میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:20 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-19

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:20



ڈیوڈ میتھوز کی یاد اس لئے آئی کہ اس شام تمہارے ساتھ کوئی انگریزنوجوان تھا اور بڑی روانی کے ساتھ اردو بول رہا تھا ۔ اور تم پتلون، شرٹ میں بڑی اسمارٹ لگ رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے تم کوئی بڑی جادوگرنی ہو۔ ایک باربھی اگر کوئی تمہاری سرحد میں آجائے تو بس اس پر تمہارا جادو چل گیا۔ کہیں بنگال کا کوئی جادو تو تمہارے ہاتھ نہیں آیا۔
واقعی پتلون میں تم بڑی اسمارٹ نظر آرہی تھیں۔ تمہیں اس لباس میں دیکھ کر پھر میں نے اپنی رائے تبدیل کی ۔ اور وہ یہ کہ صرف ساڑی ہی نہیں بلکہ پتلون بھی تمہارے لئے ایجاد ہوا حالانکہ یہ تمہارا لباس نہیں ہے ۔
تم ہر رنگ اور ہر روپ میں نظر آتی ہو ۔ لیکن تم اپنی انفرادیت کو کوبھی نہیں کھوتیں۔بہتے ہوئے پانی کی طرح ہوتی تم جہاں جہاں سے گزری ہو اس خطہ زمین کو سیراب کرتی ہو اور پھر ایک کونپل کی طرح اپنا سر اٹھاتی ہواور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سایہ دار درخت بن کر پھیل جاتی ہو۔
اصل میں تمہارا لباس تمہارا رسم الخط ہے اور یہی بات دنیا کو ہر زبان کے بارے میں کہی جاسکتی ہے اور کسی بھی زبان کو اپنے رسم الخط کے ساتھ پھلنے پھولنے اور زندہ رہنے کا حق حاصل ہے لیکن کسی بھی زبان کو یہ مشورہ دینا کہ وہ اپنا رسم الخط بدل لے ایسا ہی ہے جیسے کسی فرد کو یہ کہنا کہ وہ اپنے کپڑے اتا ر کر دوسروں کے کپڑے پہن لے! جہاں تک میرا معاملہ ہے میں تمہارا تمہارے لباس کے بغیر تصور ہی نہیں کرسکتا۔ تم اپنے رسم الخط کے دائروں، قوسوں اور نقطوں میں سانس لے رہیہو۔ کوئی مجھ سے پوچھے تو میں یہی کہوں گا کہ یہ صرف تمہارا لباس نہیں بلکہ تمہارے جسم کے اوپری وہ مہین تہہ ہے یا جلد ہے جس کے نیچے شر یانوں کا ایک جال پھیلا ہوا ہے ۔ اگر جلد ادھیڑلی جائے تو باقی کیا رہ جائے گا ! صرف ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ یا پھر ننگی اینٹوں کی کوئی دیوار !
رسم الخط کو بدلنے کا مشورہ دینے والے اردو کے وہ میر جعفر اور میر صادق ہیں جو جوہر زمانے اور ہر دور میں پیداہوتے ہیں۔وہ تاریخ کا ایک حصہ نہیں ہوتے بلکہ ہر وقت آگے پیچھے یہاں وہاں موجود رہتے ہیں۔ ان کا ایک نام نہیں کئی نام ہوتے ہیں۔ان کو پہچاننا اتنا ہی مشکل ہے جتنا خود کو پہچاننا،دیکھو۔۔۔۔ دیکھو۔
وہ کون آرہاہے ۔
وہ میر جعفر ہے ۔۔ یہ میر صادق ہے ۔
دونوں ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں،معاملہ اس طرح طے ہوتا ہے کہ آپ یونیورسٹی کے خرچ پرمجھے کسی سیمنارمیں بلالیئے، میں آپ کو بلاتا ہوں۔بقول شاعر کیا خوب سودا نقد ہے، اس ہاتھ سے اس ہاتھ لے ۔
واہ واہ۔۔۔ گویا مشاعرہ ہوگیا۔
مشاعرے کے بچے! میرااحترام کرو، میری قدر کرو،میں کوئی ایسی ویسی چیز تو نہیں ہوں جو کسی کونے میں پھینک دیاجاؤں۔ میں بر صغیر کانہیں بلکہ بین الاقوامی شہرت کا حامل اردو کا نقادہوں فائیو اسٹار ہوٹل میں میرا انتظام ہونا چاہئے اور ایک بات یاد رہے کہ میں ایسی ویسی شراب کو ہاتھ نہیں لگاتا ، صرف فارن کی ہی پیتا ہوں۔ آخر معیار بھی تو کوئی چیز ہے ۔
میر جعفر اورمیر صادق کی تنگ اور سیاہ پیشانی پر یہی تحریر لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ اس تحریر کو پڑھو۔ سمجھو اور دیکھو یہ کون آرہا ہے ۔
یہ اردو کا دلال ہے ۔ اسے کون نہیں جانتا۔
ہمیشہ سوٹ میں ملبوس۔گہرے سرخ رنگ کی ٹائی کی گرہ کو کبھی کھولتا ہوا اور کبھی باندھتا ہوا اور باربارکلائی پرباندھی ہوئی گھڑی پرنظر ڈالتا ہوا جیسے اسے ضروری کام سے کسی اور جگہ جانا ہے ۔ اسے دیکھ کر لوگ تبصرہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایک قہقہہ سارے میں پھیل جاتا ہے ۔
ہلو مسٹر بروکر۔۔۔ ہاؤ آر یو؟
دیکھو مجھے ایسا مذاق بالکل پسند نہیں۔ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔
یو دلال شٹ اپ۔۔۔۔!!
یو شٹ اپ!!!
دلال بھاگ جاتا ہے ۔ لیکن چند ہی لمحوں کے بعد پھر لوٹ کر آتا ہے اور ہلوکہتا ہوامسکراکر ہاتھ ملاتا ہے ، غیرت نام کی کوئی شئے اس کے یہاں نہیں ہے ۔ اور یہ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے چند اور دلال ہیں جو ایک بڑے دلال کے تنخواہ یاب ملازم ہیں اور جن کا کام یہی ہوتا ہے کہ اردو کے شاعروں کو بہلا پھسلا کر اور چند ترغیبات دے کر کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کی برتھ ڈے پارٹیوں میں لے جائیں اور اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کر کے حسب مرضی ٹنڈور پاس کروالیں۔
بھئی اردو غزل کا جواب نہیں۔اس کا جادو صرف سر پر چڑھ کر نہیں بلکہ دل میں اتر کربولتاہے ۔ اس طرح بے چارے شاعروں کوپتہ ہی نہیں چلتاکہ کس طرح بیچ کر دلال ان کا استحصال کررہا ہے اور جس دن پتہ چل جائے اس دن اس کی دکان بند ہوجائے لیکن اس کا امکان بہت کم ہے کیوں کہ دلال شاعروں کی کمزوری سے واقف ہے۔ اس لئے انہیں دیکھتے ہی شراب کی بوتل اپنی زنبیل سے نکالتا ہے اور اوپر اٹھا اٹھا کر انہیں بتا تا ہے کہ دیکھو ، ادھر دیکھو، اسکاچ، وسکی، رم، میری زنبیل میں کیا کچھ نہیں ہے ۔
پھر بجھے چراغ ایک ساتھ روشن ہوجاتے ہیں۔ مارے خوشی کے شعرا جھومنے لگتے ہیں۔
تمہیں پتہ نہیں، خود تمہیں بھی ہر رات وہ کسی نہ کسی دلال کے ہاتھ بیچ دیتا ہے ۔


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-20

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں