پروین شاکر - کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-24

پروین شاکر - کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

parveen-shakir
پروین شاکر 24/ نومبر، 1952 کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں اور 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد کے ایک ٹریفک حادثے میں 42 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
پروین شاکر کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔ ان کی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار ہے، جو دردِ کائنات بن جاتا ہے اسی لیے انہیں دور جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔
پروین شاکر کے شعری مجموعے:
  • خوشبو (1976)
  • صد برگ (1980)
  • خود کلامی (1990)
  • انکار (1990)
  • ماہ تمام (1994)

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں:
جدید شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔

احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:
غالب کا ایک شعر ہے جو اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک انسان کے اندر جذبے کی سچائی زندہ ہے۔ شعر یہ ہے ؎
پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں، اے خدا
افسونِ انتظارِ تمنا کہیں جسے
مجھے پروین کی شاعری اس شعر کا پھیلاؤ معلوم ہوتی ہے۔ جذبوں کی تکمیل اور خوابوں کی تعبیر کا انتظار جبھی ممکن ہے جب انسان کے اندر تمنا کرنے کی صداقت ہو۔ اس تمنا کے فنکارانہ اظہار میں حسن و دیانت ہو اور پھر اس تمنا کو عمر بھر زندہ و برقرار رکھنے کا حوصلہ ہو۔ تمنا کرنے، یعنی انتظار کرتے رہنے کے اس طلسم نے ہومو سے لے کر غالب اور پھر آج تک کی اونچی، سچی اور کھری شاعری کو قلب انسانی کی طرح دھڑکنا سکھایا ہے اور پروین اس طلسم کاری سے اردو شاعری کو سچے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلا رہی ہے۔

نامور شاعر محسن بھوپالی نے لکھا ہے:
پروین شاکر کا شمار ان چند شاعرات میں ہوتا ہے جنہوں نے نہایت کم عرصے میں ادب میں نہ صرف اپنا اعتبار قائم کیا ہے بلکہ وہ ادا جعفری کے بعد دوسری شاعرہ ہے جس نے شہرت و مقبولیت کے لحاظ سے وہ مقام حاصل کر لیا ہے جو ہماری اردو شاعری میں بہت کم شاعرات کو حاصل ہوا ہے۔
پروین شاکر کا شعری گراف مسلسل ارتقا پذیر ہے اور اس کی شاعری نازک جذبات اور لطیف احساسات کی راہ سے ہوتی ہوئی شعور و فکر کے اعلیٰ مدارج کی طرف گامزن ہے۔

ممتاز مفتی نے سن 1990 کے اپنے مضمون "شہزادی پروین شاکر" میں لکھا ہے:
اس دنیا میں غزل کی وجہ آغاز عورت اور عورت کی وجہ آغاز مرد ہے اور اب یہ تینوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ اردو شاعری کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مردوں کے ساتھ خواتین شاعرات کی بھی کمی نہیں، مگر ان میں سے اکثر کے ہاں شاعرہ بولتی ہے تو عورت غائب ہو جاتی ہے اور عورت کی آواز سنائی دیتی ہے تو شاعرہ پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ پروین پہلی شاعرہ ہے جس کے ہاں عورت اور شاعرہ قدم سے قدم ملا کر چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ پروین شاکر کے کلام کے متعلق اشفاق احمد ورک نے لکھا ہے : 'پروین شاکر کو زبان پر پوری گرفت ہے۔ اردو زبان پر اور اپنی زبان پر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ الفاظ اور اشارات اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے ہیں۔ جو چاہتی ہے لکھ دیتی ہے۔ لوگ بھی وہی چاہتے ہیں، جو لکھ دیتی ہے۔'

علی سردار جعفری نے اپنے مضمون "نئی خوشبو" میں لکھا ہے:
پروین کی شاعری کا محور عشق ہے، اس کی تشبیہیں اور استعارے زیادہ تر فطرت سے لیے گئے ہیں۔ دھوپ، سورج، چاند، روشنی، پھول، بادل، پانی، ہوائیں انہیں سے مل کر اس کی امیجری کی تعمیر ہوئی ہے۔ لیکن اس کے عشق کے گرد شعور کا ایک خوبصورت ہالہ ہے، سماجی اور سیاسی احساس کا پرتو ہے، اس کی شاعری حسن صورت، حسن سیرت، حسن زبان اور حسن بیان سے آراستہ ہے۔ اس لیے اس میں دور دور تک کہیں اس عہد کی مردم بیزاری نہیں ہے۔ ذاتی تلخی اور خیال کے الجھاوے نہیں ہیں۔ وہ بصیرت ہے جو زندگی کو شائستہ بناتی ہے اور انسانی تہذیب کو وقار بخشتی ہے، لہجے کی تازگی میں بلا کی کشش ہے۔

فارغ بخاری لکھتے ہیں:
پروین شاکر کی خوبصورت فکر، انفرادیت اور شعری رویے بلاشبہ اس کی شہرت بڑھانے کا باعث ہیں لیکن اس کے علاوہ اس کی غزل میں بھی بڑا جادو ہے اور اسے غزل کی ایک بڑی شاعرہ ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا جس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک کے تمام چوٹی کے نقاد حضرات نے اپنے دور کی بڑی شاعرہ تسلیم کیا ہے اور اس کا لوہا مانا ہے۔

پروین شاکر کی پیش رو فہمیدہ ریاض (جن کا انتقال چند دن قبل 21/ نومبر 2018 کو ہوا ہے) نے پروین کی شاعری کے جمالیاتی پہلو کو ان الفاظ سے روشن کیا ہے:
زندگی کو بےحس بنا دینے والے روزمرہ سے چند لمحے بچا کر، آپ کبھی کسی کنج عافیت میں سکون سے بیٹھے ہیں؟ اور پھولوں پر منڈلاتی، ٹھہرتی، پنکھ جوڑتی اور کھولتی تتلی کو غور سے دیکھا ہے؟ اس کے نرم، نازک، سبک پروں پر پھیلتی، ایک دوسرے میں گھلتی، رنگوں کی لکیروں کو کانپتے دیکھا ہے؟
پروین شاکر کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ "خوشبو" اس ہولے سے تھرتھراتے ہوئے تتلی کے پنکھ کا ہی دوسرا نام ہے۔

***
پروین شاکر کی قبر کے کتبے کی عبارت :
perveen-shakir graveyard-kutba

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

عکسِ خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے

بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے

رکھا ہے آندھیوں نے ہی ہم کو کشیدہ سر
ہم وہ چراغ ہیں جنہیں نسبت ہوا سے ہے

پروین شاکر کے اولین شعری مجموعہ "خوشبو" کی پی۔ڈی۔ایف فائل یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجیے

نام کتاب: خوشبو
مصنفہ: پروین شاکر
مرتب: اقبال سائبر لائبریری ڈاٹ نیٹ
تعداد پی۔ڈی۔ایف صفحات: 349
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 6 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
khushboo Parveen Shakir UrduShairi.com.pdf

Parveen Shakir, A Poetess for the Modern Age.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں