منٹو ایک اخلاقی فن کار - مضمون از ممتاز شیریں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-23

منٹو ایک اخلاقی فن کار - مضمون از ممتاز شیریں

manto-mumtaz-shireen
آج منٹو کی پندرہویں برسی ہے ۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ دس پندرہ سال بلکہ ربع صدی بھی ادب کی تاریخ میں ایسا کوئی طویل عرصہ نہیں کہ کسی ادیب کا صحیح مقام متعین کیا جا سکے ۔ تاہم دنیائے ادب میں مختصر افسانہ بجائے خود ایک کم سن اور محدود صنف ہے اور جدید اردو افسانے کی عمر اور بھی مختصر ہے۔ لہٰذا جدید افسانے کے دوبارہ جائزے یعنی REVALUATION میں ایک افسانہ نگار کا مقام جانچنے میں فی الحال ایک طویل وقتی فاصلہ اور وسیع تناظر کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
منٹو کی تحریریں آج دوبارہ پڑھی جائیں (میں نے حال ہی میں منٹو کی تحریریں دوبارہ پڑھی ہیں) تو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کے اچھے افسانوں کا وہی تاثر برقرار ہے۔ منٹو کے افسانوں میں کوئی ابہام نہیں، نہ کوئی پوشیدہ رمز و اشارے ہیں، نہ کوئی پیچیدہ گتھیاں کہ ان کے سلجھانے میں دقت محسوس ہو ، وقت کے ساتھ ساتھ نئی تشریحیں اور تفسیریں ہوں اور تہ در تہ معانی نکالے جائیں ۔ یہ صاف، کھلی، سیدھی اور براہ راست نوعیت کی تحریریں ہیں، جن کا پیغام واضح ہے ۔ ان تحریروں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اردو کے صف اول کے چند گنے چنے افسانہ نگاروں میں منٹو کو جو اہم مقام حاصل تھا،آج بھی منٹو کا وہی مقام ہے ۔

منٹو ایک سچا، دیانت دار، فطری فن کار تھا۔ اس نے جو کچھ لکھا، بھرپور خلوص اور ایمان داری سے لکھا، منٹو میں اظہار کی مسلسل تڑپ تھی ، ایک شدید اندرونی لگن، ایک آگ جس میں وہ ہمیشہ تپتا رہتا تھا ۔ جو فن کار کی بقا کے لئے بے حد ضروری ہے۔

عسکری صاحب کے الفاظ میں منٹو اپنے آپ تو مجسم تخلیق بن گیا تھا لیکن دوسروں کو بھی اپنی تخلیقی کش مکش اور تخلیقی کرب میں حصہ دار بنانا چاہتا تھا۔ اور یہ مسلسل اذیت منٹو کے سوا اور کس کے اعصاب برداشت کر سکتے تھے ؟ انسان کی روح یا فن کار کی تخلیقی کاوش جب عریاں ہو جائے تو اس کا اثر بوزدپرم والاہوتا ہے۔

معاشرے کی بدی، بدصورتی اور گندگی کو اس نے بہت قریب سے دیکھا اور زندگی کے زہراب کو اس طرح چکھا کہ اس کی تلخی کام و دہن سے گزر کر رگ و پے میں اتر گئی ۔ زندگی کے مشاہدے اور تجربے میں منٹو نے اپنے آپ کو مومی شمع کی طرح پگھلایا اور زندگی کے ایسے پہلوؤں کو پوری جرات ، بے باکی اور بے رحم صداقت کے ساتھ پیش کیا۔ جنہیں چھونے کی ہمارے ہاں بہت کم ادیبوں کو جرات ہوسکتی تھی۔

منٹو کی ادبی زندگی کا آغاز 1936ء کی نئے ادب کی تحریک سے ہوا تھا ،نئے ادب کی یہ تحریک ایک باغی تحریک تھی، انحراف (Dissent) جس کی بنیاد تھی ۔ سامراجی حکومت کے خلاف مروجہ معاشرتی نظام کے خلاف، ادب کی رومانی روایت کے خلاف اظہار کے نئے اسلوب واقعیت نگاری اور معاشرتی حقیقت نگاری کے نئے رجحان یہ سب اس میں شامل تھے۔ منٹو اس تحریک کا غالباً سب سے باغی ادیب تھا ، منٹو کی بغاوت اس سماج کے خلاف تھی، جس کی عائد کردہ پابندیاں اور موجودہ تہذیب کا ملمع اور تصنع، فطری، صحت مند نشوونما کو روکتے ہیں۔ آزادی کو سلب کرلیتے ہیں اور جنسی گمراہیوں اور بے راہ رویوں کا باعث بنتے ہیں ۔ باغی منٹو نے اس موضوع کا انتخاب کیا جو سماج کی نظر میںTabooتھا، سب سے زیادہ ممنوع تھا ، یعنی جنس کا موضوع۔

جنس کے موضوع کی صدیوں کے ادب میں خاص اہمیت رہی ہے ۔ عورت اور مرد کا رشتہ ایک ازلی اور ابدی رشتہ ہے ۔ آدم و حوا کے بنیادی گناہ اور بہشت گم گشتہ سے لے کر آج تک بھی ہر معاشرے میں جنس کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ الہامی کتابوں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے جن میں جنس کے رشتہ کو شرم ناک نہیں بلکہ مقدس بتایا گیا ہے کہ اس سے حیات کی تجدید ہوتی ہے ۔ پرانے عہدوں میں مثلاً قدیم یونانیوں ، مصریوں کے ہاں جنس اتنی زبردست قوت سمجھی جاتی تھی کہ یا تو اسے آسمانی الوہی درجہ دیاجاتا تھا یا شیطان کا ۔ یہ کوئی عالم بالا کی قوت تھی یا اندرونی شیطانی قوت، کہ انسانوں ، مردوں اور عورتوں کو اپنے غلبے سے بے بس کردیتی تھی ۔ لہذا صدیوں کے ادب میں اس موضوع کو خاص اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ البتہ موجودہ زمانے کے ادیب اسے دیویوں ، دیوتاؤں، بڑے قد آور ہیروں اور ہیروئنوں سے نیچے اتار کر عام مردوں اور عورتوں کے رشتے کی سطح پر لے آئے ہیں۔

"وہ جو سمجھتے ہیں کہ نئے ادب نے جنسی مسائل پیدا کئے ہیں، غلطی پر ہیں۔ کیونکہ جنسی مسائل نے اس نئے ادب کو پیدا کیا ہے ۔"
منٹو نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہ وہ جنس کے موضوع پر کیوں لکھتا ہے، اپنے مضامین میں کہا۔
"عورت اور مرد کا یہ رشتہ بہت پرانا ہے ، ازلی اور ابدی ، جو اسے۔۔۔ عریانی سمجھتے ہیں انہیں اپنے احساس کے ننگ پر افسوس ہونا چاہئے۔
اعتراض کیاجاتا ہے کہ نئے لکھنے والوں نے عورت اور مرد کے جنسی تعلقات ہی کو اپنا موضوع بنالیا ہے ۔ اپنے متعلق میں اتنا کہوں گا کہ موضوع مجھے پسند ہے، کیوں ہے؟ بس سمجھ لیجئے کہ مجھ میں Perversion ہے۔ زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔ اگر آپ ان سانوں کو برداشت نہیں کرسکتے تو اس کامطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے ۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں ۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ یہ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے ۔"

"چکی پیسنے والی عورت ، جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے ، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں بن سکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک مکھیائی رنڈی ہوسکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی ڈراؤنا خواب دیکھتی ہے ، کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آرہا ہے ۔ اس کے بھاری بھاری پپوٹے، جن میں برسوں کی اچٹی ہوئی نیندیں منجمد ہیں، میرے افسانے کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اس کی غلاظت ، اس کی بیماریاں، اس کا چڑ چڑا پن، اس کی گالیاں ، یہ سب مجھے بھاتی ہیں، میں ان کے متعلق لکھتا ہوں۔"

اور یوں منٹو کے ادب کی دنیا ان "گرے ہوئے" کرداروں سے آباد ہو گئی ۔ طوائفیں ، ان کے گاہک اور دلال، فلمی دنیا کے عیاش کردار ، عیاش مرد اور بدکار عورتیں، اور ان سے آباد ان کی پناہ گاہ شہر بمبئی جو منٹو کا مرغوب اور محبوب شہر تھا۔ بابل اور ایفس اور لارنس ڈرل کے اسکندریہ کے مانند ایک شہر گناہ۔

منٹو نے بدی کی دنیا تخلیق کی ؟ کیوں کہ وہ ایک اخلاقی فن کار تھا اور منٹو کے فن کا کمال یہ تھا کہ اس شہر کے لئے اور ان گرے ہوئے کرداروں کے لئے منٹو نے ہمارے دل میں محبت اور ہمدردی پیدا کی ۔ پہلے ان کے بارے میں منٹو کا رویہ معروضی تھا۔ وہ بغیر کوئی نتیجہ اخذ کئے ، اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھ کر پوری واقعیت کے ساتھ کسی کردار یا واقعہ کو پیش کرتا تھا ۔ چنانچہ افسانہ"بو" میں جو منٹو کے بہترین افسانوں میں سے ایک ہے ، فطری صحت مند مکمل جنسی ملاپ کی نہایت اچھی تصویر کشی ہے۔ بلکہ اس پرکشش بوکا جس طرح احساس دلایا ہے اس کا جواب نہیں ملتا ۔ لیکن یہاں منٹو کو رندھیر یا اس لڑکی کی اچھائی برائی سے کوئی سروکار نہ تھا۔ پھر منٹو کی نگاہ میں اپنے کرداروں کے لئے ہمدردی پیدا ہوئی، سماج سے ان کی جدو جہد کے ساتھ ساتھ ان کی اندرونی روحانی کش مکش کو اس نے محسوس کیا۔ یہ اندرونی کشمکش ، جوبہت شدید اور ڈراؤنی نہیں تھی کہ منٹو کے کردار قد آور اور بلند نہیں ہیں۔ بلکہ ایک نامعلوم سی بے چینی وہ اپنے اندر محسوس کرتے ہیں، ایک روحانی کرب و اضطراب ، جسے ٹھنڈا گوشت کے ایشر سنگھ کی طرح وہ خود نہیں سمجھ پاتے۔ منٹو کوئی Didactic تبلیغ کرنے والا ادیب نہیں تھا، لی کن ننگی اوازیں، کھول دو ، ٹھنڈا گوشت ، اور باپو گوپی ناتھ، جیسے افسانوں میں منٹو کا اخلاقی نظریہ حیات کرداروں اور واقعات کے تجزیے اور تعمیر میں مضمر ہے۔ یہ منٹو کے فن کاارتقا تھا۔
منٹو در حقیقت ایک اخلاقی فن کار تھا۔
منٹوپر فحش نگاری کے الزامات عائد کئے گئے ۔ مقدمات چلائے گئے ، مجرم گردانا گیا ، جرمانے ہوئے ، قیدو مشقت کی سزا بھی سنائی گئی ۔ حالانکہ منٹو کی تحریریں فحاشی کے تحت نہیں آتیں۔ ہمارے ہی جنس نگار ادیبوں میں منٹو کی تحریریں سب سے زیادہ صاف ستھری ہیں، چنانچہ منٹو کی واضح اور کھلی تحریروں اور براہ راست انداز بیان میں عصمت چغتائی کی پردے کے پیچھے، والی ڈھکی چھپی اکساہٹ اور لذیت نہیں ہے ، عصمت کی تحریروں میں Titillation کی کیفیت ہے۔ یعنی جنس چھیڑ چھاڑ اور گد گداہٹ اور عزیز احمد نے اپنے ناولوں " گریز، ہوس، ایسی بلندی ایسی پستی" اور افسانوں میں جنسی تجربات کو جس تلذذ سے بیان کیا ہے اس سے کراہیت محسوس ہوتی ہے ۔ منٹو کی کوئی تحریر ایسی نہیں ہے جس میں برائی اور بدکاری کو خوبی کی حیثیت سے دکھایا گیا ہو۔ منٹو کے افسانے اپنے کرداروں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ترغیب نہیں دیتے ، نہ معقول آدمیوں کے دل و دماغ میں ہیجان پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔

منٹو کے افسانوں میں جنسی موضوعات کے باوجود لذیت اور ترغیب کا عنصر بہت کم ہے ۔ جنسی بد عنوانیوں کے افسانے پڑھ کر منٹو کے قاری کا رد عمل وہی ہوتا ہے جو افسانہ کھول دو کے ڈاکٹر کا رد عمل ہے ۔ یعنی اس کی جبیں عرق آلود ہوجاتی ہے اور عرق انفعال کے یہ قطرے موتی کے مانند قیمتی ہوتے ہیں۔

منٹو یقینا فحش نگار نہیں تھا بلکہ اس کے بر عکس ایک اخلاقی فن کار تھا محمد حسن عسکری منٹو کو ذاتی طور پر بھی قریب سے جانتے ہیں ، لہٰذا ان کی یہ رائے بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔ منٹو نے ہمیشہ ایک شریف آدمی بننا چاہا ہے۔ ذاتی زندگی میں شرافت کی روایتی معیاروں کا جتنا پاس منٹو کو ہے اتنا کم لوگوں کو ہوگا ۔ لیکن اسے کچھ ایسے حالات سے بھی دوچار ہونا پڑا جو اس کے اندرونی معیار پر پورے نہیں اترے اور ان تجربات سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔ چنانچہ ان تجربات کا ہر وقت جائزہ لینے اور آدرش اور حقیقت کے تضاد کا مطالعہ کرنے پر مجبور ہے ۔ بنیادی طور پر منٹو کا مزاج اخلاق پرستی میں بڑا کٹر واقع ہوا ہے لہٰذا وہ کسی اخلاقی فیصلہ سے مطمئن نہیں ہوتا بلکہ اپنی تفتیش جاری رکھتا ہے ۔ اور یہ اظہار کی جدوجہد اور فنی کاوش بن جاتی ہے ۔ منٹو نے انفرادی تجربوں سے انسانی معنویت تلاش کی ہے ۔
یہ ناموزوں نہ ہوگا کہ میں یہ مضمون آندرے موروا [Andre Maurois] کے ان الفاظ پر ختم کروں جو منٹو پر صادق آتے ہیں:
"A true moralist always depicts an immoral world because he puts us on our guard against the world as it is. The moralist always frightens because he is true and truth is frightening to man."

ماخوذ از کتاب:
منٹو : نوری نہ ناری۔ مصنف: ممتاز شیریں
اشاعت: 1999۔ ناشر: ساقی بک ڈپو، اردو بازار، دہلی۔

Manto, A moral artist. Article: Mumtaz Shireen.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں