سیتا - ہندو دیومالا کا ممتاز و مقدس کردار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-17

سیتا - ہندو دیومالا کا ممتاز و مقدس کردار

sita-hindu-mythology-character
ہندوؤں کے ہاں جو شہرت رام چندر جی کی بی بی سیتا نے پائی ہے وہ کسی اور عورت کو نصیب نہیں ہوئی۔ طرح طرح کی مصیبتوں کا جھیلنا، عجب عجب قسم کے سانحوں کا دیکھنا۔ خاندانی اور ذاتی شرافت ، حسن خدا داد کی لطافت اور خصائل کی خوبی یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ ان کے سبب ہر فریق اور ہر قوم کے ہندو اس کے نام کو محبت سے یاد کرتے ہیں ۔ جو لوگ رام کو وشن کو اوتار مانتے ہیں، وہ سیتا کی ویسی ہی تعظیم کرتے ہیں، جیسی رومن کیتھلک عیسائی حضرت مریم کی۔
سیتا کے باپ کا نام جنک [Janaka] تھا اور وہ متھلا دیس کا، جس کو حال میں ترہٹ کہتے ہیں، فرمانروا تھا ۔ اس لڑکی کے سوا اس کے ہاں اور اولاد نہ تھی۔ اس لئے بڑی محبت اور ناز و نعمت سے اسے پالا تھا ۔ حسن و جمال میں اس عورت کا اس وقت کوئی نظیر نہ تھا ۔ اور خصائل برگزیرہ اور صفات حمیدہ نے اور بھی اس کو چمکا رکھا تھا ۔
انگلستان کے ایک شاعر کا قول ہے کہ بہادر مرد کے سوا حسین عورت کا کوئی مستحق نہیں ۔ بموجب اس قول کے، اس کے باپ نے یہ عہد کر لیا تھا کہ جو کوئی ایک کڑی اور بھاری کمان کو جو اسکے ہاں رکھی ہوئی تھی کھینچ لے گا وہی سیتا کو پائے گا۔ اس زمانے میں بہادری ہی بڑی لیاقت سمجھی جاتی تھی ۔ اور تمام سردار اور چھتری اور راجا اپنی بیٹیاں انہیں لوگوں کو دیتے تھے جو لڑائی کے کرتبوں میں سبقت لے جاتے تھے ۔

یہ کمان کوئی معمولی کمان نہ تھی، بلکہ بڑی بھاری اور ایسی کڑی تھی ، کہ اس کا کھینچنا دشوار تھا۔ ایرئن لکھتا ہے کہ ہند کے لوگ کمانوں کو پاؤں سے کھینچتے ہیں اور ان کا تیر چھ فٹ لمبا ہوتا ہے۔ ایسی کمان اب بھی ہندوستان کی بعض پہاڑی قوموں میں پائی جاتی ہے۔ پس راجا جنک کے ہاں ایسی کمان کا ہونا کچھ تعجبات سے نہ تھا۔ جب سیتا کے حسن و جمال کا اور اس کے باپ کے عہد کا شہرہ تمام آریا ورت میں پھیل گیا تو دور اور نزدیک کے بہت سے راجا جنک دربار میں آنے لگے ۔ اس وقت رام چندر جی کی جوانی کا آغاز تھا ۔ اور فن تیر اندازی میں انہوں نے بڑا کمال پیدا کیا تھا۔ کوئی راجا رام چندر جی کے سوا اس کمان کو نہ کھینچ سکا ۔ اور انہوں نے اس کو فقط کھینچا ہی نہیں بلکہ دو ٹکڑے بھی کر دئیے ۔ ان کی یہ شہ زوری دیکھ کر سیتا کے باپ نے اس کی شادی ان سے کر دی۔ اور یہ اس کو لے کر اجودھیا میں جو ان کے باپ کا دارالحکومت تھا، چلے آئے ۔
یہاں رہتے ہوئے انہیں تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ ان کے باپ راجا دسرتھ نے اپنی ایک چہیتی بی بی کے بہکانے سے رام چندر کو چودہ برس کا بن باس دیا۔ اور وہ سیتا اور اپنے بھائی لچھمن کو لے کر وہاں سے روانہ ہو گئے ۔ اور الہ آباد سے ہوتے ہوئے چتر کوٹ پہاڑ پر پہنچے ۔ اور کئی برس تک ادھر ادھر پھر کر آخر پنچوٹی پر، جو گوداوری کے منبع کے قریب ہے قیام کیا کہ جلا وطنی کے باقی دن وہیں گزاریں۔ ان کے جانے کے بعد راجا دسرتھ کو اس قدر پشیمانی ہوئی اور رنج ہوا کہ وہ جانبر نہ ہو سکا۔ راجہ دسرتھ کی وفات کے بعد رام چندر جی کو لینے کے لئے بھرت ان کے پاس گیا۔ مگر انہوں نے تا انقضائے میعاد جلا وطنی سے واپس آنے اور تخت کے قبول کرنے سے انکار کیا۔
حاصل یہ کہ رام چندر جی مع اپنی بی بی اور بھائی کے پنچوٹی میں رہتے اور جنگل کے پھل پھلاری اور شکار سے اپنی گزر اوقات کرتے تھے ۔ اس عالم جلا وطنی میں جس خاطر اور تشفی کے ساتھ رام اور لچھمن، سیتا کے ساتھ پیش آتے تھے اور جس محبت سے اس کی خبر گیری کرتے تھے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندو اپنی عورتوں سے بہت انس رکھتے ہیں۔ رام اور لچھمن ، سیتا کو کبھی اکیلا نہ چھوڑتے تھے ۔ اور باری باری سے شکار کو جاتے تھے ۔ ایک روز جس طرف رام چندر شکار کو گئے تھے ، اس طرف سے کچھ رونے کی آواز آئی۔ لچھمن یہ آواز سن کر سیتا کے پاس نہ ٹھہر سکے ۔ ان کا یہان سے جانا تھا کہ لنکا کا راجا راون میدان خالی پاکر سیتا کو زبردستی اپنے ساتھ لے گیا۔
لنکا میں لے جا کر ہر چند اس نے نفسانیت کی راہ سے بہتیرے جال ڈالے بلکہ سیتا کو قید بھی کیا۔ مگر سیتا کی عصمت اور پاک دامنی کے آگے اس کی ایک پیش نہ گئی ۔ رام چندر جی نے جب واپس آ کر سیتا کو گھر مین نہ پایا، نہایت مضطرب ہوئے اور جنگل میں جابجا اس کی تلاش کرنے لگے ۔ آخر کو جب اس کا پتہ مل گیا تو کرناٹک کے راجا بالی کے بھائی سگریو سے مل کر اس کو قید سے نکالنے اور راون سے لڑنے کی تیاریاں شروع کیں۔ لڑنے سے پہلے سگریو کے وزیر اعظم اور اس کی فوج کے سپہ سالار ہنومان کو ایلچی بنا کر راون کے سمجھانے کو بھیجا۔ مگر راون نے اس کی باتوں کا کچھ خیال نہ کیا۔ اس لئے وہ سیتا کو تشفی دے کر واپس آگیا اور رام چندر جی اس کے ساتھ سیت بندر کو عبور کر کے لنکا پر چڑھ گئے۔
جو معرکہ آرائیاں اور خونریزیاں اس موقع پر ہوئیں اس کے بیان میں ہند کے شاعر بالمیک نے ہومر [Homer] سے کچھ کم زور نہیں دکھایا۔ آخر رام اور راون کا مقابلہ ہوا اور رام نے راون کو مار لیا۔ راون کے ہلاک ہونے کے بعد رام چندر جی سیتا کو قید سے چھڑا کر وطن کی طرف پھرے ۔ اور پھرنے سے پہلے سیتا کو ثبوت عصمت کے لئے آگ میں گرنا پڑا۔
اس زمانے میں دستور تھا کہ جس عور ت پر زنا کا الزام لگایا جاتا تھا، اس کو اپنی عصمت ثابت کرنے کے لئے جلتے کوئلوں اور لوہے کے لال تووں پر ننگے پاؤں چلنا پڑتا تھا۔ اگر عورت کو اس آزمائش میں کچھ ایذا نہ پہنچتی تو وہ بے گناہ سمجھی جاتی تھی۔ ورنہ آگ میں جل کر اپنی بد کرداری کی سزا پاتی تھی ۔
سیتا کی آزمائش کے بعد سب اجودھیا کو واپس آ گئے ۔ اب رام چندر جی اپنی بی بی کے ساتھ بڑی خوشی سے زندگی بسر کرنے لگے۔ اور وہ جس قدر اپنے حسن و جمال سے ان کو اپنی طرف کھینچتی تھی ،اسی قدر اپنی فرمانبردار اور نیک مزاجی سے ان کے دل میں محبت کا بیج بوتی تھی۔ ان دونوں کی محبت کا حال جو بالمیک شاعر نے اور دیگر شاعروں نے لکھا ہے وہ نری شاعری نہیں ہے بلکہ اعلی درجے کی سچی محبت کی ایک مثال ہے ۔
خاوند بی بی میں جو محبت تھی اس کی زیادتی کا اور سامان ہوا ۔ یعنی حمل کے آثار نمودار ہوئے، ہندوؤں کے ہاں قاعدہ ہے کہ جب عورت حمل سے ہوتی ہے تو گھر کی ساری عورتیں اور مرد اس کی بڑی حفاظت کرتے ہیں ۔ اسی دستور کے موافق رام چندر جی کی سب مائیں اور ان کے بہن بھائی سیتا کی خبر گیری کرنے لگے ۔ رام چندر جی نے بھی کئی بار اس کے پاس جا کر دلجوئی اور اظہار خوشی سے اسے خوش کیا۔ اس کا دل بہلانے کے واسطے اکثر اوقات اسے راگ سنائے جاتے تھے اور عمدہ عمدہ تصویریں دکھائی جاتی تھیں۔

اسی اثناء میں چرک پور کے پہاڑوں پر سرنگ رشی نے ایک مرتبہ جگ گیا۔ اور خاندان شاہی کے تمام مرد اور عورتوں کو بلایا۔ سب لوگ اس جگ میں جاکر شامل ہوئے ۔ مگر رام چندر جی بی بی کی تنہائی کے سبب اسی کے پاس رہے۔ گھر کے لوگ تو اس خوشی اور اس کی تیاریوں میں لگ رہے تھے کہ انقلاب روزگار نے کچھ اور ہی رنگ دکھایا اور ساری خوشیاں رنج و الم میں بدل گئیں۔ یعنی گھر والے تو لڑکا پیدا ہونے کی امید میں تھے ۔ اور باہر کے لوگ اور عوام الناس اس حمل کی نسبت کچھ اور ہی گمان کرتے تھے اور سب سیتا کے راون پاس رہنے کی نسبت طرح طرح کے خیالات اور اپنے گھروں میں اس کے چرچے کرتے تھے ۔ اس طرح کی باتوں نے رام چندر جی کو ایسا آزردہ کیا کہ انہیں ناچار سیتا کو نکالنا پڑا ۔ اور غرض اس سے یہ تھی کہ لوگ برائی کو برائی سمجھیں۔
اس وقت اس بے کس شکستہ خاطر کو لچھمن جنگل میں جہاں بالمیک کی منڈھی تھی چھوڑ آئے ۔ چنانچہ سیتا نے اسی کے پاس رہائش اختیار کی، اور وہیں لو اور کش نامی دو لڑکے اس کے ہاں پیدا ہوئے ۔ بارہ برس تک سیتا اس تنہائی اور مصیبت کے عالم میں رہی۔ اور بالمیک اس کے لڑکوں کی پرورش کرتا رہا۔ جس وقت رام چندر جی نے اسومیدھ جگ کیا، تو یہ لڑکے بھی بالمیک کے ساتھ اجودھیا کو گئے۔ اگرچہ ان کے کپڑے غریب برہمنوں کے سے تھے مگر ان کی صورت اور وضع سے امارت ٹپکتی تھی ۔ چنانچہ اسی وقت ان کے حسب و نسب کا حال سب پر کھل گیا۔ اور بالمیک نے اس مجلس میں سیتا کی سفارش کر کے تمام تہمتوں کو جو اس کی عصمت پر لگائی گئی تھیں رفع کیا۔ تب تمام راجاؤں اور سرداروں نے متفق اللفظ یہی کہا کہ سیتا ستونتی ہے، اور اس کا بلا لینا مناسب ہے، مگر ان سرداروں اور راجاؤں کے سوا جو اور لوگ مجلس میں تھے۔ انہوں نے کچھ نہ کہا اور آنکھیں نیچی کر کے چپ ہو رہے ، اس سبب سے رام چندر جی کو تامل ہوا ، اور بغیر رضامندی رعایا کے، سیتا کا دوبارہ گھر میں بلانا مناسب نہ سمجھا۔
اس پر بالمیک نے کہ اکہ اگر اس کی نسبت کچھ شک ہے تو پھر اس کی آزمائش ہو سکتی ہے، سیتا جو مدت سے تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھاتے اٹھاتے نہایت نحیف اور کمزور ہو گئی تھی ، یہ امر اس کو نہایت شاق گزرا اور شرم اور غصہ اس پر ایسا چھایا کہ یہ سننے کے ساتھ ہی غش کھا کر گر پڑی ۔ ہر چند اس کو ہوش میں لانے کی تدبیریں کی گئیں مگر کوئی تدبیر سود مند نہ ہوئی ۔ اور تھوڑی ہی دیر مین اس کی جان نکل گئی ۔
رام چندر جی کو اس کے مرنے کا ایسا قلق ہوا کہ انہوں نے اس غم میں اپنے تئیں دریائے سرجو کے حوالے کیا۔

کلکتے کا نہایت مشہور اور فاضل پنڈت ایشورچندر بدیا ساگر اپنی کتاب 'سیتا بن باس' میں لکھتا ہے کہ جیسی عالی خاندان اور تربیت یافتہ اور نیک عورت سیتا ہوئی ہے اور جیسے استقلال اور صبر کے ساتھ اس نے مصیبتیں جھیلی ہیں اور خاوند کی اطاعت و فرمانرداری میں اپنی جان دی ہے۔ ویسی عورتوں کی نظیر کسی تاریخ میں نہیں پائی جاتی ۔ ایک مورخ اس حال کو یوں قلمبند کرتا ہے:

سیتا متھلا دیش کے راجہ جنک کی لڑکی تھی۔ جب شادی کے قابل ہوئی تو یہ شرط قرار پائی کہ جو راجہ جنک کی کمان کھینچ سکے گا وہ اس کا خاوند ہوگا۔ اس شرط کو سن کر کتنے ہی راجہ اور شہزادے آئے اور ناکام واپس ہو گئے ۔ ایک روز بششٹ منی کے ساتھ دو خوبصورت اور شاندار لڑکے آئے۔ ان میں سے ایک لڑکے نے وہ کمان کھینچنا کیسا، اس کو اپنی طاقت سے توڑ ہی ڈالا۔ یہ دیکھ کر سب دنگ رہ گئے ۔ پھر دریافت سے معلوم ہوا کہ یہ لڑکا اجودھیا کے راجہ دسرتھ کا بیٹا اور رام چندر نامی ہے ۔ پھر تو خوشی کا کچھ ٹھکانا نہ تھا ، راجہ جنک نے فخر کے ساتھ شادی منظور کر لی ۔ اور راج دسرتھ کو اطلاع دی گئی کہ تاریخ مقررہ پر برات آئے۔ آخر کار بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ سیتا نے قابل فخر خاوند اور رام چندر نے قابل قدر بی بی پائی۔ شادی کے بعد تمام جلوس اجودھیا میں پہنچا یہاں کا حال سننے کے لائق ہے۔

راجہ دسرتھ کی تین رانیاں تھیں اور ان کے بطن سے چار بیٹے تھے۔
سب سے بڑے رام چندر کوشلیا کے بطن سے تھے ، دوسری رانی کیکئی تھی جس سے راجہ دسرتھ نے کبھی یہ عہد کر لیا تھا کہ میں تمہاری دو باتیں جو تم کہو گی ضرور مان لوں گا۔
جب راجہ دسرتھ بوڑھے ہوئے تو رام چندر کو نائب السلطنت بنانا چاہا۔
اس حال کو سن کر کمبخت کیکئی حسد سے جل گئی اور اپنی ایک سہیلی کی صلاح کے موافق کپڑے پھاڑ اور رنجیدہ صورت بنا بیٹھ رہی۔ جب راجہ دسرتھ آئے اور یہ حال دیکھا تو سبب دریافت کیا۔ رانی نے جواب دیا، کہ اے راجہ، جب میں نے آپ کی جان بچائی تھی، تو آپ نے اقرار کیا تھا کہ میری دو باتیں جو میں کہوں منظور کرلیں گے ، اب میں یہ کہتی ہوں کہ رام چندر کے بدلے میرے لڑکے بھرت کو راج ملے۔ دوسری بات یہ کہ رام چندر کو چودہ برس جنگل میں رہنے کا حکم دیا جائے۔ راجہ دسرتھ یہ باتیں سن کر حیرت زدہ ہو گئے اور مغموم صورت سے باہر آئے ۔ یہ حال نیک دل فرزند رام چندر نے سنا تو حاضر ہوکر عرض کی کہ میں ہر طرح آپ کے قول کو پورا کرانے کو حاضر ہوں۔ اور اپنی مان کوشلیا سے کہا کہ مجھ کو بن باس کی اجازت دیجئے اگر زندگی ہے تو چودہ برس میں واپس آجاؤں گا اس عرصہ میں بھائی بھرت کو راج کرنا مبارک ہو ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ایسے فرزند کے اتنے بڑے خیال کو اس کی ماں نے کس دل سے سنا ہوگا اور اس وقت اس کے غم کا کون اندازہ کر سکتا ہے؟ مگر لائق فرزند کے ہاتھ جوڑنے پر خیال کرکے اس نے کہا کہ اچھا بیٹا جاؤ۔ خدا تمہارا نگہبان ہو۔ پھر رام چندر اپنی بی بی سیتا کے پاس گئے اور اس سے رخصت ہونا چاہا، مگر اس نے اپنے خاوند کی جدائی گوارا نہ کی اور وہ سائے کی طرح رام چندر کے ساتھ ہولی۔
رام چندر کا چھوٹا بھائی لچھمن بھی ساتھ چلنے کو تیار ہوگیا ۔ اور آخر کار یہ تینوں باہر نکلے ، چند روز کے بعد اس غم سے راجہ دسرتھ کا انتقال ہو گیا۔ تیسرے بیٹے بھرت نے کریا کرم کیا، لیکن سلطنت کرنے سے انکار کر کے اپنے بھائیوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اور جنگل میں رام چندر کو جا لیا اور عرض کی کہ آپ چل کر سلطنت کریں، لیکن رام چندر نے چودہ برس پورے ہونے اور اپنے باپ کے قول کو پورا کرنے تک اس سے انکار کیا اور کہا کہ تم جاکر شوق سے کام دیکھو۔ جب میری خدمت پوری ہو جائے گی میں آ جاؤں گا ۔ اس طور پر بھرت واپس آ گیا۔ اور رام چندر مع لچھمن اور سیتا کے جنگلوں اور پہاڑوں میں پھرتے ، پھرتے بندھیا چل کے قریب ایک مقام پر ٹھہر رہے۔ اس مقام کا نام کنجرا لکھا ہے، یہان مردم خوار راکھشش رہتے تھے جو آدمی کو کھا جاتے تھے ، اتفاق سے سروپ نکھا نام ایک راکھششنی جو راجہ راون کی بہن تھی رام چندر کو کو دیکھ کر ان پر فریفتہ ہو گئی۔ مگر رام چندر نے اس کو دھتکار دیا۔ تب اس نے بر افروختہ ہوکر اپنے بھائی راون سے طرح طرح کی باتیں بنائیں اور راون کو سیتا کے اڑا لینے پر آمادہ کیا۔ چنانچہ ایک روز راون فقیر کا بھیس بدل کر رام چندر کے مسکن پر آیا، یہ دونوں بھائی اس وقت شکار کو گئے ہوئے تھے۔ راون نے یہ موقع غنیمت سمجھا اور سیتا کو زبردستی اپنے کاندھون پر بٹھا کر چلتا بنا۔ جب رام اور لچھمن آئے تو سیتا کو اپنی جگہ پر نہ پایا۔ اور ا س کی تلاش کرنے لگے ۔ آخر کار راون کی عیاری معلوم ہوئی تب وہ دونوں سیتا کی رہائی پر آمادہ ہوئے اور جنوبی ہندوستان کے راجہ سگریو سے مدد چاہی۔
اور راجہ سگریو کے سپہ سالار ہنومان کو جاسوس بناکر لنکا بھیجا ، تاکہ سیتا کی صحیح خبر معلوم ہو جائے ہنومان نے لنکا جاکر پوشیدہ طور پر سیتا کا حال دریافت کر لیا، اور رام اور لچھمن کی سلامتی کا مژدہ سنایا۔ ازاں بعد سگریو، ہنومان رام اور لچھمن سب کے سب فوج لے کر لنکا جا پہنچے بڑے کشت و خون کے بعد راون مارا گیا اور سیتا کو قید سے چھڑا کر کامیابی سے واپس آئے ۔ اس عرصے میں چودہ برس کا زمانہ پورا ہو گیا اور رام چندر مع لچھمن اور سیتا کے اپنی راج دھانی کو واپس آئے ۔ اور اپنا راج سنبھالا، اور اس زمانے کی رسم کے موافق سیتا کو آگ میں تپایا گیا تاکہ ان کی پاک دامنی کا ثبوت ہو۔ اور آگ نے اس کو نہ جلایا۔ لیکن بعض حاسد عورتوں اور نالائق اشخاص نے جو ہمیشہ دوسرے کی نکتہ چینی اور عیب جوئی پر تیار رہتے، اس شریف بے گناہ اور واجب التعظیم سیتا کو کم از کم بدنامی کے الزام سے محفوظ نہ رہنے دیا۔
تب رام چندر شرم سے متاثر ہوکر سیتا کو اپنے محل سے دور چھوڑ دئے جانے پر مجبور ہوئے ۔ اور سیتا کو محل سے نکال کر ایک فقیر کی منڈھی میں چھوڑ دیا گیا ۔جہاں اس کا وضع حمل ہوا اور لو اور کش دو خوبصورت لڑکے پیدا ہوئے جن سے شاہی اوصاف ظاہر ہوتے تھے۔ اور معصوم سیتا اپنی بے گناہی پر بھروسہ کر کے پھر رام چندر کے محل میں آنے کا انتظار کرتے کرتے مر گئی۔ ہر چند اس وقت کے چند لوگوں نے اس بے گناہ کے ساتھ ایسا سخت ظلم کیا جس سے اس کو رام چندر کی مفارقت اور بادشاہی سے فقیری نصیب ہوئی لیکن وہ اپنی پاک دامنی اور اپنے لا ثانی اوصاف سے رام چندر کے برابر یاد کی جاتی ہے۔ اور تمام ہندو قوم رام کے نام کے ساتھ سیتا کا نام لینا ذریعہ فخر و نجات خیال کرتی ہے۔

ماخوذ از کتاب:
ہندو رانیاں (ہندوستان کی نامور ہندو رانیوں کے حالات و سوانح)
(سلسلہ تالیفات وکیل ٹریڈنگ کمپنی لمٹیڈ ، امرتسر)، اشاعت: 1909
مطبوعہ: نول کشور اسٹیم پریس، لاہور۔

Sita, a prominent hindu mythological character.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں