مولانا آزاد - حالی اور شبلی کی نظر میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-11

مولانا آزاد - حالی اور شبلی کی نظر میں

azad-hali-shibli
مولانا ابوالکلام آزاد نے 14 سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوکر ایک امتیازی درجہ عالمانہ حاصل کرلیا تھا۔ لہذا علم دوست طبیعت ہونے کی وجہ سے بہت جلد ادبی افق پر نمایاں ہوگئے ، یعنی 15 سال کی عمر سے آپ کی ادبی زندگی کا دور شروع ہوگیا۔
سب سے پہلے آپ نے ایک ماہوار جریدہ "لسان الصدق" کے نام سے جاری کیا۔ جس میں ادبی، اخلاقی، تمدنی اور معاشرتی جواہر پارے اس دریا دلی سے بکھیرنے اور لٹانے شروع کئے کہ مولانا الطاف حسین صاحب حالی رحمۃ اللہ علیہ جیسی برگزیدہ اور مانی ہوئی ہستی سے جنہیں آسمان علم کا روشن ستار کہنا بھی ناکافی ہے اور جن کی علمیت و قابلیت کا ڈنکہ اس وقت دور دور بج رہا تھا داد دیئے بغیرنہ رہے ۔

مولانا آزاد، مولانا حالی کی نظر میں
مولانا حالی صاحب مولانا آزاد سے 1904ء میں ملاقی ہوئے ۔ تو مولان حالی صاحب کو یہ یقین ہی نہیں ہوا کہ 61 سال کا لڑکا "لسان الصدق" جیسے بلند پایہ اور فصیح و بلیغ اخبار کا ایڈیٹر ہوسکتا ہے ۔
لیکن جب دو بدو گفتگو اور تبادلہ خیالات کا موقع آیا تو مولانا آزاد کی برق صفت تقریر اور معانی خیز بیان اور عالمانہ طرز گفتگو نے مولانا حالی کو مان لینا پڑا کہ وہ گراں بہا موتی اور قیمتی جواہر ریزے جو الفاظ کی شکل میں "لسان الصدق" کے صفحات پر میں دیکھتا رہا ہوں یقینا اسی مجلاد ماغ کی پیداوار ہے۔
یہ یقین ہوجانے کے باوجود مولانا حالی علمی اور عمری کمال بزرگی کے باوجود مولانا آزاد کے کمال علمی کے عمر بھر مداح و معترف ہی نہیں رہے بلکہ ہمیشہ اپنے ہمپایہ قدرومنزلت اور وقار و منزلت کا مستحق سمجھتے رہے ۔

مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شبلی کی نظر میں
مولانا شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی بلند شخصیت اور بزرگانہ علمیت سے کون واقف نہیں، آپ کا زمانہ اور مولانا حالیؒکا زمانہ ایک تھا۔
گویا اس وقت افق علم کے یہی دو درخشندہ ستارے اپنی ضو سے اس تاریکی کو پاک کر رہے تھے جو سیاست اسلامی پر غلاف در غلاف کی شکل میں چھائی ہوئی تھی کہ خوش قسمتی سے تیسرا روشن ستارا اورطلوع ہوگیا یعنی مولانا آزاد۔ چنانچہ مولانا آزاد کے وجود مسعود کو یہ ہردو بزرگ غنیمت سمجھتے رہے اور خوش تھے کہ ہمارا ہاتھ بٹانے والا قدرت نے ایک اور بھیج دیا۔
مولانا آزاد نے 14 سال کی عمر میں ہی مولانا شبلی سے خط و کتابت شروع کردی تھی اور کہنہ تجربہ کاری و علمی پختہ کاری سے اقتاس علم و تصوف کررہے تھے ۔ اور ساتھ ساتھ"لسان الصدق" جیسے ٹھوس اور بلند معیار پرچہ کی ایڈیٹری انجام دیتے ہوئے اپنے انتہائی مصروف وقت کا کچھ حصہ نکال کر لاہور کے مشہور رسالہ"مخزن" کے لئے مضامین بھی لکھ کر بھیجتے رہے ۔

مولانا شبلی اور مولانا آزاد کا ایک لطیفہ
قاعدہ ہے کہ جب تک دو اشخاص صرف خط و کتابت ہی کے ذریعہ تبادلہ خیالات کرتے رہیں اور بالمواجہ گفتگو کا موقع نہ پیدا ہواس وقت تک تحریر ہی سے کاتب کے اخلاق، خیالات اور علمی وسعت کا اندازہ لگایاجاتا ہے ۔ علاوہ ازیں تصویر کاتب کی ایک فرضی تصویر بھی خواہ مخواہ قائم ہوجاتی ہے جس کی عمر، خدو خال اور قدوقامت سب کچھ صرف تصور ہی کی ترجمانی پر مقرر ہوکر ذہن میں ایک خاکہ قائم ہوجاتا ہے اور وہ اس وقت تک زائل نہیں ہوتا جب تک کہ کاتب مجسم روبرو نہ آجائے چنانچہ یہی صوت یہاں بھی قائم تھی۔
مولانا شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا آزاد کو پہلے کبھی دیکھا نہ تھا صرف خط و کتابت جاری تھی۔ لہذا مولانا آزاد کی فضل و کمال سے بھری ہوئی ٹھوس تحریر اور بزرگانہ و عالمانہ خیالات اور پختہ کاری کی جھلک لئے ہوئے انداز بیان نے مولانا شبلی کے ذہن میں مولانا آزاد کی جو تصویر یا خاکہ قائم کیا وہ ایک بزرگانہ اور معمرانہ تھا وہ سمجھے ہوئے تھے کہ مولانا آزاد کوئی معمر بزرگ ہیں جو کہنہ مشقی اور تجربہ کاری میں ضرب المثل ہیں۔
مگر جب مولانا آزاد مولانا شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے بمبئی میں 1904ء میں ملے تو یہ لطیفہ ظہور میں آیا۔
مولانا شبلی سمجھے کہ یہ مولانا آزاد صاحبزادے ہیں اس لئے فرمایا کہ "آپ کے والد بزرگوار مولانا آزاد کے علم و فضل اور کمال کے کیا کہنے ہیں، میں اپنے پاس وہ الفاظ نہیں پاتا جن سے ان کی تعریف کرسکوں، واقعی قابل احترام بزرگ ہیں، وغیرہ وغیرہ۔"
مگر جب مولانا شبلی کو بتایا گیا کہ مولانا آزاد یہ خود ہی ہیں جو آپ کے سامنے 15 سال کی عمرمیں کھڑے ہیں تو آپ کے تعجب و حیرت کی انتہا نہ رہی اور ساتھ ہی خوشی و مسرت کا دریا لہریں لینے لگا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ ایسی ایسی نادرالوجود ہستیاں پیدا کرتا ہے جن کے طفلی کارنامے بھی ایسے ہوتے ہیں کہ لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں ملک و قوم کے بے شمار قدر دان اصحاب آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور جدھر نکل جائے آپ کے معترف آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ اور حقیقت میں جس عزت کے مستحق تھے اس سے زیادہ کی جاتی ۔
یون تو آپ کی علمی قابلیت کا معترف ایک زمانہ تھا مگر صحیح معنوں میں اعتراف علم دوست اصحاب ہی کر سکتے تھے ۔ چنانچہ منجملہ بہت سے ایسے اصحاب کے ایک نواب محسن الملک بھی تھے جو مولانا آزاد کو ہمیشہ "خورد سال مگر علم میں پختہ کار" کے الفاظ سے مخاطب کرتے تھے۔

ماخوذ از کتاب: سوانح مولانا ابوالکلام آزاد
مرتب و مولف: منشی عبدالرحمن شیدا ریواڑوی
ناشر: نوبہار بک ڈپو، دریاگنج، دہلی (سن اشاعت: مئی 1940)

Maulana Azad in views of Hali & Shibli.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں