میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:19 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-18

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:19



جلسے کے ختم پر کالج کے اسٹوڈنٹ آٹو گراف لینے کے لئے ڈیوڈ میتھوز پر ٹوٹ پڑے ، جب ان سے چھٹکارا ملا تو شہر سے دور ایک اونچی پہاڑی پر واقع ایک اونچی حویلی میں رہنے والے ایک بڑی توند والے صاحب نے آگے بڑھ کر کہا:
"مسٹر ڈیوڈ میتھوز، آج آپ میرے یہاں ڈنر پر مدعو ہیں"۔
میں نے مداخلت بیجا کرتے ہوئے ان سے کہا:
"حضور! آپ کب تک اردو کے ادیبوں، شاعروں ، فن کاروں اور اسکالروں کا اغوا کرتے رہیں گے؟ اجی جناب انہیں کھلی ہوا میں گھومنے پھرنے دیجئے ، یہ آپ کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ میرے ساتھ جائیں گے۔ انہیں ہمارے ساتھ رہنا چاہئے"۔
پھر میں نے گھومتے ہوئے ڈیوڈ میتھوز کو دیکھتے ہوئے کہا: "السلام علیکم"
"وعلیکم السلام" ڈیوڈ نے اپنی چمکیلی آنکھوں کو اور چمکاتے ہوئے مجھے دیکھ کر کہا ۔
میں نے کہا "ڈیوڈ صاحب! آپ مجھے نہیں جانتے ، میں اس امیر زبان کا ایک غریب کہانی کار ہوں ۔ میرا نام عاتق شاہ ہے"۔
"جی جی" اس نے مسکراتے ہوئے بڑی حیرانی اور اچنبھے سے مجھے دیکھا جیسے کہتا ہو:
میں آپ کو نہیں جانتا اور آپ جیسے کئی عاتق شاہوں کو میں نہیں جانتا۔ اردو ایک عظیم زبان ہے اور اسکے لکھنے والے بر صغیر اور دنیا جہان میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ابھی مجھے آپ کو پڑھنا ہے، سب کو پڑھنا ہے اور بہت کچھ سیکھنا ہے ۔

ڈیوڈ نے مصافحے کے لئے اپنے ہاتھ کو بڑھایا ۔میں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا، میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس وقت میرے ساتھ کسی بھی ہوٹل میں چائے پئیں۔
بڑی خوشی سے ۔۔ڈیوڈ نے کہا۔
اور پھر ہم ساتھ ساتھ چلنے لگے ۔
اردو بزم کا سکریٹری اور صدربھی ہمارے ساتھ ساتھ تھا۔
وہ موٹے صاحب جنہیں میں نے سخت الفاظ میں میتھوز کو لے جانے سے روکا تھا ہمارے پیچھے پیچھے اپنی امپالا کا ر آہستہ آہستہ ڈرائیو کرتے ہوئے تشریف لارہے تھے ۔
گلی کی نکڑ پر میں دائیں طرف مڑ گیا اور میرے ساتھ ڈیوڈ اور طالب علم بھی۔ آگے ذرادور چلنے کے بعد ہمیں ایک ہوٹل نظر آئی ۔ہم رک گئے ۔ کار قریب آنے کے بعد میں نے ان صاحب سے درخواست کی، حضور والا ، تشریف لائیے اور ہمارے ساتھ چائے نو ش فرمائیے۔
اسٹرنگ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہوں نے بڑی شانِ بے نیازی سے جواب دیا ، مجھے معاف فرمائیے ، ایسی تنگ اور گندہ ہوٹل میں، میں تو کیا میرے نوکر بھی چائے پینا پسند نہیں کرتے ، آ پ شوق فرمائیے۔
مجھے ہنسی آگئی اور جواب دئیے بغیر ہم سب ہوٹل میں گھس گئے ۔
ہوٹل غریب کے گھر کی طرح بھری بھری تھی ۔ اتفاق سے سامنے کی خالی تھی ۔ لیکن وہاں کرسیاں نہیں تھیں ۔ اس لئے آس پاس کی کرسیوں کو میز کے قریب لاکر ہم سب بیٹھ گئے ۔
بوائے کو چائے کا آرڈر دیتے ہوئے میں نے کہا، اردو کے شاعر، ادیب اور فن کار آپ کو ایسی ہی ہوٹلوں اور بھٹیار خانوں میں ملیں گے ۔ سچ پوچھئے تو یہ آج کل اردوتہذیب کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ وہ کوئی اور ہیں جو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں اردو کا جام صحت پیتے ہیں ۔ میرا مطلب آپ سمجھ رہے ہیں نا!
جی ، جی۔
گرم گرم چائے کی چسکی لیتے ہوئے میں نے کہا ڈیوڈ صاحب، تو سنائیے اردو سے اپنے عشق کی داستان!
ڈیوڈ آہستہ آہستہ چائے پیتے ہوئے بولے۔ لندن میں میرا ایک دوست تھا، میں اس کے یہاں اکثر آیاجایا کرتا تھا۔
توپھر۔۔۔ مجھے کہانی سننے کالطف آنے لگا ۔
میرے دوست کی باجی بڑے مزے مزے کی باتیں کرتی تھیں۔ اس لئے کہ اب وہ لندن میں نہیں ہیں۔ کراچی سے ایم۔ بی۔بی ۔ایس کرنے کے بعد وہ لندن آئیں اور ایم ۔ ڈی کی تکمیل کے بعد وہ اپنے وطن پاکستان چلی گئیں ۔
ان کی زبان سے اشعار سننا مجھے بڑا اچھا لگتا تھا ۔ ان دنوں میں شعر کامطلب تو نہیں سمجھتا تھا لیکن یوں لگتا تھا جیسے کوئی شے میرے دل اور میری روح میں اترتی جارہی ہے !
باجی سے جب میں اشعار کا مفہوم پوچھتاتویوں محسوس ہوتا تھا جیسے اردو کا ہر شاعر ، ورڈ سوتھ، تیلی اور کیٹس سے کم نہیں۔ مجھے نشہ آجا ہے ایک شام میں نے اپنی باجی سے کہا، کیا کہا میں بعدمیں بتاؤں گا۔ لیکن لفظ اپنی کی وضاحت کرتا چلوں اور وہ یہ کہ باجی کو میں سچ مچ اپنی بہن سمجھنے لگا تھا۔ اور اب بھی سمجھتا ہوں ۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ ایک شام میں نے کہا، باجی مجھے اردو پڑھائیے نہ!
باجی کھلکھلاکر ہنسیں اور ہنس کر بولیں ، واہ میرے شیر! پھر اس کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا، کیا واقعہ تم سنجیدہ ہو؟
پھر آپ نے کیا کہا؟ بیچ میں، میں پوچھ بیٹھا۔
عرض کررہا ہوں ، میتھوز بولے ، میں نے کہا، باجی! کبھی آپ نے مجھے نان سیریس دیکھا ہے؟ میں واقعی سنجیدہ ہوں۔
باجی نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلاکر کہا پتر! پھرتو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، ہم تم کو اپنی شرن میں لیتے ہیں۔ لیکن یہ بتاؤ کہ تم ہم کو گرودکشنا کیا دو گے؟
ہندوستانی فلموں کے ہیرو کی طرح اپنے سیدھے ہاتھ کو سینہ پر رکھ کر ذرا ساسامنے کی طرف جھکتے ہوئے میں نے کہا۔ میں اپنی آتما کو دیوی جی کی چرنوںمیں بھینٹ کردوں گا۔۔
بچہ ہم کیا کریں گے، تمہاری آتما کولے کر، کسی شان دار ہوٹل میں بھوجن کا انتظام کرو اورہمارا آشیر واد لو۔
جو حکم دیوی جی۔
بزم کا سکریٹری ، صدر اور ہم سب ہنس پڑے۔
میتھوز نے اپنی داستان کو جاری رکھتے ہوئے کہا، اس طرح میں اردو کی طرف آگیا۔ اس کے بعد میں نے یونیورسٹی تعلیم کی طرف توجہ دی ۔اس وقت میں جوبھی ہوں اپنی ڈاکٹر باجی کی وجہ سے ہوں۔ میں ڈیوڈ!
ہوٹل کے سامنے کھڑی ہوئی امپالا کار خاموش کھڑی تھی ۔اور اسٹرنگ پر سر رکھا ہوا وہ موٹا شخص سو رہا تھا ۔سو نہیں رہا تھا بلکہ خراٹے بھررہا تھا ۔ حیرت ہے کہ حضرت تیس، پینتیس منٹ کے اندر ہی سو گئے ۔ میں جیسے بڑبڑایا۔
شاید میری آواز سن کر وہ موٹے صاحب جاگ گئے اور اس طرح چونک کر اٹھے جیسے شہر میں زلزلہ آگیاہ و۔
میتھوز نے ہم سب سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا، انشاء اللہ پھر کبھی ملاقات ہوگی ۔۔۔ خدا حافظ۔
خدا حافظ۔ ۔۔۔ خدا حافظ۔
خدا حافظ! ہم سب نے کہا۔


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-19

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں