بلاد مغرب - ایک مشرقی خاتون کی نگاہ سے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-25

بلاد مغرب - ایک مشرقی خاتون کی نگاہ سے

نیاز فتح پوری (اصل نام: نیاز محمد خان) برصغیر ہند و پاک کے ممتاز عقلیت پسند دانشور، شاعر، انشا پرداز، افسانہ نگار اور نقاد تھے، سن 1884ء میں ریاست اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ 1922ء میں مشہور افسانہ نگار ل۔ احمد کی تحریک پر آگرہ سے اردو کا معروف ادبی و فکری "نگار" جاری کیا۔ جو بعد میں بھوپال ، لکھنؤ اور کراچی سے شائع ہوتا رہا۔ ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں 1962ء میں ہندوستان نے "پدما بھوشن" کے خطاب سے اور پاکستان نے "نشان سپاس" سے نوازا۔ سن 1962ء میں وہ ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہو گئے اور 24 مئی 1966ء کو کراچی میں انتقال کیا۔
رسالہ "نگار" کی جلد:14 کے اولین شمارہ (جولائی 1928) کے اداریہ میں نیاز فتحپوری لکھتے ہیں:
اس مہینہ کی اشاعت سے چودھویں جلد کا آغاز ہوتا ہے اور جس وقت اپنی بے سر و سامانی ، کم مایگی اور ناکسی پر نگاہ کرتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیا قوت تھی جس نے باوجود اسباب کی ہر ممکن ناسازگاری کے، مجھے اپنے عزم پر ثابت قدم رکھا اور نگار کو اس منزل تک پہونچا دیا کہ اب میں اپنے سے بہتر قاید کی ضرورت اس کے لیے محسوس کر رہا ہوں، سچ ہے:
ہر رشحہ باندازۂ ہر حوصلہ ریزند
میخانۂ توفیق خم و جام ندارد
میں نگار کو جس سطح تک لانا چاہتا ہوں وہ اس سے بہت بلند ہے جو اس وقت نظر آ رہی ہے اور میں معترف ہوں کہ حوادث و موانع کا مقابلہ کرنے میں اس حد تک کامیاب نہیں ہوا کہ آج عملاً اپنے نصب العین کو آپ کے سامنے پیش کر سکتا، لیکن اس کا ضرور قائل ہوں کہ انسان کی ہر تمنا اگر دل کی خلش ہو کر رہ جائے تو اک "مستقل حاصل" ہے اور غالباً مبالغہ نہ ہوگا اگر میں یہ کہوں کہ
برہمیں یک آرزو بربستہ ام تعمیر دل
بہرحال مجھے یقین ہے اور آپ بھی یقین کیجیے کہ ایک دن وہ ساعت آئے گی جب میں حقیقی منزل میں قدم رکھتے ہوئے کہہ سکوں گا کہ
شگفتن گل امید را تماشہ کن
"نگار" کے اسی شمارے سے اخذ شدہ مضمون "بلاد مغرب، ایک مشرقی خاتون کی نگاہ سے" ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

"آنسہ عنبرہ سلام" ایک مشرقی ناکتخدا خاتون نے حال ہی میں بلاد انگلستان کی سیاحت کر کے اپنے جو جذبات بیروت کے ادبی مجلہ کستاف میں شائع کئے ہیں وہ ناظرین نگار کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ، نہ اس لئے کہ ان میں بلاد یوروپ کی کوئی نئی داستان نضت و ارتقاء پنہاں ہے بلکہ محض یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اب مشرقی خواتین کے زاویہ نگاہ میں بھی کتنا فرق پیدا ہوگیا ہے۔ حالات بہت دلچسپ ہیں اور متاثر ہونے والے کے جذبات اس سے زیادہ دلکش ہم کہاں ہیں اور دنیا کہاں جارہی ہے، ہم کیا سوچ رہے ہیں اور دنیا کیا کررہی ہے؟ یہ ہے اصل روح اس تاثر کی جس کے ماتحت"آنسہ عنبرہ" نے اپنے تجربات قلمبند کئے ہیں۔
نیاز
جس وقت میں نے بلاد انگلستان میں قدم رکھا تو سب سے پہلے جو کیفیت مجھ پر طاری ہوئی "اس کو صرف"ہیبت و حیرت" کے الفاظ سے تعبیر کرسکتی ہوں ۔ چوڑی سڑکیں، بڑے بڑے مکانات، وسیع تجارتگاہیں ، خاموش ہجوم، نظم و اہتمام، صفائی و پاکیزگی اور اسی طرح کی اور بہت سی خصوصیات جو بیک وقت انسان کو متاثر کرتی ہیں، ان کا نام ہے بلاد انگلستان اول اول تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ تھی لیکن جب چند روز تک قیام کرنے کے بعد میں نے یہاں کی اسلوب زندگی اور اجتماعی روح کا مطالعہ کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ کیوں ایک اجنبی اول اول یہاں کی فضااور یہاں کے آسمان و زمین میں ہیبت ہی ہیبت محسوس کرتا ہے۔

حریت شخصی
انگلستان کی سب سے حیرت انگیز خصوصیت وہاں کی حریت شخصی ہے جو وہاں کے ذرہ ذرہ سے ظاہر ہوتی ہے اور جس سے ہر شخص اس کے نہایت وسیع معنے میں فائدہ اٹھا سکتا ہے بشرط آنکہ وہاں خے نظام وہاں کے آداب عامہ، اور امن عام میں خلل نہ پیدا ہو ۔ وہاں ہر شخص اپنی رائے اور اپنے قول و عمل میں آزاد ہے اور اس کی بیباکی سے اعلان کرسکتا ہے جو چاہو کرو، جو جی میں آئے کہو کیونکہ حریت وہاں کی دیوی ہے اور اس نے اپنے ہر بندہ کو بالکل آزاد مطلق العنان چھوڑ رکھا ہے۔ بائٹد پارک میں جاؤ توتم دیکھو گے کہ اتوار کے دن ہمیشہ اور باقی ایام میں بھی کبھی کبھی خطیبوں کا ہجوم ہوتا ہے، کوئی یہاں کھڑا ہوا سیاسیات انگلستان پر نکتہ چینی کررہا ہے، کوئی وہاں اشتراکیت پر لکر دے رہا ہے، کوئی فوضویت کی تعریفیں کررہا ہے، کوئی ملوکیت کے خلاف زہر الگ رہا ہے کوئی گلے میں صلیب ڈالے ہوئے تعلیم دینی کی طرف لوگوں کو بلا رہا ہے اور کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ مذاہب دنیا کے لئے مصیبت ہیں، اس لئے صرف عقل کے کہنے پر عمل کرو پھر کوئی خطیب ایسا نہیں جس کی گرد سننے والوں کا ہجوم نہ ہو اور اس کے لکچر پر رائے زنی نہ ہورہی ہو ۔ پھر پولیس دیکھ رہی ہے ، آجارہی ہے کھڑے ہوکر ان تمام مواعظ و خطبات کو سنتی ہے، لیکن کوئی مزاحمت نہیں کرتی۔ البتہ اگر اس کا اندیشہ پیدا ہو تو پھر ادنی اشارہ اس کے ہاتھ کا سارے خطرات کو دور کردیتا ہے اور مجمع اس کی ایک سیٹی سے منتشر ہوجاتا ہے۔

تنظیم عمل
اس سے زیادہ محبوب چیز اہل انگلستان کے لئے اور کوئی نہیں ۔ گھر کی معیشت میں، گھر سے باہر کی زندگی میں مشاغل معاش میں اور دوسروں کے ساتھ ملنے جلنے میں الغرض ہر جگہ اور ہر وقت تم ان کے اندر ایک تنظیم عمل پاؤ گے ، ہر کام کے لیے ایک وقت اور ہر وقت پر کام کی پابندی یہ ان کے نظام عمل کو روح ہے جس سے کبھی کوئی انگریز بیگانہ نظر نہیں آسکتا۔
ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ گھر کے قریب جہاں دو تین سے زیادہ آدمیوں کا ہجوم ہو اور انہوں نے صف بنالی، پھر ہرنیا آنے والا اسی صف کے آخر میں شامل ہوتا جائے گا اور کبھی وہ اس کی کوشش نہ کرے گا کہ اچک کر یا گھس پل کر پہلے ٹکٹ حاصل کرے، ان کی ذہن ہی میں یہ بات نہیں آتی کہ خلاف اصول کیونکر کوئی چل سکتا ہے ۔
چوراہوں پر پولیس والے نے ہاتھ اٹھایا اور مسافروں، گاڑیوں اور موٹروں کا سیلاب دفعۃً رک گیا، اس نے ہاتھ نیچے کیا اور پھر اسی نظام کے ساتھ آہستہ آہستہ سب چل پڑے، ایسا عجیب و غریب منظر ہوتا ہے کہ بے اختیار داد منہ سے نکل جاتی ہے ۔ باوجود شدید ازدحام اور کثرت آمدورفت کے وہاں نہ کوئی ہنگامہ نظر آتا ہے نہ کوئی شوروغل ، ہر کام سکون کے ساتھ ہورہا ہے۔ ہر شخص خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں منہمک ہے اور یہ سب نتیجہ ہے انتظام معیشت کا اور فرض شناسی کا ، ایک مشرقی انسان کی طرح نہ ان کے ہاں کاہلی کی دیر ہے نہ گھبراہٹ کی جلدی۔ تم اگر کسی ضرورت سے ڈاکخانہ میں جاؤگے تو وہاں کا ہجوم دیکھ کر حیران رہ جاؤ گے اور تم کو یقین ہوجائے گا کہ ضرورت پوری نہیں ہوسکتی، لیکن اگر تم صبر کے ساتھ صف میں شامل ہوگئے تو پھر دیکھو گے کہ چند منٹ کے اندر تم سے آگے کا ہجوم چھنٹ گیا ہے اور تمہارے بعد اس سے زیادہ لمبی قطار آدمیوں کی بن گئی ہے ، وہاں یہ رات دن کا مشغلہ ہے۔ اور ہر شخس اس مکانکی زندگی کا عادی ہے ۔
تم کسی بڑے مخزن (اسٹور ہاؤس) یا تجارتی ذخیرہ کی دوکان میں پہنچ جاؤ اور وہاں کے انہماک کو دیکھو ،تم یہ معلوم کرکے حیران رہ جاؤ گے کہ ایک دن میں وہاں چار لاکھ آدمی آتے جاتے ہیں ، یہاں دروازہ سے داخل ہوتے ہی تم کو مختلف تختیاں لکھی ہوئی نظر آئیں گی جو مختلف سمتوں کا حال بتاتی ہیں اور ہر سمت میں مختلف قسم کے مال کے ذخیروں کا پتہ بتاتی ہیں پھر تم ذرا آگے بڑھے کہ وہاں خوش سلیقہ ملازم(مرد و عورت) شگفتہ روئی کے ساتھ آئے اور تمہاری ضروریات کے متعلق تمام آسانیاں بہم پہونچائیں۔
ٹیلیفون سڑک پر ہر ہر جگہ تم کو ملیں گے اور فوراً تم کو اس مکان کے نمبر سے ملادیں گے جہاں سے تم گفتگو کرنا چاہتے ہو۔ زمین کے اوپر نیچے یہاں ریل کا ایسا ہی جال ہے جیسے جسم انسان میں شرائین دور ید لیکن ہر گاڑی میں تمام تفصیلی نقشے متعدد اشارات و ہدایات موجود رہتی ہیں جس سے ایک شخص بہ آسانی منزل مقصود تک پہونچ جاتا ہے ، پھر یوں بھی ان نقشوں کے دیکھنے کی ضرورت کس کو ہوتی ہے ۔ ریل کے ملازم خود تمہاری مدد کرنے کے لئے ہر وقت ہر جگہ غلاموں کی طرح موجود رہتے ہیں۔
انگلستان کا باشندہ اپنے قواعد کو کبھی بیکار و معطل نہیں رہنے دیتا اور پوری ہمت کے ساتھ وہ ان سے کام لیتا ہے ۔ اور یہی نظام عمل ہے کہ وہ حفظ نشاط کے لئے کافی آرام بھی حاصل کرسکتے ہیں ۔ چنانچہ تم دیکھو گے کہ ابتدائی مدارس سے لے کر بڑی بڑی کالجوں تک یہ ستور ہے کہ نو بجے صبح سے قبل وہاں تعلیم شروع نہیں ہوتی ۔ اور کارخانے والے مجبور ہیں کہ اتوار اور نصف دن سنیچر کا تعطیل کے لئے وقف کریں ۔ اسی طرح ہر طبقہ کے لوگ سالانہ تعطیل چند دن کی نہایت لطف سے مناتے ہیں جس میں رتک و مخدوم سب برابر ہیں ایک خاتون میری دوست ہیں جن کے ایک چھوٹا بچہ ہے اور خود ہی ان کا گھر کا سارا انتظام اور بچہ کی نگرانی کرنی پڑتی ہے ، لیکن اتوار کے دن وہ خود بھی تعطیل مناتی ہیں اور ایک دن کے لئے کسی عورت کی خدمات حاصل کرلیتی ہیں ، اس راحت کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تعطیل کے بعد لوگ نہایت نشاط اور نازوقوت کے ساتھ کام پر جاتے ہیں اور ان کو کوئی تکان نہیں ہوتی۔

ریاضت
یہاں کی زندگی کا سب سے نمایاں منظر ان کا شو ق ریاضت ہے ، انگلستان کا ہر باشندہ مرد ہو یا عورت دیگر ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ ریاضت کو بھی ضروری جانتا ہے اور کسی نہ کسی ریاضت کے کلب کا ممبر ہے ، میں نے سانٹ پول کالج میں لڑکیوں کو ایسی ایسی ریاضت کرتے دیکھا کہ کبھی میں خیال بھی نہیں کرسکتی تھی ، یہی وجہ ہے کہ یہاں کی لڑکیاں صحیح و توانا، خوبصورت اور مستعد ہوتی ہیں ۔ لندن اور اس کے قرب و جوار میں اس قدر کثرت سے اور اتنے بڑے بڑے میدان ہیں کہ ایک لاکھ سے زیادہ آدمی ان میں آسکتے ہیں ۔ اور روزانہ یہاں کھیل تماشے ہوتے رہتے ہیں لیکن کوئی میدان ایسا نہ ہوگا جہاں تمہیں لوگوں کا ہجوم نظر نہ آئے اور ایک خاص اہتمام کے ساتھ اس کا لطف نہ اٹھائیں ۔ چنانچہ جب کیمبرج اور آکسفورڈ کے درمیان کوئی مقابلہ ریاضت ہوتا ہے کہ تو کوئی آدمی ایسا نہیں ہوتا جو اپنے سینہ یا موٹر پر کیمبرج یا آکسفورڈمیں سے کسی کا نشان نہ لگائے ہوئے ہو۔ پھر یہ نہیں کہ اس مقابلہ ریاضت کا نتیجہ بد دلی یا رنج و ملال میں ظاہر ہوتا ہے بلکہ وہ نہایت خوش دلی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں اور ایک لمحہ کے لئے کوئی تنغص پیدا نہیں ہونے دیتے۔ پھر اسی کے ساتھ ایک بڑی جماعت باری لگانے والوں کی ہوتی ہے اور اس کے یہاں اس قدر کثرت ہے کہ اگر کوئی شخص مررہا ہے تو بھی آدمی بازی لگانے کے لئے تیار ہوجائیں گے ۔ گھوڑ دوڑ یا دوسرے کھیل تماشوں کا کیا ذکر ہے ۔

تفریح
چونکہ یہ قوم اس قدر نشاط طلب ہے اس لئے فطرت نے ان کے ملک کو بھی ویسا ہی خوشنما اور دلچسپ بنایاہے یہاں باغوں اور تفریح گاہوں کی کوئی انتہا نہیں ہے ، اور ہر شخص نہایت آسانی سے ہر جگہ کارخانہ کی منہمک زندگی سے نکل کر ان میں پہونچ سکتا ہے ، یہاںکابڑا پارک 2400 ایکڑ زمین کو محیط ہے جس میں گھاس سے سرسبز تختے ، شاداب درخت فوارے،خوبصورت پھول اور ہر وہ چیز جو روح کو راحت پہونچا سکتی ہے یہاں اور تمام پارکوں میں پائی جاتی ہے، تالابوں کی بھی اتنی ہی کثرت ہے جس میں طیو ر آبی اور کشتیوں کی تعداد غالباً برابر ہی رہتی ہے یہاں کی چڑیاں اس قدر مانوس ہوگئی ہیں کہ وہ لوگوں کے ہاتھ سے اپنی غذا آکر لے لیتی ہیں۔
پھر اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھو گے کہ اگرایک طرف باغ یا پارک، سبزہ، تالاب آدمیوں سے بھرا ہوا ہے ، تو دوسری طرف ریاضت گاہیں کھیل کود کے میدان اور سنیما و تھیٹر وغیرہ بھی ویسے ہیں کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں چنانچہ تم یہ سن کر غالباً حیرت کرو گے کہ یہاں ہر ہفتہ 15 ملین (ڈیڑھ کروڑ) آدمی سنیما میں جاتے ہیں اور یہی حال تھیٹروں کا ہے۔ بعض بعض تھیٹر ایسے ہیں جن کا ٹکٹ تم کو آج درخواست کرنے پر ایک ہفتہ کے بعد ملے گا ، گویا ایک ایک ہفتہ پہلے سے لوگ اپنی جگہ مخصوص کرالیتے ہیں یہی حال رقص و نغمہ کے شوق کا ہے کہ وہاں کی تمام رقص گاہیں آدمیوں سے بھر جاتی ہیں ، اور روزانہ نئے نئے طریقے رقص کے ایجاد ہوتے رہتے ہیں ، پھر یہاں ہر جگہ لاسلکی کابھی انتظام ہے جس سے ہر شخص اپنے گھر بیٹھے گانا سن سکتا ہے لیکن حیرت یہ ہے کہ باوجود اس کثیر مصرف کے وہ اتنا روپیہ بھی بچالیتے ہیں کہ جاکر دوسرے ملکوں کی سیر کریں۔
انگریز جس طرح اپنی خانگی زندگی کو محبوب رکھتا ہے اسی طرح وہ باہر کی زندگی کابھی شیدا ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی روشن دن گزر جائے اور اس سے لطف نہ حاصل کیاجائے ۔ چنانچہ گزشتہ عید فصح کے دن مضافات لندن میں جانے والوں کی تعداد چار ملین تھی اور یہ بھی ان کی جو گھوڑے گاڑیوں کے ذریعے سے گئے، ریل، ٹراموے اور موٹر سے جانے والے ان کے علاوہ تھے صرف واٹر لواسٹیشن پر جہاں 24 پلیٹ فارم ہیں، ہجوم کی یہ حالت تھی کہ دو میل کے طول میں انسانی صف قائم تھی، جتنا حصہ آگے کا ختم ہوجاتا تھا اخیر میں پھر اتنے ہی آدمی بڑھ جاتے تھے یہاں تک کہ کامل 24 گھنٹے یہ دو میل کی صف قائم رہی ۔

خاموش وطنیت
انگلستان کے وطنی مظاہر اس قدر خاموش ہوتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر حیرت ہوجاتی ہے، جس دن یہاں عام ہڑتال ہوتی ہے اور ہر کام کرنے والے نے اپنے کام ترک کردیا تھا یہاں تک کہ ذرائع آمد و رفت بھی تمام وہ ہوگئے تھے وہ دن عجیب و غریب تھا باوجود اتنی زبردست تحریک عمل کے شوروہنگامہ کا کہیں نام تھا یہ معلوم ہوتا تھا کہ سارے لندن پر سو گ طاری ہے اور ہر جگہ خاموش ماتم بپا ہے ۔

خانگی زندگی
انگلستان کا عائلہ یا خاندان ہمارے یہاں کے عاملہ سے مختلف مفہوم رکھتا ہے ۔ خاندان کے افراد یہاں باہم ربط تو رکھتے ہیں لیکن ایک نہیں ہوجاتے ۔ میاںبیوی رشتہ ازدواج سے منسلک ہیں خانگی زندگی کو دونوں ایک دوسرے کی مدد سے بسر کررہے ہیں، لیکن ایک دوسرے کا پابند نہیںہے، جس طرح مرد کامکرنے کے بعد باہر کلب وغیرہ میں تفریح کامجاز ہے ، اسی طرح عورت بھی آزاد ہے اور مرد کو اس سے باز پرس کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، گھر کی سیادت مشرق کی طرح یہاں بھی ماں ہی کے سپرد ہے ۔
جب تک بچہ چھوٹا رہتا ہے اس کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ماں پر رہتی ہے اور جوان ہونے کے بعد اس کا اپنا گھر علیحدہ بنانا پڑتا ہے ، اور والدین سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔

بچوں کی محبت
انگلستان میں عید میلاد انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے ۔ اور سارا لندن بالکل نئی چیز ہوجاتا ہے، زینت و آرائش کی کوئی حد نہیں رہتی اور اس دن ہر چہرہ متبسم نظر آتا ہے ۔ یہ عید بچوں سے متعلق ہے ، اس لئے ماں باپ کی ساری مسرتیں اس دن سے وابستہ ہوجاتی ہیں ،بچوں کو تحفے دئے جاتے ہیں اور تمام دوکانیں لاکھوں قسم کے کھلونوں اور خوبصورت کتابوں سے بھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ تھیٹر اور سنیما میں بھی مخصوص طور پر وہی کھیل ہوتے ہیں جن کا تعلق اس عید سے ہو۔ چونکہ یہاں بچوں کی حفاظت ، تعلیم وتربیت کے لئے ایک بہت بڑی جماعت قائم ہے اس لئے غریبوں کے بچے بھی ان نعمتوں سے محروم نہیں رہتے ، اور نہ ان پر کسی قسم کی سختی ہوتی ہے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ کسی باپ نے اپنے بچہ کو سخت جسمانی سزا دی تو اس کوچھ مہینے کی قید بامشقت اٹھانا پڑی۔
یہاںبچہ کی صحت و تربیت کا بہت خیال رکھاجاتا ہے ، گاڑیوں میں بٹھا کرباغوںمیں لیجانا، کھیل کود کی جگہوں میں پہونچانا ، روز کامشغلہ ہے ، بچوں کے لئے کتابیں، رسالے اور اخبار بھی خاص طور سے شائع ہوتے ہیں اور نہایت کثرت سے بڑے بڑے اخباروں میں بھی بچوں کے صفحات جن میں عمدہ عمدہ تصویریں ہوتی ہیں بچوں کے لئے مخصوص ہوتے ہیں ، روزانہ جولاسلکی پروگرام موسیقی کا شائع ہوتا ہے اس میں ایک حصہ گانے یا قصہ کہانی وغیرہ کابچوں کے لئے بھی مخصوص ہوتا ہے ۔
پہلے سال کے بعد سے بچوں کے سامنے تصویر وار کتابیں ڈال دی جاتی ہیں، لڑکوں کے لئے علیحدہ اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ اور ہر سال ان میں ترقی ہوتی جاتی ہے ۔
بچوں کی صفائی و ستھرائی کا ان کے ہاں بہت زیادہ خیال کیاجاتا ہے، غریب سے غریب شخص کے ہاں بھی روزانہ بچہ کو غسل دینا ان کی معاشرت میں داخل ہے ۔ تربیت کے لحاظ سے دو چیزوں کا درس سب سے پہلے دیاجاتا ہے ۔ استقلال شخصی اور احترام غیر اور اسی اصول پر اس کی تعلیم و تربیت میں تدریجی ترقی پیدا کی جاتی ہے پہلے بچہ کو چلنا سکھایا جاتا ہے، پھر کھیل کود ، پھر اپنے لئے ضروری چیزوں کی خریداری ، اور پھر مدرسہ اور وہاں کی کتابوں کی تعلیم ہوتی ہے ۔ اور اس کے بعد وہ دنیا میں اپنے ہاتھ پاؤں چلا کر عملی زندگی بسر کرنے کے لئے چھوڑ دیاجاتا ہے ۔ یہاں کثرت سے ایسی انجمنیں ہیں جو ماؤں کو بچوں کے طریق تعلیم و تربیت کا درس مفت دیتی ہیں۔ بچوں کے ساتھ ان کو نہایت شدید محبت ہوتی ہے، راستہ میں ، ریل میں، دوکان میں، باغ میں، الغرض کہیں کسی کابچہ نظر آجائے وہ اس سے التفات کئے بغیر نہیں رہتے۔ ایک بارمیں پکاڈلی کے قریب تھی ، اور میری چھوٹی بہن بھی میرے ساتھ تھی، جہاں ہجوم و ازدحام کا وہ عالم کہ ایک انسان اس کو دیکھ کر آسانی سے حشر کامفہوم جان سکتا ہے ، لیکن باوجود اس ہنگامہ کے جو شخص میرے پاس سے گزرتھا بچی (میری چھوٹی بہن) کو ضرور پیار کرلیتا تھا۔

عہد شباب
سب سے پہلی وہ خصوصیت جو ایک انگلستان کی نوجوان لڑکی کومرکز توجہ بنادیتی ہے اس کا شاندار متناسب قد و قامت ہے ۔ اور اسی کے ساتھ اسکا ملبوس جو پنڈلیوں کو عریاں رکھ کر جمال قامت میں رعنائی کوبھی شامل کردیتا ہے ۔ ممکن ہے کہ ایک انگریز لڑکی کا حسن و جمال کسی کی توجہ کو مائل نہ کرسکے ، لیکن اس کے چہرہ کی زندہ تازگی ممکن نہیں کہ نگاہ کو اپنی طرف نہ کھینچ لے ، یہ تو اس کا خارجی پہلوہے ۔معنوی یا عملی پہلو کے لحاظ سے وہ بہت زیادہ عجیب چیز ہے ۔ صبح ہوئی اور اپنے کام میں تیزی سے لگ گئی ۔ تم اسے کام کرتے ہوئے دیکھو گے تو اس قدر جلد اور سبک طریقہ سے کہ معلوم ہوگا کہ کوئی تیتری ہے ۔ انگلستان کی عورت درس و تدریس کی جگہ ایک بہترین مدرس و ہادی ہے، تجارتی کارخانوں میں نہایت ماہر مہتمہ ہے، اسٹیج پر بہ مثل رقاصہ و مغنیہ ہے ، اور پارلیمنٹ میں زبردست خطیب ہے ۔
میں نے ایک عورت کو دیکھا جو بڑا خاندان رکھتی ہے اور اپنے شوہر، اپنی اولاد اور مہمانوں کی تمام راحتوں کی کفیل ہے ۔ لیکن اسی کو میں نے کھیل کود میں مردوں سے بازیاں جیتتے، گھوڑ دوڑ میں گھوڑے دوڑاتے ، دریا میں کشتی چلاتے، خشکی میں موٹر چلاتے، غباروں میں اڑتے، پانی میں تیرتے،ساحل پر ریت میں لوٹتے ، رقص گاہوں میں بہترین لباس کے ساتھ رقص کرتے اور سیاسی مجالس میں فصیح ترین تقریر کرتے بھی سنا اور میں حیران رہ گئی کہ اس جامعیت کا کیا ٹھکاناہے ۔
یہاں عورت کی تعلیم بھی بالکل مردوں کی طرح مکمل ہوتی ہے، اور دوسرے ممالک میں بھی مخصوص فنون حاصل کرنے کے لئے جاتی ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آخر کار انتخاب ان کو مل گیا۔ اور اب اس وقت 12,697,799 مردوں کے مقابلہ میں 14,832,922 عورتوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوگیا ہے ۔

کریم النفسی اور تہذیب
انگلستان جانے کے بعد سب سے پہلے جو لفظ میں نے سنا وہ [decent] تھا۔ اس کا استعمال یہاں کے لوگ باربارکرتے ہیں، جسے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کا جمالی پہلو ہی ان کے سامنے رہتا ہے ۔اور مشکل سے کبھی لفظ [nasty] ان کے منہ سے سننے میں آئے گا جو اول الذکر لفظ کا بالکل ضد ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اس قوم میں نقائص بھی ہیں اوربرائیاں بھی ہیں لیکن کریم النفسی کی مثالیں ان میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔وطن پرستی ، مفاد قومی، تعاون باہمی، یہ وہ خصوصیات ہیں جو ایک شخص کی کریم النفسی پر دلالت کرتی ہیں اور یہاں کی آبادی کا غالب حصہ(مردوعورت دونوں کا) ان صفات سے متصف نظر آتا ہے ۔ یہاں کی تہذیب کا یہ حال ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ سے ظاہر ہوتی ہے ۔ دوکان میں مال بیچنے والا ، اسٹیشن پر ٹکٹ دینے والا پہلے شکریہ ادا کرے گا اور پھر مال یا ٹکٹ دے گا۔ بلکہ اس سے زیادہ یہ کہ نوکر کا بھی شکریہ ادا کیاجاتا ہے اور ایک افسر اپنے ماتحت کی خدمت کا بھی اعتراف شکریہ سے کرتا ہے ۔
دوسروں کی خدمت و امداد کے لئے یہاں کے لوگ ہر وقت طیار رہتے ہیں۔ میں ایک مرتبہ رشمونڈ پارک میں ٹہل رہی تھی اور میری چھوٹی بہن جو بیمار تھی میرے بھائی کی گود میں تھی جس کو وہ بہت دیر سے لئے ہوئے تھا۔ ہمارے ساتھ ہی ساتھ ایک اور مرد بزرگ بھی جس کی عمر 60 سال کی ہوگی معہ اپنی بیوی کے ٹہل رہا تھا، صورت و لباس سے یہ لوگ بہت معزز معلوم ہوتے تھے میرے بھائی نے تھک کر چاہا کہ بچی کو گود سے اتار دے ۔ لیکن وہ اسے زمین تک نہ لایا ہوگا کہ اسی مرد ضعیف نے اپنی چھڑی اپنی بیوی کو دی اور بڑھ کر آگے آیا اور بولا کہ" اب اس بچی کو گود میں لے کر چلنے کی باری میری ہے۔" جانوروں کے ساتھ بھی یہاں اسی لطف و رحم کا سلوک کیاجاتا ہے ۔ میں دو سال انگلستان میں رہی لیکن اس دوران میں کسی کے منہ سے ایک کلمہ بھی ایسا نہیں سنا جو دل کو برا لگتا ۔ میں روزانہ صبح کو ریل میں بیٹھ کر ایک گھنٹہ کے لئے سفر کے لئے نکل جاتی ، تاکہ میں یہاں کے لوگوں کا زیادہ قریب سے مطالعہ کروں ۔ ریل میں ہجوم کا یہ عالم ہوتا کہ تل رکھنے کو جگہ نہ ملتی لیکن میں نے بھی نہیں دیکھا کہ یہاں کے مرد عورت ریل میں بھی اپنا وقت ضائع کریں جس کو دیکھئے یا تو وہ کسی اخبار کامطالعہ کرتا ہوا ملے گا یا کوئی کتاب پڑھ رہا ہوگا یہی حال عورتوں کا ہے ۔
ایک دود ھ بیچنے والا نکلتا ہے ، اور ہر دروازہ پر دودھ کی بوتلیں رکھتا ہوا چلاجاتا ہے، نہ وہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور نہ چوری کا اندیشہ اس کو ہوتا ہے ۔ راستہ میں میز کے اوپر اخبار رکھے ہوئے ہیں، لوگ گزرتے ہیں قیمت رہیں رکھ دیتے ہیں اور اخبار لے کر چلے جاتے ہیں ۔ پھر یہ دیانت و امانت پولیس یا قانون کے خوف سے نہیں بلکہ حقیقتاً ان کے ذہن ہی میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی انسان ایسی نحیف و ذلیل حرکت بھی کرسکتا ہے اور یہ نتیجہ ہے صرف ان کی اعلی تربیت ذہنی کا۔
برنارڈ شاہ کہتا ہے کہ:
"مدنیت نام ہی اس کا کہ تم میرا اور میری خصوصیات کا احترام کرو، میں تمہارا او رتمہاری خصوصیات کا احترام کروں گا۔"
حقیقت یہ ہے کہ اہل انگلستان نے اس کو پوری طرح سمجھا اور نہایت تکمیل کے ساتھ اپنے ملک کے اندر اس پر عمل کررہے ہیں۔

ماخوذ:
ماہنامہ "نگار" (لکھنؤ)
جولائی 1928۔ جلد:14، شمارہ:1

The West according to a woman from East. Article from monthly 'Nigar', July 1928.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں