گفتگو جیلانی بانو سے - از مظہر الزماں خاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-28

گفتگو جیلانی بانو سے - از مظہر الزماں خاں

jeelani-bano naya-warq special-issue
"سماجی مسائل کا عکس ، اردو افسانے اور شاعری میں آج بھی نظر نہیں آتا۔" : جیلانی بانو
خواتین فن کاروں کے حوالے سے اردو فکشن کی تاریخ میں جیلانی بانو کا نام کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ وہ 14/جولائی 1936ء کو اتر پردیش کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد حیرت بدایونی بہ سلسلہ ملازمت حیدرآباد میں سکونت پذیر ہوئے لہٰذا حیدرآباد میں ہی جیلانی بانو نے سکونت اختیار کرلی۔
ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی اور انہوں نے باضابطہ طور پر تعلیم حاصل نہیں کی۔ ایم۔اے تک کی اعلٰی تعلیم جیلانی بانو نے پرائیویٹ ہی حاصل کی۔ گھر کے علمی ماحول میں جیلانی بانو نے ادبی کیرئر کا آغاز کیا۔ پہلی کہانی "موم کی مریم" کے عنوان سے لکھی جو ادب لطیف، لاہور کے سالنامے میں شائع ہوئی، افسانوں کے کئی مجموعے اشاعت سے ہمکنار ہوئے جن میں : "روشنی کے مینار، نروان، پرایا گھر، روز کا قصہ، یہ کون ہنسا، نئی عورت، تریاق، بات پھولوں کی،سوکھی ریت اور راستہ بند ہے" وغیرہ کافی اہیت کے حامل ہیں۔ افسانوں کے علاوہ ناول "ایوان غزل" 1976ء، بارش سنگ 1985ء، اور ناولٹ "جگنو اور ستارے" 1965ء اور "نغمے کا سفر" 1977ء" شائع ہو چکے ہیں ۔
جیلانی بانو مختلف ادبی و سماجی تنظیموں کی سرگرم کارکن بھی رہی ہیں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بھی منسلک رہیں۔ 1985ء میں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ، 1988ء میں مہاراشٹر اردو اکادمی کی جانب سے کل ہند ایوارڈ اور 1988ء میں مجلس فروغ اردو، دوحہ قطر ایوارڈ اور 2001ء میں حکومت ہند کی جانب سے 'پدم شری' ایوارڈ قابل ذکر ہیں۔
اس انٹرویو کے لئے ہم شکر گزار ہیں جناب انیس صدیقی (گلبرگہ) کے جنہوں نے اس انٹرویو کو محفوظ رکھا اور اسے ضائع ہونے سے بچایا۔ اس انٹرویو کو ترتیب دینے اور نوک پلک درست کرنے میں جناب محمد غالب نشتر کا بھی شکریہ واجب ہے۔

سوال:
جیلانی بانو صاحبہ! آپ کا شمار ہند و پاک کے نمائندہ فن کاروں میں ہوتا ہے ۔ پہلے آپ بتائیں کہ آپ کے لکھنے کا انداز کیا ہوتا ہے؟
جواب:
مظہر صاحب! آج آپ سے باتیں کر کے مجھے اچھا لگ رہا ہے ، آپ کے سوالوں کے جواب تو بہت تفصیل چاہتے ہیں مگر میں اختصار سے جواب دے رہی ہوں، آپ تو جانتے ہیں کہ میں بند کمرے میں بیٹھ کر نہیں لکھتی ہوں ۔ گھر سے باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے یا کیوں ہو رہا ہے ؟ اسے بھی دیکھتی ہوں ، ادبی حلقوں میں کم جاتی ہوں۔

سوال:
آپ نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان موضوعات سے متعلق کیا کہتی ہیں اور آپ ان موضوعات کو کیسے برتتی ہیں؟
جواب:
غریب عورتوں، بچوں، کھیت مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ جو ناانصافی ہو رہی ہے، اس کے بارے میں لکھتی ہوں۔ عملی طور پر بھی اسی کے لئے کام کرتی ہوں۔ ان پر میں نے بہت سے افسانے لکھے ہیں۔ 'بارش سنگ' ناول بھی لکھا ہے ۔ اس ناول کا ہندی، انگلش، تیلگو ، مراٹھی اور ملیالی زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے ۔ اسی ناول کے مسئلے پر میں نے ٹی۔ وی سیریل کے لئے ایک کہانی لکھی تھی۔ "نرسیا کی یادیں" اور پھر اسی کہانی کی بنیاد پر میں نے فلم ڈائریکٹر شیام بینگل کے لئے فلم 'ویل ڈن ابا' کی کہانی لکھی ہے (شاید وہ فلم آپ نے دیکھی ہو)۔ میں گاؤں کے مزدوروں ، کسانوں کے لئے کام کرنے والی آرگنائزیشن 'یوتھ فار ایکشن' کے ساتھ ہوں۔ یہ انجمن میں نے بنائی ہے۔ یہ بہت بڑی آرگنائزیشن ہے جو گاؤں کے بے سہارا کسانوں، عورتوں اور بچوں کو تعلیم دینے کے لئے، ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے کام کرتی ہے ۔ کئی برسوں تک اس کی President تھی۔ اب میں اسمیتا آرگنائزیشن (Asmita Research Centre for Women) کی President ہوں اور چیرمین بھی۔ یہ بھی ایک بہت بڑی آرگنائزیشن ہے جو گاؤں کی بے سہارا عورتوں کی تعلیم، صحت اور قانونی مسائل میں ان کی مدد کرتی ہے ۔

سوال:
وارث علوی کی تنقید کے تعلق سے کیا خیال ہے؟ وہ حقیقت پسندی کی بات ہر مضمون میں کرتے ہیں حالانکہ حقیقت اندر ہوتی ہے اور پسند باہر۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
ان افسانہ نگاروں کے بارے میں جو نقاد لکھ دیتے ہیں، میں کیا رائے دے سکتی ہوں۔ یہ سوال تو آپ کو ان نقادوں سے کرنا چاہئے ۔ ہو سکتا ہے آپ جس تعریف کو غیر ضروری سمجھتے ہوں، کوئی نقاد اسے ضروری سمجھتا ہو ۔ ایک ادیب کی تخلیق کو پرکھنا اور تعریف کرنا چاہئے ۔

سوال:
مابعد جدیدیت سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے اور آپ کی نظر میں کون سا فن پارہ ایسا ہے جسے ہم مابعد جدیدیت کہہ سکیں؟
جواب:
ہندوستان میں سامراج کے خلاف ہندوستانی عوام کی جدوجہد ، اس کے بعد ملکوں کی تقسیم سے ہونے والے عوامی، سیاسی، معاشی حالات۔ یہ ہر صوبے، شہر کے تہذیبی، سیاسی حالات کی عکاسی تاریخ کی کتابوں میں ملتی ہے ، نہ سیاسی لیڈروں کے بیان میں ہے۔ اردو کے ناولوں، افسانوں اور اردو شاعری میں آپ ان مسائل کو آج تک دیکھ سکتے ہیں۔
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ضرور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
ان ادیبوں نے عملی طور پر بھی آزادی کی اس جدوجہد میں حصہ لیا ۔ رام کمار بسمل، حسرت موہانی، سجاد ظہیر، مخدوم، راج بہادر گوڑ اور بہت سے ادیب ہیں جنہیں پھانسی کی سزائیں ملیں ۔ اس کے بعد ترقی پسند تحریک کی ابتدا ہوئی تو اس کی پہلی محفل میں پریم چند نے کہاتھا:
"ادب زندگی کے آگے چراغ لے کر چلتا ہے"
پھر ترقی پسند تحریک کا ادب میں آغاز ہوا ۔ ترقی پسند ادب کی تحریک نے ادب کو معاشی، سیاسی، سماجی حالات کی طرف متوجہ کیا۔ سجاد حیدر یلدرم ، سجاد ظہیر، مخدوم، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر اور بہت سے ادیبوں نے عوامی ، معاشی، سیاسی اور تہذیبی مسائل پر لکھا (میں بہت سے ادیبوں کے نام نہیں لکھ رہی ہوں)۔ ہندوستان کی تہذیب کے بہت سارے سماجی مسائل کا عکس اردو افسانے اور شاعری میں آج بھی نہیں نظر آتا ہے ۔ مابعد جدیدیت کیا ہے؟ کون سے نئے مسائل، نئے انداز آتے ہیں؟ اردو شاعری ، ناول افسانے میں کہاں اور کیا نئے انداز میں نظر آ رہی ہے؟ جدیدیت اور مابعد جدیدیت والے ادیبوں کی ہم صرف آواز سن رہے ہیں۔ ان کی تحریروں کا انتظار ہے جس میں وہ نئی تکنیک ، نئے موضوع کے ساتھ ان نئے مسائل کو لائیں گے جو اب تک اردو ادب میں نظر نہیں آ رہے تھے ۔ تو مظہر صاحب مجھے مابعد جدیدیت کا کوئی چہرہ ہی نظر نہیں آ رہا ہے تو میں اس مسئلے پر آپ سے بات کیا کروں۔

سوال:
جدیدیت کے کن افسانہ نگاروں نے صحیح علامات کا استعمال کیا ہے اور کہاں تک ان کی علامتیں کس حد تک صحیح ہیں؟
جواب:
میں نے افسانے پر تنقید کے بارے میں نقاد کی یہ رائے نہیں پڑھی ہے۔ جن افسانہ نگاروں کا آپ ذکر کر رہے ہیں تو ان کی تحریروں کے بارے میں کسی نے کچھ لکھا ہے تو میں کیا رائے دے سکتی ہوں؟ اگر آپ ان نقادوں کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے تو یہ سوال ان نقادوں سے کیجئے ۔ اگر کچھ ادیب اپنے دوستوں، اپنے ہم خیال لوگوں کے بارے میں لکھ رہے ہیں تو اس مسئلے پر ہم کیا کہیں اور کیوں سوچیں؟

سوال:
حیدرآباد کا شمار ہندوستان کے خوب صورت اور تاریخی شہروں میں ہوتا ہے اور آپ نے افسانوں میں اس شہر کی عکاسی خوبصورتی سے کی ہے۔ کچھ اور وضاحت فرما دیں؟
جواب:
ادب کے ہر دور کے افسانہ نگاروں ، ناول نگاروں نے اپنے علاقے، اپنے شہر، اپنے ماحول کی کہانی سنائی ہے ۔ کیوں کہ میں حیدرآباد میں رہ کر کشمیر کے عوام کی، وہاں کے مسائل کی بات نہیں سنا سکتی ، اسی لئے آپ کو میرے ہر افسانے میں، ناول میں حیدرآباد نظر آتا ہے۔ حیدرآباد کی ادبی، سیاسی، تہذیبی، تاریخ، حیدرآباد کے عوام کے مسائل ہی میرے سامنے نظر آتے ہیں ۔ آپ ایک آدمی کی بات کرتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ وہ یو۔ پی کا ہے یا پنجابی ہے ۔ میں نے تو حیدرآباد کی دکنی زبان کا جو مخصوص انداز ہے اسے (20) آڈیو کیسیٹس میں بھی محفوظ کیا ہے۔ اسے ہر صوبے کے ہر ملک کے ادیبوں نے پسند کیا ہے ۔ اسے پاکستان، بنگال، دہلی، اور حیدرآباد کی لائبریریوں نے خریدا ہے۔ ادب میں اپنے علاقے کی عکاسی کرنا، دوسرے صوبوں کی توہین یا اسی طرح کا انداز اختیار کرنا نہیں ہے۔ ہادی رسوا، عظیم بیگ چغتائی، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر نے اپنے ماحول ، اپنی علاقائی تہذیب اور تمدن کے بارے میں لکھا ہے ۔ منٹو اور راجندر سنگھ بیدی نے پنجاب کے ماحول کی عکاسی کی ہے۔ کرشن چندر نے ممبئی کے عوامی مسائل کو دیکھا ہے ۔

سوال:
کیا کہانی کبھی بھی کسی فن کار کے سر پر لاحق ہو جاتی ہے اور فن کار اسے لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے ؟
جواب:
ایسے لمحے بار بار آتے ہیں۔ ٹی۔ وی پر کوئی نیوز سنا کر ۔ کسی عورت کے رونے کی آواز سن کر ۔ کسی بچے کی ہنسی کی آواز سن کر ، کسی موسیقار سے کوئی راگ سن کر، کسی ادیب آرٹسٹ کے بچھڑ جانے کی خبر سن کر ۔ میرا ایک افسانہ ہے "یقین کے آگے، گمان کے پیچھے۔" میں نے یہ افسانہ ایک مشہور موسیقار سے راگ کیدارا سن کر لکھا تھا۔ مجھے کلاسیکی سنگیت سننے کا شوق ہے ۔ راگ راگنیوں کی تھوڑی سی پہچان بھی ہے ۔ میرے ایک افسانے کا عنوان ہے: "کیدارا"۔

سوال : تنقید نگار کی تحریریں ایک فن کار کے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہیں؟
جواب:
تنقید نگار پوری توجہ کے ساتھ ایک ادیب کی تحریریں پڑھتے ہیں اور اس پر اظہار خیال بھی کرتے ہیں۔ یہ ادیب اور نقاد کے بیچ کی بات ہے ۔ پڑھنے والوں کے لئے تو نقاد کی رائے بھی اہمیت رکھتی ہے اور ادیب کی تحریر بھی ۔ ہر ادیب کی تحریر اور ہر نقاد کی رائے کے بارے میں الگ بات ہوگی ۔ میں کیا کہہ سکتی ہوں۔

سوال:
ایک افسانہ نگار کو اپنی تخلیق کو لکھ کر آئینے کے سامنے رکھنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ ان کے افسانوں میں کون سی خامیاں ہیں تاکہ اس کا ازالہ کیا جا سکے ۔ کیا آپ اس عمل سے گزرتی ہیں؟
جواب:
ایک افسانہ نگار اپنی کہانی کو ایک آئینہ کے سامنے رکھتا ہے جس میں کہانی کا چہرہ نظر آتا ہے۔۔۔؟ میں نے وہ آئینہ ابھی تک نہیں دیکھا اور نہ اپنے لکھے ہوئے کسی افسانے کو دکھایا ہے۔ سب ہی افسانہ نگاروں کو آپ دیکھ رہے ہیں جو اپنی کتابوں کو آئینے سے دور رکھتے ہیں۔۔۔؟ آپ کے اس سوال کا کیا جواب دوں؟ آپ بھی آئینے کے سامنے آجائیے ۔ شاید آپ کو جواب مل جائے ۔

سوال:
سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کے کرداروں کے شریر(بدن) ہر ایسی خراشیں نظر آتی ہیں کہ ان کی آتما پر زخم لگے ہیں؟ آپ کو ان کہانیوں میں یہ بات نظر نہیں آتی؟
جواب:
سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کے کرداروں کے شریر(بدن) پر آپ کو خراشیں نظر آ رہی ہیں؟ اور آپ ان کی آتما کو بھی دیکھ رہے ہیں جن پر زخم لگے ہیں؟ منٹو کے افسانوں کے کرداروں کی خراشیں مجھے کیسے نظر آتیں۔ میں ان کی آتما کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ افسانے کی آتما کیا ہوتی ہے اور شریر کیسے نظر آتا ہے؟ یہ آپ پہلے سمجھا دیجئے ۔

سوال:
ان دنوں نئے ادیب کے سامنے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے ۔ وہ جیسا چاہتے ہیں لکھتے ہیں جب کہ ادب کا ایک معیار ہوتا ہے جسے ادیب اپنے لحاظ سے برتتا ہے ۔ آپ کے نزدیک کوئی ایسا لائحہ عمل ہے ؟
جواب:
آپ کے اس سوال کا جواب میں دے چکی ہوں ، نئے لکھنے والے اپنے نئے مسائل، ادب کے نئے پہلو اور اپنے خیالات کا اظہار جس طرح چاہیں کریں۔ ہم تو خود نہیں جانتے کہ آگے جانے کا راستہ کون سا ہے۔ اسی راستے کو تلاش کرنے کے لئے لکھے جا رہے ہیں۔

سوال:
جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسی اصطلاحات نے نئے ادب کو کتنا متاثر کیا ہے؟
جواب:
ادب کے ہر دور میں نئے لکھنے والے آئے اور اپنے آس پاس پھیلے ہوئے نئے مسائل پر اپنے انداز سے لکھتے رہے۔ تو پھر یہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کیا ہے۔۔؟ آپ پوچھ رہے ہیں اور آج لکھنے والوں کا کیا رول ہے؟ انہیں کے راستے پر چلنا چاہئے؟ یہ راستے کوئی بھی ادیب کیوں بتا دے ۔ ہم تو نئے لکھنے والوں کی نئی تحریروں کا انتظار کرتے ہیں جو نئے انداز مین آج کے مسائل لکھ رہے ہیں۔۔ ہر دور کا ادب جدید ہوتا ہے ۔ سیاسی، مذہبی، سماجی حالات بدل جاتے ہیں اور اس دور کا عکس اس وقت کے ادب میں نظر آتا ہے ۔ لیکن مابعد جدیدیت پہلی بار کچھ نقادوں کو نظر آ رہا ہے ۔۔؟ میں اسے ادب کی کوئی نئی تحریک نہیں سمجھتی ہوں۔

سوال:
انتظار حسین کے افسانوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کلاسیکی کہانیوں سے اپنی کہانیوں کا مواد حاصل کرتے ہیں اور ان کے افسانوں میں یکسانیت نظر آتی ہے؟ آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
انتظار حسین کے اسلوب پر آپ تنقید کرنا چاہتے ہیں تو اس میں مجھے مت شریک کیجئے ۔ آپ کا خیال ہے کہ انتظار حسین اپنی کہانیوں کی روٹی پکانے کے لئے کلاسیکی کہانیوں کا آٹا شامل کرتے ہیں تو کہانی کی روح نظر نہیں آتی۔۔۔۔؟ اب میں کیا کہوں؟؟ تو پھر انتظار حسین کی کہانیوں کے موضوع ، طرز اظہار اور ان کے فن کی انفرادیت پر اس وقت بات نہیں ہو سکتی ۔ انہوں نے ہر دور کے بدلتے ہوئے انداز کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔

سوال:
عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب:
دونوں بہت خوش مزاج لیکن ادب سے گہری دلچسپی رکھنے والی خاتون تھیں۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت خلوص اور پیار سے ملتی تھیں اور بڑی بے باکی کے ساتھ ایک دوسرے کے فن پر تنقید بھی کرتی تھیں۔ ان دونوں کے بارے میں الگ الگ میں لکھ چکی ہوں ۔ یہاں مختصر طور پر بات نہیں ہو سکتی ۔ میں عینی آپا سے پہلی بار ممبئی میں عصمت آپا کے گھر میں ملی تھی۔ عصمت آپا حیدرآباد آتی تھیں تو ہمارے گھر آتی تھیں ۔ عینی آپا بھی آتی تھیں ۔ میں ایک ایک دن لیے چلی جاتی تھی تو عینی آپا کے گھر ان کے ساتھ ضرور رہتی تھی۔

سوال:
ادب کی رفو گری کیا ہوتی ہے اور نئے ناقدین کس طرح کی رفو گری کررہے ہیں؟
جواب:
مظہر صاحب! میں نہیں جانتی کہ ادب کی رفو گری کیا ہوتی ہے اور اس کے لئے باریکی بینی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔۔؟ اور نہ یہ جانتی ہوں کہ آج کون سے پھٹے پرانے ادب کی رفو گری ہو رہی ہے ۔ میں ان نقادوں کو بھی نہیں جانتی جو ادب کے پھٹے کپڑوں کی رفو گری کر رہے ہیں۔

سوال:
بیانیہ کہانی میں ایسا ہوتا ہے کہ افسانہ نگار بہ ذات خود راوی دکھائی دیتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ افسانہ تخلیق نہیں کر رہا بلکہ رپورٹ تیار کر رہا ہے۔ آپ کو ایسا نہیں لگتا؟
جواب:
ہر بیانیہ کہانی میں تو مجھے یہ عیب نظر نہیں آتا۔ اگر افسانہ نگار خود ہی راوی ہے تو افسانے کا موضوع، اظہار بیان کی تکنیک ، افسانہ نگار کی فنی بصیرت الگ ہوتی ہے۔ اگر افسانہ نگار نے بیانیہ کہانی میں وقت اور ماحول کی صحیح عکاسی نہیں کی ہے تو یہ کسی ایک افسانے کی بات ہے اور ہم جس افسانے کی بات کریں گے تو افسانہ پڑھنے کے بعد احساس ہوگا کہ افسانہ نگار کی غلطی ہے یا لاعلمی ہے اس افسانے میں۔

سوال:
جدید افسانہ نگاروں کی تخلیقات کی تفہیم کے لئے کس نقطہ نظر کی ضرورت ہے ؟ ان کے افسانوں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
جدید افسانہ نگاروں کو دیکھنے کے لئے کسی خاص نقطہ نظر کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں سب نئے افسانہ نگاروں کے بارے میں ایک رائے نہیں رکھتی لیکن یہ کہہ سکتی ہوں کہ آج کے نئے افسانہ نگار آج کے نئے مسائل پر بہت اچھے افسانے لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریروں کا انداز بھی نیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے بعد آنے والے اردو کے افسانہ نگار اردو کے افسانے کی اہم روایتوں کو باقی رکھیں گے اور اپنے آس پاس کے مسائل کو دیکھیں گے ۔

سوال:
اردو ادب میں نئے رجحانات خصوصاً جدیدیت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ایسا نہیں لگتا کہ وہ نئے اسلوب کو وضع کر رہے ہیں اور ناقدین حضرات اسے بڑھاوا دے رہے ہیں؟
جواب:
آپ کا یہ سوال میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ مجھے تو ادب میں کوئی ایسا نیا انداز یا نئے اسالیب نظر نہیں آتے جو پہلے موجود نہیں تھے۔ پھر یہ جدیدیت کیا ہے؟ اور ہر مبصر اور نقاد اپنے نقطۂ نظر سے لکھ رہا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ اس مسئلے پر تبصرہ کرنے والے کو کس وجہ سے غلط کہہ رہے ہیں۔ اس پر بحث کیجئے آپ۔

سوال:
نئے زمانے میں ناول کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناول نگار فرسودہ باتوں سے ناول کا پیٹ بھر رہے ہیں اور ناولوں کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
مجھے اردو ناولوں کا سیلاب نظر نہیں آ رہا ۔ اگر نئے ناول نگار لکھ رہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے ۔ میں نے سب ناول تو نہیں پڑھے لیکن اچھے ناول لکھے جا رہے ہیں اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ہر ناول نگار اپنے آپ کو سب سے بڑا ناول نگار کس طرح کہہ رہا ہے؟ اگر اس کے ناول پر نقاد لکھ رہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔

سوال:
نئی تنقید کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پیوند کاری کر رہے ہیں اور ان کی تنقیدیں سابقہ باتوں سے پیوستہ ہوتی ہیں جب کہ تنقید ایک باریک بینی کا تقاضہ کرتی ہے ۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
آپ کو آج کی تنقید نگاری میں کئی رنگوں کے پیوند نظر آ رہے ہیں۔۔؟ یعنی آپ کہنا چاہتے ہیں کہ آج کے نقادوں کی تحریروں میں دوسرے لکھنے والوں کی تحریریں بھی شامل ہیں؟ اور ادب کا لباس پھٹ چکا ہے ۔۔؟ یہ بات آپ کسی ایک نقاد کے بارے میں کہہ رہے ہیں؟ اس مسئلے پر اب میں کیا کہوں؟ کسی نقاد کے خیالات میں کسی دوسرے ادیب کے خیالات کی ہم آہنگی ہوتی ہے ۔ ادب ، سیاست، مذہب اور دوسرے مسائل پر وہ ایک انداز سے سوچتے ہیں، لکھتے ہیں۔ کبھی اختلاف بھی کرتے ہیں۔ تنقید کے اس پھٹے ہوئے لباس پر آپ میری رائے کا ایک اور پیوند مت لگائیے ۔ ادب کے ہر دور میں ایک ادیب کو اچھے نقاد کی راہ نمائی ملی ہے اور آج بھی مل رہی ہے ۔

سوال:
نئی نسل کے ادیبوں ، فن کاروں اور ناقدین کے لئے آپ کیا کہنا چاہیں گی؟
جواب:
میں نہ ہی راہ نما ہوں، نہ لیڈر ہوں۔ نئے لکھنے والوں کو کیا مشورہ دوں؟ یہ بہت اچھی بات ہے کہ آج اردو کے نئے شاعر ، نئے افسانہ نگار اور نئے نقاد لکھ رہے ہیں۔ یہ اردو کے مستقبل کے لئے خوش آئند بات ہے ۔ نئی تحریریں سامنے آئیں گی تو نئے مسائل سے ہم واقف ہوں گے ۔ نئی صدی میں ویسے بھی ادیب وہی لکھ رہا ہے جو وہ محسوس کر رہا ہے۔ ہم ان کی نئی تحریروں کا انتظار کر رہے ہیں۔

***
ماخوذ از رسالہ:
سہ ماہی 'نیا ورق' ممبئی۔
جلد:17 ، شمارہ:44 ، اکتوبر 2014 تا مارچ 2015

An interview with Jeelani Bano. Interviewer: Mazhar uz Zaman Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں