تھی اور سفید ۔ بڑی سنجیدہ اور احساس حُسن سے مغرور بھی ۔ ایک پاؤں اٹھاتی ایک رکھتی ۔ عجب بے نیازی سے ٹہلا کرتی ۔ ایسی بے داغ اجلی کہ بگلا شرما جائے ۔ دونوں پل پل دن دن بڑھنے پر پُرزے نکالنے لگیں ۔ اب گھر والوں کے منہ میں بھی پانی بھر آیا ۔ اندازہ کرتے کہ حلال کی جائے تو کتنا لطف آئے گا ۔ ادھر میں ان کی سن سن کر جلی جاتی ۔ خدا جانے کیسی کیسی انہوں نے دعائیں مانگیں کہ پہلے ہی جھول میں دونوں نے چمڑے کا انڈا دیا ۔ دادی ماں کہتی ہیں کہ ایسی مرغیاں منحوس ہوتی ہیں ، اس لیے فوراً گلے پر چھری پھیردینی چاہیئے ۔ مفت خوروں کی مُراد برآئی ۔ کسی نے مجھ سے ہم دردی کی بات نہ کہی ۔ ایک نے مرغیاں پکڑیں ۔ دوسرے نے چھری تیز کی اور لیجئے اللہ اکبر مجھ سے دیکھا نہ گیا ۔
ابھی ابھی اٹھلاتی پھرتی تھیں ، ابھی خاک و خون میں لتھڑی پڑی ہیں ۔ ہائے میری نازک مزاج ، مغرور شہزادی ! ہائے میری البیلی سجیلی ، بانکی مہارانی ۔۔۔ !!
میں مرغیاں نہیں کھاتی ، نہ ان کی بریانی نہ ان کا سالن ۔ اس لیے اوروں نے دکھا دکھا کر خوب مزے لیے ۔ میں نے کھلا کھلا کے خوب موٹا کیا تھا اور وہ لوگ ترمال اڑا رہے تھے ، چٹخارے لے رہے تھے ۔ کبھی دو دانے نہیں ڈالے تھے ۔ اب ہضم کرنا دیکھو ۔ ہلدی لگی نہ پھٹکری رنگ چوکھا آیا ۔ جب چین سے کھاپی چکے تو میرا شکریہ ادا کرنے آئے ۔ جی میں آیا کہ خوب کھری کھری سناؤں مگر یہ سوچ کر چپ ہورہی کہ مرغیاں تو ہاتھ سے گئیں اب بخشش سمجھ کر ان کو احسان مند کیوں نہ بنالوں ، میں نے بھی حاتمی جتائی مگر جی بُرا بُرا ہوتا رہا ۔ کئی روز تک کھانا ٹھیک سے کھایا نہ گیا ۔ آنگن سونا سونا لگتا تھا ۔ اب بھی دو مرغیاں اور ایک مرغ آنگن میں پھرتے ہیں لیکن جو سب کے سب ہوتے تو کتنی رونق ہوتی ۔ ۔۔۔ اب بھی کوئی نہ کوئی پوچھ لیتا ہے کہ ان تینوں کا گوشت کتنا نکلے گا ۔ ۔
شرم نہیں آتی انہیں ۔ مگر میں کہتی ہوں بکنے دو انہیں ۔ اچھا ہوا ان لوگوں کو کھلادیا ورنہ زہر ہوجاتیں اور یوں بھی گھر کی بلا جانور پر ٹلتی ہے ، بار بار دل کو سمجھاتی ہوں ۔۔۔ سمجھتے سمجھتے سمجھ جائے گا ۔ اور لو یاد ہی نہ رہا ،کل منگل ہے اگر دو مرغیاں اور منگوالوں تو ۔۔۔ !

ماخوذ:
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد)۔ جلد:42، شمارہ:2۔ شمارہ: فروری 2009۔

Meri murghiyaaN. Humorous Essay by: Dr. Zeenat Sajida

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں