اردو کے معروف ادیب پدم شری پروفیسر قاضی عبدالستار کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-29

اردو کے معروف ادیب پدم شری پروفیسر قاضی عبدالستار کا انتقال

qazi-abdul-sattar
اردو کے معروف افسانہ نگار اور شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق استاذ پروفیسر قاضی عبدالستار (پ: 8/فروری 1933) کا مختصر علالت کے بعد آج بروز پیر 29/اکتوبر 2018 کو دہلی میں انتقال ہو گیا۔ کے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں ۔ پدم شری پروفیسر قاضی عبدالستار کے انتقال کی خبر سے علمی اور ادبی حلقوں میں غم کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ ان کی عمر 86 سال تھی۔
ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ قاضی عبد الستار کا شمار اپنے عہد کے نمایاں اور ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا تھا۔ ان کے افسانوں میں پیتل کا گھنٹہ اور ناولوں میں حضرت جان اور داراشکوہ بہت مقبول ہوئے۔ ان کو زبان و بیان پر جو غیر معمولی قدرت حاصل تھی اس کا اندازہ ان کی تحریروں سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے عزیز شاگرد عبید صدیقی نے مرحوم کی زندگی اور ادبی کارناموں پر ان کی زندگی میں ہی ساہتیہ اکیڈمی کے زیر تعاون ایک دستاویزی فلم بنائی تھی۔

راشد انور راشد قاضی صاحب کی سوانح "قاضی عبدالستار - اسرار و گفتار (گفتگو کی شکل میں سوانح)" کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
مجھے اندازہ تھا کہ ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق قاضی صاحب زیادہ دیر تک نہیں بول سکتے۔ لہذا اسی خیال کے پیش نظر میں نے دو تین دنوں میں اپنی باتوں کو مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن جب گفتگو شروع ہوئی تو مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ قاضی صاحب کے ذہن و دل میں یادوں اور باتوں کا ایسا ہجوم ہے جو ضبطِ تحریر میں آنے کے لیے مضطرب ہے۔ چونکہ انہوں نے اپنی خودنوشت سوانح تحریر نہیں کی تھی اور ایک کامیاب تخلیقی زندگی گزاری تھی، ساتھ ہی علیگڑھ کے تعلق سے بھی بیش قیمت یادوں کے سلسلے تھے لہذا ضروری تھا کہ ان سے گفتگو کے سلسلے کو حتی الامکان طول دیا جائے تاکہ انٹرویو اور سوانح کے درمیان کی چیز وجود میں آ سکے۔ اسی خیال نے ان سے طویل گفتگو کے لیے مجبور کیا اور میں نے روزانہ دو گھنٹے کا وقت ان سے ملاقات کے لیے مخصوص کر لیا۔ 12/نومبر 2003 کو گفتگو کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ 14/اپریل 2014 تک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔ گویا کہ چھ مہینے تک ان کی خدمت میں حاضری کے بعد یہ کتاب وجود میں آئی اور مجھے لگتا ہے کہ اس کتاب کو انٹرویو اور سوانح کی ملی جلی شکل کا نام دیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔ جب مستقل ملاقاتوں میں انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو ایک نئے قاضی عبدالستار سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں نہ صرف منکسرالمزاج پایا بلکہ اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ وہ بےحد نرم دل ہیں اور محبت کی دولت فراخ دلی سے لٹانے میں انہیں قلبی سکون نصیب ہوتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ آغاز میں وہ بےتکلفی کو راہ نہیں دیتے لیکن حسن اتفاق سے اگر مستقل ملاقاتوں کے مواقع دستیاب ہونے لگیں تو پھر گفتگو میں ایک خاص نوع کی بذلہ سنجی بھی شامل ہوتی چلی جاتی ہے اور بےتکلف گفتگو کے درمیان شخصیت کے پوشیدہ گوشے بےنقاب ہوتے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بےتکلف گفتگو کے دوران بھی قاضی صاحب تہذیب اور شائستگی کا دامن نہیں چھوڑتے۔ گویا کہ گفتگو بےتکلف انداز میں ہوتی ہے لیکن گفتگو کی سنجیدگی اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔
قاضی صاحب نے ہمیشہ ہی بڑے لوگوں کے خلاف مورچہ سنبھالا اور چھوٹوں کے ساتھ مشفقانہ رویہ اختیار کیا۔
قاضی عبدالستار کو اپنی انا ، دوسری تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہے۔ لیکن شاید اسی انا کے ذریعے ان کا وقار بھی قائم ہے۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ معاصر منظرنامے پر بحیثیت فکشن رائٹر ان کی کیا اہمیت ہے۔ تخلیق کار اگر بہت زیادہ خاکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو کمتر ثابت کرتا ہے تو دنیا والے بھی اسی زاویے سے اسے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قاضی صاحب اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ مصنف کو اپنی اہمیت کا احساس ہونا ہی چاہیے۔ اسی کے ذریعے اس کے اعتماد کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپنے آپ کو کمتر اور حقیر سمجھنے لگے تو دنیا کسی بھی طرح اسے بہتر اور برتر تسلیم نہیں کرے گی۔ قاضی صاحب کا یہی رویہ نہ صرف ان کی تحریروں کے ذریعے اجاگر ہوتا ہے بلکہ گفتگو میں بھی اس کی مختلف جہتیں آشکار ہوتی ہیں۔ ممکن ہے دوسرے لوگ ان کے اس رویے کو غرور اور تکبر سے بھی تعبیر کریں ، لیکن میں نے اس رویے میں غرور و تکبر سے زیادہ اپنے اوپر حد درجہ اعتماد اور اپنی تحریروں پر غیرمعمولی تیقن کی جھلک دیکھی ہے۔ ایک تخلیقی فنکار اگر اسی نوع کے اعتماد سے محروم ہے تو وہ خود اپنے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔ اس کے اعتماد کو دنیا کس زاویے سے دیکھتی ہے، یہ ایک الگ بحث ہے۔

علامہ اعجاز فرخ اپنے مضمون "قاضی عبدالستار: سواد حرف میں اک عشقِ بے سپہر کا رنگ" میں لکھتے ہیں:
قاضی عبدالستار ایک مکمل تہذیب، بے باک، خوش لباس، خوش ذوق، خوش بیان، خوش باش، خوش خوراک، صاحب طرز افسانہ نگار، منفرد اسلوب کے ناول نگار اور الفاظ کے بے شمار قبیلوں کے سردار ہیں۔ ان کا طرز بیان کبھی الفاظ کا محتاج نہیں رہا، بلکہ ہر لفظ کو اس پر ناز رہا کہ قاضی اپنے محل استعمال سے الفاظ کو معنی کی نئی خلعتیں اور لفظوں کے قبیلوں کی کنواریوں کو رنگین قباؤں اور پیرہنوں سے ملبوس کر کے چوڑیوں کی کھنک سے طرز سکوت اور خاموشی سے تکلم کا ہنر عطا کرتے ہیں۔
قاضی عبدالستار کو جب مسلم یونیورسٹی میں پروفیسری کے لئے کہا گیا تو انھوں نے یہ شرط رکھی کہ وہ بھی انٹر ویو لینے والوں سے تین سوال کریں گے۔ وائس چانسلر نے کہا کہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے، تو قاضی صاحب نے جواب دے دیا کہ مجھے پروفیسری کا خبط نہیں ہے۔ ہندوستان میں اس بے باکی اور وضعداری کی صرف دو ہی مثالیں ملتی ہیں، ایک قاضی عبدالستار اور دوسری زینت ساجدہ۔
قاضی کے پاکستان کے ادبی سفر کے دوران اس وقت کے صدر جناب ضیاء الحق نے قاضی عبدالستار کو پاکستان کی شہریت کے ساتھ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدہ کی پیشکش کی تو قاضی نے اس عذر کے ساتھ مسترد کر دیا کہ جس ملک نے مجھے پدم شری کے اعزاز سے نوازا ہے، میں اس مٹی کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔


Prominent Urdu writer Qazi Abdul Sattar passes away

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں