اردو عروض کا پس منظر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-20

اردو عروض کا پس منظر

urdu-arooz
ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک دور رس انقلاب لے کر آئی۔ انہوں نے یہاں ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ یہاں کے لوگوں کو بہت سی برکات سے نوازا۔ انہیں ایک ترقی یافتہ تمدن دیا۔ ایک نیا دینی شعور بخشا ، علم و ادب کی نئی راہیں کھولیں۔ دیگر علمی ادبی خدمات سے قطع نظر ہم یہاں "عروض " کا ذکر کرتے ہیں۔
عروض، عربی شاعروں اور عربی کتب عروض کی بدولت ہندوستان میں متعارف ہوا۔ درس نظامی کے نصاب میں فصاحت و بلاغت کی کتابیں بھی تھیں، ایسی کتابوں کا ایک حصہ عروض بھی تھا۔ چنانچہ "مختصر المعانی " اور"المطول"(تفتازانی" طالب علموں کو سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی تھیں۔
ڈاکٹر زبید احمد کے بقول "الصنعانی" پہلے ہندوستانی عالم تھے جنہوں نے اس موضوع پر کتاب لکھی۔ ملا عبدالحکیم سیالکوٹی نے "حاشیہ المطول" کے نام سے المطول کی شرح لکھی ۔ امیر خسرو کی "اعجاز خسروی" گو فارسی میں لکھی گئی مگر اس میں جو مثالیں دی گئیں ہیں وہ عربی میں ہیں۔ اس ضمن میں غلام علی آزاد کی سبحتہ المرجان بھی خاصے کی چیز ہے ۔
سلاطین اور مغل دور میں فارسی سرکاری زبان رہی۔ ان کے درباروں سے ایرانی شاعر بھی وابستہ تھے ۔ اس طرح ہندوستان کی سرزمین پر فارسی شاعری کا سکہ جم گیا۔ فارسی شاعری اور عروض کو لازم و ملزوم سمجھنا چاہئے۔ فارسی شاعری کا عروج گویا عروض کا عروج تھا۔ علاوہ ازیں عروض کی دو معرکۃ الآراء کتابیں بھی ہندوستان پہنچیں یعنی المعجم (شمس قیس رازی) اور معیار الاشعار(محقق طوسی)ان کا بھی خاطر خواہ اثر پڑا ۔ ہندوستان کے فارسی عالموں نے اس میں دلچسپی لی اور اس فن کی طرف توجہ کی۔شمس الدین فقیر دہلوی نے "حدائق البلاغت" تالیف کی۔ مفتی محمد سعد اللہ مرادآبادی نے "معیار الاشعار" کی عمدہ شرح لکھی جس کا نام میزان الافکار فی شرح الاشعار تھا ۔ یہ1282ھ/1865ء میں لکھنو سے چھپی۔ براؤن نے ہی"المعجم" کے دیباچے میں ا س ترجمہ کو سراہا ہے۔مرزا قتیل کی "چہار شربت" 1887ء میں لکھنو سے چھپی۔ دریائے لطافت’(انشا و قتیل) اور "غیاث اللغات"میں بھی ایک باب عروض پر ہے ۔ افتخار الدین المتخلص شہرت نے"مجلس امجدی" تالیف کی جو 1234ھ/1819ء میں حیدرآباد سے شائع ہوئی ۔
اردو میں عروض کی تالیف اور ترجمے کی طرف دلچسپی دیر سے شروع ہوئی ، مگر اردو کے شاعروں نے اسے بہت پہلے رواج دے دیا تھا ۔۔ گو اردو کی قدیم شاعری(صوفیائے کرام کی شاعری) "پنگل" (ہندی عروض، میں ہے، مگر زمانہ وسطی کی اردو شاعری کا گہرا اثر ہے ۔ اردو کے اولین شاعر ، فارسی کے شاعر تھے ۔ اردو شاعری کے موضوعات ، ہیئتیں ، امیجری ، علم بیان و بدائع اور عروضی نظام تمام فارسی کے ہیں۔ فارسی عروض کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
مغلوں کے بعد انگریز آئے ، انہوں نے بھی ہندوستان میں تقریباً ایک صدی تک حکومت کی ۔ اپنی پالیسی کے تحت وہ بھی انگریزی علم و ادب کی نشرواشاعت کرتے رہے ۔ انگریزی شاعری نے اصناف و اسالیب کی حد تک تو اردو شاعری کو متاثر کیا مگر انگریزی عروض(Prosody) فارسی عروض کی جگہ نہ لے سکا۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ہیئت کے ساتھ ساتھ عروضی ارکان میں بھی کمی بیشی ہوئی۔جس کے نتیجے میں نظم معرا اور نظم آزاد کی اصناف نے وجود اختیار کیا۔
بیسویں صدی میں اردو شاعروں نے (فارسی اور انگریزی سے استفادہ کے بعد)پھر سے ہندی ادب کے خزانے کی طرف رجوع کیا۔ وہ اس طرح کہ لفظ و خیال کے ساتھ ساتھ ہندی کے چھند بھی اردو شاعری میں رواج پانے لگے۔ فارسی اور ہندی کے ساتھ ساتھ بہت سے اوزان بھی میںمشابہت بھی پائی جاتی ہے کیونکہ دونوں زبانوں کا سر چشمہ ایک ہے، لہذا اردو شاعروں کے لئے یہ اوزان اجنبی نہ تھے۔
حاصل یہ کہ عربی فارسی اور ہندی کے عروضی نظام۔۔ اردو عروض کے خمیر میں داخل ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں کی ساخت اور خصوصیات پر روشنی ڈالی جائے۔

ماخذ: علم عروض اور اردو شاعری (مقالہ پی۔ایچ۔ڈی)
نگران: ڈاکٹر عبادت بریلوی
مقالہ نگار: محمد اسلم ضیا

The background of Urdu Arooz.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں