جنوبی ہند کی قدیم صحافت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-06

جنوبی ہند کی قدیم صحافت

earliest-journalism-of-india
ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال اپنی کتاب "جنوبی ہند کی اردو صحافت (1857 سے پیشتر)" ، جس کا پہلا ایڈیشن 1981 میں 'معین پبلی کیشنز (مقام مسعود، جام باغ روڈ، حیدرآباد دکن)' کے زیراہتمام شائع ہوا تھا، کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
زیرنظر کتاب "جنوبی ہند کی اردو صحافت (1857 سے پیشتر)" میری ایک علمی تحقیقی کاوش ہے جسے میں بڑے عجز و انکسار کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ نہ اپنی تحقیق کے بارے میں جامعیت کا دعویٰ ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اردو زبان میں پہلی مرتبہ جنوبی ہند کی قدیم صحافت پر سیر حاصل روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اردو اخبارات کی ابتدائی تاریخ ابھی تاریکی میں ہے۔ اگرچہ مولانا امداد صابری کی "تاریخ صحافت اردو" ، جناب عتیق صدیقی کی "ہندوستانی اخبار نویسی" اور ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی "صحافت پاکستان و ہند میں" جیسی اہم کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں لیکن ان کتابوں میں جنوبی ہند کی اردو صحافت پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اسی لیے مجھے خیال ہوا کہ جنوبی ہند کی قدیم صحافت پر اپنی تحقیقات کو علمی دنیا کے سامنے پیش کروں تاکہ صحافت کی قدیم تاریخ کا کوئی گوشہ تشنہ نہ رہے۔
ہندوستان میں اخباروں کا رواج ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے ابتدائی زمانے سے ہوا۔ ممتاز مورخ ڈاکٹر تار اچند لکھتے ہیں:
"کمپنی کی حکومت کے ابتدائی زمانے میں سب سے پہلے انگریزی اخبار جاری ہوئے جن کے مالک انگریز تھے۔"
ہندوستان کے سب سے پہلے انگریزی اخبار کے متعلق علامہ عبداللہ یوسف علی نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں سب سے پہلے جس انگریز نے اخبار جاری کیا وہ جیمس آگسٹس ہکی(JAMES AUGUSTUSHUCKY) تھا اس نے 29 جنوری 80ء17 میں "ہکیز بنگال گزٹ(HICKY'S BENGAL GAZETTE) جاری کیا تھا۔
ہندوستان کے اس اولین اخبا رکے متعلق ڈاکٹر عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں کہ یہ اخبار 8x12 انچ سائز کے چار صفحات پر مشتمل ہوتا تھا اس میں زیادہ تر اشتہار ہوتے تھے۔ مضامین زیادہ تر ایسے ہوتے تھے جن میں کمپنی کے ارباب بست و کشاد کے خلاف زہریلے اشارات کیے جاتے تھے۔ لکھنے کا یہ طریقہ تھا کہ خیالی ڈرامے میں مضحکہ خیز کردار مخالفتوں کو دئیے جاتے تھے ان کے اصل نام تو درج نہیں ہوسکتے تھے لیکن فرضی نام اس طرح رکھے جاتے تھے کہ قارئین صاف پہچان جاتے کہ کس کی طرف اشارہ ہے اس نے کمپنی کے عام ملازمین سے لے کر گورنر جنرل وارن ہسٹنگز تک کو اپنے تیرونشتر کا نشانہ بنایا اور ان کی نجی زندگی کے تاریک پہلو بے بے نقاب کیے یہاں تک کہ مسز ہسٹنگز کے خلاف بھی فحش اشارے کئے۔
ہیکز بنگال گزٹ کی ایک فائل کلکتہ کی نیشنل لائبریری میں اور دوسری لندن کے انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے ۔
ہندوستان کے دوسرے اخبار کے متعلق عتیق صدیقی نے لکھا ہے کہ"ہکیز گزٹ" کے اجراء کے نو مہینوں کے بعد نومبر 80ء17 میں انڈیا گزٹ کا کلکتہ سے اجراء ہوا جو ہندوستان کا دوسرا انگریزی ہفتہ وار تھا ۔ ڈاکٹر عبدالسلام خوشید کا بیان ہے کہ انڈیا گزٹ کے مالک دو تاجر تھے ایک کا نام بی مسینک(B.MESSINK) تھا اور دوسرے کا پیٹر ریڈ(PETER REED) ان دونوں نے گورنر جنرل کی اجازت سے اخبار نکالا اور حکومت کو یقین دلایا کہ وہ سرکار دولت مدار کی مرضی کے مطابق چلیں گے۔ یہ اخبار بڑے سائز کے چار صفحات پر مشتمل ہوتا تھا ہر صفحے پر تین کالم ہوتے تھے کاغذ اور چھپائی اعلیٰ ہوتی تھی ۔ اس کا ایک فائل پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں محفوظ ہے۔انڈیا گزٹ اکثر ہکی کے خلاف لکھا کرتا تھا۔ انڈیا گزٹ کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں اخبار دربار معلی کے حوالے سے دہلی کے مغل دربار کی تمام خبریں چھپا کرتی تھیں۔
ہکیز گزٹ اور انڈیا گزٹ کے اجراء کے بعد انگریزی اخبارات کے اجراء کی راہ ہموار ہوگی چنانچہ کلکتہ ہی سے 4؍مارچ 84ء17 کو ہندوستانک ے تیسرے انگریزی ہفت روزہ اخبار"کلکتہ گزٹ کا اجراء ہوا۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کا بیان ہے کہ اس اخبار کی ادارت کے فرائض فرانس گلیڈون کے سپرد ہوئے جو اس زمانے کا مشہور اور ممتاز ادیب اور مترجم تھے اس نے فارسی کی بے شمار کتابیں انگریزی یں منتقل کی تھیں۔

شمالی ہند میں انگریزی صحافت کی ابتداء
شمالی ہند کا پہلا انگریزی چھاپہ خانہ 22ء18 میں کانپور میں قائم ہوا ۔ اس چھاپے خانے کے بانی سیم ویل گرین وے تھے اور اسی چھاپے خانے سے شمالی ہند کاپہلا انگریزی اخبار کانپور ایڈورٹائزر کے نام سے شائع ہوا ۔
30ء18 میں کانپور کے اس چھاپے خانے کی ایک شاخ میرٹھ میں قائم کی گئی ۔ انگریزی چھاؤنی ہونے کی وجہ سے ان دونوں شہر میرٹھ شمالی ہند میں انگریزوں کا بڑا مرکز بن گیا تھا ۔ 31ء18 میں میرٹھ آب زردر کا اجرا ہوا ،35،18 میں ماہوار" میرٹھ یونیورسل میگزین" جاری ہوا۔ یہ شمالی ہند کا پہلا انگریزی رسالہ تھا لیکن زیادہ دنوں تک چل نہ سکا۔
ڈاکٹر ہنڈرسن نے نومبر 32ء18 میں آگرہ اخبار جاری کیا جو عرصہ تک جاری رہا اور اس کا شمار ہندوستان کے بہترین انگریزی اخباروں میں ہونے لگا تھا۔33ء18 میں دہلی کے پہلے اخبار کا دہلی گزٹ کے نام سے اجراء ہوا ۔ یہ انگریزی زبان کا ہفتہ وار اخبار تھا ۔ اس اخبار کا اپنا چھاپہ خانہ بھی تھا جو دہلی کا پہلا چھاپہ خانہ تھا ۔ دہلی گزٹ کا آخری نمبر11؍مئی 57ء 18 کو شائع ہوا۔ دہلی گزٹ کے علاوہ اور بھی اخباروں کا دہلی سے اجرا ہوا۔
الہ آباد کا پہلا چھاپہ خانہ 36ء18 میں قائم ہوا ۔ اسی چھاپے خانے سے "سنٹرل فری پریس جرنل" کے نام سے ایک اخبار جاری ہوا جو الہ آباد کا پہلا اخبار تھا۔ غرض "ہندوستانی اخبار نویسی"‘ کے مصنف کا بیان ہے کہ 1836ء سے لے کر1857ء میں عیسائی مبلغوں نے اپنی تبلیغی سر گرمیوں کا مرکز شمالی ہند کو بنالیا تھا ۔ چنانچہ بنارس، مرزا پور ، الہ آباد، آگرہ اور لدھیانہ میں انہوں نے اپنے چھاپے خانے قائم کئے اور ان میں سے بیشتر چھاپے خانوں سے انگریزی ، فارسی اور اردو کے اخبارورسائل نکالے ۔
اس نوبت پر اس کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ 52ء18 میں "فرنگستان کے ماتحت ملکوں" میں جملہ دو ہزار نوسو چوالیس(2944) انگریزی اخبار جاری تھے اس کی تفصیل مدراس کے "اعظم الاخبار" میں درج ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ"امریکہ میں 14، اسپین میں 24، پرتگال میں2،ہندوستان میں24، بلجیم میں65،روس و پولینڈ میں90، پیرس میں 200 جرمن میں32، ایئر لینڈ میں 500اور جزیرہ امریکہ میں 1800 وغیرہ۔ جملہ دو ہزار نو سو چالیس پرچہار فقط انگریزی اخبار نامے جو آج کل مروج ہیں۔(اعظم الاخبار، مورخہ یکم جولائی 52ء18)

جنوبی ہند میں صحافت کا آغاز
جنوبی ہند میں بھی صحافت کا آغاز ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد ہی میں انگریزی اخبارات سے ہوا۔ ہندوستان کے پہلے اخبار "ہکیز گزٹ" کلکتہ کے اجراء(80ء17) کے پورے پانچ سال بعد 85ء17 میں جنوبی ہند میں صحافت کا مدراس سے آغاز ہوا۔

مدراس میں صحافت کی ابتداء
شہر مدراس کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کی سر زمین سے جنوبی ہند کا پہلا اخبار "مدراس کوریر"(MADRAS COURIER) کے نام سے 12؍اکتوبر 85ء17 کو شائع ہوا۔ اس اخبار کے اڈیٹر اور مالک رچرڈ جان اسٹون(RICHARD JOHN STONE) تھے ۔ عتیق صدیقی اس اخبار کے متعلق مزید لکھتے ہیں کہ یہ ہفتہ وار دو ورقی اخبارتھا ۔ ولایت سے جب اخبار آتے تو ایک ورق اور بڑھا دیاجاتا ۔ پہلے دو صفحوں پر ولایتی اخباروں کا خلاصہ ہوتا تھا تیسرے صفحے پر ہندوستان کی خبریں اور نامہ نگاروں کی چھٹیاں درج کی جاتی تھیں اور چوتھا صفحۃ نظم ادبی مضمون اور اشتہار کے لئے وقف ہوتا تھا اخبار کا سائز 20x12 انچ ہوتا تھا ۔ یہ اگرچہ باضابطہ سرکاری اخبار نہ تھا مگر مدراس کی حکومت اس کی حمایت و سر پرستی ضرور کرتی تھی ۔ چنانچہ کمپنی کا سرکاری نشان بھی اخبار کے سرورق کی زینت ہوا کرتا تھا ۔ سرکاری اشتہارا ت جو اب تک سی گیٹ(SEA GATE) پرچسپاں کئے جاتے تھے وہ اب مدراس کورییر کے صفحات میں چھپنے لگے تھے ۔ اخبار کی قیمت صرف ایک روپیہ ماہوار تھی جو اس دور کے کلکتے کے اخباروں کی قیمتوں کے مقابلے میں بہت کم تھی ، حکومت نے از راہ امداد و سرپرستی مدراس پریسیڈنسی کے حدود میں اخبار کے لئے محصول ڈاک معاف کردیا تھا ۔ بمبئی کی حکومت بھی اس اخبار کی خریدار تھی ۔ تقریبا ً آٹھ سال تک مدراس کورییر مدراس کے علاقے کا واحد اخبار رہا۔
93ء17 میں ہیوج بائیڈ(HUSH BOYD) نے اپنا ایک ذاتی اخبار ہرکارد(HARKARD ) کے نام سے نکالا یہ مدراس کا دوسرا ہفتہ وار اخبار تھا۔ لیکن ابھی ایک برس گزرا تھا کہ بائیڈ کا انتقال ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ہر کارد بھی بند ہوگیا۔
جنوری 95ء17 میں مدراس گزٹ(MADRAS GAETTE) کے نام سے ولیم سن(WILIAAM SON) نے ایک اخبار جاری کیا جو مدراس کا تیسرا ہفتہ وار اخبار تھا ۔ یہ اخبار کمپنی کے حکام کو پسند نہ تھا چنانچہ اس پر سنسر شپ عائد کردی گئی ۔
مدراس گزٹ کے اجراء کے ایک مہینے بعد ہمفریر(HPMPHREYS) نے انڈیاہیرلڈ(INDIA HERALD) کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار جاری کیا۔ یہ مدراس کا چوتھا انگریزی اخبار تھا ۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں کہ انڈیا ہیرلڈ حکومت سے اجازت لیے بغیر جاری کیا گیا تھا اس لئے اس کے ایڈیٹر ہمفریز کو فوراً گرفتار کرکے انگلستان روانہ کردیا گیا لیکن یہ شخص جہاز سے غائب ہوگیا اور پھر اس کا سراغ نہ ملا۔

مدراس میں سنسر شپ
مدراس گزٹ میں ہمفریز نے 59ء17 میں کچھ ایسی خبریں شائع کیں جن کی اشاعت گورنمنٹ مدراس کو سخت ناگوار گزری چنانچہ حکومت نے یہ حکم دے دیا کہ مدراس گزٹ کی اشاعت سے قبل اس کے پروف ملڑی سکریٹری کے سامنے معائنے کے لئے پیش کئے جائیں ۔ اب تک سنسر کا یہ طریقہ ہندوستان میں کسی اخبار کے ساتھ نہیں برتا گیا تھا ساتھ ہی حکومت نے ایک اور حکم جاری کیا جس کی زد میں مدراس کے اور اخبار بھی آگئے یعنی محصول ڈاک کی مراعاتیں واپس لے لی گئیں۔ جب اخباروں نے شور مچایا اور اس کے خلاف شدید احتجاج کیا تو یہ طے پایا کہ محصول ڈاک اخباروں کے بجائے خریداروں سے وصول کیاجائے ۔ اس نئے حکم کا اثر براہ راست خریداروں پر پڑا اور اس طرح اخباروں کی قیمت میں اضافہ ہوگیا۔

بمبئی میں صحافت کی ابتداء
ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی تحقیق کے بموجب بمبئی کا پہلا اخبار بمبئی گزٹ(BOMBY GAEZTTE) تھا اور دوسرا بمبئی ہیرلڈ(BOMBY HERALD) بمبئی گزٹ 25 جون 1790ء کو جاری ہوا۔ بمبئی ہیرلڈ13؍جولائی 1790ء کو جاری ہوا۔ ان بیانات کی تصدیق" کلکتہ کرانیکل"کے 29 جولائی اور 12 جولائی اور 12 اگست کے پرچوں سے ہوسکتی ہے جس کا فائل پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں موجود ہے ۔ عتیق صدیقی نے 29 جون 1790ء کے کلکتہ گزٹ کے حوالے سے جس میں بمبئی گزٹ کا اشتہار شائع ہوا ۔ بتاتے ہیں کہ بمبئی گزٹ میں بمبئی کی تجارتی و تفریحی خبروں کے علاوہ ڈچ اور پرتگالی نو آبادیوں کی خبریں نیز خلیج فارس ، جزیرہ آرموز اور مالا بار کے ساحلی علاقوں سے لے کر کیپ کیمرن تک کے دیسی شہروں کی خبریں شائع کی جاتیں اخبار کا سالانہ چند چالیس روپے تھا اور فورٹ ولیم کلکتہ اور فورٹ سینٹ جارج مدراس کی پریسیڈ نسیوں میں ہی اخباربلا محصول ڈاک روانہ کیا جاتا تھا۔

حیدرآباد میں صحافت کی ابتداء
مدراس اور بمبئی کے مقابلے میں حیدرآباد میں صحافت کا آغاز تقریباً اسی 80 سال بعد 1864ء میں ہوا۔ حیدرآباد دکن کے پہلے اخبار کے متعلق مولوی نصیر الدین ہاشمی مرحوم لکھتے ہیں:
"حیدرآباد میں بھی اخبار کا آغا ز انگریزی اخبار سے ہوا ہے ۔ حیدرآباد کا پہلا انگریزی اخبار"دکن ٹائمس" تھا جو 1864ء میں شائع ہونے لگا۔"
"بستان آصفیہ" کے مولف نے اس اخبار کے متلعق مزید صراحت کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ اخبار ابتداء میں نو مسلم عبدالقادر مرحوم نے سکندر آباد سے جاری کیا، بعد ازاں ڈاکٹر ساسمن اور فالبس وکیل کی شرکت سے چلایا ۔ 1885ء میں شاہ پور جی چینائی نے پریس مع ملکیت اخبار خرید کرکے مسٹر گریبل کی شرکت سے چلایا بعدازاں 1891ء میں سرکار عالی نے مطبع اور اخبار کو خرید کر کے بند کردیا۔

بنگلور و میسور میں صحافت کی ابتداء
بنگلورو میسور میں انگریزی اور اردو صحافت کا آغاز 1857ء کے بعد ہوا۔یہاں کے پہلے انگریزی اخبار کے متعلق محققین خاموش ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے بنگلور ہیرالڈ یہاں کا پہلا انگریزی اخبار تھا ۔ مدراس کے ایک قدیم اردو اخبار"اعظم الاخبار" میں اکثر بنگلور ہیرالڈ کے حوالے سے خبریں شائع ہوتی تھیں چنانچہ 1851ء کے بعض شمارے ہماری نظر سے گزرے ہیں جن میں بنگلور ہیرالڈ کے حوالے سے خبریں جاری کی گئی ہیں۔ یہ اخبار 1869ء میں بھی شائع ہورہا تھا کیونکہ اس سنہ کے مظہر الاخبار (مدراس) میں بنگلور ہیرالڈ کے حوالے سے خبریں موجود ہیں۔ ڈاکٹر حبیب النساء ریاست میسور میں اردو کی نشوونما میں لکھتی ہیں کہ بنگلور میں دو اخبار جاری تھے، بنگلور ہیرالڈ ہفتہ میں دو مرتبہ شائع ہوتا تھا اس کے علاوہ انگریزی کنٹری ہفتہ وار اخبار بھی جاری تھا۔ علاوہ بریں یہاں صوبہ مدراس کے اخبارات بڑے شوق سے پڑھے جاتے تھے۔

علاقائی زبانوں کی صحافت کی ابتداء
بنگالی:
برعظیم کی علاقائی زبانوں میں بنگال کو یہ فخر حاصل ہے کہ سب سے پہلے اسی زبان میں اخبار اور رسالے جاری ہوئے ،۔ بنگالی صحافت آہستہ آہستہ ترقی کرتی چلی گئی 1824ء اور 1826ء کے درمیانی عرصے میں چار بنگالی اخبار موجود تھے، تین کلکتہ میں اور ایک سی رامپور میں۔1830ء میں ان کی تعداد سولہ ہوگئی جن میں تین روز نامے بھی شامل تھے، اس عہد کے بنگالی اخبارات میں چند ایسے بھی تھے جن میں فارسی صفحات بھی شامل ہوتے تھے ۔ مثلا بنگادوت فارسی اور بنگالی دونوں زبانوں میں بیک وقت چھپتا تھا۔ راجہ رام موہن رائے نے اپنی اصلاحی تحریک کے لئے بنگالی اور فارسی صحافت کو ذریعہ بنایا تھا۔

ہندی:
ہندی زبان کا اولین اخبار 20مئی1826ء کو کلکتہ سے جاری ہوا۔ اس کے ایڈیٹر منو ٹھاکر تھے لیکن ڈیڑھ سال سے زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ 1836ء میں کلکتہ سے پرجا متر اور 1849ء مین جگ دیپک بھاسکر نکلا لیکن یہ اخبارات ناکام رے۔ 1854ء میں کلکتہ سے ہندی کا پہلا روزنامہ سماچار سدھادرشن جاری ہوا۔

تامل:
تامل زبان کی صحافت کا آغاز عیسائی مشنریوں کی سر گرمیوں سے ہوا۔ پہلا اخبار 1855ء میں راج ورنی بود یمنی کے نام سے نکلا۔ اسی سال دنیا ورتمانی کے نام سے ایک اور ہفتہ وار اخبار شائع ہونے لگا ۔ یہ اخبارات عیسائیوں کی ملکیت تھے ان کا مقصد یہ تھا کہ تامل بولنے والوں میں عیسائی کی تبلیغ کی جائے ۔ اس لئے ان میں اس زمانے کے سیاسی اور معاشرتی مسائل پر کچھ نہیں لکھاجاتا تھا ان جرائد کو سرکاری امداد حاصل تھی ۔ ان اخبارات نے مقامی آبادی کو کوئی خاص متاثر نہیں کیا۔

تلگو:
ہندوستان میں تلگو صحافت کاآغاز جنوبی ہند سے ہوا ۔ پہلا تلگو اخبار 1838ء میں سیتہ بوتا (سچا پیغامبر) کے نام سے بلاری(کرناٹک) سے شائع ہوا ۔ بعض محققین کا خیال ہے ورتانتی تلگو کا پہلا ہفتہ وار اخبار تھا ۔ جسکا اجرا 1838ء میں ہوا۔ 1846ء میں ورتا ماتانرنگنی ہفتہ وار اخبار مدراس سے شائع ہوا ۔ اس اخبار کے ایڈیٹر محمد رحمت اللہ تھے ۔ انہیں تلگو زبان کے پہلے صحافی ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔1842ء میں ایک ماہنامہ با تصویر ہفتہ وار السٹریڈر کے نام سے مچھلی بندر سے جاری ہوا ۔ اس کا ایڈیٹر ایک انگریز تھا ۔ اس اخبار میں عیسائی مشنری کا پرچارکیا جاتا تھا۔ برٹش میوزیم میں قدیم تلگو اخبارات موجود ہیں۔ 1850ء میں تلگو اخبارات کا کافی چلن رہا، مذۃبی، ادبی سیاسی اور ثقافتی موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ۔ 1862ء میں عیسائی مشنری کی جانب سے ایک روز نامہ دن ورتہ مانی مدراس سے جاری ہوا۔ یہ تلگو کا پہلاروزنامہ تھا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کی خبریں عوام کی بول چال کی زبان میں ہوا کرتی تھیں۔

مراٹھی:
مراٹھی زبان کا پہلا اخبار بمبئی درپن تھا جو 1832ء میں پونا سے جاری ہواتھا۔ اس میں انگریزی اور مراٹھی دونوں زبانوں کے مضامین چھپتے تھے ۔ یہ اخبار حالات کا نہایت غیر جانبدار جائزہ پیش کرتا تھا ۔ مرہٹی زبان کا پہلا ماہنامہ رسالہ ڈگ درشن تھا۔ جو 1840ء میں جاری ہوا۔ 3؍جولائی 1840ء کو خالص مرہٹی زبان کا پہلا اخبار ممبائی اخبار کے نام سے جاری ہوا لیکن چند ماہ بعد بند ہوگیا ۔ اس کے بعد کئی اور اخبار نکلے ان میں اپدیش چندریکا ہندو مذہب پر مسیحی مشنریوں کے حملوں کا جواب دیتا تھا۔

علاقائی زبانوں کی صحافت کے اس مختصر سے تذکرے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عیسائی مشنریوں نے اپنے تبلیغی مقاصد کے لئے علاقائی زبانوں میں اخبار اور رسالے نکالے جب ہندو مذہب پر نکتہ چینی کی گئی تو دیسی باشندوں نے اس کا جواب دینے کے لئے اپنے اخبار جاری کرلیئے۔ اسی زمانے میں راجہ رام موہن رائے نے اپنے اصلاحی تحریکیوں کے لئے بنگالی میں سمبد کمودی اور فارسی میں مراۃ الاخبار جاری کیا۔ قدامت پسند ہندوؤں نے بھی پرانی اقدار کی حفاظت کے لئے صحافت کا سہارا لیا ۔ یہ سب اخبار خبروں کے لئے عموماً انگریزی ہمعصر اخباروں کے محتاج تھے ۔ ان اخبارات میں مغربی علوم کے بارے میں مضامین بھی چھپتے تھے۔

ماخوذ:
جنوبی ہند کی اردو صحافت (1857 سے پیشتر)۔ سن اشاعت: 1981
مصنف: ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال

The earliest journalism of South India. Research Article by: Dr. Mohammad Afzaluddin Iqbal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں