بچوں کی آخرت - کالم ڈاکٹر مجید خان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-18

بچوں کی آخرت - کالم ڈاکٹر مجید خان

afterlife
نوجوانوں کے غور و فکر میں، دنیا کے بدلتے حالات کی روشنی میں جو تبدیلی آ رہی ہے ، وہ اتنی پیچیدہ ہے کہ سارا عالم پریشان ہے۔ غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہیجانی کیفیت صرف مسلمان نوجوانوں میں دیکھی جا رہی ہے۔ میں اس کے صرف نفسیاتی پہلوؤں پرغور کرنا چاہوں گا اور عوام کے ذہنوں کو روشن کرنا چاہوں گا تاکہ وہ لوگ اپنی اولاد کی بہتر رہبری کرتے رہیں۔
ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان ان نفسیاتی معلومات پر غور کرنے کے نہ تو عادی ہیں، نہ تو ان کو اس ضمن میں کچھ سکھایا جا سکتا ہے ۔ ماہرین تعلیم خود نہیں جانتے کہ کیا کیاجائے؟ کم از کم اس موضوع پر سیمینارس تو منعقد کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً: کیوں کامیاب نوجوان انجینئرس خوشحال ہونے کے باوجود زندگی سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں؟
یہاں پر میں ایک مسئلہ چھیڑنا چاہتا ہوں ۔ گوکہ اس کا تعلق ہمارے عقیدے سے ہے مگر میں ا س کے نفسیاتی پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے علماء حضرات سے درخواست کرنا چاہوں گا کہ اس سمت میں بھٹکے ہوئے نوجوانوں کی رہبری کریں۔ ان کی زیادہ تر معلومات انٹرنیٹ سے جڑی ہوئی ہیں۔ مسئلہ ہے آخرت کے تخیل کا۔
موت اور مرنے کا ڈر، آخرت کی بہتری ہر مسلمان کا انفرادی مسئلہ ہے ، مگر جب اس کی اہمیت نوجوانوں کی اپنی اپنی شخصیت اور انفرادی غور و فکر پر حاوی ہوجاتی ہے تو ان کی سوچ متوازن نہیں رہتی۔ سب سے اہم عملی مسئلہ جو میں چھیڑنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے:
کسی ملک میں ہماری آخرت بہتر ہو سکتی ہے؟ ایک نیا چیلنج اب ابھر رہا ہے مثلاً امریکہ جیسے ممالک میں آخرت کا سنوارنا اب مشکل ہوتا جائے گا، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ تمام غیر اسلامی ممالک میں مسلمان مذہبی اعتبار سے پریشان رہیں گے ۔ ان کی عبادتوں پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں ۔ ان کے طرز حیات کو ملکوں کے معاشروں کے تحت دبا دیا جائے گا۔ ظاہر ہے ان غیر اسلامی ممالک میں جن میں بیشتر غیر مذہبی بھی ہیں عیش وعشرت کی زندگیاں گزارنا ہی لوگوں کا مقصد حیات بنتا جا رہا ہے۔
میاں بیوی بن کر صاحب اولاد ہونے کے لئے شادی غیر ضروری سمجھی جارہی ہے ۔ کم عمر لڑکیاں مائیں بنتی جا رہی ہیں ، شوہر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا نہیں ہے۔ ان حالات میں مسلمان کیسے سانس لے سکتا ہے؟

اہم مشورہ:
اب تک جو لوگ ان ممالک کو جاچکے ہیں ان کے تعلق سے کچھ کہنا ممکن نہیں کیونکہ وہ پلٹ کر آ نہیں سکتے۔ اپنی اپنی آخرت کو جس طرح بھی سنوار سکتے ہیں وہ سنوار رہے ہیں مگر میرا مشورہ صرف اتنا ہے کہ اپنی اولاد اور بیوی کویہ احساس ہونے مت دیجئے کہ آپ ان پر زبردستی کر رہے ہیں!!
آپ کی اس ضمن میں حکمت عملی بہت اہم ہے ۔حیدرآباد کے انجینئرنگ کالجوں کا جائزہ لیجئے اور اس موضوع پر سیمینار منعقد کیجئے ۔ ان میں صرف مسلمان طلباء کا شریک ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ امریکہ میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ہندو طلباء اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے بھی پرسکون زندگیاں گزار رہے ہیں اور خاندان سے ہم آہنگ ہیں۔ سب سے ملتے ہیں اور مخلوط تہذیب کے عادی ہو گئے ہیں۔

اب مسلمان طالبات اور ان کے اولیاء سے یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اب آپ غیر اسلامی ممالک کے پیچھے اندھا دھند مت بھاگیے۔
انگریزی میں اس کو چوہوں کی دوڑ کہا جاتا ہے یعنی ایک سمت میں اگلا بھاگا تو بغیر اپنی اپنی شخصیت کو دیکھے پیچھے سبھی اسی لائن میں لگ جاتے ہیں ۔ بنیادی سوال اپنے آپ سے کیجئے ۔ جس ملک کو آپ منتقل ہونا چاہتے ہیں کیا اسے آپ کو لگاؤ ہے یا نفرت؟ اکثر تو یہ ہوتا ہے کہ وہاں کی معاشی خوشحالی اور عیش و عشرت کی زندگی کی تلاش میں نکلتے ہیں اور چند سالوں بعد بددل ہوجاتے ہیں مگر چونکہ بیوی بچے اس طرز زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں اس لئے ایک عجیب طرز زندگی اختیار کرنا پڑتا ہے جو آنے والی نسلوں کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔

ان سب متوقع مسائل پر پہلا قدم اٹھانے سے پہلے ہی غور کیا جا سکتا ہے اور اچھی اسلامی زندگی اپنے اور اپنے اہل عیال کے لئے چاہیے تو ان ممالک کا رخ مت کیجئے۔
اور ایک اہم نکتہ، ترک مقام کرنے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ طلباء امریکہ کیوں جا رہے ہیں، اعلی تعلیم کے لئے، وہی تعلیم اور اسی یونیورسٹی کی کلاس میں بیٹھ کر، اپنے گھر پر رہتے ہوئے آپ تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں ، اساتذہ آپ کو پہچانیں گے ، حقیقی کلاسس کی طرح تعلیم ہوگی ، سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ امتحانات ہوں گے اور ڈگریاں عطا کی جائیں گی۔ تقسیم اسناد کی تقریب ہوگی اور آپ اور آپ کے رشتہ دار حیدرآباد میں بیٹھ کر طالب علم کے ساتھ اس میں شرکت کر سکیں گے اور طالب علم کا جب نام پکارا جائے گا تو وہ مہمان خصوصی کے ہاتھوں ڈگری حاصل کرے گا۔
یہ سہولتیں عنقریب دستیاب ہوتی جائیں گی، نوکریاں بھی آپ کو اسی طرح ملتی جائیں گی تو پھر کیوں امریکہ جائیں؟ ساری دنیا سمٹ کر ایک جگہ آ رہی ہے۔ آپ کو نئے معاشرے میں جدوجہد کرنی نہیں پڑے گی۔

مگر امریکہ میں اب کیا ہو رہا ہے؟ اولاد کے آتے ہی والدین ان کی آخرت کے تعلق سے متفکر ہونے لگتے ہیں اور معصوم چھوٹے چھوٹے بچوں کو اسلامی ممالک کے مذہبی اساتذہ سے انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم دلوا رہے ہیں ۔ وہاں کے حالات میں ممکن ہے اور کوئی صورت نہ ہو مگر یہ مصنوعی تعلیم ہے، یہ قدرتی تعلیم نہیں ہے جس طرح سے ہمارے یہاں چھوٹے چھوٹے بچے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہنسی خوشی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر والدین اپنی اولاد کو یہ مشورہ دیں کہ وہ غیر اسلامی ممالک نہ جائیں تو وہ کبھی نہیں مانیں گے کیونکہ وہ اپنے دوستوں کے مشورو ں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور مستقبل کے تعلق سے سوچنے کی عادت نہیں ہوتی۔
ایک بات تو عیاں ہے کہ دنیا اسلام دوست اب نہیں بن سکتی ہم کو اپنا لائحہ عمل مقرر کرنا ہوگا۔ ہم سب یہ ماننے لگے ہیں کہ انتہا پسندی اور کٹر پن زندگی کی ہر معاملت اور باہمی تعلقات میں مسائل پیدا کرتی ہے۔

کیا ہم ایک ایسی محفل کا اہتمام کر سکتے ہیں جہاں پر علمائے دین، دانشوران، طالباء کے نمائندے ، اساتذہ، والدین سب مل کر یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ حالات حاضرہ کے مدنظر متوازن مسلمان کو کیسے ہونا چاہئے؟ اس کی خصوصیات کی صحیح تعریف اور توضیح ہونی چاہئے۔ پھر نوجوانوں کی صحیح رہنمائی کے لئے ایک ٹھوس نمونہ حیات تیار کیا جا سکتا ہے ۔

یہ میرے شخصی خیالات ہیں ۔ صرف ذی فہم حضرات کے لئے ایک دعوت فکر ہے ۔ اس میں کسی قسم کے ٹکراؤ کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ان مشاہدات میں کوئی منطق یا معنی نہیں ہیں تو اس کو نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے ۔مگر یہ بات تو بالکل عیاں ہے ۔ صالح مسلم نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم یا تلاش معاش میں نہ صرف امریکہ نہیں جانا چاہئے بلکہ مغرب کا رخ کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔

9/اکتوبر 2010ء کے انگریزی اخبار "دی ہندو" میں حسن سرور کا ایک شاندار مضمون [Alarm over Europe’s lurch to the Right] "مغرب میں مسلمانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی" کے لگ بھگ موضوع پر شائع ہوا۔ ہر وہ نوجوان جو مغرب جانا چاہتا ہے وہ اس مضمون کا باریک بینی سے مطالعہ کرے ۔ اگر کوئی اس کا ترجمہ اردو میں کردے تو عوام کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ اب یہ لوگ صاف کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ممالک میں مذہبی مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔
بہرحال سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیے اور بہتر ہے اپنے ہی ملک میں رہیے جہاں پر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آپ عام دھارے سے کٹے ہوئے ہیں۔ یہ ہمارا مخلوط طرز زندگی ہے جس پر کسی کو کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں۔

بشکریہ : روزنامہ 'سیاست' ، حیدرآباد۔

***
#3-6-148, City Nursing Home, Himayat Nagar, Hyderabad -500029
ڈاکٹر مجید خان

The afterlife of our kids. Article: Dr. Majeed Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں