"اتنا جہیز!"
" اور پتہ ہے، زیور تو زیور، کتنے تو برتن بھی سونے کے ہیں۔"
"ارے تم نے دلہن نہیں دیکھی؟ ہیروں میں اجلی اور سونے میں پیلی ہے ۔"
"کہیں کے نواب یا جاگیر دار ہوں گے؟"
"اے لو، اتنا بھی نہیں معلوم ؟ ارے نائلون کپڑے کی ملیں ہیں، ملیں۔"
"پھر تو پوچھنا ہی کیا ہے!"
"لیکن پھر بھی اتنا جہیز دیتے تو کسی کو دیکھا نہ سنا، جب کہ حکومت کی طرف سے بھی پابندی ہے ۔۔۔ بتاتے ہیں۔"
"ہونہہ۔۔ حکومت! حکومت پیسے والوں کو کسی بات سے منع کرتی ہے کیا؟ ساری مار تو غریبوں پر ہے۔"
"لیکن میں کہوں، اتنا جہیز دیا کیوں؟ وہ ادھر بڑے ہال میں دیکھو تو لگتا ہے دکان سجی ہوئی ہے۔"
"یہی نہیں، سنا ہے شبن میاں کو سلامی میں گیارہ لاکھ روپے دئے ہیں ساس سسر نے۔"
"لڑکی کچھ عیب دار ہے کیا؟"
"ہونہہ۔۔ کچھ نہ بن پڑا تو لڑکی میں عیب چننے بیٹھ گئیں تم بھی! ارے ایسی بھولی بھالی پری جیسی ہے۔ بس سونے کے قلم سے نصیب لکھا کر لائے تھے شبن میاں جو ایسے گھر کے داماد بنے ۔"
بارات میں آئی بیبیاں مسلسل رشک اور حسد کے ساتھ شادی کی شان و شوکت اور رہن سہن کے بارے میں تبصرے کئے جا رہی تھیں اور دولہا بنے شبن میاں رومال سے اپنا مونہہ چھپائے زرتار اونچی کرسی پر بیٹھے، پاس ہی دوسری جگمگاتی کرسی پر بیٹھی دلہن کو وقفے وقفے سے نظر چرا کر دیکھ لیتے۔
دلہن کی طرف سے بے حساب رشتے دار دوست احباب آ آ کر کچھ نہ کچھ دئے جارہے تھے۔ ساتھ ساتھ ویڈیو فلم بھی بن رہی تھی، تصویریں بھی کھٹا کھٹ کھینچی جا رہی تھیں۔ دولہا دلہن کی تو پریڈ ہی ہو گئی۔ مسلسل اٹھک بیٹھک ، آخر دلہن کی ممی نے قریب آکر بیک وقت دونوں کو مخاطب کر کے کہا:
"بچو! اب تم لوگ تھک گئے ہوگے۔اب بیٹھے بیٹھے ہی تصویریں اور ویڈیو فلم بننے دو۔ کوئی بزرگ آ جائیں تو کھڑے ہو جانا بس۔"
دلہن نے شکر گزار نگاہوں سے ماں کو دیکھا اور ایک چھچھلتی ہوئی شرماتی ہوئی نظر دولہا میاں پر بھی ڈالی ۔ دولہا میاں اس وقت ایک شوخ، طرح دار سی لڑکی کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے جو پٹیالہ شلوار ، برائے نام دوپٹے اور اونچے سے چم چماتے شرٹ میں غالباً اپنے کسی بوائے فرینڈ سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔
عورت کی چھٹی حس بہت تیز ہوتی ہے۔ اس حس سے وہ نہ صرف چہرے پڑھ لیتی ہے بلکہ دلوں میں بھی اتر کر بہت محسوس کر لیتی ہے۔
"ہائے! روبی کتنی کیوٹ Cute کتنی بیوٹی فل لگ رہی ہے!" وہی لڑکی ڈائس پر آ کر دلہن کو سراہ رہی تھی۔
"Really (سچ مچ) آج تک شاید کوئی دلہن اتنی Smashing (غضب ڈھانے والی) نہیں لگی ہوگی۔"
"برے تو ہم بھی نہیں جناب۔"
دولہا میاں نے رومال ذرا کھسکا کر مسکرا کر اسے مخاطب کیا۔
"ایک تو میری سمجھ میں یہ نہیں آیا آج تک کہ شادی کے دن یہ دولہا لوگ اپنا مونہہ کیوں رومال سے چھپاتے ہیں؟" لڑکی شوخی سے ہنسی۔
" اور دوسرے یہ کہ دولہا میاں کو سالیوں سے مذاق کرنے کا اتنا شوق کیوں ہوتا ہے؟"
دولہا میاں چہک کر بولے" اسلئے کہ پرانی کہاوت ہے: سالی آدھی گھر والی ہوتی ہے۔"
"اے روبی، سن لے۔" لڑکی نے مسکراکر دلہن کو ٹہوکا دیا۔۔۔ Your hubby has roving eye (تیرے میاں نے آوارہ نظر پائی ہے۔)
روبی کو پتہ نہیں کیوں ہمیشہ سے یہ کہاوت انتہائی گھٹیا اور کسی بے حد گرے ہوئے ذہن کی پیداوار لگتی تھی ۔ اس سے بہنوئی اور سالی کے پاکیزہ رشتے میں عجیب سے گندگی بھرتی دکھائی دیتی تھی ۔ ثریا اس کے انکل کی بیٹی تھی۔ شوخ، طرار، اس کی منگنی ماموں کے بیٹے اطہر سے ہو چکی تھی۔ وہ کہاں دولہا کو گھاس ڈالنے والی تھی ۔ لیکن روبی کے دل میں عجیب سی کراہت دولہا میاں کی طرف سے بھر گئی۔
اتنا جہیز تھا کہ سسرال تک پورا جہیز بھجواتے بھجواتے ہفتہ لگ گیا۔ اس ہفتہ بھر میں روبی اور شبن میاں بہت قریب آ گئے۔ سلامی میں انہیں نئی کار بھی ملی تھی ۔ ہزار بار کی دیکھی ہوئی بمبئی ، لیکن نئی کار کی وجہ سے شام ہوئی نہیں کہ دلہن کو لے کر نکل پڑے۔
دعوتیں کھاتے کھاتے روبی کو متلی ہو گئی۔ ویسے بھی وہ بڑی دھان پان سی لڑکی تھی۔ جلد ہی تھک جاتی۔ وہ بڑی حیرت سے دیکھتی کہ دولہا میاں بڑھ بڑھ کر لمبے ہاتھ مارتے ہیں۔
"کھانے کا بہت شوق ہے آپ کو؟"
وہ ہنس کر کہتی۔
"اور بھی بہت سے شوق ہیں۔" وہ ہنس کر آنکھ کو دبا دیتے ۔" لیکن کیا کریں، آپ کو تو کوئی شوق ہے ہی نہیں۔"
دھیرے دھیرے زندگی معمول پر آتی گئی۔ ہنی مون کا سوئزر لینڈ کا دورہ ختم کر کے واپس بمبئی پہنچتے پہنچتے روبی نڈھال ہو چکی تھی۔
"اب میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔ صرف آرام اور آرام۔" وہ بڑے مخملیں ڈبل بیڈ پر پھیل کر اطمینان سے بولی۔" اب دعوتیں ہوں بھی تو آپ ہی جائیں۔"
"دعوتیں تو خیر ہم اکیلے بھی اٹینڈ کرلیں گے لیکن دعوت کے بعد بھی ایک اور دعوت جو ہوتی ہے" شبن میاں بدمعاشی سے بولے۔
"You cheat (دھوکے باز کہیں کے!)"
روبی نے مخمل کا ملائم تکیہ اٹھا کر میاں پر پھینکا۔
"اپنے کمرے میں آپ کی انٹری ایک دم بند کردوں گی۔ بس ٹی۔ وی لاؤنج میں سویا کریں آپ۔"
شبن میاں مسکرا کر ایک چھلانگ میں سیدھے بیڈ میں۔
"افوہ!" روبی چلائی۔
"آپ کو پتہ نہیں لیڈی ڈاکٹر نے کیا کہا ہے؟ریسٹ۔۔۔ کمپلیٹ بیڈ ریسٹ۔۔۔ آر۔ ای۔ ایس ٹیR...E...S....T ریسٹ کا مطلب ہے آرام۔۔۔ یو اسٹوپڈ (احمق!)"
شبن میاں سر کھجلانے لگے۔"روبی ، یہ خوشی کی بات ہے یا بوریت کی؟"
"جن کے یہاں برسوں اولاد نہیں ہوتی ان سے پوچھئے۔ اللہ نے ہمیں اتنی جلدی خوشی دے دی تو آپ ایسی بات مونہ سے نکال بھی کیسے سکتے ہیں؟" روبی غصے سے بولی۔
"یار، بات یہ ہے کہ دعوتوں کی ایسی عادت پڑ گئی نا۔۔۔۔"
روبی انہیں دور دھکیل کر بولی:
"You are so impossible جائیے یہاں سے!"
"کہاں جاؤں، یہ بھی بتا دیجئے۔"
"جائیے، جاکر دوائیں بیچئے۔"وہ زور سے ہنسی۔
شبن میاں نے غور سے اسے دیکھا۔ وہ بڑے کھلے دل سے مسکرا رہی تھی۔
کیسی عجیب قصے کہانیوں والی داستان تھی!
ایم ایس سی کر کے کئی مہینے جوتیاں چٹخانے کے بعد، ڈیڈی کے پراویڈنٹ فنڈ اور امی کے زیورات کو بیچ کھوچ کر ایک دواؤں کی چھوٹی سی دکان کھول لی، جو بس ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی۔ کہ اس دن دکان میں ایک بڑی با رعب سی شخصیت داخل ہوئی۔
تھوڑی بہت دوائیں اور انجکشن خرید کر انہوں نے بل چکایا اور پتہ نہیں جلدی میں تھے یا بھلکڑ تھے کہ اپنا چمڑے کا پھولا پھولا ویلٹ وہیں کاؤنٹر پر بھول کر چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد شاداب کی نظر ویلٹ پر پڑی تو تجسس کے مارے اس نے یوں ہی ویلٹ کو کھول کر دیکھا اور دیکھ کر ہوش اڑ گئے۔ ہزاروں روپے ٹھنسے پڑے تھے ۔ پتہ نہیں کس قسم کے کاغذات تھے ، ان کے خود کے لئے تو شاید بے حد ضروری ہوں گے ، لیکن شاداب کے لئے قطعی غیر ضروری۔
ایک دستخط شدہ چیک تھا۔ پھر دو تین ملوں کے لیٹر ہیڈ ۔ کافی الم غلم بھرا پڑا تھا۔ مالا بار ہلر کا پتہ تھا اور ٹیلی فون کے ایک ساتھ کئی نمبر۔
نام رئیس احمد دیکھ کر شاداب نے دل ہی دل میں کہا:
"واقعی رئیس ہو ۔ خوب نام رکھا تھا ماں باپ نے۔۔۔ اللہ مبارک کرے۔"
رات کو کھانے پر اپنی امی اور ڈیڈی کو اس نے دوپہر کا واقعہ سنایا اور کہا: "ڈیڈی ، میں کل جاکر ان رئیس صاحب کو ان کی ریاست واپس کردوں گا۔"
"مجھے تم سے یہی امید تھی، بیٹا" باپ نے محبت سے اس کی پیٹھ تھپ تھپائی۔
بیٹے سے تو باپ کو یہی امید تھی لیکن قسمت سے یہ امید ہرگز نہ تھی کہ اس طرح بھی دروازے پر دستک دے گی۔
جب شاداب نے انہیں بیگ اور ویلٹ لے جاکر دیا تو بڑی خوش دلی سے ہنسے۔
"بے وقوف ہو نوجوان! دستخط کیا ہوا چیک ہاتھ میں تھا تمہارے۔۔۔ جتنی چاہے رقم بھر لیتے ۔ دنیا بدل جاتی۔"
"دنیا بےشک بدل جاتی، لیکن عاقبت کا کیا ہوتا؟" وہ مسکرا کر بولا۔
" اور پھر میرا یہ یقین ہے کہ اللہ ہی اگر چاہے تو نوازنے کے لاکھوں بہانے ہیں۔ بس وہ چاہے۔" اس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھاکر بڑے مست قلندر لہجے میں کہا اور جانے کے لئے کھڑا ہو گیا۔
"چائے نہیں پیوگے تو مجھے برا نہیں لگے گا، لیکن اپنا پتہ دئے بغیر چلے گئے تو میں ضرور خفا ہو جاؤں گا۔ اس لئے کہ میں اس عظیم ماں اور مقدس باپ کی زیارت ضرور کرنا چاہوں گا جو آج کے دور میں بھی اولاد کی ایسی تربیت کر سکتے ہیں۔"
پھر اس کے بعد علی بابا والا غار تھا اور "کھل جا سم سم" کا منتر یا پھر منتر بھی نہیں۔ بس مسلسل بارش۔۔۔ دولت کی بارش۔
یہ عالی شان پانچ کمروں والا فلیٹ بھی پاپا ہی کی محبت کا تحفہ تھا۔ کبھی کبھی اسے ڈر لگتا کہ یہ سب کچھ اس سے چھن نہ جائے اور خاص طور سے روبی۔۔۔ بظاہر اس کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی کہ وہ ڈرتا پھرے۔ یوں روبی اسے پہلے بھی مذاق میں ڈراتی تھی ۔ جب وہ بہت زیادہ ستانے پر آ جاتا تو اس کا مخصوص جملہ تھا:
"جائیے، جاکر دوائیں بیچئے۔"
وہ جانتا تھا کہ اس جملے میں صرف مذاق اور ناز ہے، لیکن وہ ڈرتا تھا اپنے آپ سے، اپنی بھوک سے۔
وہ شاید اپنی ددھیال پر گیا تھا۔ تایا اباکہتے تھے:
"مرد کسی نہ کسی لت میں ضرور گرفتار ہوتا ہے۔ یا تو وہ جوا کھیلتا ہے ، یا شراب پیتا ہے یا عورت کا شوق رکھتا ہے ۔ چلو، ہلکے سے ہلکا شوق، پان ، بیڑی، سگریٹ کا تو ضرور ہی رکھتا ہے اور اگر کوئی بھی لت نہیں رکھتا تو سمجھو وہ مرد ہی نہیں۔"
خود تایا ابا 'دعوت' کھانے کا بے حد شوق رکھتے تھے ۔ دادا ابا جب غصے میں آتے تھے تو گالیوں کے ساتھ نوازتے تھے:
"کم بخت کی جانے کتنی اولادیں، کتنی گلیوں اور کتنے بازاروں میں کہاں کہاں رلتی پھر رہی ہوں گی۔"
شاداب کو بخوبی احساس تھا کہ وہ پورم پور تایا ابا پر گیا ہے ۔
دو تین بار تو اسے انداز ہ سا بھی ہو گیا کہ روبی کچھ نہ کچھ جان گئی ہے ۔۔۔ اس دن بھی جب وہ رات گئے واپس آیا تو دھیرے سے کمرے میں داخل ہو کر سلیپنگ سوٹ پہن کر ڈبل بیڈ کے ایک دم کنارے لیٹ گیا کہ روبی کی آنکھ نہ کھلے ۔ لیکن وہ شاید جاگ ہی رہی تھی ۔ وہ خود ہی کھسک آئی۔
اس نے اپنا ہاتھ میاں کی گردن میں ڈال دیا۔ میاں کو بھی روبی کی گردن میں ڈالنا پڑا۔ روبی بہت دیر یوں ہی منتظر رہی۔ لیکن یہاں تو مطلع صاف تھا ، گولی واجد علی شاہ کھائی ہوتی تو اور بات تھی فی الواقت تو ٹھن ٹھن گوپال تھے۔
لیٹی لیٹی روبی یوں ہی میاں کے گلے میں بازو ڈالے ڈالے سو گئی۔
پھر تو سونے کی عادت ہی ہوگئی اسے ۔
اب تو یہ ہونے لگا تھا کہ باہر سے میاں آتے او ر روبی کھانے کے لئے پوچھتی تو بڑے میٹھے لہجے میں کہہ دیتے:
"دوست نے دعوت کی تھی نا ! پھر بھوک بھی لگ رہی تھی۔۔ باہر ہی کھا آیا ہوں۔"
اور پھر یہ تو روبی کا وہ دور تھا کہ وہ اپنی جان سے بیزار ہو رہی تھی ۔ اور پرانے نوابوں، جاگیر داروں کے ہاں تو یہ دستور ہی تھا کہ جہاں بہوئیں پیٹ سے ہوئیں۔ والدین نے دیوان خانے سجوا دئے، مردانے میں مسہریاں لگوا دیں ، اور کرسیوں پر بیٹھنے والیوں کا انتظام کردیا ۔ اس زمانے میں شریف گھرانوں کی عورتیں کرسیوں اور صوفوں پر نہیں بیٹھتی تھیں۔ یہ باہر والیوں کے لئے ذلت اور ہتک کا ایک انداز تھا ۔ درصل گوری میمیں صوفوں اور کرسیوں پر بیٹھ کر بے محابا چوما چاٹی کرتی تھیں۔ بس طے پایا کہ حرام کام کرنے والیاں، کرسی والیاں۔
اپنے طور پر شاداب میاں بھی یہ سوچ کر چھوٹ دئے ہوئے تھے کہ "بھئی جوان آدمی ہوں۔ بیوی ایسی حالت میں۔۔۔ تو اب کیا کیا جائے ۔ اور پھر جوانی کے گناہ تو شاید اللہ میاں بھی معاف فرما دیں گے ۔۔ ہاں بوڑھے کی عیاشی اللہ کو سخت ناپسند ہوگی۔"
شاداب ایک بیٹے کے باپ بن گئے۔ دنیا کی ساری خوشیاں ایک سال کے اندر بن مانگے مل گئیں اور بھرپور دولت بھی۔ ایک سالے امریکہ میں۔ دوسرے لندن میں، وہیں کے شہری ۔ باپ نے ایک پوری مِل بیٹی کے نام کر دی۔
بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ پیسہ انسان کو نہیں بگاڑتا، حرام کا پیسہ بگاڑتا ہے ۔ اپنی محنت کی، گاڑھے پسینے کی کمائی ہو تو انسان کو درد اور احساس رہتا ہے ۔ گرم چولہے کے سامنے تپ کر آٹا گوندھ کر خود روٹی پکاکر کھاؤ تو الگ مزہ اور احساس اور پکی پکائی مل جائے تو بے حسی سے انسان کھالے اور شکر بھی نہ کرے ۔
مرد نشہ کرکے آئے تو عورت جھیل جائے، جوئے میں دولت ہار کر آئے تو برداشت کر جائے، شراب پی کر آئے اور گندگی پھیلائے تو صاف کر لے، کچھ نہ کہے۔ زیادہ سے زیادہ مونہہ بنالے ۔ لیکن مرد پرائی عورت کی خوشبو اپنے جسم میں بسا کر لائے۔ اس کے اکا دکا بال اپنی قمیص کے بٹنوں میں اٹکا لائے تو عورت کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں : یا تو انجان بن جائے یا مرد جیسی خود بھی بن جائے۔
شبن میاں میں اب وہ پکا پن آگیا تھا جو حرام کی کھانے سے چڑھ جاتا ہے۔
بچہ سال بھر کا ہونے کو آیا، روبی کا پاؤں دوسری بار نہ اب بھاری ہوتا ہے نہ تب۔
اور شاداب اب تو دھڑلے سے رات گئے آتے۔ روبی کھانے کے لئے پوچھتی تو کہتے:
"میں بہت بھوکا ہو گیا تھا۔ باہر کھا کر آیا ہوں۔ آپ کھالیں بیرے سے کہوں ٹیبل لگا دے؟"
ایسے محبت والے بن جاتے ہیں جیسے روبی کھانا نہ کھائے گی تو ان کا دم نکل جائے گا۔
اُس رات کو شاداب بہت رات گئے گھر آئے تو کمرے میں داخل ہو کر ذرا ٹھٹک سے گئے۔۔۔ پورا بیڈ روم باغِ ارم بنا ہوا تھا۔ پھولوں کے گجرے مخملیں بستر پر پڑے مہک رہے تھے۔ پرفیوم کی لپٹیں کی لپٹیں چلی آرہی تھیں۔ پھولوں والے نئے پردے ہواؤں سے جھول جھول کر اڑ اڑ کر چہرے سے ٹکرا رہے تھے ۔ نیچے سمندر کا شور تھا۔ ٹیریس گارڈن سے رات کی رانی کی تیز مہک بے اجازت داخل ہوکر سوئے ہوئے ابالوں کو جگا رہی تھی۔۔۔ اور پھر روز روز باہر کی مرغی کھاتے کھاتے کبھی کبھی گھر کی دال بھی تو اچھی لگ سکتی ہے۔
بستر پر لیٹ کر شاداب نے بڑے چاؤ سے اپنا ہاتھ بیوی کے گلے میں ڈالا ہی تھا کہ وہ اچھل کر اٹھ بیٹھی۔
"وہاٹ ڈویو مین؟ (کیا مطلب ہے تمہارا؟)"
شاداب کچھ بوکھلا سے گئے۔ لجاجت سے بولے۔
" یہ کیا سوال کر رہی ہیں آپ؟ آپ سمجھتی نہیں ہیں کہ میں کیا چاہ رہا ہوں؟"
"میں جانتی ہوں لیکن آئی ایم سوری، میں بہت بھوکی ہو گئی تھی ، آج میں نے بھی کھانا کھا لیا۔" وہ عجیب لہجے میں بولی۔
شبن میاں نے بوکھلا کر دیکھا، پھر غصے سے دیکھا، پھر سب کچھ سمجھ کر دیکھا، پھر اپنا ہاتھ اٹھایا۔
روبی نے وہ اٹھا ہوا ہاتھ پوری طاقت سے پکڑ کر نیچے کر دیا۔
"لک مسٹر شاداب۔۔ بھوک، انسان، حیوان، مرد، عورت، سب کو لگتی ہے۔۔۔ تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟ تم اگر مجھے نہیں کھلاؤ گے تو کیا میں بھوکی مر جاؤں گی؟"
وہ طنز سے ہنسی۔
شبن میاں نے کچھ کہنے کے لئے مونہہ کھولا تو وہ زور سے چیخی:
" مونہہ کھولنا ہی ہے تو صرف تین لفظوں کے لئے کھولو۔ ورنہ یہ مونہہ بند ہی رہے تو اچھا ہے ۔ یہ مت سوچنا کہ تم طلاق دے دو گے تو میرا کیا ہوگا؟ تم یہ سوچو تمہارا کیا ہوگا؟ عورت چار شوہر نہیں کر سکتی۔۔۔ چار عاشق تو پال سکتی ہے! اور وہ بھی اپنے پیسے سے، اپنے بل بوتے پر۔ گناہ ثواب کے چکر میں مت الجھ جانا۔ یہ نہ کہنا کہ یہ بات عورت کو زیبا نہیں، وہ بات عورت کو زیبا نہیں۔ مرد ہو یا عورت جو بات مرد کو زیبا ہے ، وہ عورت کو بھی زیبا ہو سکتی ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ تمہاری عادتوں اور فطرت کا مجھے علم نہیں؟ میں تو شادی کے دن ڈائس پر بیٹھے بیٹھے ہی سمجھ گئی تھی کہ تمہاری نگاہیں چیلوں کی طرح لڑکیوں پر منڈلا رہی ہیں لیکن میں ان لڑکیوں میں سے نہیں جو شوہروں کو شک کی نظر سے دیکھ دیکھ کر مستقل سولی پر لٹکائے رکھتی ہیں۔ میں تو جیتے جاگتے یقین کے ساتھ دیکھ کر بھی چپ رہی تاکہ تم خود ہی سنبھل جاؤ ، سدھر جاؤ۔۔۔ اگر ہمت ہے تو کہہ دو کہ یہ سب جھوٹ ہے۔"‘
وہ طنز سے ہنسی۔۔
"تم کہہ بھی کیسے سکتے ہو؟ اور سب سے زیادہ شرمناک بات تو یہ ہے مسٹر شاداب کہ تم میری ہی دولت سے میری ہی زندگی میں زہر گھولتے رہے ۔ سانپ بھی اس وقت تک نہیں ڈستا، جب تک کہ اس کی دم پہ پاؤں نہ پڑے۔۔ لیکن تم تو سانپ سے بھی گئے گزرے ، بدتر نکلے، میں نے تو تمہارے ساتھ کوئی زیادتی ہی نہیں کی اور اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنے آپ کو خوبصورتوں میں شمار کر سکتی ہوں۔"
شبن میاں نے پھر کچھ کہنے کے لئے مونہہ کھولنا چاہا، لیکن روبی نے انہیں کچھ کہنے کا موقعہ ہی نہیں دیا۔
"تمہارے لئے دونوں راستے کھلے ہیں۔ یا تو مجھے طلاق دے دو یا خود چلے جاؤ۔ لیکن ایک بات سوچ لینا، تمہارے طلاق دینے سے میرا کچھ نہیں بگڑے گا، میرے لئے ہزار ہاتھ بڑھ آئیں گے۔ اور تم اگر خود چلے جاتے ہو تو۔۔۔ سوچ لو، پھر روز روز دعوت کھانے کے لئے پیسے کہاں سے لاؤ گے؟"
بچے کے رونے کی آواز پہ روبی، اپنے کمرے سے نکل کر بےبی روم کی طرف جانے لگی تو بیچ میں نماز کا کمرہ پڑتا تھا۔
وہ قبلہ کی طرف مونہہ کر کے کھڑی ہو گئی ۔
"میرے اللہ ! آج کے جھوٹ کے لئے مجھے معاف کردے گا نا تو؟"
ماخوذ:
ماہنامہ "شمع" نئی دہلی۔ شمارہ: دسمبر 1992۔
ماہنامہ "شمع" نئی دہلی۔ شمارہ: دسمبر 1992۔
Daawat. Short Story by: Wajida Tabassum
بہترین افسانہ. آخری جملہ تو لاجواب ہے. مگر افسانے کی تشنگی ایسے ہی باقی ہے.....
جواب دیںحذف کریں