عہد آصف سابع میں تعلیم نسواں - لڑکیوں کے قدیم مدارس اور کالجس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-24

عہد آصف سابع میں تعلیم نسواں - لڑکیوں کے قدیم مدارس اور کالجس

girls-schools-colleges-hyderabad-state
عہد نواب میر عثمان علی خاں میں مردوں کے دوش بدوش عورتیں بھی بیدار ہو گئی تھیں اور انہوں نے علم و فن ، تمدن و معاشرت میں جو کچھ ترقی کی وہ لائق ستائش ہے، اس زمانہ میں تعلیم کے مختلف درجے قرار دئے گئے تھے: ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ اور پھر ثانوی کی دو قسمیں تھیں وسطانی اور فوقانی۔

ابتدائی:
سلطنت آصفیہ میں سرکاری طور پر سب سے پہلے 1232ف میں تعلیم نسواں پر توجہ دی گئی ۔ ممالک محروسہ سرکاری عالی میں ابتدائی مدارس نسواں کی تعداد صرف 79 تھی جس میں سے 37 سرکاری اور 42 خانگی اور امدادی تھے ۔ ان میں تعلیم پانے والی طالبات کی کل تعداد 41,974 تھی۔ ایک پرائمری ماڈل اسکول بھی 1334ف میں قائم ہوا ۔ یہاں پر مخلوط تعلیم کا جدید طرز سے کمسن بچوں کے لئے انتظام تھا۔ مانٹیسری میتھڈ سے تعلیم دی جاتی تھی ۔ بیگم سید جمال الدین اس مدرسہ کی صدر معلمہ تھیں جنہوں نے خود اٹلی جاکر مانٹسری اسکول میں تربیت حاصل کی تھی اور انگلستان کے مدارس میں بھی عملی تجربہ حاصل کیا تھا۔

مدارس وسطانیہ:
1319ف میں مدارس وسطانیہ صرف دو تھے وہ بھی بلدہ کی حد تک۔ اضلاع میں کوئی مدرسہ وسطانیہ نہیں تھا ۔ معلمات کی تعداد 18 اور سلور جوبلی تک ان کی تعداد بیس ہو گئی ۔ سات سرکاری اور 13 خانگی امدادی۔ طالبات کی تعداد 3,378 ہو گئی۔

مدرسہ فوقانیہ:
1319ف میں تین ہائی اسکول تھے جن میں دو سرکاری اور ایک خانگی تھا ۔ ان مدارس کی طالبات کی تعداد 24 تھی۔ سلور جوبلی تک ہائی اسکول کی تعداد 8 ہو گئی جس میں چار سرکاری اور چار امدادی مدارس تھے ۔ اور طالبات کی تعداد 2,663 ہو گئی۔

اس کے ساتھ ہی بعض مدارس کا ذکر دلچسپی کا باعث ہوگا۔

ہائی اسکول نامپلی:
اس کا قیام 1300ف میں عمل میں آیا مگر انیس سال میں اس کی جملہ تعداد صرف 65 تک پہنچی تھی ۔ اگرچہ یہاں یونیورسٹی کے کورس کے مطابق میٹرک کی تعلیم ہوتی تھی لیکن یونیورسٹی نے اس کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ 1316ف میں تین لڑکیاں امتحان میں شریک ہوئیں لیکن کوئی کامیاب نہیں ہو سکی ۔ البتہ امتحان مڈل میں تیرہ شریک ہوئیں اور نو کامیاب ہوئیں۔ میر عثمان علی خاں کی تخت نشینی کے وقت ان کی تعداد 95 ہوگئی اور سلور جوبلی تک 579 رہی۔ یہاں پر دو طرح کی تعلیم ہوتی تھی ایک تو سرکار عالی کے اسکول لیونگ سرٹیفکٹ کی اور دوسرے جامعہ عثمانیہ کے میٹرک کی ۔
اول الذکر یہاں سے فارغ ہوکر نظام کالج میں شریک ہوئی تھیں اور ثانی الذکر ویمنس کالج (کلیہ اناث) میں۔ یہاں تعلیم کے علاوہ دست کاری، پکوان، سیون کے لئے بھی ٹیچرس موجود تھیں۔ ڈاکٹر آمنہ پوپ اس درسگاہ کی صدر تھیں۔ ان کے زمانہ میں اس مدرسہ کی بڑی ترقی ہوئی ۔ ان کی محنت اور دلچسپی کے باعث کلیہ اناثہ کا قیام عمل میں آیا ۔ خواتین دکن کی تعلیمی ترقی میں ان کا بڑا حصہ ہے ۔

محبوبیہ گرلز ہائی اسکول:
اس مدرسہ کا قیام نواب میر محبوب علی خاں کے زمانہ میں ہوا۔ 1870ء میں ہوا لیکن میر عثمان علی خاں کے زمانہ میں اس مدرسہ کی بہت ترقی ہوئی ۔ مدرسہ کے قیام کے بارہ سال بعد 1318 مطابق 1884ء میں یہاں صرف بائیس لڑکیاں تھیں اور سلور جوبلی تک 344 لڑکیاں زیر تعلیم ہو گئیں۔ اس کے علاوہ کنڈر گارٹن میں مخلوط تعلیم ہوتی تھی جو آج بھی اسی طرح ہے ۔ لڑکے اور لڑکیوں کی جملہ تعداد 360 تھی۔ اس مدرسہ کے تین حصے تھے یعنی کنڈر گارٹن، مڈل اسکول اور ہائی اسکول ، جو سینئر کیمبرج کی تعلیم کے لئے مختص تھا۔
کنڈر گارٹن میں جدید اصول کے لئے ایک یوروپین خاتون کی نگرانی میں تعلیم ہوتی تھی ۔ مصوری کے لئے جو مختص ہوتی تھیں، رائل ڈرائنگ سوسائٹی لندن کے ٹیچر آف آرٹس کے امتحان کے لئے کروایا جاتا اور انہیں اعلی درجہ کی مصوری کی تعلیم دی جاتی۔ موسیقی کی جو تعلیم پاتی تھیں ان کو ٹریٹی کالج آف میوزک لندن کے لئے تیار کیا جاتا تھا ۔
بزم ادب بھی قائم تھی۔ سہ ماہی رسالہ اردو اور انگریزی زبان میں شائع ہوتا ۔ دوپہر کے کھانے کا خاص انتظام ہوتا۔ ان کے لئے ایک صاف ستھرا اور خاص کھانے کا کمرہ تھا۔ وہ خود اپنی سواری میں آتی تھیں ۔ مس لینن اس مدرسہ کی پرنسپل تھیں اور مس نندی نائب صدر تھیں۔

اسٹانلی گرلز ہائی اسکول:
یہ مدرسہ مشن کے زیر اہتمام تھا جس کو سرکاری عالی سے مہینہ دو سو روپے امداد دی جاتی تھی۔ 526 لڑکیاں سلور جوبلی کے وقت زیر تعلیم تھیں یہاں پر SLC کی تعلیم ہوتی تھی۔

سینٹ جارج گرامر اسکول:
یہ مدرسہ بھی مشن کے زیرا نتظام تھا ۔ سرکاری عالی سے بھی اسکول امدادی ملا کرتی تھی۔ یہاں سینئر کیمبرج تک تعلیم ہوتی تھی اور اس وقت تقریبا سو طالبات یہاں زیر تعلیم تھیں۔

مدرسہ فوقانیہ مفید الانام:
یہ بھی برہما چھتری خاندان کے ایک فرد راجہ بنسی لال صاحب کی کاوش سے وجود میں آیا تھا جو اعتبار چوک میں قائم ہوا ۔ اس گلی کا نام ہی تعلیم گلی پڑ گیا ۔ اس کو بھی سرکار عالی سے امداد ملتی تھی ۔ یہاں پر پردہ کا خاص انتظام تھا ۔ سواری کے لئے شکرام مقرر تھی جس میں طالبات اور اساتذہ اسکول آتی تھیں۔ اس اسکول میں ایک خاص قسم کا ڈسپلن تھا اور یہاں برہما چھتری خاندان کی لڑکیوں کے علاوہ کائستھ خاندان کی لڑکیاں بھی پڑھتی تھیں ۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اقرباء سرکار یعنی صاحبزادوں کی لڑکیاں اور پرانے شہر کے امراء کی لڑکیاں بھی اس اسکول میں زیر تعلیم تھیں اور اساتذہ بھی زیادہ تر انہی خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔
یہاں پر دوسرے مضامین کے علاوہ ہندی زبان بھی پڑھائی جاتی تھی جو دوسرے سرکاری مدارس میں اس وقت رائج نہیں تھی۔ فارسی و عربی اور دینیات کی بھی تعلیم دی جاتی اس کے ساتھ ہی ساتھ ہوم سائنس پکوان، دستکاری، خیاطی، اون کا کام وغیرہ بھی لڑکیوں کو سکھلایا جاتا تھا۔ بعد میں یہ اسکول ہائی اسکول ہو گیا۔

اعلی تعلیم:
نواب میر عثمان علی خان سے پہلےخواتین کی اعلیٰ تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا اور نہ کسی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ اس دور میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہوا ۔ چنانچہ اس دور میں تین کالجوں میں خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی تھیں۔

ویمنس کالج (کلیہ) :
یہ جامعہ عثمانیہ سے ملحق ہے۔ 1322 مطابق 1888ء میں اس کا قیام عمل میں آیا اور یہ نامپلی ہائی اسکول کی عمارت میں ہی قائم ہوا۔ یہاں بی اے اور بی یس سی کی تعلیم ہوتی تھی ۔ یہاں پر ایف۔اے اور بی۔اے اور ایف ایس سی اور بی یس سی کی تعلیم ہوتی تھی ۔ طالبات کی کل تعداد 42 تھی۔ اس کالج کے قیام میں ڈاکٹر آمینہ پوپ کا بڑا حصہ ہے ۔ اس کلیہ کی اولین طالبات میں نوشابہ خاتون،درۃ البیضا بیگم، بشیر النساء بیگم، محدی بیگم، سراج النساء بیگم، سلامت النساء بیگم، زہرہ بیگم ، جہاں بانو نقوی ، نجم النساء بیگم شامل ہیں۔

نظام کالج:
نظام کالج میں مخلوط تعلیم ہوتی تھی اور اس میں کل 35 طالبات زیر تعلیم تھیں ۔ ایف اے، بی اے سال اول میں (4) ، آنرس (1) ، ایف اے سال دوم (10) ، بی اے سال دوم (2) ۔۔۔ جملہ 35 طالبات تھیں۔

میڈیکل کالج:
جامعہ عثمانیہ سے متعلق میڈیکل کالج میں مخلوط تعلیم ہوتی تھی جن میں اولین طالبات میں چار لڑکیاں تھیں۔ خیر النساء بیگم، مس آر چٹو پادھیا (سروجنی نائیڈو) مس یم بٹ اور مس ایس بٹ۔

ٹیچرس ٹریننگ:
حیدرآباد میں ایک اور اضلاع میں دو مدرسے ٹیچرس ٹریننگ کے قائم کیے گئے۔ ان مدرسوں میں قیام کا بھی انتظام تھا۔ اور پھر بعد میں اسکول، ٹریننگ کالج بنا دیا گیا جس کی صدر حضور النساء بیگم ایم اے ۔ بی ٹی تھیں۔

بیروں ملک اعلی تعلیم نسوان:
نواب میر عثمان علی خاں کے دور سے پہلے صرف دو خواتین نے اعلی تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن اس دور میں باہر جاکر تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کیا گیا جس میں سر فہرست خواتین حسب ذیل ہیں:
  • بادشاہ بیگم صوفی۔ ایم اے علیگڑھ 
  • مس ایس چٹوپادھیا بی اے ایل ٹی مدراس
  • مسز سبا سنٹین بی اے ایل ٹی مدراس
  • حضور النساء بیگم ایم اے، بی ٹی لکھنؤ
  • نور النسا بیگم بی۔اے لکھنؤ
  • مس لیلا منی نائیڈو بی۔اے اکسفورڈ
  • مس جیسی نندی ایم۔اے آنرس ٹیچرس ڈپلوما لندن
  • مس میری نندی بی ایس سی لندن
  • مس دور انندی فروبل کورس لندن
  • بیگم سید جمال الدین ڈپلوما مانٹیسری کورس اٹلی، (لندن) 
  • بیگم زینی یار جنگ بی اے آکسفورڈ
  • مس ویلنکر ڈپلوما (لندن) 
  • مصطفائی بیگم منشی فاضل (مدراس) 
  • خیرو النساء بیگم ایم بی ایس بمبئی 
  • سراج النسا بیگم فارسی طہران 
  • خدیجہ بیگم کنڈرگارٹن ڈپلوما مانٹیسری (لندن) 

تعلیم جسمانی [Physical Education]:
نجم النساء بیگم کو خاص طور پر لندن بھجوایا گیا اور ایک مہتمم مس اسپرس شاہ جو بعد میں Mrs Biddle کہلائیں، کا تقرر کیا گیا اور ایک ٹریننگ کالج بھی مس شاہ کی نگرانی میں قائم ہوا جس کی اولین طالبات میں آمینہ سلطانہ، توصف النساء ، افسرسلطانہ وغیرہ شامل ہیں۔

ماخوذ از کتاب:
تاریخ دکن کے چند گوشے (1347 تا 1930ء)۔ اشاعت: 1993
مصنفہ: ڈاکٹر زیب النسا حیدر (ریڈر شعبہ فارسی، جامعہ عثمانیہ)۔

Women education in the period of 7th Nizam of Hyderabad. Article: Dr. Zaib unnisa Haider.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں