میری کامیابی والد کی نصیحتوں کی دین - امیتابھ بچن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-11

میری کامیابی والد کی نصیحتوں کی دین - امیتابھ بچن

amitabh-bachchan-bollywood-legend
Happy Birthday to the star of the millennium
#HappyBirthdayAmitabhBachchan @SrBachchan
پرانے امیتابھ بچن کے بارے میں نئی باتیں
"میری کامیابی پتاجی کی تین نصیحتوں کی دین ہے!" : امیتابھ بچن
مضمون : ایس۔این۔کھوسلہ (شائع شدہ: ماہنامہ 'شمع' ، جنوری 1989)

ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں امیتابھ نے ایک نئے دور کی شروعات کی تھی۔ وہ ایک مسلک، ایک ادارہ، ایک روایت بن چکا ہے ۔ اس نے ثابت کر دکھایا ہے کہ اس کے فن کی گہرائی اور تاثر کی عمر بہت زیادہ ہے ، اس کی شہرت اور مقبولیت کا رنگ وقت کے ہاتھوں پھیکا نہیں پڑا ہے ۔ وہ پردے پر ہی نہیں، نجی زندگی میں بھی ایک مختلف حصوں میں بٹی ہوئی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کی ذات میں بہت سی رنگا رنگ خصوصیتیں جمع ہیں، جو باری باری سے دھوپ چھاؤں کی طرح اس کی فلموں میں کبھی نمایاں، کبھی نظروں سے اوجھل ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بلا کا خود پرست ہے ۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر اس کی بیوی جیہ بہادری نے بھی کہا تھا کہ"امیت کوئی مٹی کے مادھو تو ہیں نہیں، وہ کوئی رشی منی بھی نہیں ہیں۔"
امیتابھ کو اگر کامیابی حاصل کرتے رہنے کا جنون ہے تو اتنا ہی جنون فنی کمال پیش کرنے کا بھی ہے، اسی لئے امیتابھ نے اگر بہت سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا ہے تو بہت سے لوگوں کو برگشتہ بھی کیا ہے ، اس کی طبیعت میں طوفانی شدت ہے۔ کسی فلم کے پروجیکٹ میں جب وہ کود پڑتا ہے تو اس اندازسے جیسے اس کے اندر کوئی سیماب یا آسیب سمایا ہو ۔
امیتابھ کی شدت پسندی کا اس کی نجی زندگی پر کیسا ہی اثر پڑا ہو، فلموں میں تو اسے اپنی اس خصوصیت سے فیض ہی فیض پہنچا ہے ۔ پردے پر وہ زندگی کی قوت بن کر ابھرتا ہے اور دیکھنے والوں کے دلوں میں گھرکرلیتا ہے ۔ مجھے اس کی فلم شہنشاہ کا ایک پوسٹر یاد آرہاہے ، جواس کے بمبئی کے ڈسٹری بیوٹر نے خاص طور سے تیار کرایا تھا۔ کیا شان تھی! کیا دبدبہ تھا ! ایسا لگتا تھا کہ اس شہ زور شخص کو کوئی نہیں روک سکتا، کوئی نہیں ہرا سکتا، زمانہ اسکے قدموں میں جھکنے پر مجبور ہے ۔ کبھی کبھی امیتابھ اداکاری میں مبالغہ بھی شامل کردیتا ہے۔ ماردھاڑ کے منظروں میں کبھی کبھی وہ انسان کم اور وحشی درندہ زیادہ نظر آتا ہے ۔ اس کا جسم اس کے ہاتھ پاؤں، اس کی اڑان سے ملتی چھلانگیں اور لاتیں، بجلی کی سی تیزی سے پڑتے ہوئے مکے، کوندوں کی طرح لپکتے ہوئے وار دشمن کے لئے موت کے پیامی بن جاتے ہیںاور اس کے باوجود تماشائیوں کو ان میں زبردست کشش، وقار اور دل کشی نظر آتی ہے ۔

امیتابھ کی عہد سا فلم "زنجیر" 1973ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔ ان دنوں راجیش کھنہ کا دور تھا۔ سب یہی کہتے اور سمجھتے تھے کہ راجیش جیسے سپر اسٹار کو کوئی بھی مات نہیں دے سکتا ، کوئی بھی اس کی جگہ نہیں چھین سکتا ۔ لیکن امیتابھ نے ایک ہی ضرب سے اس دیو قامت بت کو پاش پاش کردیا ۔ اس نے تماشائیوں کو وہ نعمت فراہم کی جس کی وہ آرزو کررہے تھے، پل بھر میں تماشائیوں کو احساس ہوگیا کہ وہ اسی شے کی تلاش میں تھے ۔ پلک جھپکتے میں رومانی فلموں کے دن ہوا ہوگئے ۔ امیتابھ کے پیکر میں عوام کو ظلم او ر نا انصافی کے خلاف اپنے ہی غصے بغاوت اور جنگ کا علامتی پیکر مل گیا۔ اینٹی ہیرو بن کر امیتابھ نے تیزی سے سب سے بڑے اسٹار کا رتبہ حاصل کرلیا ۔ اس نے جو رول کیے وہ اصل زندگی سے کہیں زیادہ بڑے تھے۔ لاوے کی طرح ابلتے ہوئے غصے اور قوت کے ساتھ وہ درجن بھر خطرناک ترین،مہیب ترین بد معاشوں کابھرتا بناتا رہا اور بے بس عوام کو یہ محسوس ہوتا رہا کہ انہوں نے سماج کے دیوزاد شیطانوں سے پورا بدلہ لے لیا ہے ۔ اس طرح امیتابھ سیدھا عوام کے دل میں اتر آیا۔

امیتابھ پہلا ہیرو تھا جو برہم نوجوان کے طور پر جانا پہچانا گیا۔ اصل میں برہم نوجوان کا تصور پہلے پہل برطانیہ میں 1950ء کے لگ بھگ عام ہوا تھا۔ وہاں یہ اصطلاح درمیانہ طبقے کے ان برہم، نوجوان ادیبوں اور شاعروں کے لئے استعمال کی جاتی تھی جنہوں نے رائج نظام کے جبر کے خلاف بغاوت کا پرچم اٹھا رکھا تھا ۔ جان اوسبورن [John Osborne] کا ڈراما LOOK BACK IN ANGER ان دنوں انگلش اسٹیج پر دھوم مچا رہا تھا ۔ ڈرامے کا ہیرو بظاہر الجھا الجھا ، سخت مزاج اور اجڈ دکھائی دیتا تھا، لیکن حقیقت میں کامل انسان کا نمونہ تھا ، اس زمانے میں نئی نسل سماج اور اس کے سڑے گلے نظام پر ہر طرف سے حملے کررہی تھی ۔ وہ اس نظام کو سدھارنا چاہتے تھے اسے بدلنا چاہتے تھے ، ہمارے یہاں یہ لہر ذرا دیر سے آئی۔ لیکن جب آئی تو شعرو ادب کے علاوہ اس نے فلموں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ امیتابھ برہم نوجوان، کی پہلی علامت بنا اور اس طرح بنا کہ کوئی اور اس جیسا نہ بن سکا۔

شروع کی چند اور بعد کی ایک دو فلموں کو چھوڑکر امیتابھ کی ساری فلموں نے باکس آفس پر دولت کی بارش کی ہے ۔ وہ سب کی سب عوامی تفریح کا شاہ کار ثابت ہوئی ہیں۔ اس درمیان ایسی ایسی اختلافی بحثوں میں اس کا نام آیا جنہوں نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی، مگر جب فلموں میں اس کی دوبارہ آمد ہوئی تو اس کا پہلے ہی کی طرح نہایت گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔ یہی نہیں، لوگ کہتے ہیں کہ عوام میں بھی اس کے لئے ابھی تک وہی کریز ہے جو پہلے تھا۔

معاملہ سرکاری سودوں میں کمیشن کا ہو یا انکم ٹیکس کے محکمے کو جل دینے کا،امیتابھ کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے پرستاروں کو اس سے غرض ہی نہیں کہ امیتابھ کسی اسکینڈل میں ملوث ہے یا نہیں۔ جو ہو ولے پارلے کے علاقے میں اس کے بنگلے کے باہر اس کی ایک جھلک دیکھنے کی آرزو مند بھیڑ ہر وقت کھڑی نظر آتی ہے۔ جیسے ہی وہ بنگلے سے نکلتا ہے۔ خلقت اسے بڑھ کر گھیر لیتی ہے، کوئی اس سے ہاتھ ملانے کے جتن کرتاہے، کوئی اسے چھو کر خود کو خوش سمجھتا ہے۔ کسی کو اس کے آٹو گراف پاکر جیسے جنت مل جاتی ہے اور کوئی اس کے پاس کھڑا ہوکر ہی نہال ہوجاتا ہے ۔ جن دنوں وہ کام کرتا ہوتا ہے ۔ ایسا منظر روزانہ اور جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے ۔ اس کے علاوہ ماضی میں لوگ خطوں کے ذریعہ بھی اپنی دیوانہ وار چاہت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اسے ہر ہفتے پرستاروں کے 2500 سے 3000 تک خط ملتے رہے۔

امیتابھ کی بے اندازہ مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے جب میں نے اس کے خیالات جاننا چاہئے تو وہ کہنے لگا:
"شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ تماشائی وہی چاہتے ہیں جو ان کی سمجھ میں آئے۔ ان کے جی کو لگے۔ ان کی اپنی ذہنی رو کے قریب ہو۔ اسی لئے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ طرح طرح کے رول کروں گا۔ آوارہ گرد سے لے کر شورہ پشت مجرم تک، شریف زادے سے لے کر لفنگے تک۔ انتہائی تعلیم یافتہ سے قطعی ان پڑھ تک ۔ میں جانتا ہوں کہ میرے اندر ہر قسم کے رول کرنے کے امکانات ہیں۔ میں بھولابھالا بھی ہوں۔ چالاک اور شاطر بھی۔ گرم جوش پریمی بھی ہوں۔ عورت بیزار بھی ۔ مجھ میں ہر طرح کے جوہر ہیں اور میں ان سب سے کام لینا چاہتا ہوں۔ پھربھی حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ میں بہت کچھ ہوں اور اس کے باوجود کچھ بھی نہیں ہوں، میں بہت سی بڑی سے بڑی فلموں کا ہیرو ہوں ۔ میرا ایک نمایاں مقام ہے ۔ اور پھر بھی میرا کوئی مقام نہیں ہے۔ میرا مطلب ہے کہ میں نہ کوئی لارنس آلیویر ہوں، نہ کوئی مارلن برانڈو۔"

amitabh-bachchan
امیتابھ عموماً پریس سے الگ تھلگ ہی رہتا ہے ۔ اس سلسلے میں اس نے مجھے بتایا:
"مجھے پریس پر ذرا بھی بھروسا نہیں۔ ہاں اپنے تماشائیوں پر ضرور مجھے پورا اعتماد ہے۔ بہترین جج وہی ہیں۔ وہ نہ کسی کے دھوکے میں آتے ہیں۔ نہ بہلائے پھسلائے ہیں۔ وہ نہ جھوٹ بولتے ہیں، نہ جھوٹ کا اثر قبول کرتے ہیں۔ پچھلے چند برس میں عوام کی یہ کھری عادت پوری طرح واضح ہوچکی ہے۔اس کے برعکس اخباروں رسالوں میں چٹپٹی باتیں ہانکنے والے ا س طرح میرا ذکر کرتے ہیں۔ جیسے برائیاں نکالنے اور کیڑے ڈالنے کے کسی 20 نکاتی پروگرام پر عمل کر رہے ہوں۔"

کسی بھی کسوٹی پر پرکھا جائے ۔ یہ ماننا پڑے گا کہ امیتابھ عوام کو تفریح مہیا کرنے والا ہمہ گیر آرٹسٹ ہے۔ ہندوستان نے کسی بھی دور میں اس سے بڑھ کر عوام کو متاثر کرنے والا فن کار پیدا نہیں کیا۔ وہ اپنی آمادگی ظاہر کرکے کسی بھی پروڈیوسر کو سرمایہ دلوا سکتا ہے ، چاہے پروڈیوسر اپنی ظلم کا موضوع ہمالیہ کی سائنسی کھوج ہی کیوں نہ رکھے ۔ ملک میں یا ملک سے باہر ہندوستانی فلمیں دیکھنے والوں میں ایک شخص بھی ایسا نہ ملے گا جس نے امیتابھ کو پردے پر نہ دیکھا ہو۔ اپنے پرستاروں کی چاہت اور دعاؤں کی یاد تازہ کرتے ہوئے امیتابھ نے مجھے بتایا:" آرٹسٹ میں بناوٹ کا شائبہ بھی دکھائی دے تو پرستار اس کی طرف سے مونہہ موڑ لیتے ہیں۔ لیکن آرٹسٹ سچا، کھرا اور مختلف ہو تو پرستار اس کے اور بھی قریب آجاتے ہیں۔ پھر وہ اسے ٹوٹ کر چاہتے ہیں۔ وہ خود بھی نہیں جانتے کہ سچ اور جھوٹ ، ریاکاری اور خلوص کا فرق وہ کس طرح معلوم کرلیتے ہیں ۔ وہ فلسفہ طرازی کے قائل نہیں ہوتے لیکن پھر بھی وہ پرکھ لیتے ہیں کہ کیاکھرا ہے ، کیا کھوٹا۔ الگ الگ فرد کے طور پر ممکن ہے انہیں عقل سے کورا سمجھاجائے، لیکن گروہ کے طور پر ان کی سوجھ بوجھ کا جواب نہیں ہوتا۔"

افواہیں، اختلافی رائیں، سرگوشیاں اور حاشیہ آرائیاں امیتابھ کو اکثر نشانہ بناتی رہی ہیں۔ سب سے زیادہ اور سب سے بڑھ کر سازش آمیز چرچا یہ رہا ہے کہ اس کے ساتھ کام کرنا بہت دشوار ہے ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسے ہدایت کار کو ہدایتیں دینے کی عادت ہے ۔ لیکن طاقت اور اختیار تو یوں بھی لوگوں کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ بہت سے لوگ فلم میکنگ کو بھی طاقت اور اختیار کے خانوں میں سمیٹ کر جائزہ لینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ان کے خیال میں فلم میکنگ انا کے مسلسل ٹکراؤ کا عمل ہے۔ ایک طرف ڈائریکٹر ہر معاملے میں خود کو بر حق سمجھتا ہے ۔ دوسری طرف ایکٹر ہر وقت اپنے چہرے اور حلئے، لفظوں اور مکالموں کو بنیادبناکر بکھیڑے پیدا کرتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے ، اس طرح کی باتوں کی اصلیت اور حقیقت جاننے کا کوئی طریقہ نہیں۔ مگر یہ طے ہے کہ اداکار اور ہدایت کار کا رشتہ بہت قریبی ہے ۔ یا یوں کئے کہ اسے بہت قریبی ہونا چاہئے یا ہونا پڑتا ہے ۔ باہر کا آدمی دونوں کا پورا کام یعنی فلم دیکھ کر ہی اس رشتے کے بارے میں کچھ اندازے لگا سکتا ہے ۔ اور یہیں امیتابھ کی جیت صاف نظر آتی ہے، اچھی اداکاری امیتابھ کی سب سے بڑی قوت ہے اس سلسلے مین میرے سوال کا جواب امیتابھ نے ذرا انوکھے انداز میں دیا:
"میرے رائے میں میرا سب سے بڑا سرمایہ میری فطرت ہے ۔ یا چاہیں تو اسے فطری ذوق کہہ لیجئے ۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کبھی میں مکالموں کی ادائی میں کوئی عیب دیکھتا ہوں یا کوئی کمی محسوس کرتا ہوں تو میرے دل پر چوٹ سی لگتی ہے۔ اداکاری سنگیت کی طرح ہے اس میں بھی سر تال کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ذرا سا بھی بے سرایا بے تال ہونے پر اداکار کو خود ہی احساس ہوجاتا ہے ۔ یہ سرتال اداکار کو اس کے دل کی دھڑکنیں، اس کی نبض کی رفتار فراہم کرتی ہیں۔ اس کا سارا فن ان ہی کے تابع رہتا ہے ۔ سرتال کے خلاف کوئی جائے تو فوراً جھٹکا محسوس ہوتا ہے ۔"

"پھر تو سر تال کا پورا خیال رکھنے کی غرض سے آپ کو ئی فلم قبول کرنے سے پہلے اس کا اسکرپٹ بھی ضرور پڑھتے ہوں گے۔۔؟"میں نے پوچھا۔
" جی ہاں۔" امیتابھ کا جواب تھا:
"میں اسکرپٹ بھی پڑھتا ہوں اور یہ جاننے کے لئے آنکھیں اور کان بھی کھلے رکھتا ہوں کہ لوگ کیا کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک خیال، ایک فیصلہ میرے ذہن میں ابھر آتا ہے اور میں اس پہلے اور فطری فیصلے پر ہی قائم رہتا ہوں ، زیادہ کھوج کرنا میرے لئے یوں بھی ممکن نہیں کہ میں بلا کا کاہل ہوں ۔ اگر آدمی کو خود پر یقین اور اعتماد ہو تو اس کی کارگزاری اچھی ہی رہتی ہے ۔ میں جھجک یا شک کی حالت میں اداکاری کبھی نہیں کرتا۔ جھجک یا شک کے ساتھ کام کرنا تماشائیوں کو کھو دینے کی طرف پہلا قدم ہے ۔ اداکار کے ذہن میں شک ذرہ برابر بھی ہو تو لوگ اس کی ہر صلاحیت پر شبہ کرنے لگتے ہیں۔"

امیتابھ کو اس بات کی بہت فکر رہتی ہے ، کہ وہ کیسا نظر آتا ہے ۔ شاید اسے خود پسندی کہا جائے۔لیکن خود پسندی اس پیشے کا تقاضا بھی ہے جسے اس نے اپنا رکھا ہے۔ اسے اپنے آپ سے پیار ہے ، اپنا سراپا عزیز ہے ، لوگوں کی تعریفی نظریں اچھی لگتی ہیں۔ فلموں میں اور فلموں سے باہر وہ سب سے زیادہ خوش پوش اداکاروں میں سے ایک ہے ۔ اس کے ساتھ وہ خود کو فطری اداکار بھی قرار دیتا ہے۔ اور اس میں شک بھی نہیں کہ اس میں زبردست فطری صلاحیتیں اور امکانات ہیں۔ کبھی کبھی اسے کام کے وقت غیر ضروری تفصیلات کے بارے میں پریشان ہوتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے ۔ مگر اس وقت بھی شاید وہ سین کے اندر کسی اہم مرحلے کے لئے خود کو آزاد کرنے کی غیر ارادی دھن میں ہوتا ہے ، اس طرح کہ اس اہم مرحلے کے باب میں وہ سوچ بچار بھی نہیں کرتا ہوتا ۔ اس سلسلے میں اس نے کہا ۔"آج کل میں کام میں زیادہ کاہلی دکھانے لگا ہوں، لیکن اسکا مطلب یہ ہے کہ ان تفصیلات کی پروا مجھے پہلے سے کم رہنے لگی ہے جن کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔"

شہرت شہد کی مکھی کی طرح ہے ۔ یہ دور دور تک اڑتی ہے، میٹھا راگ گاتی ہے، میٹھا شہد دیتی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ یہ ڈنک بھی مارتی ہے ۔ امیتابھ نے مجھے بتایا :
"شہرت کی قیمت تو ادا کرنی ہی پڑتی ہے، اگر میں باقی لوگوں کی طرح رات کو بستر پر لیٹتے ہی نیند کی گود میں پہنچ جایا کروں تو ا س انداز کی اداکاری نہ کرسکوں گا جیسی کیا کرتا ہوں ۔ زیادہ مصروف رہنے میں ایک خرابی یہ ہے کہ یا تو آدمی دوسروں کو نظر انداز کرنے لگتا ہے اور اس طرح ان کو دکھ دیتا ہے ، یا اپنے آپ کو نظر انداز کرنے لگتا ہے اور اس طرح خود کو تکلیف پہنچاتا ہے ۔" کچھ پل بعد وہ جیسے اپنی ذات کے نہاں خانوں میں جھانکتے ہوئے بولا" شاید کام ایک چھوٹا سا ٹارچر چیمبر(عذاب گھر) ہے ۔ آدمی وہاں خود کو اس لیے اذیت دیتا ہے کہ باہر کی دنیا سے الگ تھلگ اور محفوظ رہے ۔ کبھی کبھی اس طرح کے سینے میں بھی دیکھتا ہوں کہ چلتے چلتے یکایک ٹھٹک کر رک گیا ہوں ۔ سڑک کے کنارے بنے ہوئے ایک چھوٹے سے ریستوران میں گھس جاتا ہوں ، وہاں چائے پیتا ہوں ، پھر ساحل کی طرف نکل جاتا ہوں اور نہایت آزادی اور بے پروائی کے ساتھ گھومتا پھرتا ہوں ، بنیادی طورپر آدمی احمق ہے ۔ وہ کسی حال میں پوری طرح خوش نہیں رہ سکتا ۔ اور اگر کام یابی اتنی زیادہ نصیب میں آئی ہو جو آج کے بیتے ہوئے دن کو یاد رکھنے کی بھی مہلت دے دے تو اس صورت میں خوشی صرف فی صد تناسب کا سوال بن جاتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر پچاس فیصد بھی خوشی حاصل ہوجائے تو آدمی کو اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہئے۔"

کچھ جرنلسٹوں کی شکایت ہے کہ امیتابھ ان سے سر د مہری اور بے مروتی سے پیش آتا ہے بعض صورتوں میں اس شکایت کو بے بنیاد بھی نہیں کہاجاسکتا ۔ اگر اس کی ملاقاتیں کسی ایسے شخص سے ہو جو اسے اچھا نہ لگے تو وہ پلک جھپکتے میں خود کو قلعہ بند کرلیتا ہے ، ناگوار حالات اور ناپسندیدہ لوگوں کی طرف سے وہ نظریں پھیرنے کو ہی بہتر سمجھتا ہے یہی اس کی بیزاری کا خاموش اعلان ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے کبھی کبھی اسے "پتھر کے چہرے والی عظمت" کے خطاب سے نوازتے ہیں۔ یہ ماجرا بہت بار دیکھا جاچکا ہے کہ امیتابھ سے کسی نے کوئی سوا ل پوچھا اور امیتابھ اسے بس خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہا ۔ جیسے وہ شخص اس کے سامنے موجود نہ ہو، یا جیسے اس شخص نے کسی اور آدمی سے سوال پوچھاہو۔ لیکن امیتابھ جن چاہتا ہے تو بے پناہ پرکشش اور دل نواز بھی بن جاتا ہے ۔ اپنی ان ہی خصوصیتوں کے باعث وہ کہیں الگ تھلگ رہنے والا مشہور ہوگیا ہے ۔ کہیں ترنگ کا مارا کہیں کسی کو بھی خاطر میں نہ لانے والا اور کہیں بد لحاظ اور سخت کلام ۔ لیکن باقی ساری باتوں کی طرح اب اس کے موڈ بھی کافی حد تک اس کے قابو میں ہی رہتے ہیں۔
ظاہر ہے بے نیازی کے باوجود امیتابھ کا مشاہدہ بہت تیز ہے ۔ فلموں سے لے کر سامنے آنے والے آدمیوں کے خدوخال اور کرداری خصوصیتوں تک، ساری چیزیں اس کے ذہن میں میں محفوظ ہوتی رہتی ہیں ۔ یادداشت کا یہ حال ہے کہ برسوں پہلے صرف ایک بار جو فون نمبر اس نے سنا تھا، برسوں بعد بھی اسے یاد رہا ہے ۔ صرف دو مرتبہ پڑھ لینے کے بعد مکالمے اسے ازبر ہوجاتے ہیں۔ لہجوں اور بولیوں پر تو اسے کمال کی قدرت حاصل ہے ۔ میرے ایک سوال کے جواب میں اس نے اپنی ذات پر سے ایک اور پردہ ہٹایا: "میں نیوراتی نہیں ہوں، مجھے خبطی سمجھنا شاید زیادتی ہوگی لیکن میرا خیال ہے کہ اداکاری ہی کیا، سارے فنون آدمی کو دوسروں سے کچھ الگ کچھ انوکھا ضرور بنادیتے ہیں ۔ کچھ ایسی گتھیاں آرٹسٹ کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں جنہیں اوسط یا نارمل نہیں سمجھاجاتا ۔ خود آرٹسٹ کے لئے ان کیفیتوں کے ساتھ جینا زیادہ آسان نہیں ہوتا۔اسی لئے کبھی وہ جلد پریشان ہوجاتا ہے ، کبھی جھلانے لگتا ہے ، کبھی بے صبری دکھاتا ہے کبھی چڑ چڑا نظر آتا ہے ، صرف نجی زندگی کی تنہائی اسے سکون دیتی ہے ، وہ بھی اس صورت میں جب اس تنہائی میں کوئی تاک جھانک نہ کرے۔"

امیتابھی خبط کی حد تک صفائی پسند ہے ۔ شوٹنگ کے مواقع کو چھوڑ کر آج کل وہ بے داغ کرتے پاجامے اور قیمتی شال میں ملبوس رہتا ہے ، جن لوگوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے ، ان کو وہ پہلی ہی نظر میں چار زمروں میں سے کسی ایک زمرے میں رکھ دیتا ہے ۔ بے حد گندے اوسط درجے کے گندے، حفیف سے گندے اور اوسط درجے کے صاف!
بات چیت ختم ہونے کو ہوئی تو چلتے چلتے میں نے ایک سوال اور پوچھ لیا:
"آپ کی ایسی شان دار کامیابی کا راز کیا ہے؟"
امیتابھ کا جواب خاصا چونکا دینے والا تھا:
تین نصیحتیں۔۔۔ میری کامیابی میرے پتاجی کی تین نصیحتوں کی دین ہے ۔
  1. پہلی نصیحت یہ تھی کہ ہمیشہ وعدے کے پکے رہو ۔
  2. دوسری یہ کہ شریف آدمی جان بوجھ کر کسی کی بھی بے عزتی نہیں کرتے، چاہے وہ عمر یا رتبے میں چھوٹا ہو ، یا بڑا ۔
  3. اور تیسری یہ کہ مصیبت کی تلاش میں نہ رہو، لیکن اگر آفت سامنے آہی جائے تو جیت تمہاری ہونی چاہئے۔

ماخوذ:
ماہنامہ "شمع" نئی دہلی۔ شمارہ: جنوری 1989۔

My success is due to my father's advices, Amitabh Bachchan. Article: S. N. Khosla

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں