خودکشی کے سماجی اثرات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-15

خودکشی کے سماجی اثرات

stop-suicide
اس مضمون میں خود کشی کے سماج پر ہونے والے اثرات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کا سب سے قیمتی تحفہ ہے ۔ اللہ ہی نے زندگی کے ساتھ ساتھ غم خوشی ، صحت و بیماری، تکلیف اور پھر موت کا سلسلہ(Process) لگا دیا ہے ۔ بعض حالات میں بیماری اور پریشانی امتحان کے طور پر آتے ہیں۔ سب کے ساتھ یہ سلسلہ کم و بیش لگا رہتا ہے ۔ فرق ہے تو اس بات کا کہ ہم اس بیماری اور پریشانی سے کیسے نمٹتے ہیں ۔ ہر انسان کا طریقہ کار الگ الگ ہوتا ہے ، ہر ایک کا ایک خاصCoping Mechanismہوتا ہے اور اس طریقہ کار میں شخصیت کا بہت بڑا دخل ہو تا ہے۔ کوئی شخص زندگی کی مشکلات کو ہنس کر سہہ لیتا ہے تو کوئی روکر، کوئی خاموشی سے تو کوئی ساری دنیا میں اس کا ڈھنڈورا پیٹ کر، کوئی کی اور کو مورد الزام ٹھہراتا ہے تو کوئی اپنے آپ کو Blame کرتا ہے ، کوئی پریشانی سے بھاگ جاتا ہے یا کوشش کرتا ہے تو کوئی اس سے مقابلہ کرنے کمر بندھ جاتا ہے ۔ غرض جتنی شخصیات ہوتی ہیں اتنے ہی طریقہ کار بھی۔ ایک طریقہ خود کشی کا بھی ہوتا ہے ۔ پچھلے مضمون میں میں نے خو د کشی کی وجوہات کا ذکر کیا تھا اس وقت وہ وجوہات دہرانے کے بجائے میں اس کے سماجی اثرات کا احاطہ کرنا چاہتا ہوں۔
ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ میں اسکاٹ لینڈ میں اپ نے دواخانے کیOPDمیں بیٹھا مریض دیکھ رہا تھاکہ ایک21سالہ دوشیزہ کا نمبر آیا۔ انتہائی دبلی، پتلی ، اوسط قامت لڑکی اندر آئی۔ اپنا بیگ ساتھ والی کرسی پر ایک ادائے بے نیازی سے پھینک دیا اور خود میں نے جس کرسی کی طرف اشارہ کیا اس پر بیٹھ گئی۔ کمرے میں بالکل خاموشی تھی میں نے ہی سکوت توڑا ۔ اس کی چال اور تیور دیکھ کرDirectسوال کیا’کیوں آئی ہو؟" ایک بے بس سی لیکن ساتھ ہی خونخوارسی نظر مجھ پر ڈالی اور جواب دیا :
"مرنے کے لئے"
تو میں نے کہا پھر یہاں کیا کررہی ہو جاؤ کہیں اور جاؤ۔ یہاں تو لوگ اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتے اور ٹھیک ہونے آتے ہیں۔
جواب ملا مجھے ٹھیک نہیں ہونا ہے ، مجھے کوئی خواہش نہیں زندہ رہنے کی میں مرنا چاہتی ہوں جینا نہیں چاہتی اور اس امید پر آپ کے پاس آئی ہوں کہ آپ مجھے مرنے کا کوئی آسان سا پتہ بتائیں۔
میں نے قدرے ترش جواب دیا"تم میرا اور اپنا دونوں کا وقت برباد کررہی ہو۔ میں تو کیا کوئی ڈاکٹر یا کوئی بھی انسان تمہیں مرنے کا پتہ نہیں بتا سکتا ۔ ہم تو زندگی کا ، سکون کا، غموں سے مداوے کا، بیماری سے راحت کا اور پریشانیوں سے آزادی کا پتہ تو بتاسکتے ہیں لیکن موت کا نہیں۔"

لڑکی پڑھی لکھی تھی۔ اب اس نے پینترا بدلا، کہنے لگی کہ تم انڈین ہو "کرما" پر یقین رکھتے ہو۔ قسمت اور مقدر پر یقین رکھتے ہو ں گے۔ مرنا توسب ہی کو ہے ایک نہ ایک تو پھر جب مرنا طے ہے تو آج ہی کیوں نہیں۔ مجھے میری پریشانی سے تو چھٹکارا مل جائے گا۔
میں نے اس کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ اس سے پوچھا کہ اس کے گھر میں کون کون رہتے ہیں۔جواب ملا: ماں باپ اور ایک بھائی۔
میں نے کہا : تم مجھے ان سے ملنے کی اجازت دے دو۔ کیونکہ میں ان سے مل کر ان کے علاج کا انتظام شروع کردیتا ہوں ۔ کہنے لگی کہ آپ میرا علاج تو نہیں کررہے ہیں تو میرے ماں باپ کی فکر کیوں ہونے لگی۔ انہیں کوئی پریشانی نہیں ہے وہ اپنی زندگی میں مگن ہیں۔
میں نے کہا مجھے معاف کرو، تمہارا علاج میرے پاس نہیں ہے کیونکہ تم تو صرف مرنا چاہتی ہو اور تم ایک نہ ایک دن خود کشی کرلو گی ۔ اس کا مجھے یقین ہوچلا ہے ۔ اب مجھے تمہاری نہیں تمہارے گھر والوں کی فکر ہونے لگی ہے ۔ جو آج تک تو بقول تمہارے اپنی زندگی میں مگن ہیں۔ لیکن ان کا جو حال تمہارے مرنے کے بعد ہوگا اس کا مجھے اندازہ ہے۔
پھر میں نے اس کے سامنے نقشہ کھینچا کہ کس طرح انہیں سنبھالنا پڑے گا ۔ وہ ٹوٹ جائیں گے بکھر جائیں گے، کسی طرح وہ تمہاری موت کا اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے ۔ کس طرح رشتہ داروں ، دوستوں، اور پڑوسیوں سے منہ چھپائیں گے ۔ ہر سال کس طرح وہ تمہاری سالگرہ پر آنسو بہائیں گے اور کس طرح ہر سال ان کے زخم تازہ ہوجائیں گے ۔ کس طرح کرسمس پر وہ ٹوٹ جائیں گے اور کس طرح Depresssion میں چلے جائیں گے ۔
اور یہ حقیقت ہے کہ جس گھر میں خود کشی ہوئی ہوگی اس گھر کو کوئی نہ کوئی فرد عید برات کے موقع پر کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری سے دوچار ہوکر دواخانے میں اڈمٹ ہوتا ہے۔ ایک ایسی ہی تحقیق کے اعداد و شمار اس لڑکی کو دکھائے ۔ اب جاکر کہیں اس کے آنسوؤں کنا بندھ ٹوٹا اور وہ بے تحاشہ رونے لگی ۔
کہنے لگی کہ آج تک میں نے صرف اپنا خیال کیا اور اپنی پریشانی سے تنگ آکر یہ فیصلہ کیا۔ میں نے یہ تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ گھر والوں پر اس کے اثرات اتنے زیادہ ہوں گے ۔ لیکن پھر اپنی پرانی بحث پر آگئی اور کہنے لگی کہ آج وہ مجھ سے پریشان ہیں ۔ میں نہ رہوں تو ان کی بھی پریشانی ختم ہوجائے گی ۔ اس ملاقات کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ اس لئے میں نے اس سے صرف وعدہ لیا کہ وہ اگلی ملاقات تک کوئی بھی عمل خود کشی کا نہیں کرے گی۔ اس نے اپنا وعدہ نبھایا۔
اگلی ملاقات میں ماں باپ کو بھی ساتھ لائی ۔ پھر علاج شروع ہوا اور کئی Sessions چلتے رہے۔ میرے وہاں سے نکلنے سے کچھ دن پہلے آئی اور کہنے لگی کہ اس نے دوبارہ کالج جائین کرلیا ہے اور پارٹ ٹائم جاپ بھی شروع کرنے والی ہے ۔ ماں باپ سے کافی قریب آگئی ہے ، زندگی میں ایک جوش اور کچھ کرنے کا احساس جاگ اٹھا ہے ۔

ایک خود کشی اپنے پیچھے مسائل کا ڈھیر چھوڑ جاتی ہے۔ لیکن خود کشی کی کوشش یا دھمکی، اس کے بھی اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ خود کشی کی بعض کوششیں رائیگاں جاتی ہیں یا پھر کچھ لوگ خود کشی کرناہی نہیں چاہتے۔ صرف اس کا Attempt کرتے ہیں۔ اس کا تعلق اصلاً لوگوں کو اپنے مسائل کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے ۔ جسے ہم Call of Help کہتے ہیں۔ جو لوگ اس طرح کی کوشش کرتے ہیں وہ کچھ گولیاں ڈوز Doseسے کئی گنا زیادہ کھالیتے ہیں یا پھر اپنا ہاتھ اور رگ کاٹ کر خون بہاتے ہیں، یا پھر کچھ زہر وغیرہ کھاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے گھر والوں کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ پتہ نہیں یہ لڑکا یا لڑکی دوبارہ کب ایسی حرکت کر بیٹھے اور اگر صحیح وقت پر اس کا علاج نہ ہو پایا تو کیا ہوجائے گا۔

ان کی دنیا بس صرف ویسے لڑکے یا لڑکی کے اطراف گھومنے لگتی ہے جس سے گھر ے دوسرے افرادNeglectہونے لگتے ہیں ۔ اور ان میں حسد جلن کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔
خود کشی کے مسائل بالکل الگ ہوتے ہیں ۔ جو خود کشی کے دن سے ہی شروع ہوجاتے ہیں۔Seriousحالت میں اگر دواخانہ شفٹ کرنے کا موقع مل جائے تو ادھر اُدھر پھرنا پڑتا ہے ۔Privateدواخانے خود کشی کا کیس نہیں لیتے ۔ سرکاری دواخانوں کا تو اللہ ہی حافظ! پہلے پولیس کیس بنتا ہے تب تک اڈمٹ نہیں کرتے۔ بعض حالات میں ایسے ہی موت واقع ہوجاتی ہے ۔ تفتیش کا مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔ پولیس اور ڈپارٹمنٹ سے جن شریف ماں باپ کا آج تک سابقہ نہیں پڑا ان پولیس تھانے کے چکر کاٹنے لگتے ہیں ۔ دواخانے میں امیدویاس کی زندہ تصویر بنے ایسے کئی لوگ مل جائیں گے ۔ جان بچ جائے تو بہت اچھا ورنہ پھر وہی مسائل کا سلسلہ۔ پہلے تو قریبی رشتہ دار جو شروع میں ہمدردی جتاتے ہیں پھر وہی لوگ زخموں کو کرید کرید کر تازہ رکھنے والے بناتے ہیں۔ ٹھنڈی آہیں بھر بھر کر طنز کے گرم شعلے دہکاتے رہتے ہیں۔ ان سے اور اپنے قریبی دوستوں، پڑوسیوں سے نمٹ کر گھر آتے ہیں تو بیوی شوہر ایک دوسرے سے آنکھ چرانے لگتے ہیں اور اندر اندر اپنے کو خود کشی کا ذمہ دار سمجھ کر آہستہ آہستہ گھلنے لگتے ہیں۔ گھر سے خوشی غائب ہوجاتی ہے ۔ زندگی کی بہار ختم ہوجاتی ہے۔ چھوٹے بھائی بہنوں کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے ۔ کسی طرح وہ اپنے غم پر قابو پاکر پھر سے ہنسنے بولنے لگتے ہیں ۔ تو یہ آوازیں ماں باپ کو زہر لگنے لگتی ہیں۔ گھر میں اگر شادی کے قابل بچے ہوں تو رشتے مشکل سے آتے ہیں۔ سماج میں لوگوں کی نظر میں جیسے اس گھر پر کلنک اور منحوسی کا سایہ پڑ جاتا ہے ۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنے کتراتے ہیں ۔ بہن بائی شادی شدہ ہوں تو انہیں اپنے سسرال میں طنز بھرے چبھتے سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایک خوشحال اور ہنستا بولتا خاندان خاموش ہوجاتا ہے ۔ اور اس خاموشی کی درد بھری گونج بڑی دور تک سنائی دیتی ہے ۔

آئیے! عہد کریں کہ خود کشی کے واقعات میں کمی کرنے کی کوشش کریں ۔ مایوسی کو زندگی سے نکال باہر کریں ۔ نفسیاتی امراض اور نفسیاتی مریضوں کے تئیں اپنے تیور بدلیں اور اس مرض کا جو خوف لوگوں کے دلوں میں بیٹھا ہوا ہے اسے جڑ سے نکال باہر کریں۔ ایک دوسرے کے غم میں کام آئیں ۔ خوشی ساتھ بانٹیں ، خود کشی کے بارے میں سوچنے والوں سے رابطہ رکھیں۔ اور انہیں ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا مشورہ اور ترغیب دیں ۔ خود کشی کا طوفان سے اور اس کے سماجی اثرات سے اپنے آپ کی اور سماج کی حفاظت کریں ۔ ڈپریشن کا علاج کروائیں اور خوش رہیں اور دوسروں کو خوش رکھیں۔

Social effects of suicide. Article: Dr. Zia Nadeem

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں