دکنی تذکروں کا آغاز و عہد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-28

دکنی تذکروں کا آغاز و عہد

deccani-tazkare
دکن میں اردو ادب اور زبان کا آغاز شمالی ہند سے قبل ہوا جس کے باعث دکن کو اردو کی شروعات میں اولیت کامرتبہ حاصل ہے ۔دکن میں اردو کی جو قدیم شکل رائج رہی اسے دور جدید کے محققین نے دکنی کانام دیاہے۔گوکہ دکنی زبان اردو سے رابطہ رکھتی ہے ۔ لیکن مقامی بولیوں کے اثرات کی وجہ سے دکنی ادب میں کسی قدر عمومیت پائی جاتی ہے ۔ اس حقیقت سے انحراف نہیں برتا جاسکتا کہ اردو کی داغ بیل سب سے پہلے دکن میں پڑی اور اردو کا ابتدائی ادب”دکنی ادب” کہلاتا ہے ۔ اسی دکنی ادب کی وجہ سے اردو کی لسانی حیثیت متعین ہوتی ہے اور اسے ایک ہندوستانی زبان قرار دینے کے علاوہ اس کے ادب کو اردو کے لئے ابتدائی مزاج بنانے اور اردو کو فروغ دینے کے لیے ساز گار ماحول پیدا کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔
دکنی دور میں غزل گوئی ، مثنوی نگاری، قصیدہ گوئی اور مرثیہ کے علاوہ تذکرہ نگاری پربھی زور دیا گیا ہے ۔ دکن میں اردو کے آغاز کے بعد سب سے پہلے شعروشاعری کا چرچا رہا۔ غزل گوئی اور مثنوی نگاری دکن کی شاعری کی مقبول اصناف سخن رہیں۔ شعر گوئی سے دلچسپی کے نتیجے میں دکنی دور اردو نثر میں زیادہ خدمات انجام نہ دے سکا ۔ پھربھی ملا وجہی کی سب رس خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی متنازعہ کتاب معراج العاشقین اور دیگر مذہبی رسالوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دکنی دور میں نثری خدمات مذہبی کتابوں اور رسالوں کی حد تک محدود رہیں ۔ چند ایک ادیبوں نے دکنی میں داستان، تفسیر، حدیث، اخلاقی رسالے ، فنون لطیفہ ، قصص ، سیرت، مناقب اور تذکرے تحریر کر کے دکنی ادب میں نثری کارناموں کی نمائندگی اس طرح دکن میں اردو کے آغاز و عہد کے طویل دور میں نثری کارناموں کے حیثیت بے مایہ ہے ۔ لیکن اس قدیم دور میں نثر کی طرف توجہ دینا بھی کسی کارنامے سے کم نہیں ۔
اردو نثر دکن نے جو خدمات انجام دیں ان میں تذکرہ نگاری کا فن ایک مخصوص زاویہ کے ساتھ ابتدائی مدارج سے نکل کر ترقی کی راہوں پر طرف گامزن نظر آتا ہے ۔ دکن میں تذکرے کی روایت کے آغاز و عہد کو یہاں قائم شدہ مختلف حکومتوں کے دور سے وابستہ کیاجاسکتا ہے ۔دکنی تذکرے سے ابتدائی طور پر اپنے پورے فنی نقوش کے ساتھ اردو نثر میں اپنا مقام نہیں بناتے بلکہ دکنی میں ابتدائی طور پر تحریر کردہ تذکروں کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دکن میںبھی تذکرے کا فن فارسی تذکروں سے استفادہ کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ اسمیں وہ تمام نقائص موجود ہیں جو شمالی ہند کے تذکروں میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ دکن میں تذکروں کا آغاز عہد عالمگیری کے بعد ہوا ۔ اور خواجہ خاں حمید الدین قاقشال کا تذکرہ” گلشن گفتار” شعرائے دکن کا پہلا تذکرہ تصور کیاجاتا ہے۔ جو1165؁ھ م 1752؁ء میں عالم وجود میں آیا ۔ تذکرے کی روایت کو دکن میں فروغ دینے کے لئے جو نمایاں کوششیں کی گئیں انہیں مختلف ادوار میں تقسیم کیاجاسکتا ہے ۔
دکنی تذکروں کا آغاز اور اسکا عہد مکمل طور پر دکنی ریاستوں سے منسلک ہے جو بہمنی سلطنت کے اختتام کے بعد معرض وجود میں آئیں ۔ اسی لئے دکن میں تذکروں کے آغاز اور اس کے عہد کو مختلف علاقوں کے اعتبار سے درباروں اور بادشاہوں کے عہد سے وابستہ کیاجاسکتا ہے ۔ دکن میں تذکرہ نگاری کی روایت کے ادوار حسب ذیل ہیں۔
1۔ قطب شاہی دور
2۔عادل شاہی دور
3۔ نظام شاہی دور
4۔برید شاہی دور
5۔عالمگیری دور
6۔آصف جاہی دور
چونکہ ان ادوار میں تذکرہ نگایر کے فن کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی اور مختلف نثرنگاروں نے دکن کے شعراء کے بارے میں سوانحی مواد ستیاب کرکے انہیں ایک مبسوط کتاب کی شکل میں مرتب کرنے پر خصوصی توجہ دی ۔ اس لئے اردو تذکروں کے آغاز و عہد کو دکن میں چھ ادوار سے وابستہ کیاجاتا ہے ۔ اگرچہ اس دور میں فارسی زبان میں بھی تذکرے لکھے گئے ۔ لیکن انہیں سی لئے ان ادوارسے بحث کرتے وقت زیر تنقید نہیں لایاجارہا ہے ۔

ماخوذ از کتاب:
دکنی تذکرے (پونہ یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کے لیے سال 1982 میں منظور شدہ مقالہ)
مقالہ نگار : ڈاکٹر مجید بیدار
نگران: ڈاکٹر اے۔این۔شیخ امانت (پونہ یونیورسٹی، پونہ)۔

The startup and the era of Deccani Tazkare.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں