ہندوستانی فلموں کی زبان - ماخوذ از رسالہ فلم حیدرآباد دکن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-13

ہندوستانی فلموں کی زبان - ماخوذ از رسالہ فلم حیدرآباد دکن

fortnightly magazine film hyd-deccan
غیرمنقسم ہندوستان کی سابق ریاست حیدرآباد دکن سے، سید سعد اللہ قادری میڈل کمیٹی کے زیراہتمام ایک پندرہ روزہ اردو فلمی رسالہ بنام "فلم" سن 1939 میں جاری کیا گیا۔ جس کی قیمت فی پرچہ دو آنے اور سالانہ خریداری 4 روپیے مقرر کی گئی تھی۔ 20/مارچ 1939 کو پہلا شمارہ شائع کیا گیا جس نے ریاست حیدرآباد کے علاوہ ہندوستان اور ہندوستان سے باہر بھی مقبولیت حاصل کی اور لندن، جرمنی، امریکہ، برما، عدن، سیلون اور سنگاپور سے رسالے کی ایجنسیوں کے آرڈر ناشر کو موصول ہوئے۔
رسالے کا اولین شمارہ ایک مخصوص موضوع "فلموں کے لیے موزوں ترین زبان" پر مبنی تھا جس پر ادارہ کو متعدد مضامین موصول ہوئے اور مدیر نے وضاحت کی کہ رسالے کے اگلے شمارے اسی مبحث سے مختص رہیں گے۔
درج ذیل مضمون بعنوان "ہندوستانی فلموں کی زبان" اسی رسالے کے شمارہ دوم سے ماخوذ ہے۔ اس مضمون کے مصنف مولوی محشر عابدی صاحب (بی۔اے، ایم۔ایس۔سی [عثمانیہ] مصنف 'محشرستان') ہیں۔

اسی دوسرے شمارے کے اداریے میں مدیر نے دیگر اہم اور دلچسپ باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا ہے کہ ۔۔۔۔
حیدرآباد میں حادثۂ بم اور سینما : چند اشرار نے ملک کی پرامن فضا کو مکدر کرنے کے لیے مختلف مقامات پر چار بم رکھ دیے تھے جس سے اکثر مجروح ہوئے اور ایک دو ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ یہ مذموم حرکت ہر حیثیت سے قابل نفرین ہے۔ اس سلسلہ میں مقامی پولیس کے انتظامات مستحق ستائش ہیں۔ اور خاص کر ایک عہدیدار پولیس مولوی احمد شاہ خاں کی جانبازی و بہادری کا واقعہ، جو کہ انہوں نے شاہراہ عام کے ایک بم کو اٹھا کر پانی کی ٹیپ میں رکھ دیا، قابلِ تعریف ہے۔
اس بم بازی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سینماؤں میں لوگ کم آ رہے ہیں اور رات کے دوسرے شو میں سینما ہال بالعموم خالی رہتے ہیں اس لیے کہ رات کی واپسی آج کل خطرناک سمجھی جاتی ہے۔
ایک دل آزار فلم : آر۔ کے۔ او۔ ریڈیو پکچرس کی مشہور و معروف فلم "گنگا دین" کی نمایش حکومت بنگال نے ممنوع قرار دی ہے۔ اس وجہ سے کہ اس فلم میں ہندوستانیوں کی تہذیب و معاشرت کو نہایت مبتذل طریقہ پر پیش کر کے ان کی سخت توہین و دل آزاری کی گئی ہے۔ ہم دیگر صوبہ جات سے بھی اسی طرز عمل کے متوقع ہیں اور "بنگال سنسر بورڈ" کے اس اقدام کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔


ہندوستان ایک ملک نہیں ہے ، بلکہ یہ بہت سے چھوٹے چھوٹے ممالک کا ایک مجموعہ ہے ، یہ ممالک اپنی معاشرت ،جغرافیائی حالات، قومیت، تمدن، تہذیب اور زبان کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ چنانچہ اگر صرف زبان کے نقطہ نظر سے دیکھاجائے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں بھانت بھانت کی بولیاں اور قسم قسم کی زبانیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بنگالی، ہندی ، پنجابی، سندھی، گجراتی، مرہٹی، تلنگی، تامل، کنٹری وغیرہ ۔ یہ سب زبانیں جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہوتا ہے خاص خاص صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً گجراتی، گجرات اور بمبئی وغیرہ میں بنگالی، بنگال میں اور پنجابی پنجاب میں مرہٹی صوبہ متوسط وبرار میں۔ تلنگی، ٹامل وغیرہ دکن اور جنوبی مشرقی حصوں میں ۔ ان صوبہ داری زبانوں کے ساتھ ساتھ دو اور زبانیں بھی ہر صوبہ میں رائج ہیں، ایک انگریزی جو صرف ایک مختصر اور مخصوص تعلیم یافتہ طبقہ میں بولی جاتی ہے اور دوسری اردو یا ہندوستانی جوعوام میں کثرت سے بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اور در حقیقت یہی وہ زبان ہے جو ہندوستان کی عام زبان (لنگو افرانکا) کہلائی جاتی ہے اور اس کے بولنے والے ہندوستان کے شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پائے جاتے ہیں ۔
یہ فطرت کا ایک اصول ہے کہ ہر شے اپنے ماحول سے متاثر ہوتی ہے اور اس لئے فلم کمپنیوں کے لئے بھی یہ امر ناگزیر تھا کہ وہ صوبہ داری زبانوں کے اثرات قبول نہ کرتیں، اور یہی وجہ ہے کہ فلموں میں بھی مختلف قسم کی زبانیں اختیار کی گئی ہیں ۔ اور ہندوستانی اردو زبان کی فلموں کے علاوہ مرہٹی ، تلنگی، بنگالی ، اور ٹامل زبان میں بھی فلمیں تیار کی گئی ہیں ، جو صر ف خاص خاص صوبوں تک محدود ہوتی ہیں۔
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستانی فلموں کی عام زبان کیا ہونی چاہئے ، اور فلم کمپنیوں کو کون سی زبانیں زیادہ فائدہ پہنچا سکتی ہیں؟
اس کا صرف ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ اردوہی ایک ایسی زبان ہے ۔ میرا یہ دعوی کہاں تک صحیح ہوسکتا ہے اس کو جانچنے کے لئے آپ فلموں کی زبان پر ناقدانہ نظر ڈال کر دیکھئے ۔
صوبہ داری زبانوں کی فلمیں صرف خاص خاص صوبوں تک محدود ہوتی ہیں اور ان سے اسی صوبہ کے باشندے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً بنگالی زبان کی فلمیں صوبہ، بنگال کی حد تک کامیاب ہوسکتی ہیں، پنجاب، یا یو۔ پی یا دکن میں اس زبان کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ او ر ظاہر ہے کہ جب تک فلم کی زبان عوام کی سمجھ میں نہ آئے وہ اس سے کیا فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔ یا انہیں اس سے کہاں تک لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا ۔ اسی طرح ہندی زبان کی فلمیں جن میں بالخصوص سنسکرت کے الفاظ کی کثرت ہو، صرف یو، پی ہی کی حد تک چل سکتی ہیں۔ وہ بھی صرف اعلی تعلیم یا فتہ طبقہ میں، عام ان پڑھ اور دیہاتی اس ہندی کو نہیں سمجھ سکتے ۔ ایسی ہندی زبان کی فلمیں پنجاب، مدراس اور دوسرے صوبوں میں کچھ زیادہ مفید اور کامیاب نہیں ہوسکتیں ۔ اسی طرح مرہٹی اور گجراتی زبانوں کو بھی لیاجاسکتا ہے جو سوائے گجرات سی۔ پی اور بمبئی کے اور کسی صوبہ میں قطعی نہیں بولی جاتیں، اور نہ ان زبانوں کی فلمیں دوسرے صوبوں میں چل سکتی ہیں ۔
ان امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا فلم کمپنیوں کے لئے یہ امر ضڑوری نہیں ہے کہ وہ ایسی فلمیں تیار کریں جن کی زبان ہندوستان کے ہر صوبہ میں تعلیم یافتہ اور ان پڑھ لوگ بھی سمجھ سکیں؟ یقینا اگر تعصب کی عینک ہٹا کر دیکھاجائے تو معلوم ہوگا کہ اسی زبان کی فلمیں کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا سکتی ہیں جو ہر صوبہ میں آسانی سے سمجھی جاسکیں ، اور یہ زبان صرف اردو ہوسکتی ہے ، ہندوستان کے کسی صوبہ میں چلے جائے ، خواہ وہ بمبئی میں ہو یا پنجاب، بنگال ہو یایو۔پی ہر جگہ آپ کو اردو زبان کے جاننے اور بولنے والے ملیں گے اور آپ ہر صوبہ میں اردو کے ذریعہ تبادلہ خیال کرسکیں گے ۔ لیکن نہ تو کسی دوسری صوبہ داری زبان مین آپ اپنا کام چلا سکتے ہیں اور نہ آپ کی ہندی آپ کی مشکل آسان کرسکتی ہے ۔
فلم کمپنیاں صوبہ داری زبانوں میں جو فلمیں تیار کرتی ہیں وہ صرف ایک یا زیادہ سے زیادہ دو صوبوں میں چل سکتی ہیں اور ان فلموں سے کمپنیوں کو جو آمدنی ہوگی وہ بھی محدود اور تھوڑی ہوگی ۔اس کے بر خلاف جوفلمیں اردو زبان میں تیار کی جائیں گی وہ ہندوستان کے ہر صوبہ میں کامیابی سے چلیں گی اور اس طرح تمام صوبوں سے جو آمدنی ہوگی وہ اس فلم کی آمدنی سے کئی گونہ زیادہ ہوگی جو صرف صوبہ داری زبان میں تیار کی گئی ہوگی ۔ پھر اس نقطہ نظر سے کون سی فلم کمپنی ایسی ہے جو یہ نہ چاہے گی کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرے اور اپنی فلموں سے ممکنہ منافع وصول کرے؟
میں یہ نہیں کہتا کہ صوبہ داری زبانوں میں فلمیں تیار ہی نہ کی جائیں ۔ نہیں صوبہ داری ذوق اور ضروریات کے پیش نظر ان کی زبانوں میں فلمیں تیار کی جائیں لیکن جو فلمیں سارے ہندوستان کے لئے تیارکی جاتی ہیں ان کی زبان نہایت آسان اور عام فہم اور یہ کوشش کی جائے کہ ہندوستان کا99 فی صد طبقہ اس کو سمجھ سکے ۔
اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ اب ہندوستان کی فلم کمپنیوں نے اس طرف توجہ کی ہے اور وہ ہندوستانی زبان میں 95 فی صدی فلمیں تیار کرنے لگی ہیں۔ لیکن یہ ہندوستانی زبان خالص ہندوستانی اردو نہیں ہوتی ۔ اور محض تعصب کی بنا پر اس کو مشکل بنادیاجاتا ہے اور اس میں سنسکرت کے الفاظ اس کثرت سے ٹھونس دئے جاتے ہیں کہ وہ عام لوگوں کی سمجھ سے بہت بالا تر ہوجاتی ہے۔ اسے ہندوستان کا 95 فیصدطبقہ سمجھ نہیں سکتا ۔ اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فلم خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو محض زبان کے سمجھ میں نہ آنے سے اس کی کامیابی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور اس سے فلم کمپنیاں حسب منشاء فائدہ نہیں اٹھا سکتیں۔ ان باتوں کو پیش نظرر کھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ فلموں میں مکالمہ۔۔۔۔ کی طرف زیادہ توجہ کی جائے اور اسے آسان اور عام فہم بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے، روز مرہ کا استعمال مکالموں میں نہایت ضروری ہے، شاعرانہ تشبیہات اور استعارے بہت کم استعمال ہوں اور اگر استعمال بھی کئے جائیں تو آسان اور سلجھے ہوئے ہوں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہندی زبان جس کو یو۔ پی کے چند پڑھے لکھے لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں فلموں کی عام زبان نہیں بن سکتی کیونکہ یہ ہندوستان کے ہر صوبہ میں آسانی سے سمجھی اور بولی نہیں جاتی ۔ میرے اس دعوئے کا ثبوت کہ اردو ہر صوبہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور اردو ہی وہ زبان ہے جو ہندوستان میں سب سے زیادہ بولی جاتی ہے ، اس طرح مل سکتا ہے کہ آپ خود ہندوستان کے مختلف صوبوں میں جاکر دیکھیں اور اردو بولنے والوں کے اعداد و شمار حاصل کریں۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فلموں کی زبان کا معیار کیا ہونا چاہئے اور اس میں کسی قسم کی زبان کو ترجیح دی جائے؟ اس سوال کے جواب میں میں چند فلموں کی زبان پر مختصراً تبصرہ کروں گا ۔ تاکہ فلموں خی زبان کا معیار قائم ہوسکے ۔
اگر آپ نے نیو تھیٹرز بمبئی ٹاکیز، منروامویٹون، ایسٹ انڈیا اور ساگر کی فلمیں دیکھی ہیں تو آپ خود اس کا فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ کون سی فلمیں تھیں جن کی زبان کو ہر شخص نے پسند کیا۔ جن کی زبان ملک کے ہر صوبے میں سمجھی گئی اور جنہوں نے ملک کے ہر گوشے سے خراج تحسین وصول کیا۔
وہ عام فہم آسان، دلکش اور پیاری زبان آپ کو "دیو داس" (نیو تھیٹرز) جوانی کی ہوا (بمبئی ٹاکیز) دھوپ چھاؤں( نیو ٹھیٹرز) کروڑ پتی(نیو ٹھیٹرز) پریزیڈنٹ(نیو ٹھیٹرز)ادھیکار (نیو ٹھیٹرز) خان بہادر اور جیلر(منروا) من موہن(ساگر) ایک دن کی بادشاہت(ایسٹ انڈیا) جیون نیا( بمبئی ٹاکیز) بھابی(بمبئی ٹاکیز) دنیا نہ مانے (پربھات) اس نے کیا سوچا، باغبان، تلاش حق وغیرہ میں ملتی ہیں ۔ ان فلموں میں سے دیو داس ، دھوپ چھاؤں ، کروڑ پتی، خاں بہادر، من موہن، جوانی کی ہوا اور دنیا نہ مانے، محض اپنی زبان کی صفائی سادگی اور دلکشی کی وجہ سے سارے ہندوستان میں غیر معمولی طو رپر کامیاب ہوئیں، اور پسند کی گئیں۔اور مالکان کمپنی کو امید سے زیادہ فائدہ ہوا ۔ آپ اگر غورسے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان فلموں خی زبان خالص ہندوستانی (اردو ) ہے ۔ اور یہی وہ زبان ہے جو ہندوستانی کی فلموں کی عام زبان ہونی چاہئے ۔ ان فلموں کی زبان کو آپ سمجھتے بھی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان سے زیادہ سے زیادہ لطف بھی اٹھاتے ہیں ۔ فلم دھوپ چھاؤں(نیو ٹھیٹرز) سے جو اردو زبان میں تھی، مالکان کمپنی کو جس قدر آمدنی ہوئی ہے ۔ وہ ان کی توقعات سے کئی گونہ زیادہ تھی۔ اور صرف صوبہ بمبئی میں اس فلم کی آمدنی ایک لاکھ سے متجاوز ہوچکی تھی ۔
ان فلموں کی چند مثالیں ذیل میں دی جاتی ہیں جن کی زبان سنسکرت کی زیادتی کی وجہ سے عام لوگوں کے لئے زیادہ دشوار بن گئی ہے اور وہ بہت مشکل قسم کی ہندی کہلاتی ہے جسے صرف تھوڑے سے تعلیم یافتہ لوگ سمجھ سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ودیاپتی جیسی بلند پایہ فلم بھی کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئی۔ پربھات کی فلمیں مثلاً امرت منتھن، امر جیوتی، وہاں وغیرہ (نیو ٹھیٹرز) کی فلمیں پورن بھگت، چندی داس، پجارن وغیرہ رنجیت کی فلمیں، ایسٹ انڈیا کی فلمیں، بالخصوص سیتا وغیرہ بمبئی ٹاکیز کا وچن ان کے علاوہ ہندوستان کی بے شمار فلم کمپنیاں ایسی ہیں جو عام فہم زبان کو خواہ مخواہ سنسکرت اور ہندی کے غیر مانوس الفاظ کی بھرمار سے مشکل اور ناقابل فہم بناتی ہیں ، اور روز مرہ کی عام زبان اردو کو ترک کر کے ایک نئی زبان پیش کرتی ہیں ۔ جو نہ تو ہندوستانی ہوتی ہے ، نہ اردو نہ ہندی۔
چند ایسے الفاظ جو روز مرہ میں استعمال نہیں ہوتے اور صرف فلموں میں داخل کئے جاتے ہیں یہ ہیں، سہائتا ، آشیر باد ، وشا، شکتی، آتما، پراشچت، بھگتی، شوبھ، سنتوش ، کارن، سینا پتی، مہامنتری، شکشا، بلیدان، اپسرا، کشایش، شبد وغیرہ بعض فلموں کے مکالموں میں اکثر بڑے بڑے عربی اور فارسی کے الفاظ آجاتے ہیں جو عام لوگوں کے لئے کسی قدر مشکل ہوجاتے ہیں اس لئے ایسے الفاظ کے استعمال سے بھی حتی الامکان مکالمہ نہ کرنا چاہئے مثلاً گلشن بے خزاں کی بہار ، عرضداشت ، تشریف، عقلمند، حرف غلط، موجوں کا ترنم، نسیم کے جھونکے وغیرہ۔
گانے عموماً آسان ہندی ملی ہوئی اردو میں زیادہ پسند کئے جاتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کے راگوں میں ایک دلکشی اور ایک میٹھا س ہوتی ہے اور یہ آسانی سے سب کی سمجھ میں آجاتے ہیں ۔ مثلاً بمبئی ٹاکیز کے بھابی نامی فلم کا ایک گانا درج ذیل ہے اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے
بن تتلی۔ بن تتلی
میں پھول پھول پر جاتی رس پاتی اڑ جاتی، بن تتلی، بن تتلی
اک پھول سے بات بتاتی، دوجے کو رنگ روپ دکھاتی، دونوں سے رس پاتی، اڑ جاتی ، بن تتلی۔
ایک دو ، تین چار، پانچ چھے، سات ، آٹھ، سب کو دیتی ایک ہی پاٹھ، مسکاتی ، من بھاتی، رس پاتی اڑ جاتی۔
بن تتلی یادودیاپتی میں کے ۔ سی ڈے(مدھو سوون) ایک جگہ گاتا ہے ۔ گوکل سے گئے گردھاری، ہوئی سونی نگری ساری، جت دیکھو ات چھائی اداسی ، روت ہیں نرناری وغیرہ۔
فلموں میں غزلیں بھی گائی جاتی ہیں، لیکن اکثر غزلیں مشکل ہوتی ہیں اور ضڑورت اس بات کی ہے کہ ان کو آسان سے آسان بنا کر پیش کیاجائے ، مثلاً یہودی کی لڑکی میں غالب کی ایک غزل جس کا پہلا مصرعہ یہ ہے:
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
عام فہم نہیں ہے اور صرف تعلیم یافتہ طبقہ ہی اس سے لطف اندوز ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح اس نے کیا سوچا؟ نامی فلم میں غالب کی ایک غزل کو کئی افراد نے گایا ہے ، جس کا شعر یہ ہے :
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی ہے
ذرادشوار ہے۔ البتہ مندرجہ ذیل غزل جو پجارن (نیو ٹھیٹرز) سے لی گئی ہے بہت آسان ہے
جو بیت چکی ، سو بیت چکی اب اس کی یاد ستائے کیوں خوش رہنے والی صورت پر اچنتا کی بدلی چھائے کیوں
پھولوں سے جس کو نفرت ہو اس کی خوشبو سے وحشت ہو جس دل کی مچلنا عادت ہو پھر کوئی اسے بہلائے کیوں
آخر میں میں مسٹر سدرشن (نیو ٹھیٹرز) کے مکالمہ نویس اور فسانہ نگار کے ایک مضمون ہندوستانی فلموں کی زبان، (مطبوعہ عکاس کلکتہ جنوری 36ء) کا اقتباس درج کرکے ختم کرتا ہوں، مسٹر سدرشن نے بھی فلموں کی زبان وہی بتائی ہے جس کو اوپر بیان کیا جاچکا ہے ۔ وہ کہتے ہیں۔
"ہمیں ہندوستان کے لئے اس وقت ایک ایسی آسان زبان کی ضرورت ہے جس میں نہ فارسی اور عربی کے ادق الفاظ کی بھرمار ہو نہ سنسکرت کے موٹے موٹے اور ثقیل شبدوں کی ٹھونس ٹھانس ، آسان اور حسین الفاظ دونوں زبانوں سے لے لئے جائیں۔ مشکل اور بھدے الفاظ دونوں زبانوں کے ٹھکرا دئیے جائیں اور اس طرح ایک ایسی زود فہم اور آسان زبان تیار کرلی جائے جو ہندوستان کے بچے بچے کے منہ میں بیٹھ سکے ۔ یہی ہندوستانی ہماری فلمی زبان ہونی چاہئے ، میرا دماغ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایسی ملی جلی اور حسین زبان کے اوپر کسی کو اعتراض کی انگلی اٹھانے کی کیونکر جرات ہوسکتی ہے ۔ ایک ہندی پریمی کہتا ہے؟
"اسیتھ بھاشن کے پاٹھ کوئی تم سے پڑھ لے ۔ مجھے کس کس پر کار ٹھگتے رہے ہیں کہتے تھے ہم پاشان کے بیوپاری ہیں۔"
مگر اے کئے فی صدی مسلمان سمجھیں گے؟ کوئی اردو کا عاشق اس خیال کو ان الفاظ میں ظاہرکرے گا۔
"کذب و افترا کے اسباق کوئی تم سے پڑھ لے ، مجھے انواع و اقسام کے طریقوں سے گمراہ کرتے رہے ہیں۔ کہتے تھے ہم پتھروں کے تاجر ہیں۔"
اب بتائیے اسے عام ہندو سمجھ سکتا ہے؟
مگر ہندوستانی زبان اسے یوں کہے گی۔
"جھوٹ بولنا کوئی آپ سے سیکھ لے، مجھے کیسے کیسے دھوکے دیتے رہے ہیں، کہتے تھے ہم پتھروں کے سوداگر ہیں۔"
یقینا اسے ہندواور مسلمان دونوں سمجھ سکتے ہیں ۔ دونوں کو کسی لفظ کے معنے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ اور دونوں کے لئے زبان کا چٹخارہ بھی اس میں موجود ہے ۔"
مسٹر سدرشن کی ہندوستانی کو ہم آسان اور عام فہم اردو کہتے ہیں ۔ اور یہی ہماری فلموں کی زبان ہونی چاہئے ۔

ماخوذ از رسالہ: پندرہ روزہ فلم (حیدرآباد دکن)
شمارہ: اپریل 1939 (جلد:1 ، شمارہ:2)

The language of Indian movies. Article: Molvi Mahshar Abidi ("Film" magazine Hyderabad, April-1939 2nd issue)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں