ایران اور ہندوستان میں سائنس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-29

ایران اور ہندوستان میں سائنس

science-in-india-iran
یونان کے بعد سائنس کا کام ایران میں ہوا پھر ہندوستان اور چین میں۔ مسلمان حکما نے ان سے بھی خوب استفادہ کیا۔ ان دونوں ممالک میں سے ایران کا ذخیرہ بادی النظر میں زیادہ وقیع تھا ۔ تاہم ایران کے علمی ذخائر کا صحیح اندازہ ممکن نہیں کیونکہ اس کا بڑا حصہ زمانے کی دست و برد کے ہاتھوں فنا ہوچکا ہے ۔ ان کے بارے میں تاریخی شواہد یہ ہیں کہ ایران میں قبل مسیح کی صدیوں میں ہی علوم کا کافی بڑا ذخیرہ موجود تھا جو پارسیوں کے پیشوا زردشت کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔(27) یہ ذخیرہ ایرانک ے ایک معدوم شہر اصطخر میں تھا۔ ایرا ن کے بعض بادشاہوں نے اپنی بہت سی کتابیں ہندوستا ن اور چین بھیج دی تھیں تاکہ اگر کوئی غارت گر حملہ آور ایران پر قابض ہو جائے تو وہ کتابیں تلف کرنے کے لئے اس کے دسترس میں نہ ہوں اور فی الواقعی جب چوتھی صدی قبل مسیح میں سکندر ایران پر غارت گر ہوگیا تو وہ ایران کی صرف ان کتابوں کو تلف کرسکا جو ایران میں رہ گئی تھیں۔ انہیں تلف کرنے سے پہلے سکندر نے طب، نجوم اور طبیعیات کی کتابوں کے ترجمے اپنی رومی اور قبطی زبانوں میں کرا کے انہیں اسکندریہ بھجوایا اور پھر اصل کتابوں کو جلوادیا تاکہ اہل فارس اس نعمت سے محروم ہوجائیں ۔ پھر ایران میں ساسانی خاندان کا ایک فرد ارد شیر بادشاہ بنا تو اس نے ہندوستان ، چین اور روم کے شہروں سے اپنی کتابوں کی نقلیں منگوائیں۔(28)
ارد شریف کے بعد اس کے بیٹے شہنشاہ شاپور نے بھی یہ کام جاری رکھا۔ پھر 531 تا 578ئنوشیراں فارس(ایران) کا بادشاہ رہا تب اس نے بھی اس کام کو جاری رکھا۔ فارس کے بادشاہوں کو اس بات کی بھی فکر تھی کہ کتابیں ایسے کاغذ پر لکھی جائیں جو دیرپا ہوں اور بوسیدگی سے زیادہ عرصے تک محفوظ رہیں۔ اس غرض سے ان لوگوں نے خدنگ نامی ایک درخت کا چھلکا منتخب کیا۔ یہ چھلکا تو زکہلاتا تھا اور زیادہ پائیدار ہوتا تھا ۔(29) اس کے ساتھ ہی انہیں اس بات کی بھی فکر ہوئی کہ اپنی کتابوں کو محفوظ کرنے کے لئے ایسے مقام کا انتخاب کریں جو آب و ہوا کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہو اور ان کتابوں کو موسمی اثرات سے زیادہ مدت تک بچاکر رکھ سکے ۔ اس غرض سے ان لوگوں نے اپنی مملکت کے شہر اصفہان کا انتخاب کیا۔ اصفہان کے قریب ایک مقام پر بہت مستحکم عمارت بناکر اس میں ان کتابوں کو جو خدنگ کے چھال پر لکھی گئی تھیں محفوظ کردیا گیا ۔ وہ سب کتابیں قدیم فارسی میں لکھی ہوئی تھیں۔
ان کی بہت سی کتابیں فلکیات پر تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم فارس میں فلکیات بہتر ترقی یافتہ تھی۔ ان کتابوں میں اجرام سماوی کے احوال کے علاوہ فلکیات کی مدد سے کی جانے والی پیشگوئیاں بھی درج تھیں ۔ ان میں سے ایک پیش گوئی یہ تھی کہ دو سو اکتیس برس کے بعد ایران کے مغرب میں خلاف معمول بہت زیادہ بارش ہوگی اور ایسا ہی ہوا ۔ یہ اس ملک کی تاریخ کا اتنا انوکھا واقعہ تھا کہ فارس کی تاریخ کی یادگار بن گیا۔ اسی دن سے فارس کے سن کا آغازہوا ۔ اس لئے ایران کے علاوہ عراق اور ہندوستانک ے بادشاہن بھی ان ہی کی فلکیات کی بنیاد پر اپنے اپنے ملکوں کے زائچے تیار کراتے تھے۔(30)
نوشیرواں نے اپنے ملک میں علوم اور خاص طور پر فلسفہ ، طب اور فلکیات کو خوب ترقی دی ۔ اس کام کے لئے اسے تفاق سے بہت موافق حالات ملتے چلتے گئے۔نسطوری فرقے سے سلطنت روم کی ناراضگی ہوگئی ۔ اس لئے رومی سلطنت کے مشہور مدرسے ایڈیسا(School of Edessa) میں اس فرقے سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کے لئے رہنا مشکل ہوگیا۔ 457 میں کچھ اساتذہ وہاں سے ترک وطن کرکے فارس آگئے اور وہاں نس بس(Nisi Biss) کے مدرسے کو پھر سنوارا اور وہاں درس و تدریس شروع کردی۔ ایڈیسا سے فارس میں ان کی نقل مکانی جاری رہی۔ یہاں تک کہ ایڈیسا کا مدرسہ اساتذہ سے خالی ہوگیا اور 489 میں رومی سلطنت کو اسے بند کردینا پڑا۔
نسطوری اساتذہ اپنے ساتھ یونانی علوم کی کتابیں بھی لائے ۔ شروع میں گوکہ زیادہ تر فلسفے کی بالخصوص ارسطو کے فلسفے کی تھیں مگر بعد میں طب اور فلکیات وغیرہ کی کتابیں بھی آئیں۔ اس طرح سے ان کے ذریعے یونانی علوم کا ایک معتد بہ ذخیرہ فارس کے اندر پہنچ گیا ۔ فارس کے شہنشاہ خسرو اول نوشیرواں نے نسی بس کے علاوہ اپنے ملک کے ایک اور شہر جندیشا پور اورSeluciaمیں بھی اکیڈمیاں قائم کرائیں۔ اس کے دور حکومت میں ہی رومی بادشاہ جسٹینین(Justinian) نے اینتھنز میں افلاطون کی مشہور اکیڈیمی کو جو 387 قبل مسیح سے چلی آرہی تھی اس کی ملحدانہ تعلیم کی وجہ سے 529ء میں بند کردیا تو وہاں کے اساتذہ کو بھی نوشیرواں نے اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی ۔ رومی سلطنت میں سب سے مشہور مدرسہ اسکندریہ کا تھا جس کی شہرت عالمگیر تھی۔ نوشیرواں نے ارادہ کیا کہ اب اس کے ملک میں بھی اس کے پائے کا ایک مدرسہ قائم ہو ۔ وہ مدرسہ اس نے اینتھنز سے آئے ہوئے ان اساتذہ اور فضلا سے جندیشا پور میں قائم کرایا۔ اس میں اسکندریہ کا ہی نصاب پڑھایاجانے لگا۔ ان میں طب کی تعلیم کے لئے جالینوس کی کتابوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ۔ آگے چل کر بقراط کی طب کی اور ارسطو کی فلسفہ اور منطق کی کتابوں کے اورPorphyryکی فلسفے پر تصنیف ایسا غوجیIsogogeکا بھی شہنشاہ ایران نے سریانی زبان میں ترجمہ کرایا۔
جندیشا پور می ایک میڈیکل اسکول ، ہسپتال اور فلکیات کا شعبہ بھی قائم کیاگیا ۔ فلکیات کے شعبے میں ایک رصد گاہ بھی بنائی گئی۔ ان اقدامات سے جندیشا پور فارس کا سب سے بڑا علمی مرکز بن گیا۔ شہر کے لوگ یونانی اور شامی زبانیں بھی بولنے لگے تھے ۔
ظہور اسلام کے بعد دنیائے اسلام میں جب علمی مشاغل شروع ہوئے تو اس کا آغاز جندیشا پور کی کتابوں سے ہی ہوا۔
کہاجاتا ہے کہ نوشیرواں نے ارسطو اور افلاطون کی کتابوں کے ترجمے بھی کرائے ۔ مصنف او۔لیری معجم البلدان کے مصنف یاقوف اور ابن حوقل کے حوالے سے لکھتا ہے کہ فارس میں ایک اکیڈیمی رائے شہر(Rai Shaher) میں بھی قائم کی گئی جس میں طب، فلکیات اور منطق کی تعلیم دی جاتی تھی ، اور ایک اور شہرShizمیں ایک اکیڈیمی اور ایک بہت بڑا کتب خانہ قائم کیا گیا۔(32)
اسی زمانے میں ہندوستان میں بھی مختلف النوع علمی سر گرمیاں جاری تھیں۔ اہل ہند نے گنے کو پیل کررس نکالنا ارو اس رسے سے شکر بنانا 300ء میں ہی سیکھ لیا تھا ۔ اہل ایران نے یہ ہنر وہیں سے درآمد کیا اور جندیشا پور میں گنا کا شت کر کے اس سے شکر بنانا شروع کردی۔اس وقت تک مٹھاس کے لئے شہد استعمال کرنے کا رواج تھا ، جو ظاہر ہے کہ کافی کمیاب اور مہنگا ہوتا تھااس لئے گنے کی شکر بہت تیزی سے مقبول ہوگئی۔
او۔لیری لکھتا ہے کہ ہندوستان سے طبی اہمیت کی جڑی بوٹیاں بھی منگوائی گئیں ۔ ایک ہندی طبیب بھی بلوایا گیا جو جندیشا پور میں طب پڑھایا کرتا تھا ۔ ہندی داستانوں کی مشہور کتاب کلیلہ و دمنہ کا بھی فارسی میں ترجمہ کروایا گیا۔
زیادہ تعداد میں طب کی کتابیں عربی میں ترجمہ کرائی گئیں۔ ابن ندیم نے طب پر بارہ ترجمہ شدہ کتابوں کی فہرست درج کی ہے ۔ عربی میں ان کے نام یہ ہیں۔
1۔ کتاب سسرو
2۔ کتاب استنسکر
3۔ کتاب سیرک
4۔ کتاب سندستاق
5۔ کتاب مختصر للہند فی العقاقیر(جڑی بوٹیوں کے بارے میں)
6۔ کتاب علاجات الحبالی للہند
7۔ کتاب توقشل
8۔ کتاب روساالہند بہ فی علاجات النسا
9۔ کتاب السکر للہند
10۔ کتاب اسماء العقاقیر الہند(ہندوستانی جڑی بوٹیوں کے نام)
11۔ کتاب رائی الہندی فی اجناس الحیات وسمومہا
12۔ کتاب التوہم فی الامراض والعلل
ہندوستانی کتابوں میں سب سے ممتازSidhanataتھی جس کا مصنف ہندوستان کا مشہور راجہ اور دانشور برہما گپتا تھا۔ یہی کتاب ترامیم و اضافہ جات کے بعد سندھ ہند کہلائی ۔ اس کتاب کا بھی ترجمہ کیا گیا۔ یہ فلکیات پر تھی ۔ فلکیات کے علاوہ ریاضی اور طب میں بھی کافی کام ہوا تھا ۔ مسلمانوں نے ان سے بھی اچھی طرح استفادہ کیا۔ ہندوستان کے کچھ ریاضی داں بغداد بلائے گئے اوران سے ریاضی کی واقفیت حاصل کی گئی ۔ عربی اور اردو کے موجودہ ہند سے ہندوستان کے ریاضی دانوں کی ہی ایجاد تھے جنہیں مسلمانوں نے بھی اختیار کیا۔ مسلمانوں ہی کے ہاتھوں یہ یورپ پہنچے اور وہاں کے لاطینی ہندسوںX۔۔۔۔۔I, II ,IIIوغیرہ کی جگہ لی۔اہل یورپ نے یہ ہندسے عربوں سے سیکھے تھے ۔ اس لئے انہوں نے ان ہندسوں کو عربی ہندسوں کے نام سے موسوم کیا اور آج بھی رومن ہندسوں سے متمیز کرنے کے لئے انہیں اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ طب میں ہندوستان کا کام اتنا قابل اعتنا نہیں تھا کہ مسلمان ان سے استفادہ کرتے۔ طب پر اولین مسلمان حکما سہیل بن ربن طبری(ق۔850ء) اپنی کتاب فردوس الحکمت میں لکھتا ہے کہ ہندوستانی طب اس وقت کچھ قابل ذکر نہیں تھی۔ اس کا زیادہ تر حصہ بد روحوں کو بھگانے پر مشتمل تھاکیوں کہ بیماریوں کا سبب ان ہی کو سمجھاجاتا تھا۔
یورپ کے مورخین ہندی سائنس کو بھی یونانی الاصل قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ سمندر کے راستے سے ہندوستان کا اسکندریہ کے یونانی مرکز سے رابطہ قائم تھا۔ اسی راستے سے یونانی علوم ہندوستان تک پہنچے۔
یونانی کتابوں کے تراجم سے مسلمانوں کو فائدہ یہ ہوا کہ وہ یونان کے علمی سرمائے سے واقف ہوئے اوران ہی کی مدد سے سائنسی سر گرمیوں کو آگے بڑھایا۔ بعد ازاں یورپ کو یہ فائدہ حاصل ہوا کہ انہوں نے ان تراجم کے ذریعے یونانی علوم سے واقفیت حاصل کی کیوں کہ یونانی کتابیں جو دوسری صدی عیسوی تک تصنیف کی گئی تھیں، گیارہویں صدی میں یورپ میں تحصیل علوم کے شوق کے ظہور تک تلف ہوچکی تھیں اور یونان کو یہ فائدہ پہنچا کہ مسلمانوں کے ذریعے ان کے علوم کو حیات نو ملی ۔ اس کی عظمت مسلمان علماء و فضلا کی وجہ سے ہی قائم چلی آرہی ہے ورنہ اب خود یونان میں اس کے آثار بھی باقی نہیں رہے۔
دنیائے اسلام میں سائنسی علوم کی تحصیل کا مرکز تنہا بغداد نہیں تھا بلکہ مسلم اسپین میں بھی اسی قسم کا سلسلہ وہاں کے اموی خلفا نے جاری کردیا تھا۔ ان میں سب سے ممتاز اسپین کا نواں اموی خلیفہ عبدالرحمن سوئم تھا۔ اس کے جملہ ترقیاتی کاموں میں سے ایک اہم کام سائنسی کتابوں کی عربی زبان میں منتقلی ہے ۔ جس کی وجہ سے اس کے عہد حکومت کو مسلم اسپین کا سنہرادور کہاجاتا ہے۔ وہاں تراجم کے کامکی زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ جتنا کچھ معلوم ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ عبدالرحمن سوئم نے مشہور یونانی نباتیات داں اور ماہر علم الادویہ دیقو ریددس(Discoroides) کی کتاب کا اصل یونانی سے عربی میں ترجمہ کرایا اور اس کام کے لئے اس نے تلاش بیار کے بعد ایک عیسائی مترجم نکولس(Nicolos) کی خدمات حاصل کیں جو یونانی اور عربی دونوں زبانوں سے واقف تھا۔ دیسقوریدوس کی کتاب قبل ازیں بغداد میں سریانی سے عربی میں ترجمہ ہوچکی تھی۔
1258ء میں ہلاکو کے حملے کے نتیجے میں بغداد تباہ ہوا اور وہاں سے عباسی خلافت کے (عارضی) خاتمے کا حادثہ رونما ہوا ۔ اس المیے نے اسلامی تاریخ میں ایک بہت بڑے خیر کو جنم دیا کہ وہاں سے اجڑنے والے علما فضلا نے جہاں جہاں پناہ گزینی اختیار کی تھی وہاں وہاں اپنے علمی مشاغل کو پھر سے جاری کردیا۔ اس کے نتیجے میں تنہا بغداد کے بدلے میں دمشق، قاہرہ، حلب(Alleppo) اور سمر قند سائنسی سر گرمیوں کے مراکز بن گئے ۔
یونانی کتابوں کے تراجم کی روداد پڑھنے سے اس امر کا اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کی زیادہ تر کتابیں فلکیات ، ریاضی، طب اور حیاتیات پرتھیں۔ اس لئے دنیائے اسلام میں سائنس سے آگہی ابتدائً ان ہی علوم سے ہوئی۔
مسلمان حکما نے ان علوم کو سیکھ لینے کے بعد خود بھی سائنسی سر گرمیاں شروع کردیں جس سے سائنسی علوم کو مزید ترقی حاصل ہوئی ۔ ان لوگوں نے دنیائے اسلام میں سائنسی سر گرمیاں آٹھویں صدی میں شروع کیں اور انہیں سولہویں صدی کے اوائل تک جاری رکھا۔ ان میں سے پانچ صدیاں، نویں، تا تیرھویں ، عرج کی ہیں اور ان میں سے بھی دسویں گیارہویں صدی معراج(Peak) کی کہلاتی ہیں ۔ ان کی سر گرمیوں سے یورپ خوب واقف ہے اور وہاں ان کا غیر مبہم طریقے سے اعتراف بھی کیاجاتا ہے۔ مثلاً جابر ابن حیان(721 تا815) کو اہل یورپ نے بابائے کیمیا کا اور ابن الہیثإ کو بابائے بصریات کا لقب دیا اور سچ یہ ہے کہ مسلمان اہل یورپ کے ہی ذریعے ان دونوں سائنس دانوں کی عظمت سے واقف ہوئے ہیں۔
مسلمان حکما کی سائنسی خدمات کی اہمیت کے مندرجہ ذیل پہلو بہت اہم ہیں۔
1۔ تجربات کو ذریعہ تحقیق بنایا اور منطقی استدلال کے طریقہ کار کو ترک کردیا۔ تجربات کے لئے بعض حکما نے باقاعدہ تجربے خانے بنائے ، بہت سے تجرباتی آلات بھی تیار کئے ۔ تجربات کو اپنانے سے نئی حقیقتوں کی دریافت کی رفتار تیز ہوگئی۔ مسلمانوں کے بعد بھی سائنس میں تجرباتی طریقہ کار ہی رائج رہا اور اسی کی وجہ سے سائنس تیز رفتاری سے ترقی پر گامزن ہے ۔
2۔ سائنسی علوم کو اطلاقی بنایا۔ اطلاقی بنادینے سے سائنس کی فائدہ مندیاں دیکھنے والوں کو نظر آنے لگیں مثلاً ابتدائی سائنس دانوں میں سے جابر ابن حیان نے سونا پگھلانے کے لئے مائع الملوک نام کا ایک محلول ایجاد کیا۔ زنگ آلودگی سے بچاؤ کا مسالہ، چمڑہ رنگنے کا مسالہ اور معدنی تیزاب ایجاد کیا۔
مسلم اسپین میں سائنس کو اطلاقی بنانے کا کام زیادہ بڑے پیمانے پر ہوا ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ ان کے دور میں ٹیکنالوجی نے بھی بڑی ترقی پائی۔
اپنے پانچ سو سالہ دور عروج میں جو حکما دنیائے اسلام میں پیدا ہوئے ان کی تعداد کا کسی کو علم نہیں تاہم ان کی تصنیفات سے ایک سرسری اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لاکھوں تھیں کیوں کہ زمانے کی دست برد کے باوجود بیسویں صدی تک مسلمان حکما اور علما و فضلا کے تقریبا سولہ لاکھ قلمی نسخے محفوظ ہیں۔ ان کی تعداد کا ایک مستند جائزہWorld Survey of Islamic Manuscriptsکے نام سے چار جلدوں میںAl۔ Furqan Heritage Foundation Londonنے 1991ء تا1994ء کے دوران شائع کیا ہے۔ اس جائزے کے مطابق دنیا کے 104 ممالک کے 2188 کتب خانوں میں مسلمان حکما کے نسخے موجود ہیں ۔ ان کی سب سے بڑی تعداد ترکی میں ہے جو دو لاکھ تئیس ہزار شمار کی گئی ہے۔ تقریبا دو لاکھ ایران میں ہیں،ایک لاکھ اکسٹھ ہزار ہندوستان ، ایک لاکھ سولہ ہزار مصر میں،نوے ہزار عراق میں، نواسی ہزار سعودی عرب میں، اٹھاسی ہزار پاکستان میں، 45ہزار انگلستان میں، اڑتیس ہزار روس میں اور تیس ہزار ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اور بقیہ پانچ چھ لاکھ دنیا کے باقی ماندہ 94 ممالک میں ہیں۔
یہ قلمی نسخے صرف سائنسی موضوعات پر نہیں ہیں بلکہ دینیات ، تاریخ اور دیگر علوم پر بھی ہیں۔ پھر بھی یہ قیاس کرنا غلط نہ ہوگا کہ نصف اگر نہیں تو ایک چوتھائی کے لگ بھگ کتابیں سائنس پر ضرور ہوں گی۔
سائنسی تصانیف کی تعداد خواہ ایک چوتھائی سے بھی کم ہو اور ان کے مصنفین کی تعدا د کا تعین کرنا فی الوقت خواہ کتنا ہی محال ہو، اتنا ضرور کہاجاسکتا ہے کہ ان میں سے بہت سے حکما عالمگیر اور لازوال شہرت کے مالک بنے ۔ دنیائے اسلام سے باہر بھی ان کی عظمت تسلیم کی گئی ۔ یورپ میں زیادہ تر ان ہی کتابوں کے ذریعے سائنس متعارف ہوئی اور ان کی کتابیں بالخصوص طب کی کتابیںوہاں کے میڈیکل کالجوں میں سترھویں صدی تک پڑھائی جاتی رہیں ۔ مسلمان حکما کی تصانیف کی لاکھوں کی تعداد میں دستیابی اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ مسلمانوں نے سائنسی علوم اس سے زیادہ مقدار میں تخلیق کیا جتنی مقدار میں انہوں نے قدما سے حاصل کیا تھا۔
ایسے سائنس دانوں میں جابر ابن حیان ، خوارزمی ، ابن الہیثم، عمر خیام، ابن سینا، رازی ، زہراوی ، ابن رشد، ابن نفیس، البیرونی وغیرہ بہت ممتاز ہیں۔

ماخوذ از کتاب:
دنیائے اسلام میں سائنس و طب کا عروج
مصنف: ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی
اشاعت باہتمام: نشریات، لاہور (سن اشاعت: 2007)

Rise of Science in India and Iran.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں