ٹھگس آف ہندوستان - فلم جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-11

ٹھگس آف ہندوستان - فلم جائزہ

thugs-of-hindostan
آزادی گناہ ہے تو قبول ہے سزا
اب تو ہوگا وہی جو ہوگا منظورِ خدا

یش راج فلمز کے بینر تلے وجے کرشنا اچاریہ نے ٹھگس آف ہندوستان [Thugs of Hindostan] کی ڈائریکشن دی ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسر آدتیہ چوپڑا ہیں جو مشہور ڈائریکٹر پروڈیوسر یش چوپڑا کے فرزند ہیں۔ یہ فلم 8 نومبر 2018 کو ریلیز کی گئی ہے۔ فلم کی کاسٹ میں لیجنڈ اداکار امیتابھ بچن، عامر خان، کترینہ کیف اور فاطمہ ثناء شیخ بحیثیت مرکزی کردار شامل ہیں۔
یہاں فلم کی کہانی کے بیان کے بجائے کچھ حقائق قارئین کے سامنے رکھنا ہے جو ان دوست احباب کی آرا پر مشتمل ہیں جنھوں نے میرے ساتھ یہ فلم دیکھی ہے۔

فلم میں زفیرہ (ثنا شیخ) کے باپ کو، جو کہ ایک راجہ ہے، اس کی بیوی اور باقی لوگوں سمیت ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک ظالم آفیسر John Clive مار دیتا ہے یہ کردار بھی ایک حقیقی برطانوی شہری Lloyd Owen نے نبھایا ہے۔ اتفاق سے زفیرہ اور خدا بخش آزاد (امیتابھ بچن) بچ جاتے ہیں اور انگریزوں کے خلاف آزادی کی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔
عامر خان (فرنگی) ایک ٹھگ ہے جسے آزاد کو پکڑنے کے لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ ایک ٹھگ کو دوسرا ٹھگ ہی پکڑ سکتا ہے۔ اب کیا فرنگی آزاد کو پکڑے گا یا آزاد اسے اپنے ساتھ شامل کرے گا؟ یہ بات فلم دیکھ کر ہی جانی جا سکتی ہے۔

بالی ووڈ کی یہ فلم، گزشتہ انگریزی فلموں پائریٹس آف کاریبین (ریلیز: 2003) [Pirates of the Carribean] اور لارڈ آف رنگس (ریلیز: 2001) [Lord of the Rings] کے ساتھ ساتھ فلم 300 (ریلیز: 2006) کا مکسچر ہے۔ کافی مواد اس میں ہندی سینما کی سپرہٹ فلم "کرانتی" سے بھی لیا گیا ہے۔ انگریزوں کے ساتھ اس فلم میں وہ المیہ ہوا جس کے متعلق وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ دلیپ کمار کی 'کرانتی' ہو، امیتابھ بچن کی 'مرد' یا پھر عامر خان کی 'لگان' سب میں انگریز کافی تعداد میں اور کافی مضبوط نظر آئیں گے مگر اس فلم میں دو ہی سفید فام اشخاص نظر آتے ہیں اور باقی سب ہندوستانی فوجی ہیں۔ گورے بھی اتنے بیوقوف کہ بلی بھی ان سے زیا دہ سمجھدار ہوگی۔ فلم کے گرافکس بہت ہی کمزور ہیں اور نہایت بناوٹی لگتے ہیں۔ سمندر کے سین تو لگتا ہے کسی Swimming Pool میں بنائے ہیں۔ فلم کے دوران کچھ ناظرین موبائل پر Games کھیلتے نظر آئے تو چند افراد Social media پر مصروف رہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ا سکرپٹ کتنا کمزور ہے جو دیکھنے والوں کو باندھ کر نہ رکھ سکا۔

عامر خان کے بہت سے چاہنے والوں کے لیے یہ فلم غالباً ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوگی کیونکہ عامر خان کی پچھلی تمام فلموں سے یہ فلم بہت پست معیار ہے جس میں عامر خان فرنگی کے کردار میں قابل ذکر اداکاری نہ کر پائے۔ فلم میں ان کا پہلا سین بہت اچھا ہے اور کچھ دیر تک ان کی اداکاری ٹھیک لگتی ہے مگر بعد میں اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ عامر خاں اس فلم میں Johnny Depp کے لازوال کردار Captain Jack Sparrow سے متاثر نظر آئے۔ وہ Mr. Perfectionist کے بطور جانے جاتے ہیں مگر اس فلم میں وہ بالکل Out of Colour رہے۔
وہیں امیتابھ بچن نے خدا بخش آزادکے کردار میں ثابت کیا کہ وہ آج بھی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے باپ ہیں، لہذا پوری فلم میں وہی چھائے نظر آئے۔ جب جب وہ مکالمہ ادا کرتے ہیں تو ناظرین کو بےساختہ ان کی پرانی فلمیں 'مرد' اور 'دیوار' کی یاد آتی ہے۔ امیتابھ بچن یش راج فلمز کے لیے 'کالا پتھر' اور 'ترشول' میں بھی کام کر چکے ہیں جو سپر ہٹ فلمیں تھیں مگر افسوس کہ اس فلم کو وہ ڈوبنے سے نہ بچا پائے۔

کترینہ کیف کے ساتھ جو زیادتی فلم دھوم-3 میں کی گئی تھی، یعنی مختصر رول اور دو نغمے دے کر، اس بار اس سے بھی زیادہ زیادتی کی گئی۔ حالانکہ کترینہ کئی بار کہہ چکی ہیں کہ وہ اب ایسے کردار ادا کریں گی جس میں وہ خود کو منوا سکیں۔ مگر اس فلم میں ان کو کچھ سین ملے بھی تو ان مناظر میں بھی وہ اپنے مکالمے ٹھیک طرح سے نہیں ادا نہیں کر پائیں۔ البتہ ایک چیز جو انھوں نے سیکھی ہے وہ رقص ہے۔ ثریا والا گانا شاید بوڑھوں کو بھی اپنی جوانی یاد دلا دے۔ حالانکہ کوریوگرافر پربھو دیوا نے بہت ہی مردانہ قسم کا رقص سکھایا مگر کترینہ نے بہت محنت سے اس پر رقص کیا ہے۔

فاطمہ ثناء شیخ فلم کی مرکزی اداکارہ ہیں اور انھوں نے بہت ہی اچھے طریقے سے زفیرہ بیگ کا کردار ادا کیا۔ وہ بہت حسین لگتی ہیں ان کی مکالمہ نگاری اور ایکشن بہت عمدہ رہا۔ جس طرح امیتابھ بچن نے عامر خان کے کردار کو دبا دیا اسی طرح فاطمہ ثناء شیخ نے کترینہ کو اپنی متاثرکن اداکاری سے گہنا دیا۔
فلم کا دورانیہ دو گھنٹے 45 منٹ ہے اور ہاف ٹائم تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد آتا ہے۔ تھوڑا سخت ایڈیٹنگ کے بعد فلم کے دورانیے کو سوا دو گھنٹے تک محدود کیا جا سکتا تھا۔

فلم کی موسیقی عمدہ ہے۔ ثریا والا گانا اور منظور خدا بہت اچھے نغمے رہے۔ ایک گانا امیتابھ بچن اور عامر خان پر بھی فلمایا گیا ہے مگر وہ کوئی خاص نہیں لگتا۔
فلم کا ایکشن بہت کمال کا ہے اور یہی ایک چیز ہے جس میں ہر کردار نے بہت محنت کر کے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے۔ امیتابھ بچن کے چہرے پر غصہ، انتقام اور جذبات کی شدت کو جب ایکشن میں دیکھیں گے تو فلم بین کو وہی پرانا 'شہنشاہ' والا کردار یاد آئے گا۔ عامر خان نے بھی اچھے ایکشن سین کیے اور فاطمہ شیخ کی پھرتی اور تیر اندازی کا انداز بہت باکمال رہا اور کترینہ نے اپنی ناز و ادا سے بہت سے لوگ مار گرائے مگر اسکرین کے اس پار۔

وجے اچاریہ نے ہی اس کہانی کو لکھا ہے اور کہاں بیٹھ کر کس حالت میں لکھا وہ پتہ لگانا پڑے گا کیونکہ باہوش و حواس ایسی ڈائریکشن نہیں دی جا سکتی۔ فلم میں اتنا سسپنس ہے کہ بس شرلک ہومز کی فلمیں بھی آپ بھول جائیں۔ اگر اتنی بڑی اسٹار کاسٹ نہ ہوتی تو یہ فلم ایک ہفتے سے پہلے سینما گھروں سے اتر جاتی۔

A review on Thugs of Hindostan (Bollywood film).

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں