میری اس تحریر کا موضوع ایک ایسے مذہب کے اصولوں کی بابت لکھنا ہے جو تاریخی ہے اور اس کا پیغمبربھی ایک تاریخی شخصیت ہے ۔ سرولیم میور جیسا ایک معاند ناقد بھی قرآن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"دنیا میں غالباً قرآن کے سوا کوئی اور دوسری کتاب نہیں ہے جس کا متن بارہ سو سال گزرنے کے بعد بھی اس درجہ خالص صورت میں محفوظ ہو۔" میں یہ بھی اضافہ کروں گا کہ حضرت محمد ؐ ایک تاریخی شخصیت ہیں۔آپ کی زندگی کا ہر واقعہ نہایت احتیاط سے منضبط کیا گیا ہے حتی کہ چھوٹی چھوٹی تفصیلات بھی آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کردی گئی ہیں ۔ آ پ کی زندگی اور آ پ کا کام پر اسراریت کے پردہ میں چھپا ہوا نہیں ہے ۔یہ ضرورت نہیں ہے کہ ایک شخص صحیح معلومات کے لئے اس مشکل مہم کو سر کرے کہ وہ بھس کے ڈھیر میں سے چھان کر سچائی کے دانے نکالے ۔
میرا کام اس لئے بھی ہلکا ہوچکا ہے کہ وہ زمانہ اب بہت تیزی سے رخصت ہورہا ہے کہ کچھ ناقدین سیاسی اور غیر سیاسی وجوہ سے اسلام کو بہت بگاڑکر پیش کرتے تھے ۔ پروفیسر بیوان(کیمبرج میڈپول ہسٹری" میںلکھتے ہیں"محمدؐ اور اسلام کے بارے میںکتابیں جویورپ میں19ویں صدی کے آغاز سے پہلے چھپتی تھیں آج ان کو محض قلمی عجوبے سمجھاجاتا ہے ۔ مثال کے طور پر اسلام اور تلوار کا نظریہ آج کہیں بھی قابل لحاظ نہیں سمجھاجاتا۔اسلام کا یہ اصول کہ مذہب میں کوئی زبردستی نہیں، آج سب کو پوری طرح معلوم ہے ۔ مشہور مورخ گبن نے لکھا ہے "مسلمانوں کی طرف ایک مجرمانہ اصول منسوب کیاجاتارہا ہے کہ ہر مذہب کو تلوار کے زور سے ختم کردیاجائے۔" مگر گبن کہتا ہے کہ جہالت اور تعصب کا یہ الزام قرآن سے ، مسلم فاتحین کی تاریخ سے نیز مسلم عوام کے رویہ سے غلط ثابت ہوتا ہے ۔ جو کہ ہمیشہ قانونی اور سماجی طور پر مسیحی عبادت کے ساتھ رواداری کا طریقہ اختیار کرتے رہے ہیں۔ محمدؐ کی زندگی کی عظیم کامیابی صرف اخلاقی طاقت کے ذریعہ ہوئی ۔ تلوار کی کسی مار کے بغیر۔
قدیم زمانہ میں عربوں کا یہ حال تھا کہ اتنی معمولی سی بات پر وہ چالیس سال تک لڑتے رہے کہ ایک قبیلہ کا ایک اونٹ بھٹک کر دوسرے قبیلہ کی چراگاہ میں چلا گیا اس جنگ میں دونوں قبیلوں کے ستّر ہزار آدمی مارے گئے۔اور خطرہ پیدا ہوگیا کہ دونوں قبیلوں کی نسل ختم ہوجائے گی۔ ایسے جھگڑالو عربوں کو پیغمبر اسلام نے خود انضباطی اور تنظیم کی تعلیم یہاں تک دی کہ میدان جنگ میں بھی ان کو نماز پڑھنے کا حکم دیا۔
صلح کے لئے آپ کا منصوبہ جب بار بار کوشش کے باوجود ناکام ہوگیا تو ایسے حالات پیدا ہوئے جو آپ کو کھینچ کر میدان جنگ میں لے آئے ۔آپ کا یہ اقدام محض دفاع کے لئے تھا۔ تاہم انہوں نے میدان جنگ کے پورے طریق عمل کو بالکل بدل دیا۔ ان کی پوری زندگی میں جو لڑائیاں ہوئیں، ان سب میں مرنے والوں کی مجموعی تعداد ، جب کہ پورا جزیرہ نمائے عرب ان کے جھنڈے کے نیچے آگیا ۔ چند سو سے زیادہ نہیں ۔ انہوں نے عرب وحشیوں کو نماز پڑھنا سکھایا۔محض انفرادی طور پر نہیں، بلکہ اجتماعی طور پر ، حتی کہ انہوں نے ہدایت کی کہ جنگ کے طوفان میں بھی اپنے خدا کے آگے سجدہ کرو ۔ جب بھی عبادت کاوقت آجائے اور یہ روزانہ پانچ وقت آتا ہے ، تو اجتماعی عبادت چھوڑی نہیں جاسکتی، حتی کہ ملتوی بھی نہیں کی جاسکتی ۔ لشکر کا ایک حصہ اگر دشمنوں سے مقابلہ میں مصروف رہے تو اس کا دوسرا حصہ اپنے خد ا کے سامنے اپنے سروں کو جھکادے ۔ جب ایک فریق اپنی عبادت ختم کرلے تو وہ مورچہ سنبھال لے اور دوسرا فریق آکر اپنی عبادت کرے۔
وحشت و بربریت کے زمانہ میں میدان جنگ تک پر انسانیت کا اصول جاری کیا گیا ۔ سخت ہدایات جاری کی گئیں کہ خیانت نہ کی جائے ۔ دھوکا نہ دیاجائے ۔ عہد کو توڑا نہ جائے ۔ ہاتھ پاؤں نہ کاٹے جائیں ۔ عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کیاجائے ۔ پھل دار درختوں کو نہ کاٹا جائے اور نہ جلایاجائے ۔ عبادت گاہوں میں عبادت کرنے والے لوگوں پر زیادتی نہ کی جائے ۔پیغمبر کا خود اپنا طرز عمل اپنے سخت ترین دشمنوں کے ساتھ نمونہ کا طرز عمل تھا۔ مکہ کی فتح کے بعد ان کو پورا اقتدار حاصل ہوگیا تھا ۔ وہ شہر جس نے آپ کا پیغام سننے سے انکار کردیا تھا ۔ جس نے آپ کے اوپر اور آپ کے ساتھیوں کے اوپر شدید ظلم کئے تھے ۔ جس نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا ۔ حتی کہ جب آپ اپنا وطن چھوڑ کر دو سو میل دور(مدینہ) چلے گئے، اس وقت بھی انہوں نے آپکابائیکاٹ کرنے اور آپ کو تکلیفیں پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ آج وہ شہر مکہ آپ کے قدموں کے نیچے تھا۔ جنگ کے مسلمہ قوانین کے مطابق وہ ان تمام مظالم کا بدلہ لے سکتے تھے جو آپ پر اور آپ کے لوگوں پر کئے گئے تھے ۔ مگرآپ نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ محمدؐ کا دل رحم اور محبت کے دودہ سے بھر گیا ۔ آپ نے اعلان کیا:آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں، آج تم سب آزاد ہو۔
یہ ان مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تھا کہ کیوں آپ نے دفاع میں جنگ کرنے کی اجازت دی ۔ اس لئے تاکہ انسانوں کو متحد کیاجاسکے ۔ اور جب یہ مقصد حاصل ہوگیا تو آپ کے بد ترین دشمن تک معاف کردئے گئے ۔ وہ لوگ جنہوں نے آپ کے محبوب چچا حمزہؓ کو قتل کیا تھا ۔ ان کے مردہ جسم کا مثلہ کیا تھا وہ بھی آپ کی مہربانیوں سے محروم نہ رہے ۔
عالمی اخوت اور انسانی مساوات کا اصول جس کی آپ نے تبلیغ کی وہ انسانیت کی سماجی ترقی میں بہت بڑا درجہ رکھتے ہیں۔ تمام بڑے مذاہب نے اس قسم کے اصولوں کی تبلیغ کی ہے مگر پیغمبر اسلام نے اس نظریہ کو حقیقی عمل کی صورت دے دی اور اس کی اہمیت شاید کچھ دنوں بعد پوری طرح سمجھی جاسکے جب کہ بین اقوامی شعور جاگے گا، نسلی تعصبات ختم ہوجائیں گے اور انسانی اخوت کاایک طاقت ور نظریہ وجود میں آجائے گا۔ سروجنی نائیڈو اسلام کے اس پہلو پر بولتی ہوئی کہتی ہیں:" وہ پہلا مذہب تھا جس نے جمہوریت کی تبلیغ کی اور اس کو عمل کی صورت دی۔ کیونکہ مسجدمیں جب اذانیں بلند ہوتی ہیں اور نمازی ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں تو اسلام کی جمہوریت روزانہ پانچ بار مجسم ہوتی ہے جب کہ معمولی آدمی اور بادشاہ ایک صف میں شامل ہوکر جھکتے ہیں اور کہتے ہیں:"خدا سب سے بڑا ہے۔" ہندوستان کی یہ مشہور شاعرہ مزید لکھتی ہے:"میں اسلام کی اس ناقابل تقسیم وحدت کو دیکھ کر بار بار حیران ہوتی ہوں جو کہ آدمی کو طبعی طور پر بھائی بھائی بنادیتی ہے۔ جب آپ ایک مصری، ایک الجیریائی ، ایک ہندوستانی یا ترکی سے لندن میں ملتے ہیں تو ان میں جو فرق ملے گا وہ صرف اتنا سا کہ ایک کی پیدائش مصر میں ہوئی اور دوسرے کی ہندوستان میں۔"
مہاتما گاندھی اپنے ناقابل تقلید انداز میں لکھتے ہیں :"کسی نے کہا ہے کہ جنوبی افریقہ کے لوگ اسلام کے ظہور سے ڈر رہے ہیں۔۔۔ وہ اسلام جس نے اسپین کو مہذب بنایا ، وہ اسلام جو روشنی کی شمع کو مراکش تک لے گیا اور دنیا کو اخوت کا مقدس پیغام دیا۔ جنوبی افریقہ کے یورپ لوگ اسلام کے ظہور سے ڈررہے ہیں کیونکہ اسلام آئے گا تو وہ کالوں اور گوروں میں برابری کا اعلان کرے گا۔ ان کو اس سے ڈرنا چاہئے ، اگر اخوت ایک گناہ ہے اگر مختلف نسلوں میں برابری وہ چیز ہے جس سے وہ ڈرتے ہیں تب ان کا ڈر بالکل بجا ہے ۔"
ہر سال حج کے موسم میں دنیا اسلام کے اس حیرت ناک بین اقوامی مظاہروں کو دیکھتی ہے جو کہ نسل، رنگ اور رتبہ کے تمام فرق کو برابر کردیتاہے ۔ نہ صرف یورپی، افریقی، ایرانی، ہندوستانی، چینی سب کے سب ایک خدائی خاندان کے ممبر کی حیثیت سے مکہ میں ملتے ہیں۔ بلکہ سب کے سب ایک قسم کے لباس پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہر آدمی معمولی سفید بغیر سلے ہوئے کپڑے کے دو ٹکڑے لپیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ ایک ٹکڑا کمر کے گرد اور دوسرا ٹکڑا کندھے کے اوپر ۔ اسی کے ساتھ ننگے سر، بغیر کسی رسم اور کسی دھوم دھام کے اور یہ آواز لگاتے ہوئے "میں حاضر ہوں ، خدایا میں حاضر ہوں ۔ تو ایک ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، حکم صرف تیرا ہی ہے ۔" اس طرح یہاں ایسی کوئی چیز باقی نہیں رہتی جو چھوٹے اور بڑے کے درمیان فرق کرے اور ہر حاجی یہ احساس لے کر گھر واپس آتا ہے کہ اسلام ایک بین الاقوامی اہمیت رکھنے والا دین ہے ۔ پروفیسر ہر گرونجی کے الفاظ میں" اقوام کی جمعیت جو پیغمبر اسلام نے بنائی ۔ اس نے بین اقوامی اتحاد اور انسانی اخوت کے اصول کو ایسی عالمی سطح پر قائم کیا ہے جو دوسری قوموں کو روشنی دکھانے والا ہے ۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی دوسری قوم اتحاد اقوام کے لئے اس کے برابر مثال پیش نہیں کرسکتی ۔
پیغمبر اسلام نے جمہوری حکومت کو اس کی بہ ترین صورت میں قائم کیا۔ خلیفہ عمر ؓ، خلیفہ علیؓ، جو پیغمبر کے داماد بھی تھے ، خلیفہ منصور عباسی جو خلیفہ مامون کے بیٹے تھے ۔ اوردوسرے بہت سے خلفا اور سلاطین اسلامی عدالتوں میں معمولی آدمی کی طرح حاضر ہوئے ۔ آج بھی ہم سب جانتے ہیں کہ کالے نیگروؤں کے ساتھ مہذب سفید نسلوں کا سلوک کیا ہوتا ہے ۔ اب بلالؓ کی بابت غور کرو جو چودہ سو سال پہلے پیغمبر اسلام کے زمانے میں ایک نیگرو غلام تھے۔ نماز کے لئے اذان دینے کا کام ابتدائی اسلام کے زمانے میں ایک عزت کا کام سمجھاجاتا تھا اور یہ باعزت کام اس نیگرو غلام کے سپرد کیا گیا تھا۔ مکہ فتح ہونے کے بعد، پیغمبر نے ان کو حکم دیا کہ وہ نماز کے لئے اذان دیں ۔ اور یہ نیگرو غلام، اپنے کالے رنگ اور اپنے موٹے ہونٹوں کے ساتھ مقدس کعبہ کی چھت پر کھڑا ہوا ۔ جو کہ اسلامی دنیا میں سب سے زیادہ تاریخی اور سب سے زیادہ مقدس جگہ ہے۔ اس وقت کچھ مغرور عرب تکلیف کے ساتھ بولے :اف، یہ کالا حبشی غلام، برابر اس کا۔ وہ مقدس کعبہ کی چھت پر کھڑا ہوا ہے اذان دینے کے لئے ۔"
غرور اور تعصب کا یہ مزاج پیغمبر اسلام ختم کرنا چاہتے تھے ۔ اس لئے آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں کہا : ساری حمد اور شکر اللہ کے لئے ہے جس نے ہم کو جاہلیت کے زمانہ کے فخر اور برائی سے نجات بخشی۔ اے لوگو یاد رکھو ، تمام انسان صرف دو قسموں میں بٹے ہوئے ہیں، متقی اور اللہ سے ڈرنے والے جو اللہ کے پسندیدہ بندے ہیں۔ دوسرے گنہ گاراور سخت دل جو اللہ کے نزدیک حقیر اور بے قیمت ہیں۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو خدا نے مٹی سے پیدا کیا تھا۔" یہی بات قرآن میں اس طرح کہی گئی ہے :"اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنادیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ یقینا اللہ کے نزدیک تمہارا سب سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔اللہ خوب جاننے والا اور پوری طرح خبردار ہے۔( حجرات)
پیغمبر اسلام نے اس طرح اتنی زبردست تبدیلی پیدا کی کہ وہ لوگ جو خالص عربتھے اور اعلیٰ ترین خاندان سے تعلق رکھتے تھے ، انہوں نے اپنی لڑکیاں اس نیگرو غلام کے لئے شادی میں پیش کیں۔ اسلام کے دوسرے خلیفہ جوعمرفاروق کے نام سے مشہور ہیں،جب وہ اس نیگرو غلام کو دیکھتے تو وہ فوراً ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے اور ان الفاظ کے ساتھ ان کا استقبال کرتے : یہ ہمارے معلم آگئے ، یہ ہمارے سردار آگئے ، قرآن اورمحمدؐ کے ذریعہ کیسا حیرت ناک انقلاب تھا جو عربوں کے درمیان آیا، وہ عرب جو اس زمانہ میں سب سے زیادہ مغرور قوم کی حیثیت رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ عظیم ترین جرمن شاعر گوئٹے نے قرآن پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: یہ کتاب تمام زمانوں میں سب سے زیادہ مؤثر کتاب کی حیثیت سے باقی رہے گی ۔ اور یہی وجہ ہے کہ برنارڈ شا کو یہ کہناپڑا" اگر کوئی مذہب ہے جو انگلینڈ، نہیں بلکہ یورپ پر اگلے 100 سال کے اندر حکومت کرنے کی صلاحیت رکھتاہے تو وہ اسلام ہے ۔"
اسلام کی یہی جمہوری اسپرٹ ہے جس نے عورت کو مرد کی غلامی سے نکالا۔ سرچارلس ایڈورڈ آرچیبا لڈ ہملٹن نے کہا ہے:" اسلام بتاتا ہے کہ انسان پیدائشی طور پر بے گناہ ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک ہی جوہر سے پیدا ہوئے ہیں ، دونوں کے اندر ایک ہی روح ہے اور دونوں ذہنی، روحانی اور اخلاقی ترقی کی یکساں قابلیت رکھتے ہیں۔" عربوں کے یہاں یہ زبردست روایت چلی آرہی تھی کہ وراثت کا حق دار وہی ہے جوبرچھا چلاتا ہے اور تلوار کے قبضہ کو پکڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ مگر اسلام صنف نازک کا حمایتی بن کر ظاہر ہوا اور عورتوں کویہ حق دیا کہ وہ اپنے سر پرستوں کی وراثت میں حصہ داربن سکتی ہے ۔اسلام بہت پہلے عورت کو یہ حق دے چکا تھا کہ وہ جائیداد کی مالک بن سکتی ہیں ۔ اس کے بارہ صدیوںبعدایسا ہوسکا کہ 1881ء میں انگلستان نے، جو کہ جمہوریت کا گہوارہ سمجھاجاتاہے ، اسلام کی اس تعلیم کو مرہون منت نہیں ہے ۔ یہ کوئی غیر متوقع واقعہ نہیں تھا ۔ یہ کامیابی صرف اس لئے ہوسکی کہ معاصرین نے پیغمبرکو حقیقی اخلا ق اور عالی ظرفی کا حامل پایا۔ یہ کامیابی آپ کی قابل تعریف اور پوری طرح چھا جانے والی شخصیت کا نتیجہ تھی۔
محمدؐ کی شخصیت کے بارے میں مکمل صداقت کو جاننابہت ہی مشکل ہے ۔ میں تو صرف اس کی بعض جھلکیوں کو پاسکتا ہوں ، کتنے خوبصورت مناظر یکے بعد دیگرے ڈرامائی طور پر سامنے آتے رہتے ہیں۔۔۔ محمدؐ پیغمبر ،محمدجنرل ، محمدحکمراں، محمد غازی،محمدؐتاجر،محمدؐمبلغ، محمدؐفلسفی، محمدؐ سیاست داں،محمدؐ خطیب، محمدؐ مصلح، محمدؐ یتیموں کاملجا،غلامی کا حامی ، محمدؐ جج، محمدؐ پیشوا۔ ان تمام خوبصورت ادوار میں ، انسانی اعمال کے ان تمام دائروں میں آپؐ ایک ہیرو معلوم ہوتے ہیں۔
یتیمی کی حالت بے چارکی کی آخری انتہا ہے ، اور اس دنیا میں آپ کی زندگی سی انتہا سے شرو ع ہوئی ۔ حکمرانی مادی طاقت کی انتہا ہے اور اس دنیا میں آ پ کی زندگی اسی پر ختم ہوئی۔
ایک یتیم بچے اور مظلوم مہاجر سے ابتدا کر کے آپ ایک پوری قوم کے روحانی اور مادی حاکم اعلیٰ اور اس کی تقدیر کے مالک بن گئے ۔اس عمل کے دوران پیش آنے والے امتحانات و ترغیبات ، مشکلات و تغیرات ، روشنیاں اور سائے، اونچ نیچ، دہشت اور عظمت کے دوران وہ دنیا کے امتحان میں کامیاب ہوکر زندگی کے ہر میدان میں ایک نمونہ بن کر ظاہر ہوئے ۔ ان کی کامیابیاں زندگی کے کسی ایک میدان سے متعلق نہیں بلکہ انسانی زندگی کے تمام احوال پر حاوی ہیں۔
مثال کے طور پر عظمت اگریہ ہے کہ بربریت اور مکمل اخلاقی تاریکی میں پڑی ہوئی قوم کو پاک کیاجائے تو جس نے اس پوری قوم کی کایا پلٹ دی، اس گری ہوئی قوم کو اتنا اونچا اٹھادیا کہ وہ تہذیب ومعرفت کی روشنی کی حامل بن گئی ، اس عظیم شخصیت کو عظمت کا دعویٰ کرنے کا پورا حق حاصل ہے ،اگر عظمت یہ ہے کہ کسی سو سائٹی کے متنفر عناصر کو آپس میں بھائی چارگی اور خیر خواہی کے روابط میں جوڑدیاجائے تو صحرا میں ہونے والے نبی کو عظمت کے امتیاز کا پورا حق حاصل ہے ۔اگرعظمت ذلیل کن توہمات اور ہرقسم کی مہلک عادتوں میں مبتلا قوم کی اصلاح کرنا ہے ، تو پیغمبر اسلام نے لاکھوں آدمیوں کے دل سے توہمات اور غیر معقول خوف کو نکال باہر کیا۔ اگر عظمت بلنداخلاق کا مظاہرہ ہے،تو محمدؐ کے دوستوں ، دشمنوں،سبھی نے ان کو"الامین" اور "الصادق" کا لقب دیا تھا۔اگر فاتح عظیم ہوتا ہے ،تو محمدؐ بھی ایک مجبور، یتیم اور عام انسان کی زندگی سے بلندہوکر جزیرۂ عرب کے حاکم بن گئے جو کہ خسرو اور قیصر کا ہم پلہ منصب تھا۔ محمدؐ وہ تھے جنہوں نے ایک عظیم سلطنت قائم کی جو کہ ان گزری ہوئی چودہ صدیوں میںبھی برقرار ہے۔ اگر لیڈر کے لئے اس کے تابعین کا احترام اس کی عظمت کا معیار ہے توپیغمبر کا نام آج بھی دنیابھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں لوگوں کے لئے جادو کی حیثیت رکھتا ہے ۔
نوٹ:
یہ مضمون ایک انگریزی کتاب"محمد وی پرافٹ آف اسلام" کے کچھ اجزاء کاترجمہ ہے ۔ یہ کتاب پروفیسر کے ۔ایس،راما کرشنا راؤ(ہیڈ ڈپارٹمنٹ آف فلاسفی،گورنمنٹ کالج فارویمن، میسور) کی لکھی ہوئی اور بورڈ آف اسلامک پبلی کیشنز کی طرف سے پہلی بار 1979ء میں شائع ہوئی ہے ۔
Muhammad, the prophet of Islam.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں