چٹان - تاریخ اسلام سے ایک داستاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-16

چٹان - تاریخ اسلام سے ایک داستاں

chattaan
یہودی کے گھر سے دعوت کھا کر ابو شحمہ جانے کے لئے اٹھے تو ان کے پیر لڑ کھڑا رہے تھے۔ شاید یہودی نے پانی کے دھوکے میں انہیں شراب پلا دی تھی۔ وہ اسی طرح لڑکھڑاتے ہوئے بنی النجار کے باغ سے باہر نکل آئے۔ شراب کے نشے اور باغ کی مہکتی فضا نے سرور کی ایک کیفیت ان کے ذہن میں طاری کر دی تھی ۔ اسی لیے تو سامنے سے آتی ہوئی ایک خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر وہ اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکے ۔ جذبات کی رو میں وہ بہتے ہی چلے گئے۔
اور پھر غفلت اور فراموشی کا ایک لمحہ۔ صرف ایک لمحہ جس نے امیر المومنین عمر کے بیٹے ابو شحمہ کو ندامت کے نہ جانے کتنے داغ دے دئیے۔
ابو شحمہ کو ہوش آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی، وہ بس فضاؤں کو گھورتے رہ گئے تھے۔
انہیں لگا کہ وہ کیچڑ کی ایک ایسی دلدل میں ڈوب گئے ہیں جس سے اب کبھی باہر نہ نکل پائیں گے ۔ شرمندگی اور دہشت کی زردیاں ان کے چہرے پر ابھر آئیں اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔

امیر المونی عمر فاروق دربار خلافت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے مقدمات سن رہے تھے۔ جلال اور دبدبے کا نور ان کی پیشانی پر جھلک رہا تھا ۔ دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کا جھنڈا لہرانے والا عظیم الشان فاتح ایک بوریا نشین فقیر کی طرح سادے کپڑوں میں ملبوس خندہ پیشانی سے ہر ایک کا درد سن رہا تھا۔
تب ہی ایک خوبصورت سی، ایک پریشان سی لڑکی آتی دکھائی دی۔ شرم سے جھکی آنکھوں میں تیرتی افسردگی بھی امیر المومنین کی نگاہ سے چھپ نہ سکی۔ لڑکی کی گود میں ایک خوبصورت سا بچہ ہمک رہا تھا ۔
"تم کون ہو بیٹی؟ "امیر المومنین نے سلام کا جواب دے کر پوچھا۔ "یہاں کیسے آئیں؟"
"امیر المومنین۔۔" کہتے کہتے لڑکی رک گئی ۔ الفاظ حلق میں اٹک گئے ۔
آخر وہ کیسے کہے اپنی بپتا۔ کہاں سے لائے اتنی ہمت جو ساری کہانی سنا سکے ۔ لیکن اسے کہنا تو تھا ہی۔ گناہ کا بوجھ اس کے سارے وجود کو پیسے ڈال رہا تھا۔
اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چھلک آئیں دوسری طرف امیر المومنین اس کو ہمت دلارہے تھے ۔
"ہاں ہاں، کہو بیٹی، ڈرو نہیں، مجھ سے گھبراؤ نہیں۔"
لڑکی پورے وجود کے ساتھ لرزتی رہی اور دھیرے سے بولی۔
"یہ بچہ دیکھ رہے ہیں نا آپ؟"
"ہاں۔ کیسا ہے بچہ۔۔" امیر المومنین نے ذرا حیرت سے پوچھا۔
"یہ آپ کا پوتا ہے امیر المومنین"۔
"کیا؟" امیر المومنین ایک دم چونک گئے کیسی عجیب سی بات بتارہی تھی یہ لڑکی۔
"یہ بچہ میرے کون سے بیٹے کا ہے بیٹی۔۔۔"
یہ ابو شحمہ کا ہے ۔ اف وہ دن جب میں کہیں جارہی تھی اور بنی النجار کے باغ سے ابو شحمہ لڑ کھڑاتے ہوئے نکلے۔۔۔ اور پھر۔۔۔ اور پھر۔۔۔"
لڑکی زور زور سے سسکنے لگی اور پھر کہتی ہی چلی گئی۔
"میں سوچ رہی تھی امیر المومنین، کہ گلا گھونٹ کر مر جاؤں یا کسی پہاڑ کی چوٹی سے کود کر جان دے دوں۔ لیکن میں نے اس معصوم بچے کی زندگی کے لئے زندہ رہنے کا فیصلہ کیا۔
اب بتائیے فاروق اعظم ۔۔ میں کیا کروں۔۔ بتائیے نا امیر المومنین۔۔؟"
امیر المومنین عمر فاروق لرز کر رہ گئے۔ ابو شحمہ کا چہرہ ان کی نگاہوں میں گھوم گیا ۔ ان کا سب سے پیارا بیٹا تھا ابو شحمہ۔ انہیں کتنا پیار تھا اس سے۔ لیکن آج انہیں شاید اپنے ہاتھ سے اپنے پیار کی قبر کھودنی ہوگی۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل دئیے۔

دستر خوان سجا ہوا تھا اور گھر کے اندر بیٹھے ابو شحمہ کھانا کھا رہے تھے ۔ سامنے بیٹھی ہوئی ان کی ماں پیار سے انہیں دیکھ رہی تھیں ۔ انہیں کھانا کھلا رہی تھیں، تب ہی ایک دستک کی آواز آئی۔ دروازے پر کھڑے عمر فاروق ابو شحمہ کو پوچھ رہے تھے ۔
"ہاں ہے تو ابو شحمہ۔۔۔ اچانک ایک کیا ضرورت پیش آگئی آپ کو۔ وہ اس وقت کھانا کھا رہا ہے۔"
امیر المومنین کی اہلیہ مسکرا رہی تھیں۔ آنے والے ہر طوفان سے بے خبر۔
"کھانا۔۔۔" ایک زخمی مسکراہٹ عمر فاروقؓ کے چہرے پر بکھر گئی ۔ "اچھا کھالو، شاید یہ تمہارا آخری کھانا ہو۔"
ابو شحمہ ایک دم سناٹے میں آ گئے۔ ہاتھ کا نوالہ زمین پر گر پڑا ۔ ان کا سارا جسم لرزنے لگا، انہوں نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنے ابو کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جائیں، لیکن وہ اٹھ ہی نہ پائے۔ انہیں ایسا لگا جیسے ان کے کاندھوں پر لدا شرمندگی کا بوجھ انہیں زمین دوز کردے گا۔ اور اب وہ کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو پائیں گے۔
"جانتے ہو میں تمہارا کون ہوں ابو شحمہ؟" امیر المومنین پوچھ رہے تھے۔
"آپ میرے ابو ہیں اور امیرالمومنین ہیں۔" ابو شحمہ ابھی تک سر جھکائے ہوئے تھے ۔
"تب کیا تم سچ سچ بتاؤ گے کہ اس روز جب تم بنی النجار کے باغ سے نکلے تھے، تو تم سے کیا گنا ہ سرز د ہوا تھا؟"

آنسوؤں کا بند ایک دم ہی ٹوٹ گیا اور ابو شحمہ زار و قطار رونے لگے۔
"ہاں ابو۔۔ اس روز اس لڑکی کے ساتھ۔۔۔ میرے اچھے ابو، میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں، مجھے آپ یہیں قتل کر دیجئے۔ مگر خدا کے لئے مجھے لوگوں کے سامنے رسوا مت کیجئے گا۔"
ڈبڈبائی آنکھوں سے آنسو برساتے ہوئے ابو شحمہ نے جب اپنے ابو کی طرف نظر اٹھائی تو وہ کانپ کر رہ گئے۔
یہ ان کے ابو کی آنکھیں تو نہ تھیں۔ ان آنکھوں میں آج پہلی بار محبتوں اور شفقتوں کی جگہ ایک عجیب سا جذبہ جھلک رہا تھا ۔ وہ آنکھیں جیسے ان سے بالکل لاتعلق ہو گئی تھیں۔
"ابو شحمہ۔" ایک گونجیلی آواز میں عمر فاروق ؓ انہیں مخاطب کر رہے تھے ۔
"تمہیں سر عام سو (100) کوڑے مارے جائیں گے۔ یہ وہ سزا ہے جو قرآن مجید نے تجویز کی ہے ۔ اور اس میں تبدیلی کا کوئی حق تمہارے باپ کو نہیں ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں؟"
عمر فاروق نے تیزی سے جھک کر ابو شحمہ کا گٹہ پکڑا اور کھینچتے ہوئے باہر لے آئے۔ جہاں لوگوں کی ایک بھیڑ اکٹھا تھی۔
وہ اس وقت ابو شحمہ کے باپ نہیں۔ صرف امیر المومنین تھے۔ جسے ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنے پیارے بیٹے کی جان اور رسوائی کی قیمت پر بھی خدا کے حکم کے آگے سر جھکانا تھا۔
نہ جانے کتنی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ ابو شحمہ کتنے مقبول تھے مسلمانوں میں۔ پھول کی طرح تروتازہ اور شاداب چہرہ ۔ شاندار اور صحت مند، خوش اخلاق اور ملنسار۔۔ ہر دلعزیز۔۔ ابو شحمہ آج کس حال میں تھے مگر۔

لیکن حضرت عمر فاروقؓ کا چہرہ ہر احسا س سے بے نیاز تھا۔ جیسے پتھر کی چٹان سے تراشا ہوا چہرہ ہو۔ نرمی اور شفقت کی کوئی بھی رمق اس چہرے پر نہ تھی۔
بوڑھیوں کی معمولی التجاؤں پر بھر آنے والی آنکھیں کتنی کٹھور اور اجنبی لگ رہی تھیں۔ لوگ حیرت سے عمر کو دیکھ رہے تھے ۔
"افلح!"۔۔ عمر فاروق نے سرد اور بے رحم لہجے میں اپنے غلام کو حکم دیا۔
"میرے بیٹے ابو شحمہ نے میرے سامنے بدکاری کا اعتراف کیا ہے۔ تم اسے سو کوڑے لگاؤ۔"
"نہیں امیر المومنین۔۔" افلح اپنی دونوں آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر چیخ پڑے۔
"ابو شحمہ کے پھول سے بدن پر میرے ہاتھ کوڑے نہیں برساسکیں گے ۔ فارواق اعظم۔"
"افلح۔۔۔" تیز لہجے میں افلح کو مخاطب کرتے ہوئے امیر المومنین آگے بڑھ آئے تھے۔
"میں عمر فاروق بحیثیت امیر المومنین تمہیں حکم دیتا ہوں۔ ابو شحمہ کو کوڑے لگاؤ۔۔۔ اور فوراً۔۔۔ ذرا بھی دیر نہ ہو۔"
لاچار سے افلح، ابو شحمہ کی قمیض اتارنے لگے ۔ ان کی آنکھیں دھاروں دھار آنسو بہا رہی تھیں۔
ابو شحمہ کی قمیض اتر گئی۔ وہ چپ چاپ سب کچھ دیکھتے رہے۔ سارے لوگ زار و قطار رورہے تھے۔ ایک بھی آنکھ ایسی نہ تھی جس میں آنسو نہ ہو سوائے عمر فاروقؓ کے۔ وہ آج کس قدر بے رحم ہو گئے تھے۔
محبت کے ہلکے سے جذبہ کی پرچھائیں بھی تو آج ان کے چہرے پر نظر نہیں آ رہی تھی۔
"انہیں معاف کردیجئے ۔ ابو شحمہ کو معاف کردیجئے ۔خدا کے لئے" سب لوگ امیر المومنین سے التجا کر رہے تھے ۔ لیکن عمر فاروق تو شاید سن ہی نہیں رہے تھے۔

"میں کہتا ہوں افلح۔۔ تم شروع کیوں نہیں کرتے؟" وہ افلح کو ڈپٹ رہے تھے ۔
"شروع کرو اور دیکھو مارنے میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ تمہارے ہاتھوں میں ذرا بھی نرمی آئی تو میں برداشت نہیں کروں گا افلح۔"
ابو شحمہ بھی اپنے باپ کے آگے گڑ گڑانے لگے تھے۔ لیکن حضرت عمر فاروقؓ تو ایک پتھر کی چٹان کی طرح بے حس و حرکت کھڑے تھے۔
ابو شحمہ پر کوڑے برسنا شروع ہوگئے ۔ ننگی پیٹھ پر افلح پوری قوت سے کوڑے برسا رہے تھے ۔ چند ہی کوڑوں میں ساری کمر لہو لہان ہوگئی تھی۔
لوگ سسکاریاں لیتے رہے۔ کوڑے برستے رہے۔
دس۔۔ بیس۔۔۔ پچاس۔
ستر کوڑے ہو گئے تو لرزتی ہوئی آواز میں ابو شحمہ نے چند گھونٹ پانی کی درخواست کی۔ ان کے حلق میں خشکی کے مارے کانٹے پڑ گئے تھے۔
"ابو۔۔ دو گھونٹ پانی۔۔۔" وہ ٹوٹتی ہوئی آواز میں کہہ رہے تھے۔
لیکن عمر فاروق نے پوری سختی سے یہ درخواست بھی رد کردی۔
"ابو شحمہ ، پانی یہاں نہیں، اب حوض کوثر پر پینا۔ افلح۔۔۔ کوڑے پورے کرو۔"

دس کوڑے اور لگے تو ابو شحمہ کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ زخمی نگاہوں سے بمشکل انہوں نے اپنے سخت گیر باپ کو دیکھا اور الوداعی سلام کیا۔
"السلام علیکم ابو۔"
"خدا حافظ ابو شحمہ۔" فاروق اعظم مضبوط لہجے میں جواب دے رہے تھے۔
"حضور سے ملاقات ہو تو میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ میں نے عمر کو قرآن پڑھتے اور اس پر عمل کرتے چھوڑا ہے۔"

کوڑے پڑتے رہے۔
90 کوڑے ہوئے تو افلح کے بازو شل ہو گئے ، وہ ایک منٹ کو رکے۔
"کیوں تم رکے کیوں افلح۔" امیر المومنین نے غضبناک لہجے میں کہا۔
"اجازت ہو تو یہ دیکھ لوں امیر المومنین کہ ان میں کوڑے کھانے کی تاب ہے یا نہیں؟" افلح کے لہجے میں ہزاروں التجائیں چھپی ہوئی تھیں۔
"ہرگز نہیں افلح۔۔ جس طرح یہ گناہ کرتے ہوئے نہیں رکا آج کوڑے بھی نہیں رک سکتے۔"
سپاٹ سے لہجے میں امیر المومنین نے کہا۔ تو لوگوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ وہ زور زور سے چیخ چیخ کر رونے لگے ۔ امیر المومنین کی اہلیہ نے رونے کی آوازیں سنیں تو دوڑتی ہوئی چلی آئیں ۔ اپنے پیارے بیٹے کا حال دیکھا تو تڑپ کر رہ گئیں۔

90 کوڑے پورے ہوگئے تھے۔ ابو شحمہ کے جسم میں کوئی حرکت باقی نہ تھی، ممتا کی ماری ماں عمر فاروق کے آگے زار و قطار رو رہی تھی۔
"امیر المومنین 10 کوڑے معاف کر دیجئے، مجھے خدا کی قسم ہے ۔ امیر المومنین میں ایک ایک کوڑے کے بدلے پیدل چل کر حج کروں گی۔ مسکینوں کو کھانا کھلاؤں گی ، کپڑے پہناؤں گی ، میرے ابو شحمہ کی یہ اذیت اب کم کردیجئے خدا کے لئے۔"
لیکن عمر فاروق نے اپنا دل پتھر کر لیا تھا۔ انہوں نے زور سے افلح کو پکار کر کہا۔
"کوڑے پورے کرو افلح۔ میں نے کیا کہا ہے تم سے؟" افلح کانپ کر رہ گئے۔ کیسی عجیب سی آواز تھی جیسے چٹانیں بول رہی ہوں۔

سو کوڑے پورے ہو گئے ۔ ابو شحمہ نے، فاروق اعظم کے سب سے پیارے بیٹے ابو شحمہ نے، آخری ہچکی لے کر آنکھیں موند لیں۔

تب ہی لوگوں نے حیرت سے دیکھا ، حضر ت عمر فاروق تیزی سے نیچے جھکے اور ابو شحمہ کو گود میں اٹھا لیا ۔ لوگ حیرت سے دیکھ رہے تھے ، چٹان پگھل گئی تھی۔ فاروق اعظم کی آنکھوں سے کسی موسلا دھار مینہ کی طرح آنسو برس رہے تھے۔
وہ ابو شحمہ کے رخساروں کو چومتے جارہے تھے ، خوب زور زور سے رو رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے۔
"قربان ہو تیرا باپ تجھ پر۔ میرے بیٹے تونے حق پر جان دی ہے، میرے پیارے بیٹے تو نے حق پر جان دی ہے۔"

ماخوذ از ماہنامہ: نور ، (نوعمروں کا ڈائجسٹ)
شمارہ: مئی - 1982۔

Chattaan, a story from Islamic history.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں