نوباڈی - رشید نثار - ایک خدمتی - خاکہ از ممتاز مفتی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-01

نوباڈی - رشید نثار - ایک خدمتی - خاکہ از ممتاز مفتی

mumtaz-mufti
چند ایک سال کی بات ہے کہ مجھے حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی کی ایک محفل میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ وہاں کچھ چہرے جانے پہچانے تھے کچھ ان جانے لیکن ان جانے ہونے کے باوجود مانوس تھے چونکہ دانش وری کی چھاپ لگی ہوئی تھی ۔ دانش وری کی چھاپ دانش ور پر نہیں لگتی ۔ اس فرد پر لگ جاتی ہے جو سمجھتا ہے کہ میں دانشور ہوں ۔ میری بیشتر زندگی ایسے دانشوروں میں گزری ہے ۔
اس روز حلقہ کی محفل میں دفعتاً میرے سامنے ایک چہرا آیا اور گزر گیا میں چونکا ، ارے یہ کیا چیز ہے مجھے ایسا لگا جیسے شدھ راگ میں بے برجت “ممنوعہ” سرلگا ہو ۔ جیسے موروں کے جھرمٹ میں فاختہ آگئی ہو۔ اس چہرے سے مٹھاس کی پھوار اڑ رہی تھی۔ اس کے وجود سے میں تو کچھ بھی نہیں، کی زیر لبی گنگناہٹ سنائی دے رہی تھی میرا جی چاہا کہ اٹھ کر اسے سلام کروں۔
پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے لیکن ایسا ہوتا ہے کہ کچھ افراد کو دیکھ کر کسی وجہ کے بغیر دلیل کے بغیر مصلحت کے بغیر جی چاہتا ہے کہ انہیں جھک کر سلام کریں۔
میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا۔ یہ کون شخص تھا۔
حلقے کا ایک کارکن ہے اس نے جواب دیا۔
اس کے علاوہ میں نے پوچھا۔
اس کے علاوہ
ہی ازاے نو باڈی
سیانے کہتے ہیں کہ ہر فرد کے وجودسے شعائیں نکلتی ہیں جن کے رنگ اس فرد کی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں شخصیت کی اس دھنک کو “ادرا” کہتے ہیں جسے دیکھنے یا محسوس کرنے کے لئے ایک خاص حس درکار ہوتی ہے میں اس حس سے محروم ہوں لیکن اس نو باڈی کا اورا اس قدر پر اثر تھا کہ مجھے بگھو کر رکھ دیا۔
اس کے بعد کئی ایک دن اسکا خیال مجھے ہانٹ کرتا رہا جی چاہتا تھا کہ پھر اس سے ملوں۔
میں نے ڈاکٹر شمشاد سے پوچھا۔
ڈاکٹر شمشاد ہارون پارا سائیکالوجی میں خصوصی ٹریننگ حاصل کر کے آئی تھیں۔
میں نے پوچھا ڈاکٹر اورا کو دیکھنے کی حس کیسے حاصل کی جاتی ہے وہ ہنسی کہنے لگی مفتی جی اب تو ایسی مشینیں ایجاد ہوچکی ہیں جو اورا کو ریکارڈ کرلیتی ہیں اور معالج اورا کو دیکھ کر مرض کی تشخیص کرتا ہے میں خود کر اچی میں ایک ایسا معمل کھولنے والی ہوں۔
میں نے پوچھا آپ نے ٹریننگ کہاں کی ہے ۔
بولی امریکہ میں
امریکہ میں، میں نے پوچھا۔
ہاں امریکہ میں وہاں80فی صد لوگ بھرپور دنیاوی زندگی بسر کرتے ہیں اور 20فیصد تحقیق کے کام میں خود کو بھولے بیٹھے ہیں۔ لباس کا ہوش نہیں۔ کھانے پینے کا ہوش نہیں ۔ نام و نمود کی چاہ نہیں الٹا خود کو بھلائے بیٹھے ہیں ۔ بس سر پر ایک دھن سوار ہے کہ قدرت کے بھید کو جانیں ۔ سمجھیںِ مفتی جی ولی اللہ اور کسے کہتے ہیں ولی اللہ وہی ہوتا ہے نا جو اللہ کی کائنات کو سمجھنے میں خود کو بھلائے بیٹھا ہو ۔
اسکے بعد دو ایک بار وہ مجھے ادبی محفلوں میں نظر آیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ایک عام آدمی ہے ۔ خود کو دوسروں سے کم تر سمجھتا ہے ۔ ایک کامی حکم ماننے والا ۔ خدمت پر کمر بستہ ،مٹی کا ایک میلا کچیلا دیا جو مدھم لو سے جل رہا ہے ۔
میں نے کسی سے پوچھا یہ کون ہے کہاں کا ہے۔
تم اسے نہیں جانتے کیا، اس نے جواب دیا یہ رشید نثار ہے ۔ پوٹھوہار کا اعوان ہے ۔
نہیں یہ پھوٹو ہار کا نہیں ہوسکتا۔ پوٹھو ہار کا تو جنگجو ہوتا ہے ۔ خود دار ہوتا ہے۔ ذات کے مان سے بھرا ہوتا ہے نک چڑھا ہوتا ہے مچھ مروڑ ہوتا ہے، کچھ بھی نہ ہو تو بھی خود کو سم باڈی سمجھتا ہے ۔
پھر ایک ادبی محفل میں میں نے دیکھا کہ وہ رومشرم پر کھڑا مقالہ پڑھ رہا ہے ۔
میں حیران ہوا ۔ ارے یہ کون بول رہا ہے اتنی پر شکوہ نثر اتنے فلسفیانہ خیالات ، تخیل نفسی ، تحقیق تنقید نہیں یہ وہ رشید نثار نہیں ہوسکتا جس پر میں تو کچھ ہی نہیں کی چھاپ لگی ہے ۔ جو مٹی کے دئیے کی مدھم لو سے جلتا ہے۔
میںنے اپنے ساتھی سے پوچھا یہ رشید نثار کتنا پڑھا لکھا ہے ۔
وہ بولا۔ بی اے آنرز ہے۔ اردو انگریزی اور اسلامیات میں ایم اے ہے۔ شاعر ہے ، صاحب طرز مقالہ نگار ہے ۔
دکھتا تو میٹرک فیل ہے میں نے کہا۔
ہاں وہ ہنسا ایسے ہی رکھتا ہے۔ صرف دکھتا ہی نہیں ساری زندگی میٹرک فیل کی حیثیت سے گزاری ہے۔ ڈگریوں کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا۔
صاحبو نے زندگی میں تین نوباڈی دیکھے ہیں۔
ایک قدرت اللہ شہاب تھا ۔ لیکن وہ عام نوباڈی نہیں تھا، پر اسرار نوباڈی تھا۔
وہ اونچے عہدے پر فائز تھا۔ دانش ور تھا۔ بیورو کریٹ تھا پتہ نہیں اسکے”ادرا” میں عجز کی ٹوٹ اتنی پراثر کیوں تھی ۔ جب وہ تھری پیس سوٹ پہن کر ہارز کالر میں شوخ رنگ کی ٹائی لگا کر بٹن ہول میں سفید پھول سجا کر صدر مملکت کے جلسے میں خصوصی دروازے سے داخل ہوتا تو دروازے پر کھڑا انسپکٹر اسے روک لیتا ۔ صاحب آپ ادھر عام دروازے سے داخل ہوں یہ خصوصی دروازہ ہے ۔
جب وہ جلسہ گاہ میں ریزرونشستوں پر بیٹھا تو انٹیلی جنس کا کوئی افسر اسے اٹھا دیتا ۔ جناب یہ نشستیں اہلکاروں کے لئے ہیں۔ آپ ادھر جنرل پبلک میں جاکر بیٹھیں۔ایک دن میں نے قدرت سے پوچھا میں نے کہا یہ کیا اسرار ہے ، آپ بن ٹھن کر جاتے ہیں ۔ لباس خصوصی ہوتا ہے انداز خصوصی ہوتا ہے لیکن خصوصی دروازے پر کھڑا انسپکٹر آپ کو روک لیتا ہے ۔ وہ آپ کو عمومی کیوں سمجھتا ہے ۔ کیااس لئے کہ آپ کے ادرا پر عمومی چھاپ لگی ہوتی ہے ۔
وہ گھبرا گیا کہنے لگا میں خود حیران ہوں، کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ، حالانکہ میں خصوصی بننے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔
تیسرا نو باڈی غلام احمد تھا۔
وہ ستار بجایا کرتا تھا۔حالانکہ ستار ایک طربیہ ساز ہے لیکن غلام محمد کی ستاریوںبکتی تھیں جیسے سارنگی ہو، وہ بختی نہیں تھی روتی تھی ، دکھ تھا درد تھا التجا تھی ، وہ منتیں کرتی تھی۔ ترلے لیتی تھی۔
میں اس سے پو چھتا غلام محمد لوگ نماز پڑھ کر دعا مانگتے ہیں تو ستار بجاتا ہے یہ کیا بات ہوئی ۔
وہ جواب دیتا میں بھی تو دعا ہی مانگتا ہوں ۔ یہ مجھ سے بہتر دعا مانگتی ہے رو رو کر ترلے لیتی ہے منتیں خرتی ہے دکھ درد کی کتھا سناتی ہے ۔
میں نے پوچھا غلام محمد تونے یہ دکھ کہاں سے پایا۔
بولا بڑی بھاری قیمت دے کر پایا ہے ۔ میں نے سب کچھ دے دیا جو میرے پاس تھا، سب کچھ۔ کیا تھا میرے پاس۔
میرے پاس آنکھیں تھیں جن میں پھلجھڑیاں چلتی تھیں۔ جس کی طرف نگاہ بھر کر دیکھتا وہ میری ہوجاتی ۔ میرے گرد پردانوں کی اک بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ میری صرف ایک خواہش تھی کہ ستار بجاؤں۔ لیکن وہ بجتی نہ تھی، پھر بابا جی آگئے ، میں نے کہا بابا دعا کرو کہ میری ستار بجے
بابا مسکرایا بولا، پتراندردرد نہیں تو ستار کیسے بجے۔
بابا نے میری آنکھوں کو کالے چشموں سے ڈھانپ دیا۔ حکم دیا کہ خبردار آنکھیں اٹھا کرنہیں دیکھنا۔ میں نے آنکھیں نیچی کرلیں ۔ پھر میری ستار بجنے لگی، ایسی بجی ایسی بجی کہ جب دعا مانگتی ہے تو وہ خود نیچے اتر کر میرے روبرو آکر بیٹھ جاتا ہے ۔
رشید نثار بھی بھرپور نگاہ سے دیکھتا ہے تو لگتا ہے کہ کبھی پ ھول انگارے جھڑتے تھے اب عدم استعمال سے زنگ آلود ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس کنہیا کے گرد بھی کبھی گوییوں کا جھرمٹ لگا رہتا تھا ۔ لی کن اس کے خون میں یہ خوف رچا بسا رہا کہ کچھ بن نہ جاؤں گمان غالب ہے کہ اس نے آنکھیں موند لیں۔ پھر بھی ایک ہندو دیوی نے اسے نثار کا لقب بخش دیا اور وہ عبدالرشید سے رشید نثار بن گیا ۔ پتہ نہیں وہ دیوی خود نثار تھی یا چاہتی تھی کہ رشید نثار ہوجائے ۔
رشید کی زندگی کا بیشتر المیہ اس کیJeansکی وجہ سے ہے اس کیJeansنے اس پر اتنی پابندیاں لگا رکھی ہیں کہ خود مختاری محض اک تہمت رہ گئی ہے۔
وہ ازلی طور پر ایک کامی ہے، خدمتی ہے، خاکسار ہے، عقیدتی ہے ۔ صرف صوفی منش ہی نہیں ساتھ ملا ستیہ بھی ہے ۔
صاحبو میں تصوف کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا۔ جاننے کی کوشش کی تو کتابوں نے مجھے مزید کنفیوز کردیا۔ کتابوں میں یہ عیب ہے کہ وہ راستہ نہیں دکھاتیں بلکہ چوراہے پر لاکر چھوڑ جاتی ہیں۔
میں نے بڑے صوفیوں کے تذکرے پڑھے ان میں پیر مرشد تھے سرکار قبلہ تھے صاحب کشف و کرامات تھے، لیکن ان کے اندر کے عظیم انسان کا ذکر نہ تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ ہم ان سے عقیدت پیدا کرسکتے ہیں ان سے محبت کے جذبے سے محروم رہتے ہیں۔
میری دانست میں صوفی ایک رویہ ہے ایک رخ ہے وہ یہ کہ جو ہے۔ جیسا کیسا بھی ہے خوب ہے ۔ جو نہیں ہے اس کا غم نہیں۔ بلکہ جو نہیں ہے وہ بھی خوب ہے کہ نہیں ہے اتنی سی بات انسان کو کیا مقام عطا کردیتی ہے ۔
صوفی منش لوگ صوفیا کی طرف عظمت کے مینار نہیں بنتے وہ انسانوں سے الگ نہیں ہوتے بلکہ صوفیا کی طرح ان میں گھلے ملے رہتے ہیں۔ رشید نثار کے یہ تمام اوصاف توارثی تھے خدمت اور عقیدت کی بیماری خاندانی تھی ۔
رشید کا دادا میان فضل احمدؒ کلیام اعوان کے بزرگ کا پگڑی بدل بھائی تھا۔ باپ میاں فضل کے مرید سائیں سنکھوری والے کی چوکھٹ کا چلہ کش تھا۔ بچپن ہی میں رشید کو بری امام کے حوالے کردیا گیا تھا۔ اس پر عائد تھا کہ خدمتی کامی بن کر زندگی گزارنی ہے اسی وجہ سے رشید نثار نے اتنی ساری ڈگریوں کے ہوتے ہوئے اپنے کیریر کا آغاز اخبار نویسی سے کیا۔
پھر قائد اعظم سے عقیدت ہوگئی ۔ انہوں نے حکم دیا کہ نشنٹ اخبار چھوڑ کر مسلم اخبار میں کام کرو۔ دیر تک مسلم لیگ کا ورکر بنارہا۔
رشید ایک انکوکھا سایسی ورکر تھا ۔ کچھ کرنا تھا، کچھ بننا نہیں تھا۔ اس لئے عمر بھر سیاسی کارکن رہنے کے باوجود کچھ بن نہ سکا پھر اسے خیال آیا کہ معالجی خدمت سیاسی خدمت سے بہتر ہے بچپن ہی میں وہ محلے کے لڑکوں کو اکٹھا کرکے حفظان صحت کا درس دیاکرتا تھا ۔ بچوں سے ورزش کراتا ۔ کوئی بچہ بیمار پڑ جاتا تو دوادارو کی تمام تر ذمہ داری رشید پر ہوتی تھی ۔ بہتر خدمت کے جذبے کی وجہ سے وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخل ہوگیا۔
ان دنوں خاکساروں کی سر گرمیاں زوروں پر تھیں۔ رشید نے کالج میں خاکسار سپرٹ کو اس شدت سے پھیلایا کہ خضر حیات کے حکم سے کالج سے نکال دیا گیا اور کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔
پھر وہ جی ایچ کیو میں کلرک بن گیا۔ کچھ دیر پنڈی رہا پھر کوئٹہ تبدیل کردیا گیا۔ وہاں کئی ایک سال روزنامہ اتحاد ایڈیٹ کرتا رہا۔
کوئٹے میں محشر رسول نگری سے عقیدت لگا بیٹھا ۔ تیرہ سال اس کے قدموں میں بیٹھا رہا۔
محشر رسول نگری ایک انوکھا بزرگ تھا۔ ریڈیو پاکستان کے بیشتر لوگ اس کے معتقد تھے ۔
محشر پہلی مرتبہ مجھ سے ملا تو کہنے لگا کہ مجھ سے ملو میں نے ان سے پوچھا کون، کہنے لگا میں اصل ہوں تم نقل ہو ۔ میرا نام محشر رسول نگری ہے ۔
میں نے کہا جا بھائی جا۔ تو بزرگ ہے ، میں نہ تو بزرگ ہوں نہ مجھے خود بزرگ بننے کی یا کسی بزرگ سے ملنے کی طلب ہے نہ میرا کسی بزرگ سے تعلق ہے ۔
اس نے گھور کر مجھے دیکھا بولا، آپ سے کس نے کہا کہ میں بزرگ ہوں یا میرا بزرگوں سے کوئی تعلق ہے ۔
سبھی کہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا۔
اور آپ مان لیتے ہیں ، مفتی آپ بڑے احمق ہیں۔
وہ تو میں ہوں میں نے کہا۔
میں بھی ہوں وہ مسکرایا۔ دیکھو وہ بولا تم بھی ایک انسان کے مارے ہوئے ہو میں بھی ایک انسان کا مارا ہوا ہوں جس کا میں مارا ہوا ہوں وہ اہم بی بی ایس ڈاکٹر تھا۔ مریض ڈاکٹروں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ وہ مریضوں کو ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ اس کا مسلک خدمت تھا بے غرض خدمت ۔
تم نے اپنی کتاب لبیک میں لکھا ہے ۔ کا ش کہ میں کسی ندی کو راہ بر بناتا۔ مجھے یہ تو پتہ چلتا کہ وہ کدھر سے آتی ہے کدھر کو جاتی ہے ۔ اس کی منزل کیا ہے لیکن میں نے سمندر کو راہ بربنالیا نہ پتہ چلتا ہے کہ وہ کدھر سے آتا ہے نہ پتہ چلتا ہے کہ کدھر کو جاتا ہے وسعت ہی وسعت ہے بے کراں وسعت تم نے لکھا تھا وہ بولا۔
ہاں لکھا تھا میں نے۔
وہ بولا بس یہی غلطی میں نے کی۔ اب میں بے کراں وسعت میں آوارہ ہوں۔
پتہ نہیں رشید نثار نے محشر میں کیا دیکھا 13 سال اس کی جوتیوں میں پڑا رہا۔
پھر اسے چنڈی جی ایچ کیو میں تبدیل کردیا گیا۔
جی ایچ کیو والے رول قانون کے دیوانے ہوتے ہیں وہ بیچارے سخت پریشان تھے کہ یہ رشید نثار کیا چیز ہے جو اتنی ڈگریاں ہوتے ہوئے بھی کلر کی کررہا ہے انہوںنے سوچ سوچ کر اسے نیشنل ڈیفنس اکادمی میں بھیج دیا۔
رشید نثار اپنی ڈیوٹی تو سر انجام دیتا رہا لیکن خدمتی کامی جذبے کی تسکین کے لئے ساتھ سیاسی ورکر کا کام بھی شدومد سے کرتا رہا۔
جی ایچ کیو نے اسے بہت سمجھایا کہ دیکھو ایسے نہیں چلے گا ہم فوجی لوگ ہیں فوجی سیاسی نہیں ہوتے ۔ تم یا تو نوکری کرو یا سیاسی کام کرو۔ یہ دونوں اکھٹے نہیں چل سکتے سوچ لو کہ کیا کرنا چاہئے ۔
رشید نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔پھروہ دہاڑی دار بن گیا۔ آج تک دہاڑی دار ہے ۔ جو کام مل اکرلیا۔ جتنے پیسے ملے بیوی کی جھولی میں ڈال دئیے۔
حیرت کی بات ہے کہ بیوی اس کی ساتھی ہے عام طور پر ایسے شخص کو ایسی بیوی عطا ہوتی ہے جو راستے کی رکاوٹ ہو۔ اللہ کے بھیدوں کو کس نے جانا ہے ۔
مل جاتا ہے تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں نہیں ملتا تو گزارہ کرلیتے ہیں۔ جیسے کیسے بھی ممکن ہو جو ہے خوب ہے۔
رشید نثار علامہ مشرقی کا پرستار ہے کہتا ہے کہ علامہ ایک بھر پور انسان ہے۔ سائینس دان ہے عالم ہے فلسفی ہے ۔ مسلمان ہے مجاہد ہے سوشل ورکر ہے اور سب سے بڑھ کر ایک عظیم آرگنائزر ہے جس نے خاکسار تحریک کو چلایا یہ ایک ایسی تحریک تھی جس کی روئے زمین پر مثال نہیں ملتی رشید نثار نے علامہ پر ایک کتاب تصنیف کی ہے ۔ ایک سال سے وہ کتاب تشنہ طباعت پڑی ہے خود چھپوانے کی توفیق نہیں ۔ پبلشرکا م نہیں جانتے ۔ وہ نام پوچھتے ہیں مقام پوچھتے ہیں۔ رشیدکے پاس صرف کام ہے نہ نام ہے نہ مقام وہ ایک خدمتی ہے کامی ہے زندگی میں اس کی کوئی منزل نہیں صرف سفر ہی سفر ہے ، جو میسر ہے خوب ہے جو نہیں ہے خوب ہے کہ نہیں ہے۔

ماخوذ از مجلہ : چہار سو (راولپنڈی ، پاکستان) [ممتاز مفتی نمبر]
شمارہ: اگست 1992

A sketch of Rasheed Nisar by Mumtaz Mufti.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں