تحریک احیائے علوم کے مورخوں نے بڑی نکتہ طرازی سے کام لے کر کہا تھا کہ مذہب اور آرٹ میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ ڈیوڈ کا مجسمہ اور آخری عشائیے ربانی کی تصویر آج تک نہ صرف نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے بلکہ دلوں کو حیرت میں لاتی ہے ۔ لکھنؤ میں یہ ساتھ یعنی مذہب اور ادب کا اشتراک عین ممکن ہے کہ فرار کے وسیلہ کی حیثیت ہی سے شروع ہوا ہو لیکن جب مرثیہ گوئی نے اپنے قدم جما لئے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ ادب غیر مانوس ماحول میں نہیں بلکہ نہایت مناسب موزوں اور مانوس زمین میں جڑیں پکڑ رہا ہے ۔
مرثیہ گوئی کی ادبی اہمیت صرف اسی اعتبار سے نہیں کہ جس چیز کو یہ موضوع سخن بناتی ہے۔ وہ حزینہ کے نہایت کامیاب عناصر اپنے اندر مخفی رکھتی ہے بلکہ اس لئے بھی ہے کہ مرثیہ نگاری کے کچھ آداب مقرر ہوئے اور رفتہ رفتہ ان آداب نے ایک مختلف اور مستقل صنفی حیثیت اختیار کرلی۔
مثال کے طور پر سلام پڑھنا یا رباعیات پڑھنا مرثیہ خوانی کا جزو لازم تھا، لیکن ایک فضا قائم کرنے کے لئے اور تاثر کا ایک سرہند دائرہ بنانے کے لئے سلام اور رباعیات لکھی گئیں۔ ظاہر ہے کہ مداح شہ ذی حاہ امراء اور کبرا کا مداح نہیں ہو سکتا تھا ۔ اس سے طبیعت میں جو استغنا اور تخلیقی لگن میں صناعانہ بے پرواہی پیدا ہوتی ہے وہ سلام اور رباعی کی جان ہے۔
بالفاظ دیگر لکھنؤ کی ثقافتی زندگی نے صرف مرثیہ ہی پیدا نہیں کیا بلکہ مرثیہ کے وہ لوازم بھی تخلیق کئے جنہیں ہم سلام اور رباعیان کہتے ہیں۔ آج اگر مرثیہ گو شعراء کی رباعیات اردو کے دامن مالا مال سے خارج کر دی جائیں تو باقی کیا رہے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو رہے گا اس کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہوگی ۔ بالفاظ دیگر صنف رباعی کا فروغ دار تقاضہ خالصتاً لکھنؤی ثقافت، مذہبی تحریکات اور مرثیہ نویسی کا نتیجہ ہے۔
جن لوگوں نے عزا کی مجلسی سنی ہیں۔ وہ اس بات کے شاہد ہوں گے کہ سوز خوانی سے پہلے چھوٹے چھوٹے بچے نہایت سلیقے سے رباعیات پڑھتے ہیں۔ خود مرثیہ نگاری بھی رباعی ہے ۔ اس چیز کا کام لیتا ہے جسے یونانی ڈرامہ میں 'ابتدایہ' کہتے تھے ۔ جب مرثیہ خوان سلام کا یہ شعر پڑھتا ہے۔
غیر کی مداح کروں شہ کا ثنا خواں ہو کر
مجرئی اپنی ہوا کھوؤں سلیمان ہو کر
تو ہم پر عظمت اور ایک ہیبت کا شعور طاری ہوتا ہے اور ہم اس فضا میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں مرثیے کو اپنا صحیح کام کرنا ہے بالفاظ دیگر مرثیہ نویسوں نے لکھنؤی ثقافت کے اخلاقی اقدار کو نہایت خوبی سے رباعیوں اور سلاموں کے ذریعے اردو میں منتقل کیا۔ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ لکھنؤی معاشرت زوال پذیر تھی اس لئے یہ سلام اور رباعیاں معاشرت کی تخلیق نہیں ہیں تو وہ یہ دعویٰ کر رہا ہوگا کہ انیس دبیر اور دوسرے مرثیہ گو شعرا ذہنی طور پر دیانت دار نہیں ہیں۔ اس دعوی کو قبول کرلینے سے یہ دعویٰ قبول کرلینا بہتر ہے کہ محرم کے ایام ہی میں سہی لکھنؤ والے اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تبلیغ کی طرف متوجہ ضرور ہوتے تھے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ تقسیم ملک کے بعد لکھنؤ میں مطلقاً فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا ۔ اس دعوی کے نتائج و عواقب پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ایک ایسے ذہنی خلا ملا کی خبر دیتے ہیں جس میں ہند و اور مسلمان برابر کے شریک تھے اور اس امر پر یقین ہو جاتا ہے کہ انسان اقدار سے زندہ رہتا ہے، روپے سے نہیں۔ روپے کے ذریعہ انسان صرف سانس لیتا ہے ۔ اور زندگی سانس لینے سے بالکل مختلف چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی میں بے ثمر زندگی بسر کرنے کو 'ویجی ٹنے ٹنگ' Vegetating کہتے ہیں کہ سانس تو نباتات بھی لیتے ہیں۔
خود مرثیہ گو شعراء کی زندگی ان کے سلاموں اور ان کی رباعیات کی اقدار کی ترجمانی ہوتی تھی۔ شعراء کے متعلق کیسی کیسی فضیحتوں کا ذکر زبانوں پر آیا لیکن مرثیہ گو شعراء کا دامن ان بیہودگیوں سے پاک رہا۔ ان کے سلام ان کی رباعیان فی الواقع ان کے اخلاقی اقدار کی ترجمان ہوتی تھیں۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک گروہ کا گروہ اخلاقی اقدار کا حامل اور ثقافتی پیراہن اس رنگ سے خالی رہے ۔ اس اعتبار سے انیس و دبیر اور دوسرے مرثیہ گو شعراء کی کاوشیں نہایت اہم اخلاقی قدر و قیمت کی حامل ہیں کہ انہوں ںے ثقافت کے تانے بانے میں سے موسیقی کی دلچسپی کو کم کر کے عوام کو مرثیہ کی خوبصورتی کی طرف متوجہ کیا۔
یہ بالکل اور سوال ہے کہ جن اقدار کے یہ سلام اور رباعیات ترجمان تھے ان کا اثر بالعموم لوگوں پر کیا ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ جو چیز پہلے موسیقی کی سرتیوں سے شروع ہوئی تھی وہ مہذب ہو کر سلاموں کی دھنوں پر آٹھہری ۔ اس تنقیہ اور تہذیب کا سہرا مرثیہ نگاروں کے سر ہے۔
بے تکلف یہ دعویٰ کیاجا سکتا ہے کہ اگر یہ مرثیہ نگار اپنے سلام، مرثیے اور رباعیات لے کر میدان میں نہ آتے تو آج آپ صرف کرشن اور گوپیوں کی ٹھمریاں اور غزل سنتے اور اودھ کا ثقافتی تنقیہ بالکل ناممکن ہو جاتا ۔ یوں تو اس جاگیردارانہ تہذیب کو مرنا تھا مر کے رہی لیکن جن اقدار کو جنم دے گئی وہ اب تک زندہ اور پائندہ ہیں۔ موسیقی کا شوق، شعر کا ذوق سلام و رباعی اور مرثیہ نویسی کی بدولت زندہ رہا ۔
غزل کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن آخری دور کے لکھنؤ شعراء کی غزل بلکہ مثنوی میں بھی جذبات کا توازن معدوم ہو چکا تھا۔ صحیح شعری ذوق اور سلیقہ جو مرثیہ گو شعراء کے ہاں ہے دوسرے کے ہاں اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے ۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب گردش روزگار نے یہ ناممکن بنا دیا کہ ڈیرہ دار طوائفوں کے نخرے اٹھائے جائیں تو اہل دل نے جن کے کانوں میں رس بھری سرین گونجتی تھیں، مرثیے سلام اور رباعی کی طرف رجوع کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنؤ میں دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا اور اب تک وہاں کے مرثیہ گو پنجاب میں یا ملک کے دوسرے خطوں میں مرثیہ پڑھنے کے لئے پہنچتے ہیں ۔ روایت کی اتنی تہذیب اور اس کا اتنا تسلسل اور تواتر صرف لکھنؤی مرثیہ گویوں کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔ جب یہ لوگ باقی نہ رہے تو سیماب اور جوش جیسے چوٹی کے شعراء منقبت اور مرثیہ لکھنے لگے ۔ اگر یہ لکھنؤ کا اثر نہیں تو پھر کس چیز کا اثر ہے!
مختصر یہ کہ اودھ کی ثقافتی زندگی کی تہذیب اور اس کا تتقیہ مرثیے کے ذریعے ہو گیا۔ فرمان روایان اودھ نے مضحکانہ حرکات بھی کیں لیکن ان سے عمومی زندگی کے کوائف میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ماخوذ از کتاب:
اردو مرثیے میں مرزا دبیر کا مقام۔ (سن اشاعت: 1976 ، لاہور)
تالیف: ڈاکٹر مظفر حسن ملک
اردو مرثیے میں مرزا دبیر کا مقام۔ (سن اشاعت: 1976 ، لاہور)
تالیف: ڈاکٹر مظفر حسن ملک
Urdu Marsiya effect on Lucknow culture. by: Dr. Muzaffar Hasan Malik
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں