بیجا پور ممبئی سے 550 اور حیدرآباد سے 384 کلو میٹر دور ہے ۔ اس شہر کی بنیاد 10ویں صدی میں کلیانی چالوکیہ راجاؤں نے رکھی اور اس کا نام وجیا پورا (فتح کا شہر) رکھا ۔ 13ویں صدی میں یہ شہر خلجی سلطنت کے تحت آیا۔ 1347ء میں گلبرکہ کی بہمنی سلطنت نے اس علاقہ کو فتح کرلیا۔ 1518ء میں بہمنی سلطنت پانچ حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ ان میں سے ایک بیجاپور بھی تھا جس پر عادل شاہی حکمرانوں نے 1668ء تک حکومت کی۔ یوسف عادل شاہ نے بیجاپور کو ایک آزاد مملکت بنایا۔
1686ء میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے اس علاقہ کو فتح کر لیا ۔ برطانوی حکمرانوں نے 1818ء میں پیشوا کو شکست دی جس کے بعد بیجاپور انگریزوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ انہوں نے یہ علاقہ ستارا کی صوبیداری میں دے دیا۔
1848ء میں انگریزوں نے بیجاپور کو دو اضلاع میں تقسیم کر دیا۔ ان میں ایک باگلکوٹ ہے۔ 1947ء میں آزادی کے بعد یہ ضلع ریاست بامبے کے تحت تھا۔ بعد میں ریاست میسور میں منتقل کیا گیا اور 1956ء میں کرناٹک کا حصہ بن گیا۔
شہر میں کئی عمارتیں سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ زمانہ قدیم کی کئی تعمیرات قلعہ، مساجد دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان تاریخی اور اسلامی یادگاروں میں سب سے دلچسپ اور اہم عمارتیں بیجا پور کے قلعہ میں ہیں۔
گول گنبد:
یہ مشہور عمارت محمد عادل شاہ (1627 تا 1657) کا مقبرہ ہے اس پر ایک بہت بڑا گنبد بنا ہوا ہے۔ یہ گنبد روم کے سینٹ پیٹرس کے بعد دوسرا بڑا گنبد ہے ۔ یہاں کوئی بھی آواز سات مرتبہ سنائی دیتی ہے۔ یہاں ایک سرگوشی خانہ بھی ہے۔ یہاں گھڑی کی آواز بھی 37میٹر کی دوری پر سنی جا سکتی ہے۔ گول گنبد کامپلکس میں ایک مسجد، نقار خانہ اور دیگر عمارتیں ہیں جو اب ٹوٹ گئی ہیں۔
ابراہیم روضہ :
یہ ابراہیم عادل شاہ دوم (1560 تا 1627) کا مقبرہ ہے۔ مغل بادشاہ اکبر کے مقبرے کی طرح اس کو ایک ہی تراشی ہوئی چٹان پر بنایا گیا ہے ۔
ملک میدان:
یہاں دنیا کی سب سے بڑی توپ رکھی ہوئی ہے جس کی لمبائی چار میٹر، چوڑائی 1.5 میٹر اور وزن 55ٹن ہے۔ 17ویں صدی میں اس توپ کو احمد نگر سے جنگ میں جیت کر 400 بیلوں کی مدد سے لایا گیا تھا ۔ اس کو لانے میں دس ہاتھیوں اور سینکڑوں ملازمین کی بھی مدد لی گئی ۔ اس توپ کو ایک مخصوص تیار کردہ پلیٹ فارم پر رکھا گیا ہے ۔ یہ توپ سخت ترین دھوپ میں بھی ٹھنڈی رہتی ہے ۔1854ء میں اس توپ کو 150روپے میں ہراج کیا گیا تھا لیکن بعد میں ہراج منسوخ کر دیا گیا۔
اوپلی برج:
اس کو 1584ء میں حیدر خان نے تعمیر کرایا۔ 80 فٹ اونچا یہ ٹاور بیجا پور کی دکھنی عیدگاہ کے شمال میں کھڑا ہے ۔ اس کے اوپر پہنچنے کے لئے پتھر کی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ اوپلی برج کو حیدر برج بھی کہا جاتا ہے جس پر دو بڑی توپیں رکھی ہوئی ہیں۔
چاند باؤلی:
علی عادل شاہ (1557 تا 1580) نے بیجا پور کی مشرقی فصیل کے قریب پینے کے پانی کے لئے یہ ٹینک تعمیر کرایا۔ اس میں 20 ملین لیٹر پانی جمع کرنے کی گنجائش ہے ۔ اس ٹینک کے طرز پر کئی کنویں بنائے گئے۔
آثار محل:
محمد عادل شاہ نے 1646ء میں یہ محل تعمیر کرایا تھا ، جس کو وہ عدالت کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے موئے مبارک ہیں اس لئے اس محل کا نام آثا ر محل رکھا گیا ہے۔
گگن محل:
اس محل کو لکڑی کے چار بڑے ستونوں پر بنایا گیا ہے۔ 1681ء میں سکندر عادل شاہ کو چاندی کی زنجیروں میں باندھ کر اس جگہ اورنگ زیب کے روبرو پیش کیا گیا تھا۔
بارہ کمان (علی روضہ):
یہ عمارت 1672میں تعمیر کی گئی ۔ پہلے اس کا نام علی روضہ تھا بعد میں اس کو شاہ نواب خان نے اپنے دور کی12ویں یادگار کے طور پر بارہ کمان کا نام دے دیا۔
بیجا پور کی دیگر تاریخی عمارتوں میں آنند محل، جوڑ گنبد، جمعہ مسجد، سات منزل اور جل منزل شامل ہیں۔
جمعہ مسجد:
دکن کی سب سے قدیم مسجد ہے۔1200گز پر مشمل یہ مسجد علی عادل شاہ نے وجئے نگر پر عارضی فتح حاصل کرنے کے بعد تعمیر کرائی تھی ۔ یہ مسجد مشرق اور مغرب میں400فٹ اور شمال سے جنوب میں280فٹ ہے۔ مسجد کا باب الداخلہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے تعمیر کرایاتھا۔ اس لئے اس دروازے کا نام اورنگ زیب کے نام پر رکھا گیا۔ مسجد کے محراب کو سونے اور چاندی سے بنایا گیا ہے ۔
جمعہ مسجد کے علاوہ بیجا پور میں ملک کریم الدین کی مسجد، ملکہ جہاں بیگم کی مسجد، مکہ مسجد مشہور ہیں۔ بیجا پور میں علی شاہ پیر محمد اور مقبرہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ امین درگاہ کو شہر کا ایک مقدس مقام سمجھاجاتا ہے ۔ یہ درگاہ بیجا پور کے مغرب میں تقریباً1.5کلو میٹر دور ہے ۔ امین الدین کا مقبرہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ علی عادل شاہ کے بنائے گئے محلات میں آنند محل میں سرکاری دفاتر قائم کئے گئے ہیں۔ شہر کے جمال روڈ پر ایک مسجد اندو مسجد کے نام سے مشہور ہے ۔ اسے1608ء میں اعتبار خان نے بنایا تھا۔ گول گنبد کے قریب ایک میوزم بھی ہے جس میں شاہی دور کے باقیات سازوسامان و ہتھیار رکھے گئے ہیں ۔ شہر کے وسط میں ایک قلعہ جسے ارک کا قلعہ کہتے ہیں۔ یوسف عادل شاہ نے اس قلعہ کو تعمیر کرایا تھا ۔ بخاری مسجد کو چاند بی بی نے بخاری خاندان کے لئے بنایا تھا۔
چینی محل، فاروق محل کے نام سے مشہور ہے ۔ یوسف عادل شاہ نے اسے تعمیر کرایا تھا ۔ شہر میں ایک ایسا مقام بھی ہے جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے لیکن لوگ یہاں جانے سے گھبراتے ہیں۔
60 قبر کے نام سے مشہور اس علاقہ میں ایک سپاہ سالار کی 63بیویوں کی قبریں ہیں۔ بتایاجاتا ہے کہ عادل شاہ کے ایک سپہ سالار افضل خان نے اس خوف سے اپنی 63 بیویوں کو قتل کردیا کہ کہیں وہ اس کے مرنے کے بعد دوسری شادی نہ کرلیں ۔ کہاجاتا ہے کہ یہ سپاہ سالار علم نجوم پر یقین رکھتا تھا اور ایک نجومی نے اس سے کہا تھا کہ وہ میدان جنگ میں مرنے والا ہے ۔ اس پیش قیاسی پر اس نے اپنے بیویوں کو قتل کرنا شروع کردیا تھا۔ ایک کے بعد ایک ان کا قتل کر کے وہ یہاں انہیں دفناتا تھا۔
بیجا پور ساؤتھ ویسٹرن ریلوے کے تحت آتا ہے ۔ گلبرکہ، بیجا ور، راست لائن ہے۔ شہر میں سیاحت کے لئے بہتری موسم اکتوبر سے مارچ کے درمیان(یعنی موسم سرما) ہوتا ہے۔ 205 کلو میٹر دور بیلگام میں ایر پورٹ موجود ہے ۔ یہ شہر بیلگام سے پانچ گھنٹے، گلبرکہ سے چار گھنٹے ، بیدر سے سات گھنٹے کے فاصلہ پر ہے ۔
ماخوذ از رسالہ:
پندرہ روزہ "وقارِ ہند" ، حیدرآباد۔ نومبر-2012
پندرہ روزہ "وقارِ ہند" ، حیدرآباد۔ نومبر-2012
Bijapur, a great historical tourism attraction.
عادل
جواب دیںحذف کریںبارہ کمان مضمون
جواب دیںحذف کریں