کشمیر کو سلام - افسانہ از کرشن چندر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-21

کشمیر کو سلام - افسانہ از کرشن چندر

Krishan-Chander-Kashmir
یہ بات کہ 'کشمیر جنت نظیر ہے' مجھے اس وقت تک نہیں معلوم ہوئی جب تک میں اس جنت سے باہر نکالا نہیں گیا میرا مطلب یہ ہے کہ میں چونکہ بچپن ہی سے کشمیر میں رہتا سہتا چلا آیا تھا اس لئے میرے لئے کشمیر کے مرغزاروں کی خوبصورتی اس کی وادیوں کی دل کشی ، اس کی جھیلوں کی رعنائی اور اس کے پہاڑوں کی پھبن اور موہنی کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔
میں شاید سمجھتا تھا ساری دنیا میں اسی طرح کی خوبصورتی ہوتی ہوگی، ایسے مناظر ہر جگہ پائے جاتے ہوں گے۔ ہر جگہ ڈوبتا ہوا سورج اسی طرح جھیل کی نیلاہٹوں میں سونار دن ہوگا۔ اسی طرح شبنمی دھندلکوں میں کسی انجان گھاٹی پر لاکھوں رنگ رنگ کے پھول کھل جاتے ہوں گے، پہاڑ کے تناور درخت، درختوں کا جھنڈ، اسی طرح کسی خاموش پراسرار درے پر کھڑا ایک سلسلہ، کوہ سے دوسرا سلسلہ ہائے کوہ کو دیکھتا ہوا شہد کے چھتوں میں کام کرتی ہوئی شہد کی مکھیوں کی گونج سے چونک پڑتا ہوگا۔
جس طرح شفق زرہ ڈل میں چپو چلاتی ہوئی کسی نازک اندام کشمیری حسینہ کے ہاتھوں سے برف پوش چوٹیوں کا عکس چونک کر ٹوٹ جاتا ہے، یہ اور ایسے ہزاروں خوبصورت مناظر دوسری جگہوں پر بھی پائے جاتے ہوں گے۔ ایسا میں اپنے بچپن میں اپنے لڑکپن میں اپنی جوانی کے پہلے دنوں میں سوچتا تھا۔

لیکن جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنے والدین کی مرضی سے کشمیر سے باہر گیا اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ میں کتنا غلط سوچا کرتا تھا ، جنت کی قدر جنت سے باہر نکل کر ہی معلوم ہوتی ہے ۔ یہ بات نہ تھی کہ کشمیر سے باہر کی دنیا خوبصورت نہ تھی۔ ساری دنیا حسین ہے ، دلکشی اور رعنائی اور موہنی دنیا کے ہر کونے میں ہے لیکن فطرت کی جو رعنائی ،نکھار اور رنگ میں نے کشمیر میں دیکھا ہے کہیں اور نہیں دیکھا۔ اس سے بہتر واضح مترتب صورت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ ممکن ہے یہ میرے بچپن کا خیال ہو اور آپ جانتے ہیں کہ بچپن کے خیالات کتنے مضبوط ہوتے ہیں وہ کسی طرح دل کے ر گ ریشے میں اپنی جڑیں پھیلا لیتے ہیں۔ میں نے ایسے دوستوں کو بھی دیکھا ہے جو اپنے گاؤں کے املی کے جھاڑ کا ذکر بھی اسی انداز سے کرتے ہیں جس انداز سے میں کشمیر کی گل پوش وادیوں کا ذکر کرتا ہوں۔ شاید جنت کہیں انسان کے باہر نہیں ہے ، وہ اس کے دل کے اندر ہے اگر ایسا ہے تب بھی مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ میرے دل کے اندر جو جنت ہے وہ کشمیر ہے۔

آج کل میں اس جنت سے دور رہتا ہوں لیکن پھربھی اس کی یاد کسی سدا بہار پھول کی طرح دل میں ہر وقت مہکتی رہتی ہے اور جب میں صبح دم پھولے، پھولے سفید بادلوں والی کشتیوں کے پرے سمندر میں سورج کی کرنوں کو اپنا زریں جال پھیلاتا دیکھتا ہوں تو مجھے وہ صبح یاد آ جاتی ہے جب میں نے پہلی بار جھیل ولر [Wular Lake] کو دیکھا تھا، جب ہلکی ہلکی دھند ایک ریشمی آنچل کی طرح بار بار گالوں سے چھو جاتی تھی اور جھیل کی نیلی سطح ساکن تھی اور دور دور رینگوں پہاڑ ایک دائرے کی صورت میں پھیلے ہوئے تھے اور چپو میرے ہاتھ میں رک گیا تھا اور میری کشتی کے قریب نیلوفر کے پھول حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ اور دور ایک بڑی سی کشتی میں ایک ملاح بیٹھا تھا اور اس کی بیوی ایک بچے کو گود میں لیے کھڑی تھی اور ادھر دیکھ رہی تھی جدھر سورج طلوع ہوتا ہے مجھے اس وقت وہ ماں مجسم دعا معلوم ہوئی جیسے دھرتی ماتا ہو اور آسمان کائنات کا مندر ہو اور بچہ لوبان کی مہک ہو۔ اور پھر نیلگوں چوٹیوں سے سورج ابھر آیا اور یکایک بچہ کھلکھلا کر ہنس پڑا اور ساری دنیا جاگ گئی اور مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے ملاح کا چپو اور نیلوفر کے کانپتے ہوئے پھول اور جھیل کی خاموش سطح اور پہاڑوں کی نیلگوں چوٹیاں سانس روکے اس ہنسی کی منتظر تھیں۔ سورج نکلا، بچہ ہنسا اور دنیا جاگ گئی اور رنگوں سے معمور ہو گئی۔

یاد کی سر مئی وادیوں میں کشمیر کے کئی نگینے چمک اٹھتے ہیں۔ بہرام گلے سے پرے ایک وادی تھی، جہاں میں راستہ بھول کر جا نکلا تھا مکئی کا ایک ڈھلوان کھیت تھا، جس میں فصل اچھی طرح پھولی پھلی نہیں تھی، مکئی کے پودے چھدرے چھودے تھے اور آڑے ترچھے اگے ہوئے تھے۔ کھیت کے بیچ میں ایک مچان تھا، جو بھوری گھاس سے چھتا ہوا تھا ،لیکن مچان پر کوئی نہ تھا۔ دوپہر کا وقت تھا اور مجھے بہت زور کی بھوک لگ رہی تھی۔ میں آگے بڑھتا چلا گیا، آگے گھاس کا ایک لمبا سا قطعہ تھا جس میں ڈیفی ڈول کے پیلے پھول کھلے ہوئے تھے ۔ اس سے آگے اونچائی پر آلوچے کا ایک پیڑ تھا جو سفید پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔ اور اس کے قریب ایک چھت تھی جس پر اس کے گھر کے لوگ کھانا کھا رہے تھے۔ ایک بڈھا موچی تھا جس کی سفید ڈاڑھی تھی اور تانبے جیسی رنگت تھی، ایک اس کا جوان بیٹا تھا جس کی نیلی آنکھوں میں خوش آیند تبسم تھا، ایک اس جوان بیٹے کی خوبصورت بیوی تھی جس کی گود میں پیارا سا بچہ تھا، دو بہنیں تھیں ایک ان کا چھوٹا بھائی تھا جس نے صرف ایک میلی چکٹ قمیض پہن رکھی تھی، اور جو مجھے دیکھ کر کھاتے کھاتے ٹھٹھک گیا تھا اور چاول اور کڑم کا ساگ اس کی انگلیوں سے لگا ہوا تھا، اور اس کی آنکھوں میں وہ حیرت تھی جو اجنبی کو دیکھ کر ہوتی ہے اور لبوں پر وہ تبسم تھا جو ڈر سے نہیں بے فکری سے پیدا ہوتا ہے۔ مجھے دیکھ کر بڈھا موچی مسکرایا، اس نے مجھ سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ کدھر جارہے ہو؟ تمہارا نام کیا ہے؟ تمہارا مذہب کیا ہے؟
اور اس نے مجھے کھانا کھانے کو کہا اور میں وہیں اس سرخ بجری کی چھت پر بیٹھ کر ان لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے لگا۔ ایک بہن نے میرے سامنے مٹی کے پیالے میں چاول اور ساگ رکھ دیا اور سفید مکھن کا ایک گولا اور سرخ پسی ہوئی مرچیں اور نمک۔ اور میں کھانے لگا اور ہم لوگ اس طرح باتیں کرنے لگے جیسے وہ لوگ برسوں سے مجھے جانتے ہوں، جیسے میں ان کے گھر کا ہی ایک فرد ہوں اور پھر کھانا کھا کے بڈھا موچی ایک چھوٹے سے رندے سے چمڑے کو کوٹنے لگا اور جوان بیٹا کھلی دھوپ کو تیز سمجھ کر آلوچے کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر ایک پرانے جوتے میں تلا لگانے لگا اور مجھ سے باتیں کرنے لگا ، اس کی بیوی بھی ہمارے پاس آن بیٹھی اور چادر کی اوٹ میں اپنے بچے کو دودھ پلانے لگی۔
اور جوان موچی مجھ سے کہنے لگا: اب کے مکئی کی فصل اچھی نہیں ہوئی اسے اولے مار گئے ہیں اور گھاس بھی جگہ جگہ سے بیٹھ گئی ہے۔ اتنے میں وہ دونوں شریر بہنیں آلوچے کے پیڑ پر چڑھ گئیں اور شاخیں ہلا ہلاکر انہوں نے اتنے پھول ہم پر برسائے کہ ہم سفید پھولوں سے لد گئے اور چھت کے دوسرے کونے کے قریب کھلی دھوپ میں بیٹھا ہوا موچی ہنسنے لگا، اور کھلی دھوپ میں اس کے سفید دانت چمک رہے تھے، اور اس کے تانبے ایسے گال چمک رہے تھے، اور اس کی گہری نیلی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ اور وہ دونوں شریر بہنیں ہم پر پھول برسا رہی تھیں اور جوان موچی کے سر پر پھول تھے اور جوتے کے تلے پر پھول تھے اور کچھ پھول میری عینک کی کمانی پر اٹک گئے تھے اور پھولوں سے اس عورت کی چادر بھر گئی تھی اور اس کے بچے کے ننھے ننھے پاؤں پھولوں میں گندھے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔
اور جب میں سستا چکا تو میں نے اس بڈھے موچی کو، اور اس کے بیٹے کو، اس کی بیوی کو سلام کیا اور پھر وہ دونوں بہنیں اور ان کا چھوٹا بھائی جس نے صرف ایک میلی چکٹ قمیض پہن رکھی تھی، اور جو میری عینک کو صرف دیکھ کے ہنستا تھا، وہ تینوں مجھے ڈھلوان سے آگے راستہ بتانے کے لئے آئے اور جب وہ مجھے راستہ پر لگا چکے تو چشمے کے کنارے کھیلنے بیٹھ گئے اور شاید دوسرے لمحے ہی میں مجھے بھول گئے۔
لیکن میں انہیں نہیں بھولا ہوں۔ وہ بے لوث ہنسی، وہ پاک محبت، مہر و وفا کی وہ مقدس نشانی جو اس زندگی کے سفر میں ایک انسان دوسرے انسان کو دیتا ہے وہ آج بھی میرے سینے میں اسی طرح محفوظ ہے۔

مجھے کشمیر گئے ہوئے مدتیں گزر گئیں، اس عرصہ میں کشمیر بہت بدل چکا ہے کیونکہ یہ جنت نظیر ملک انسانی جنت ہے اور انسانوں کی جنت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ میں نے اس زمانے میں بھی، اس جنت میں دوزخ کے دہکتے ہوئے انگارے دیکھے تھے، نکہت و یاس کے مرقعے ، افلاس کے بہیمانہ نقوش ، حسن فردوس کی خرید و فروخت! میں جانتا تھا یہ دہکتے ہوئے انگارے ایک روز بھڑک کر آتش فشاں جوالا مکھی بن جائیں گے اور یہ لاوا دور دور تک کشمیر کے حسین مرغزاروں اور وادیوں میں پھیل جائے گا اور وہی ہوا جس کا مجھے اندیشہ تھا اور کشمیر کی حسین و جمیل وادی خاک و خون میں لتھڑ گئی۔

اور آج میں اپنی جنت نظیرسے بہت دور بیٹھا ہوں اور آج میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کہاں ہے جو طلوع آفتاب سے پہلے جھیل ولر کے بیچ میں اپنے نوزائیدہ بچے کے لئے مجسم دعا بن کے کھڑی تھی اس کا خاوند کہاں جو دونوں ہاتھ چپوؤں پر رکھے اس کشتی میں بیٹھا تھا اور اپنی بیوی کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ آج میں نہیں کہہ سکتا کہ کشمیر کی اس عظیم کش مکش نے انہیں کہاں پہنچا دیا ہے لیکن وہ جہاں کہیں بھی ہوں انہیں میرا سلام پہنچے۔

شاید وہ آلوچے کا پیڑآج پھولوں سے لدا نہیں ہے یہ بھی ممکن ہے کہ مکئی کے ڈھلوان کھیت میں کسی نے ہل نہ چلایا ہو، شاید وہ بڈھا موچی اپنے گھر کی سرخ بجری کی چھت پر چمڑا نہیں کما رہا بلکہ کسی سڑک کے کنارے پتھر کوٹ رہا ہے اور اس کا بیٹا اس عظیم کش مکش میں اپنی بہنوں کی عصمت کے لئے لڑتے لڑتے مارا گیا ہے۔ شاید آج مکئی کے کھیت میں گھاس سے چھتے ہوئے مچان پر ایک بیوہ بیٹھی ہے ، جس کی کالی چدر میں نیا کشمیر دودھ پی رہا ہے۔

ممکن ہے یہ سب کچھ صحیح ہو لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ کشمیر ہمیشہ جنت نظیر رہے گا اس خاک و خون میں لتھڑی ہوئی وادی کو اس کے بچے خود بسائیں گے، آلوچے کے پیڑ میں پھر سے پھول کھلیں گے، مکئی کے کھیتوں میں سنہرے دانوں والے بھٹے پھر سے نظر آئیں، مٹی کے پیالے میں چاول اور ساگ اور مکھن ہوگا اور بہنوں کی ہنسی ہوگی اور بھائیوں کے قہقہے۔۔۔۔!
فیروز پوری نالے کے اوپر ایک پن چکی ہے، یہاں پتھر کے دو پاٹ تیزی سے گھوم رہے ہیں۔ پانی پن چکی سے آبشار کی طرح گر رہا ہے قریب ہی گھاس کے قطعے میں لمبے لمبے ڈنٹھلوں پر بڑے بڑے سفید پھول جھکے ہوئے ہیں اور ساری فضا میں سونف کے پودوں کی خوشبو ہے۔ میں نے اس مقام پر لیٹے لیٹے گور کی کا ناول "ماں" پڑھا تھا۔
آج میں پھر وہیں جانا چاہتا ہوں اور پن چکی کے قریب بیٹھ کے وہی ناول پڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ میرا یقین ہے کہ کشمیر کی دھرتی، گورکی کی "ماں" ہے وہ دھرتی میری ماں بھی ہے لوگ کہتے ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے ۔

Kashmir ko salaam. Short story by: Krishan-Chander.
Raza Naeem translates Krishan Chander's short story 'Kashmir ko Salam' in English.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں