علامہ اقبال کا جہانِ طیور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-12

علامہ اقبال کا جہانِ طیور

world-of-birds
اسلام دین فطرت ہے اور اقبال شاعر اسلام۔ بحیثیت شاعر اقبال فطرت سے کس طرح دور رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے فطری شاعری کی اس طور سے دعوت دی ہے کہ کہ اگر انسان فطرت سے آشنا ہو جائے تووہ اپنے اندر وہ صلاحیت پیدہ کر سکتا ہے جو لا لہ و گل کے سکوت سے معانی و مطالب اخذ کر لے اور اپنے گرد و اطراف کی بے زبان خاموشی کو بھی گویائی پر مجبور کر دے:
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل وسے کلام پیدا کر

علامہ اقبال نے اپنے پیغام کو ذہنوں میں مصور کونے کے لئے جا بجا تیسری آواز کا استعمال کیا ہے۔ یہ تیسری آواز گل و لالہ ، پہاڑ و گلہری، شبنم و جگنو، بلبل و طاوس اور دیگر فطری مظاہر کی صورت میں استقلال و تواتر کا پیغام دیتی نظر آتی ہیں۔ ان فطری مظاہر میں سب سے زیادہ جس چیز کو اقبال نے اپنا مظہر خیال اور وسیلئہ اظہار بنایا ہے وہ پرندوں کی ذات ہے۔ پرندوں کی حرکا ت و سکنات، ان کا رہن سہن، ان کے عادات و اطوار، ان کی قوت و طاقت، ان کی خوش رنگی و خوشنوائی اور ان کے طریقئہ پرواز کو مثال بنا کر علامہ اقبال نے ہمیں فطرت کی تعلیم دی ہے۔ انہوں نے اپنے خاموش ہمسایوں کو زبان کی دولت عطا کر کے ان کی معرفت خود اپنے جذبات کا خاکہ کھینچنے میں بڑی بڑی رنگ آمیزیاں کی ہیں اور بڑے بڑے نکات حل کئے ہیں۔
یوں تو اردو شاعری میں تقریبا ہر ایک شاعر نے پرندوں کی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو سے استعارہ کیا ہے۔ بقول میر:
"جاتی نہیں ہے سر سے چمن کی ہوا ہنوز"

لیکن علامہ اقبال کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے فلسفے کی ترویج و اشاعت میں باقاعدہ شاہین، شہباز اور اس قبیل کے طیور کو علامت کے طور پر استعمال کیا ہے اور ان کی قوت پرواز اور زور بازو کو مومن کی صفت کے طور پر بیان کیا ہے۔

شاہین:
جب ہم چمنستان اقبال پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو اس میں مختلف آواز، مختلف رنگ اور مختلف جسامت کے بے شمار پرندے جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ لیکن ان خوش رنگ اور خوش نوا طیور پر شاہین کی بلند پروازی غالب نظر آتی ہے۔ بظاہر سفید رنگ کا مالک یہ شکاری پرند اقبال کا پیغامبر ہے اور چار سو خردی کا پیام عام کرتا ہوا نظر آتا ہے:
برہنہ سر ہے توعزم بلند پید ا کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں فقط سر شاہیں کے واسطے ہے کلاہ

اقبال کا یہ شاہین آسمان کو زیر و زبر کرتا ہے اور قوت و طاقت پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے، ظلم سے نبردآزما ہوتا ہے اور مظلومی کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے، قصر سلطانی کو اپنا نشیمن نہیں بناتا بلکہ پہاڑوں کی ویرانیوں میں بسیرا کرتا ہے اور عظم مصمم و جہد مسلسل کی دعوت دیتا ہے ۔ کیونکہ:
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرہ افتاد

بلبل/ عندلیب:
اس خوش الحان پرندے کو اردو شاعری میں بطور عاشق گل باندھا گیا ہے چنانچہ اقبال نے بھی اسے اسی طور سے برتا ہے:
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس

بلبل کی اصل خوب صورتی اس کی مترنم آواز ہے جس سے یہ پرندہ اقبال کی شاعری میں کبھی نوا گری اور پیغام رسانی کرتا ہے تو کبھی نالہ و فریاد ، کبھی محو ترنم ہو کر سینوں میں نغموں کا تلاطم بپا کرتا ہے تو کبھی آہ و بکا کے ذریعے خون کے آنسو روتا ہے، کبھی نوا پیرا ہو کر کبوتر کے تن نازک میں شاہین کا جگر پیدا کرتا ہے تو کبھی اپنی صدائے فریاد سے لالہ وگل کے سینے چاک کرتا ہے:
اس چمن میں پیرو بلبل ہو یا تلمیذ گل
یا سراپانالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر

کہا حضور نے اے عندلیب باغ حجاز
کلی کلی ہے تری گرمی سے گداز

مرغ:
گلستان اقبال میں یہ پرندہ دو صورتوں میں اپنی جلوہ سامانی بکھیرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کبھی یہی "مرغ" اجمالا طائر کے معنوں میں استعمال ہوا ہےتو کبھی "مرغان سحر" یعنی بلبل کے طور پر۔ چنانچہ یہی مرغ جب لالہ و گل کی روشنی سے کوہ و دمن کو منور پاتا ہے تو اقبال کو نغموں پر اکسانے لگتا ہے ، جب نوا سرائی کرتا ہے تو آتش گل کو بھڑکا دیتا ہے اور جب تبدیلی پر آمادہ ہوتا ہے تو اپنے اندر شاہین کی صفات پیدا کر لیتا ہے:
شاہیں کی ادا ہوتی ہے بلبل میں نمودار
کس درجہ بدل جاتے ہیں مرغان سحر خیز

اقبال نے انسان کی زندگی کو بھی مرغ خوش آواز سے تعبیر کیا ہے:
زندگی انسان کی مانند مرغ خوش نوا
شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا اڑ گیا

شہباز:
یہ ایک بڑے اور شکاری پرند کا نام ہے جو قد و قامت میں باز سے بڑا ہوتا ہے۔ اس سے بادشاہ اکثر شکار کھیلا کرتے تھے۔ شاعر مشرق نے اپنی اردو شاعری میں اس پرندے کو بہت سر بلندی عطا فرمائی ہے۔ انہوں نے اس کے شکار کی صلاحیت، اس کی قوت پرواز ، فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے اس کی خبر گیری اور اس کے عادات و اطوار کو اصل زندگی کا مظہر بتایا ہے:
نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے
شکار مردہ سزاوار شاہباز نہیں

باز:
باز بھی شہباز کی طرح کا ایک شکاری پرندہ ہے جسے شکرہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی پیٹھ سیاہ اور آنکھیں سرخ ہوتی ہیں۔ شاہین اور شہباز کی طرح علامہ اقبال نے اسے بھی فلسفہ خودی کی تشریح کے لئے استعمال کیا ہے:
بہتر ہے کہ بیچارے ممولے کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات

زاغ:
نہایت ہی سیاہ رنگ کا یہ پرندہ جو اپنی بدصورتی اور کریہہ آواز کے لئے مشہور ہے جہان اقبال میں موجود تو ہے لیکن اپنی کوتاہ پروازی اور مکاری سے شاہین صفت نوجوانوں کو بگاڑنے اور ان کی صفات کو خراب کرنے کا ‍‍‌ذمہ دار ہی ہواہے:
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی ۔۔۔۔
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ

طاوس:
یہ ایک خوشنما طائر ہے جس کے پیروں کا مورچھل بنایا جاتا ہے۔ اس کا برسات میں کوکنا اور مستی میں آکر ناچنا عجیب خوش رنگ منظر پیش کرتا ہے۔ اس کے پیروں پر چاند سے بنے ہوتے ہیں ، کیمیا گر انہیں جلا کر تانبہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ پرندہ سانپ کا دشمن ہے ، کہتے ہیں کہ بہشت سے آد م کے ساتھ اسے بھی نکالا گیا تھا۔
دیگر طیور کی طرح اقبال نے اس خوش رنگ پرندے کو بھی اپنی گفتگو کا وسیلہ بنایا ہے چنانچہ انہوں نے مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک اور اس کی رعنائ و دلکشی کو بلبل و طاوس کی خوش نوائی اور خوش رنگی سے قرار دیا ہے اور بیشتر مقامات پر اپنے جوانوں کے رجحانات کو اس کی جانب سے منتقل کرنے اور اس سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے:
کر بلبل و طاوس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے طاوس فقط رنگ

کرگس:
چیل کی قسم کا یہ مردار خور بلند پرواز طائرگر چہ اپنی قد و قامت میں شاہین اور شہباز جیسا ہوتا ہے اور اسکی پرواز بھی کسی قدر شاہین دار ہوتی ہے لیکن اس میں پلٹ کر جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹنے کی صلاحیت مفقود ہے۔ اس کی خوراک زندہ شکار نہیں ہوتے بلکہ مردہ جانوروں کو ہی یہ اپنی غذا بناتا ہے۔ اقبال کے مطابق ایک نوجوان اور خاص کو مومن کی صفات کرگس سے کسی طرح بھی مطابقت نہیں رکھ سکتیں کیونکہ مومن آفاق میں گم نہیں ہوتا بلکہ آفاق خود اس میں گم ہوتا ہے:
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

قمری:
قمری ایک مشہور طوق دار پرندہ ہے جو فاختہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس کی آواز نہایت گونج دار ہوتی ہے۔ فقراء اکثر اس کو شو ق ویرانہ پسندی کی وجہ سے رکھتے ہیں جبکہ دنیا دار اسے پالنا منحوس قرار دیتے ہیں۔ اردو شاعری میں یہ مجازی عاشق کے طور پر مستعمل ہے چنانچہ گلشن اقبال میں بھی یہ سرو قد درختوں مثلا شمشاد و صنوبر سے راہ و رسم بڑھاتا ہوا نظر آتا ہے تو کبھی ان سے روٹھتا ہوا۔
قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
پتیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں

کبوتر / حمام:
علامہ اقبال کی شاعری میں یہ مشہور پرندہ بھی اکثر محو پرواز نظر آتا ہے اور اپنے تن نازک کو شاہین وشہباز کا شکار بنا کر جابجا اپنی مظلومیت کے نشان چھوڑ جاتا ہے:
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزہ ہے اے پسر
وہ مزہ شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں

حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ

عقاب:
سیاہ رنگ کا یہ بلند پرواز، طاقتور اور شکاری پرندہ شاہین اور شہباز کا ہمسر ہے اور انہیں کی طرح جوانوں میں جوش،ہمت،ولولہ،امنگ اور جذبہ پیدا کر کے اپنا ہم صفت بنانا چاہتا ہے:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

کنجشک / عصفور:
گوریاکے نام سے مشہور یہ چھوٹی سی چڑیا اپنی چھوٹی سی جسامت اور بےطاقتی کی وجہ سے کم مائیگی اور نا اہلی کی مثال تصور کی جاتی ہے۔چنانچہ اقبال نے ہمیشہ اپنے نوجوانوں کو ان کی صفات سے وابستگی نہ رکھنے کی تلقین کی ہے:
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن ۔۔۔۔۔

ہر شے ہوئی ذخیرہ لشکر میں منتقل
شاہیں گدائے دانہ عصفور ہوگیا

کوئل :
علامہ اقبال کی شاعری میں کوئل بھی اپنی مخصوص آواز میں جگہ جگہ کوکتی نظر آتی ہے اور اپنی مترنم آواز آواز سے طائران نغمہ سنج کو فرش سبزسے بیدار کرتی ہے ۔ اپنی نظم ‍"نمود صبح" میں اقبال اس طرح محو کلام ہیں:
جاگے کوئل کی ادا سے طائران نغمہ سنج
ہے ترنم ریز قانون سحر کے تار تار…..

ممولا:
یہ پرندہ نہایت ہی مختصر جسامت کا مالک ہوتا ہے۔ اس کے پیٹ پر کالی دھاریاں ہوتی ہیں اور اس کی مخصوص پہچان یہ ہے کہ یہ اپنی دم کو زمین پرمارتا دہتا ہے۔ علامہ اقبال نے جہاں ایک طرف اس بے مایہ پرندے کو اس کی فطرت کے عین مطابق باز کے احوال و مقامات سے نا بلد و نا آشنا بتایا ہے وہیں دوسری طرف طرف اس کے لہو میں وہ سوز پیدا کرتے ہیں اور اس کے دل میں قوت عمل کی ایسی شمع روشن کرتے ہیں جو اس کو شہباز سے بھی نبردآزما ہونے کی قوت عطا کر دیتی ہے:
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے

درج بالا طیور کے علاوہ بھی اور بہت سارے پرندے ہیں جو اقبال کی شاعری میں خال خال اپنی جلوہ سامانیاں بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ جو حسب ذیل ہیں۔

دراج:
تیتر کو دراج بھی کہا جاتا ہے۔ بقول اقبال:
دراج کی پرواز میں ہے شوکت شاہیں
حیرت میں ہے صیاد یہ شاہیں ہے کہ دراج

چرغ:
شکرے یا باز کی مانند یہ بھی ایک شکاری پرندہ ہے جو کبھی کبھی شاہین کے شانہ بہ شانہ چلتا ہوا نظر آجاتا ہے:
زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہین و چرغ
کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار

شپرک/خفاش:
شپرک چمگادڑ کو کہتے ہیں۔ اقبال نے اسے اچھوت کہا ہےاور شہباز کی اہمیت کو جتانے کے لئے استعمال کیا ہے:
زاغ کہتا ہے نہایت بد نما ہیں تیرے پر
شپرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر
لیکن اے شہباز یہ مرغان صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیل گوں کے پیچ و خم سے بے خبر

اس کے علاوہ یہ پرندہ اپنی دزدیدہ نگاہی کے لئے بھی معروف ہے چنانچہ "مدرسہ" کے متعلق اقبال کہتے ہیں:
فیض فطرت نے تجھے دیدہ شاہیں بخشا
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہ خفاش

چکور/لبک:
یہ تیتر کی قسم کا ایک خوشنما پرندہ ہے جس کے چونچ اور پنجے سرخ ہوتے ہیں اور گلے میں طوق ہوتا ہے ۔ ہندی شاعروں نے اسے چاند کا عاشق مانا ہے۔ چاند کے دنوں میں اس کو پالنے والے باہر نکالتے ہیں۔ آگ کو یہ جانور کھا بھی جاتا ہے اسی وجہ سے اس کو مرغ آتش خور بھی کہتے ہیں:
زاغ نہ ہوگا کبھی بندہء لبک و حمام
حفظ بدن کے لئے روح کو کر دوں ہلاک

الو:
چیل کی قسم کا یہ پرندہ ویرانوں اور کھنڈروں میں پایا جاتا ہے اقبال کے یہاں بھی موجود ہے:
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کی حقیقت
کہہ دے کوئی الو کو اگر رات کا شہباز

جرہ:
یہ ایک مشہور نر شکاری پرندہ ہے جس کی مادہ باز ہے۔ نر ہونے کے باوجود یہ باز سے چھوٹا ہوتا ہے :
کہیں جرہ شاہین سیماب رنگ
لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ

ہما:
دیگر اردو شعراء کی طرح اقبال کی شاعری میں بھی اس ما فوق الفطرت پرندے کا تذکرہ ملتا ہے جس کا وجود ہی نہیں ہے اور جس کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جس کے سر سے گذر جائے بادشاہ ہو جائے:
تو ہما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی

طوطی:
یہ چھوٹی سی سبز یا سرخ رنگ کی خود آواز چڑیا جو اکثر توت کے موسم میں دکھا ئی دیتی ہے اور شہتوت کمال رغبت سے کھاتی ہے۔ "تصویر درد" میں قمری و بلبل اے ساتھ اس نے بھی اقبال کی طرز فغاں کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے:
اڑالی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز میری

یہ ہیں جہان اقبال کے وہ طیور جو مختلف انداز سے اقبال سے ہم کلام نظر آتے ہیں۔ مختلف ادوار کے لحاظ سے علامہ اقبال کی شاعری میں جو تغیرات اور تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کے اثرات ان طیور کی آمد پر بھی پڑے ہیں۔ چنانچہ "بانگ درا" میں علامہ اقبال نے روایتی شاعری کی طرح بلبل و قمری کا بکثرت استعمال کیا ہے جب کہ شاہین و شہباز اور اس جیسے دیگر پرندے یا تو کالعدم ہیں یا ایک دو جگہ نظر آجاتے ہیں ، لیکن "بال جبریل" "ضرب کلیم" اور "ارمغان حجاز " میں جس میں اقبال "فلسفہ خودی" سے سرشار ہیں اس کا معکوس اثر ہے یعنی شاہین و شہباز کی کثرت اور بلبل و قمری کا فقدان۔صرف مرغ ہی ایسا طائر ہے جو اقبال کی اردو شاعری کے تمام ادوار میں یکساں طور پر موجود ہے۔ باقی دوسرے پرندے مثلا کرگس، الو، زاغ، کبوتر، چکور، کنجشک، ممولا، مور، شپرک، کوئل اور دراج وغیرہ انکی حیثیت کی یہ شاہین و شہباز کے مقام کو کو مسلم اور ان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اپنی موجودگی کا اظہار کرتے ہیں۔

اردو ادب میں اقبال سے متعلق متعدد عنوانات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ وہ ایک بحر بے پایاں ہیں جن میں ڈوب کر کوئی شخص آسانی سے نہیں نکل سکتا۔ ان کا کلام چند افکار پریشاں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مستقل نظام کا مالک ہے ۔ ان کی شاعری کے ایک ایک پہلو پر جتنا لکھا جائے وہ کم ہے۔

Allama Iqbal's world of birds. Article: Arshad Jamal.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں