علم کا طلب کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔
معجم صغیر طبرانی:1/58 حدیث:61
علم بلا شبہ اللہ کا نور ہے اور اس نور سے پرودگار عالم اسی کو نوازتا ہے جسے اپنا محبوب و مقرب بناتا ہے ، ورنہ علم ہر کسی کا مقسوم کہاں! علم دراصل اعزاز بشریت، شرف انسانیت اور افتخار آدم و بنی آدم ہے ۔ وہ علم ہی تھا جس کی وجہ سے حضرت آدم کو جملہ ملائکہ پر فضیلت و برتری بخشی گئی ، اور وہ علم ہی ہے جس کی وجہ سے علمائے ربانیین، انبیاکے وارثین قرار دیے گئے ۔ مختصر یہ کہ اسلام میں علم و حکمت کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے اور قرآن و حدیث میں جا بجا اس کی عظمت و فضیلت کے قصیدے پڑھے گئے ۔ علم کی فضیلت کے باب میں اس سے بڑی شہادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب آخری آسمانی کتاب قرآن کریم کی آیتوں کے نزول کا وقت آیا تو دیکھیے کہ وحی الٰہی کا آغاز علم و تعلیم کی قدر و منزلت اجاگر کرتے ہوئے ہو رہا ہے ۔ سورہ اقرأ کی ان پانچ ابتدائی آیات میں صبح قیامت تک پیدا ہونے والے علوم و معارف کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ مگر شرط یہ رکھی گئی ہے کہ اس کا آغاز اللہ کے نام سے ہونا چاہئے اور اس کی بنیاد اسم ربک کی اینٹوں پر قائم ہونی چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں روح علم سمجھنے اور اس کے فروغ میں کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
حضرت امام حسین اپنے والد ماجد شیر خدا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم رحمت عالم ﷺ نے فرمایا:
تین خصلتیں جس کے اندر نہ ہوں اس کا اللہ و رسول سے کوئی تعلق نہیں۔
پوچھا گیا: وہ کیا ہیں؟
تو فرمایا:
(1) ایسا حلم و بردباری جس سے جاہل کی جہالت کا جواب دیا جا سکے ۔
(2) ایسا حسن اخلاق جس کے باعث وہ لوگوں میں (عزت و آبرو کے ساتھ) جی سکے۔
(3)ایسا زہد و ورع جو اسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے روک سکے ۔
معجم اوسط طبرانی:5/120 حدیث:4848۔
امت مسلمہ کی مجموعی صورت حال پر نظر کرنے کے بعد یہ ناخوشگوار تاثر ملتا ہے کہ گویا ہمارے نزدیک کتاب و سنت کی تعلیمات و ہدایات صرف پڑھنے اور سننے کے لئے ہیں ، برتنے اور اپنانے کے لئے نہیں، حالانکہ اللہ و رسولﷺ پر ایمان رکھنے والے ایک سچے مسلمان کی شان یہ ہونی چاہئے کہ وہ خود بھی سچا ہو اور اس کے جملہ معاملات بھی درست ہوں، نیز وہ اخلاق فاضلہ اور اوصاف حمیدہ کا مالک ہو ۔ دنیا کا تو کیا ہے، بس ایک پرایا گھر سمجھ کر ہمیں اس میں آبرو مندانہ طریقے پر آخرت کے لئے بھرپور تیاری کر لینی چاہئے ۔
حضرت ابو سعد میثمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سبط پیمبر امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شہرت کا لباس پہنتا ہے اللہ اسے آگ کا لباس پہنائے گا۔
الذریۃ الطاہرۃ دولابی:199حدیث:164
دنیاوی اعتبار سے مشہور و معروف ہونا تو ظاہر ہے کہ آفتوں اور فتنوں میں مبتلا ہو جانے اور ایمانی امن و سلامتی کی راہ سے دور جا پڑنے کا سبب ہے ہی، لیکن اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے اعتبار سے مشہور و معروف ہوتا ہے تو وہ بھی خطرے سے خالی نہیں؛ کیونکہ اس صورت میں اس کے ریاکار ہونے کا گمان کیا جا سکتا ہے ، اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس شہرت کی وجہ سے اپنی قیادت و پیشوائی کی طلب و جاہ میں مبتلا ہو جائے اور یہ تمنا کرنے کہ لوگ اس کو اپنا مقتدا اور اپنی عقیدت و احترام کا مرکز بنا لیں اور اس طرح وہ شیطان کے بہکانے اور نفس امارہ کے اکسانے کی وجہ سے ان نفسانی خواہشات کی اتباع میں مبتلا ہو سکتا ہے جو ایسے موقعوں کی تاک میں رہتی ہیں۔ چنانچہ ایسے بندگانِ خدا کم ہی ہوتے ہیں جنہیں عوامی شہرت و ناموری حاصل ہوئی اور وہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہو جانے والی برائیوں سے محفوظ و مامون رہے۔ ہاں وہ خصوصی بندے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنا مقرب و محبوب بنا لیتا ہے اور وہ صدیقیت کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں وہ تمام عالم کی شہرت و ناموری رکھنے کے باوجود اس کی برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس بلند ترین مرتبہ پر فائز ہی اس وقت ہوتے ہیں جب کہ ان کے ظاہر و باطن سے تمام برائیاں مٹ چکی ہوتی ہیں اور ان کا نفس پوری طرح پاکیزہ و شفاف ہو جاتا ہے ۔
ایک حدیث پاک میں یہ بھی آتا ہے کہ سرکار کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: انسان کی برائی کے لئے اتنا کافی ہے کہ دین یا دنیا کے اعتبار سے اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیاجائے ۔ الا یہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے۔
اس حدیث کے آخری جملے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شہرت و ناموری کا نقصان دہ اور باعث برائی ہونا اس شخص کے حق میں ہے جس کے ظاہر و باطن پر جاہ و اقتدار اور شہرت و ناموری کی طلب و خواہش کا سکہ بیٹھ چکا ہو ، جب کہ اہل اللہ اس سے مستثنیٰ ہیں؛ کیونکہ عوامی مقبولیت و شہرت اور جاہ و اقتدار بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہیں بلکہ اللہ کی نعمت ہیں جو وہ اپنے پاک نفس بندوں کو عطا فرماتا ہے جو ان چیزوں کے اہل و مستحق ہوتے ہیں اور جن کے حق میں وہ چیزیں فتنہ و برائی کا باعث بننے کی بجائے بلندی درجات کا باعث بنتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے بندگانِ خاص کی نسبت فرمایا : واجعلنا للمتقین اماما۔
منقول ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی بے پناہ عوامی شہرت و مقبولیت دیکھ کر ایک شخص نے ان سے کہا کہ: آپ تو لوگوں میں اس قدر مشہور و نمایاں ہو گئے ہیں جب کہ فرمانِ رسالت مآب ہیں کہ "انسان کی برائی کے لئے" ۔۔۔۔
حضرت حسن بصری نے جواب دیا کہ: ارشاد گرامی ﷺ کا تعلق اس شخص سے ہے جو دین کے اعتبار سے بدعتی اور دنیا کے اعتبار سے فاسق ہو یعنی جو شخص دنیا میں مالداری و ثروت رکھتا ہے اور اس مالداری و ثروت کی وجہ سے مشہور و معروف ہو، لیکن فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو اور دین کے اعتبا ر سے کتاب و سنت کی اتباع و پیروی کرتا ہو تو وہ شخص اس حکم میں داخل نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں طلب شہرت سے محفوظ فرمائے اور اپنی خصوصی عزتوں سے مالا مال کرے۔آمین۔
***
ماخوذ از کتاب:
اربعین امام حسینؓ (مرویات و تعلیماتِ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ)
جمع و ترتیب: مولانا محمد افروز قادری چریاکوٹی)
ماخوذ از کتاب:
اربعین امام حسینؓ (مرویات و تعلیماتِ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ)
جمع و ترتیب: مولانا محمد افروز قادری چریاکوٹی)
The teachings of Imam Hussain.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں