جواہر لال نہرو بحیثیت والد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-14

جواہر لال نہرو بحیثیت والد

Nehru and Indira Gandhi
جواہر لال نہرو 14/نومبر 1889 کو الہ آباد کے ایک کشمیری پنڈت گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس (موجودہ کانگریس-آئی) کے رہنما اور تحریک آزادئ ہند کے اہم کردار رہے تھے۔ پنڈت نہرو اور پنڈت جی کے نام سے معروف جواہر لال نہرو کو بچوں سے بےحد لگاؤ تھا، اسی مناسبت سے 14/نومبر کو ہندوستان بھر میں "یوم اطفال" منایا جاتا ہے۔
پنڈت نہرو کی 129 ویں یوم پیدائش پر اندر ملہوترا کی ایک مشہور کتاب "اندرا گاندھی" سے چند مفید اور معلوماتی اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

اندرا گاندھی کی پیدائش کے وقت الہ آباد ایک مرکزی شہر تھا جس کے باشندوں میں مرکزی شخصیت اندرا گاندھی کے دادا موتی لال نہرو کی تھی جو ایک طویل قامت، بارعب اور انتہائی کامیاب اور دولت مند وکیل تھے۔ موتی لال ایک کشمیری پنڈت خانوادہ کے چشم و چراغ تھے جو اونچی پہاڑیوں سے آ کر گنگا کے میدانی علاقے میں سکونت پزیر ہو گیا تھا۔ موتی لال ایک خودساختہ انسان تھے جن کی شخصیت میں دو مختلف تہذیبیں مجتمع تھیں۔ ہند فارسی تہذیب اور مغربی تہذیب۔
اپنے شاہانہ محل "آنند بھون" میں (جو اسم بامسمی یعنی عشرت کدہ تھا، اور جسے بعد میں انہوں نے ملک و قوم کے نام وقف کر دیا) موتی لال نے اپنی دونوں بیٹیوں سوروپ (جع بعد میں وجے لکشمی پنڈت کے نام سے مشہور ہوئیں) اور کرشنا کی تعلیم و تربیت کے لیے انگریز خواتین کو بطور اتالیق مقرر کر رکھا تھا۔ اپنے بیٹے جواہر لال کو انہوں نے تحصیل علم کے لیے ہیرو اور کیمبرج روانہ کیا۔ اپنی نرم و نازک دھان پان بہو کے یہاں ولادت کے وقت بھی انہوں نے احتیاط و اہتمام کا مظاہرہ کیا۔ اس کے لیے انہوں نے ایک اسکاٹش ڈاکٹر کی خدمات خؤد اپنے گھر پر حاصل کر رکھی تھیں۔
It's a sonnie lassie
(یہ ایک پاکیزہ اور محبت آمیز دل کی لڑکی ہے)
کہتے ہوئے اس ڈاکٹر نے نہرو خاندان کو، جو فکر و تشویش میں مبتلا تھا، بچی کی ولادت کی خوشخبری سنائی تھی۔ جواہر لال کی خوشیوں کی کوئی انتہا نہ تھی۔ مگر جواہر لال کی ماں سوروپ رانی نے اپنے اور مردانہ سماج پرست کے جذبات کا چلا کر اظہار کیا: "بیٹا ہونا چاہیے تھا!"
یہ کہہ کر انہوں نے اپنے شوہر کے غصہ کو دعوت دی۔ موتی لال نے (جو اپنی شاہانہ گرم مزاجی کے لیے معروف تھے اور جو ان کی اولاد کو بھی ورثہ میں ملی تھی) اپنی بیوی پر برسرعام پھٹکار لگائی:
"کیا ہم نے اپنے بیٹے اور دونوں بیٹیوں کی پرورش اور پرداخت میں کبھی کوئی امتیاز برتا ہے؟ کیا تم ان تینوں کو یکساں طور نہیں چاہتیں؟ کون جانتا ہے جواہر لال کی یہ بیٹی ایک ہزار بیٹوں سے بہتر ثابت ہو؟"
پیشین گوئی کے ایسے الفاظ کم ہی کسی منہ سے نکلے ہوں گے۔

کانگریس اور مسلم لیگ کے تعلقات کا انقطاع اور سبھاش چندر بوس کا جاپان کی مدد سے آزاد ہند فوج کی بنیاد ڈالنا، یہ دو واقعات برصغیر کے مستقبل پر دور رس اثرات ڈالنے والے تھے۔ جبکہ انہی کشمکش اور حوصلہ شکن حالات میں اندرا گاندھی نے ، جبکہ وہ اس وقت 24 برس کی تھیں، اپنے والد کے سامنے فیروز گاندھی سے شادی کرنے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ فیروز کا تعلق ایک مختلف مذہب سے تھا، وہ پارسی تھے۔ نہرو جیسے حد درجہ مہذب اور آزاد خیال شخص کو عام حالات میں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ لیکن یہاں اپنی ہی لاڈلی بیٹی کا معاملہ تھا اس لیے نہرو لاتعلق نہ رہ سکے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ شادی کے رشتے کی پیشکش کرنے والے پہلے شخص سے بیاہ رچانے کا فیصلہ کرنے کے بجائے دوسرے نوجوانوں کو بھی دیکھ سن لینا چاہیے۔
بہرحال اپنے ہونے والے داماد کے متعلق نہرو کے خیالات کچھ زیادہ اونچے نہ تھے۔ کچھ عرصہ قبل فیروز نے، جو کیمرہ کے استعمال میں چاپکدست تھے، نہرو کو اندرا کی چند تصویریں دکھائی تھیں۔ نہرو نے تعریف کرتے ہوئے کہا تھا:
"اگر یہ تصویریں تم نے کھینچی ہیں تو میں تمہیں مبارکباد دیتا ہوں۔"
اپنے مزاج کے خلاف نہرو نے فیروز کے 'مختلف خاندانی پس منظر' کا بھی ذکر کیا جس سے اس نوجوان کی کمزور معاشی حالت کی جانب اشارہ ملتا تھا۔ مگر اندرا نے اپنے والد سے کہا کہ:
میرا ارادہ اٹل ہے اور اگر وہ اپنی بات پر اڑے رہے تو وہ ان سے بات چیت بند کر دیں گی۔
اس دھمکی پر اس سے قبل بھی انہوں نے عمل کر کے نہرو کے دل کو ٹھیس پہنچائی تھی۔
نہرو فوراً مان گئے۔ باپ بیٹی کی انا کی جنگ میں، نہرو کا پہلے جھکنا تھا کہ جیسے قیامت ہی برپا ہو گئی۔ چونکہ نہرو خاندان کے معاملات میں اب سارا ملک دلچسپی لینے لگا تھا لہذا اس "مخلوط شادی" کے خلاف زبردست احتجاج ہونے لگا جس میں ہندو بھی شریک تھے اور پارسی بھی۔ اس کے علاوہ نہرو خاندان اور فیروز کے رشتہ دار بھی اس شادی کے لیے آمادہ نظر نہیں آتے تھے۔
احتجاج کا زور تب تک نہیں تھما جب تک خود مہاتما گاندھی نے (جنہیں اس مجوزہ شادی کے خلاف غم و غصہ کے خطوط موصول ہو رہے تھے) نوجوان جوڑے کی حمایت کا بیڑا نہ اٹھا لیا۔ اندرا گاندھی کے اس قول میں کوئی مبالغہ نہیں کہ :
"ساری دنیا فیروز کے ساتھ ان کی شادی کے خلاف تھی!"

بالآخر 26/مارچ 1942 کو دونوں کی شادی ہو گئی۔ فطری طور پر کشمیر کو ہنی مون کے لیے پسند کیا گیا۔ گلمرگ کی دلکشا بلندیوں سے نئے جوڑے نے نہرو کو ٹیلیگرام میں لکھا:
"کاش ہم یہاں سے آپ کے لیے تھوڑی ٹھنڈی ہوا ارسال کر سکتے۔"
نہرو نے جواباً لکھا:
"شکریہ۔ مگر تمہارے پاس آم کہاں سے آئیں گے؟"

یہ بات واقعی بحث طلب ہے کہ اگر اندرا گاندھی، نہرو کی بیٹی نہ ہوتیں تو 1966 میں وزیراعظم نہیں بن سکتی تھیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ناقابل تردید ہے کہ اپنی بیٹی کے متعلق نہرو کے خیالات و عزائم جو بھی رہے ہوں تاہم انہوں نے اپنی بیٹی کو کبھی کسی معمولی عہدے پر زبردستی فائز نہیں کروایا چہ جائیکہ وہ وزیراعظم یا کانگریس صدر کا عہدہ ہو۔ اس کے برخلاف جب اندرا گاندھی پارٹی کی صدارت کا انتخاب لڑ رہی تھیں تو نہرو نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا تھا کہ:
"اگر میری بات مانی جائے تو میری وزارت عظمیٰ کے دوران میری بیٹی کا پارٹی صدر ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔"

ماخوذ از کتاب:
اندرا گاندھی۔ (مصنف: اندر ملہوترا)
اردو ترجمہ: مرزا اے۔ بی۔ بیگ

Nehru as a father. Quotes from book by: Inder Malhotra

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں