چل دیئے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں
جدید اردو افسانے میں ہجرت کے موضوع کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس کے پس منظر میں نہ صرف 1947 کی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی نقل مکانی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی ہجرتوں کا احاطہ یوروپ کی خواتین افسانہ نگاروں نے بھی کیا ہے۔
ان جدید خواتین افسانہ نگاروں نے ملک میں ہونے والی تہذیبی اور تاریخی تبدیلیوں کا احساس شدت سے کیا۔ اور سیاسی اور تہذیبی روایتوں کے ٹوٹنے کا درد جن افسانوں میں در آیا ان تخلیقات کا تذکرہ اس مقالے کا موضوع ہے۔
ہندوستانی عوام نے مشترکہ انسانی تہذیب کا خواب بُنا تھا ۔ وہ تہذیب کو تقسیم کرنے کے قائل نہ تھے۔ لیکن تقسیم ہند نے انسانی تاریخ کی ایسی ہجرت کا مشاہدہ کیا جو انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ مگر انسانی جسم سماجی ،معاشی ، اخلاقی اور سیاسی ڈھانچوں کے بکھراؤ کو قبول بھی کرتا ہے اور رد بھی ، اس کے اپنے پیمانے ہیں، اس کے اپنے میزان ہیں، اسی لیے شاید یہودی نوبل انعام یافتہ ادیب نے کہا تھا۔
"بے جڑ کردار (up-root) ادب کا موضوع نہیں بن سکتے۔" (جان اسپنگر)۔
یوروپ میں مقیم خواتین کی زیادہ تر کہانیاں احساسات و تجربات سے مملو ہیں جس میں انہوں نے اپنے مشاہدے اور تجربے سے ہجرت و بے زمینی کے کرب کو اجاگر کیا۔ یہ آج کے دور کا عالمگیر (phenomena) ہے۔
ترکِ وطن یا ہجرت کا مرحلہ ایک المیہ سے کم نہیں ہوتا کیوں کہ ہجرت یا ترکِ وطنی کے ساتھ بے جڑ (uproot) ہونے کا احساس ذہن کو کچوکے لگاتا رہتا ہے۔
ترکِ وطن دراصل پانے سے زیادہ کھونے کا عمل ہے۔ اسی لیے مولانا ابوالکلام آزاد نے جامع مسجد کی سیڑھیوں سے مسلمانانِ دِلی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔
" یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے اس پر غور کرو، اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے پر مجبور کرو اور پھر دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جارہے ہو؟ اور کیوں جارہے ہو؟"
مشمولہ ایوان اردو، ڈسمبر 1988ء
مگر تقسیم ہند کی اتھل پتھل سے مولانا آزاد کی اس پکار کو نظر انداز کردیا ۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں قریب ایک کروڑ لوگوں نے ہجرت کے مراحل طئے کئے۔ ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اس کا حساب وقت نے آج تک نہیں کیا۔ مگر فنکاروں نے اس واقعہ کو فن پاروں کے ذریعہ صفِ قرطاس پر بکھیر دیا۔
مشہور ادیبہ عصمت چغتائی نے "جڑیں" اس افسانے میں مرکزی کردار ’اماں‘ سے جو جملہ کہلوایا وہ تاریخی ہے۔
" وطن نہ ہوا پیر کی جوتی ہوگئی ۔ ذرا تنگ ہوئی پھینکی دوسری لے لی۔"
(جڑیں ۔ صفحہ 166)
تقسیم ہندوپاک سے غیر مطمئن لوگ ہجرت کرکے برطانیہ اور یوروپ کے دوسرے ممالک منتقل ہوگئے لیکن جن لوگوں نے اپنے ملک ، اپنی قوم اور اپنے رشتوں کو پیچھے چھوڑ کر ایک نئی دنیا ، ایک نئے ماحول اور نئی بلکہ اجنبی زبان اور اجنبی سرزمین پر قدم رکھا تو انہوں نے اپنی شناخت کے لئے اپنی مادری زبان میں ادب تخلیق کرنا شروع کیا ، تب تاریخ میں پہلی مرتبہ اردو افسانہ ایسے ممالک میں لکھا جانے لگا جن کی ثقافت اور تہذیب کا مزاج ہندوپاک سے بالکل مختلف تھا۔ اردو ادب میں گذشتہ دہائیوں کے درمیان ایک نئے پہلو کا اضافہ ہوا ، اردو کی نئی بستیوں میں تخلیق ہونے والے اردو ادب کی طرف ہے جسے ہم ہجرت یا مہجری ادب کہہ سکتے ہیں ۔ ان میں شاعری سے زیادہ افسانوں میں ہجرت کا کرب نمایاں ہے۔وہی اس مضمون کا موضوع ہے۔ ان افسانوں کی فضاء بالکل نئی ہے ، لکھنے والوں کا لہجہ مادری زبانوں سے متاثر نظر آتا ہے ۔ خاص طور سے خواتین افسانہ نگار ان سے زیادہ متاثر ہیں۔ ایک طرف ان کے لیے مغربی زندگی کی خوشیاں، مسرتیں، آرائشیں ہیں ، جو انہیں اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ دوسری طرف مشرق کی پائیداری ، کوئل کی کوک، لوک گیت ، کھیت کھلیان ہیں جو ان کی آنکھوں میں محرومیاں بھردیتے ہیں۔
نئے راستے، نئے رشتے، نئے مشاغل کو وہ آہستہ آہستہ گلے لگاتے ہیں اور وہ نئی سرزمین ان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں اور ان کے وطن واپس ہونے کی خواہش آہستہ آہستہ دم توڑدیتی ہے۔ تاریکینِ وطن کی زندگی ہمیشہ حالات کے رحم وکرم پر ہوتی ہے۔ اگر اس کے ملک کے معاشی و سیاسی حالات تبدیل ہوجائیں تو ان تارکینِ وطن کی بقاء بھی خطرے میں آجاتی ہے۔
اس مقالے میں انہیں مہاجر پرندوں کی مجبوریاں رقم ہیں۔ جہاں ان کا غم و ملال کہیں آنسو بن کر چمکتا ہے۔ کہیں بارش کا قطرہ بن کر مسکراتا ہے۔ بادل انہیں محرومی کا احساس دلاتے ہیں، تنہائی عرفان عطاکرتی ہے۔ یہ مہاجر خواتین افسانہ نگار بہت جذباتی انداز میں ہمارے دل کے تاروں کو چھیڑتے ہیں ۔ کورے کاغذ پر دلکش تصاویر اتارتے ہیں ، کبھی روتے ہیں تو کبھی رُلاتے ہیں۔یہ مہاجر ادیب ایک شہر ایک ملک چھوڑ کر اپنے دل کے اندر جہاں آباد کرلیتے ہیں۔ اپنی ذات کا عرفان انہیں خود سے کبھی اجنبی تو کبھی آشنا بنادیتا ہے۔ اور ایسے میں کوئی ان کا ہمدم و رفیق ہے تو وہ ہے ان کا قلم ۔ دل کی پکار ان سے وہ کہانیاں لکھاتی ہیں جو ہجرت کے کرب سے آشنا ہوتی ہیں۔
جرمنی کی ایسی ہی ایک خاتون افسانہ نگار ہیں نعیمہ ضیاء الدین، جن کے تعلق سے کینیڈا کے خالد سہیل نے لکھا کہ
"نعیمہ ضیاء الدین مہاجر ادیبوں کے اس قافلہ کی مسافر ہیں جن کی دو زبانوں، دو تہذیبوں، دو ثقافتوں اور دو معاشروں میں رہنے کے تجربے نے ان کے داخل کی تیسری آنکھ کھول دی ہے، یہ تیسری آنکھ انہیں انسانی روح کی گہرائیوں میں اترنے میں مدد دیتی ہے"۔
(منفرد ۔ بیاٹ فلیپ)
’مہجور" پنجاب کے ایک گاؤں کے دیہاتی شخص جوگندر ناتھ پال کے پنجاب سے جرمنی ہجرت کی کہانی ہے۔ جرمنی میں اسے تارکین وطن کے ریوڑ میں شامل ہوکر گندے قسم کے کام کرنے پڑے۔ وطن میں محبوبہ دوسرے کی شریک حیات بن گئی ، ماں نے اسے تنہا چھوڑدیا اور وہ دل میں ہجرت کے داغ سموئے جیتا رہا ۔ کوئی محلول ان داغوں کو دل سے دھو نہ سکا اور نہ ہی اس میں اتنا حوصلہ پیدا ہوسکا کہ وہ اپنے دل کے ان داغوں کو کھرچ سکے۔ جب ایک سفر کے لئے وہ کیاب (cab)طلب کرتا ہے تب ایک ایشیائی نوجوان سے اس کی ملاقات ہوتی ہے وہ نوجوانcab ڈرائیور بھی ایک مہاجر ہے ۔ رسمی تعارف کے بعد جوگندرناتھ پال اسے مشورہ دیتا ہے ۔
"جب تمہارے پاس کچھ رقم پس انداز ہوجائے تم وطن میں جاکر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کے قابل ہوجائے تو وطن فوراً واپس چلے جانا ۔ ورنہ ہجرت کے ، محبت کے، سفاک اور ظالم تنہائی کے گہرے داغ ہر وقت ڈستے رہیں گے۔
(منفرد۔)
"آپ کو تو اس کا تجربہ ہے۔ " وہ ایشیائی بولا۔
"یہاں رقم کمانا، کس قدر دشوار ہے عمر نکل جاتی ہے ۔ تب مل کر کچھ جمع ہوجاتا ہے۔ اور پس انداز کرنے کے چکر میں لہو جلانا پڑتا ہے۔"
کس قدر اداسی اور بے چارگی تھی اس کے چہرے پر۔
ترک وطن میں واپسی ممکن ہے ، ہجرت میں واپسی کی گنجائش نہیں اور پھر وقت کی حکمرانی سے کون بچا ہے؟
اس افسانے میں نعیمہ ضیاء الدین نے جو کچھ کہنا چاہا وہ کرداروں کے ذریعہ کہہ دیا۔ اپنی فکر کو پیش کرنے سے گریز کیا ۔ اس لئے "مہجور" پال کی کہانی نہیں یہ ہراس مہاجر کی کہانی بن جاتی ہے جو مہجر ہے۔
صفیہ صدیقی کے دو افسانوی مجموعہ "پہلی نسل کاگناہ" اور "چاند کی تلاش " شائع ہوچکے ہیں۔ ان کا آبائی وطن لکھنو ہے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان ہجرت کرگئیں اور شادی کے بعد لندن میں سکونت پذیر ہیں۔ ان کے افسانے بھی اسی غم کی روداد ہیں جس سے کسی مہاجر کو مفر نہیں۔
"پاگل شہر" کا مرکزی کردار پاکستان سے ہجرت کرکے لندن چلاگیا۔ اور برسوں وہیں مقیم رہا۔ اچھا کمانے کے بعد جب اس کے لڑکے لندن میں رچ بس گئے اور وہ خود ریٹائرمنٹ کی زندگی گذارنے لگا تب اسے وطن واپسی کی سوجھی ۔ وہ پینتیس سال بعد مادرِ وطن کے دامن میں قلبی سکون کی تلاش میں واپس چلا آیا اور یہ بھول گیا کہ قلبی سکون یا تو ماں کے گود میں ملتا ہے یا گور میں۔ گود کی عمر تو گنوادی ۔ گور کا سکون اس کے اپنے اعمال پر انحصار کرتا ہے۔
وہ اپنے شہر کی ہر چیز سے پیار کرتا ہے۔ اور ہر خرابی کوگلے لگاتا ہے اسے کسی چیز سے شکایت نہ تھی اسے شکوہ شہر کے گھروں کے بڑے دروازوں سے تھا۔
"بھلا اتنی اونچی اونچی دیواریں بنانے کا کیا مقصد۔ غیر ملک میں ہم شیشے کے دروازے والے گھروں میں رہے۔ اور اپنے ملک میں اپنوں میں رہنے کے لیے اپنے گرد اتنے مضبوط حصار کھینچ رکھے ہیں۔"
(پاگل شہر ۔ صفیہ صدیقی)
اور اس کا اعتماد اس وقت ٹوٹ کر چکنا چور ہوجاتا ہے جب اس کے ہم مذہب اس کے گھر میں ڈاکہ ڈالنے آدھمکتے ہیں اور کچھ نہ ملنے پر مرکزی کردار کو گولی ماردیتے ہیں۔
" میں اپنے وطن کے لیے جان دینا چاہتا تھا لیکن اس طرح تو نہیں۔"
یہ تھا "پاگل شہر " کے اس شہری کا انجام جو اپنے وطن کی یاد میں ان کے رنگین نقوش کو دل پر ثبت کرنے، آخری وقت اپنے ملک کی زیارت کرنے اپنی ہی تہذیب کو گلے لگانے آیا تھا۔ مگر اسے کیا معلوم تھا کہ اب اس کے ملک پر ڈاکوؤں کی حکمرانی ہے۔
اختر اورنیوی ادب میں مقصدیت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔
" ادب کا بنیادی کام یہ ہے کہ زندگی کے راستے پر نئی روشنی ڈالے حیات کے سچے تجربوں سے موزوں نقش ابھارے۔"
(تحقیق و تنقید ۔اختر اور ۔۔۔ صفحہ 17)
صفیہ صدیقی نے موزوں نقش ہی نہیں ابھارے بلکہ اتنے اثر انگیز نقش ہیں کہ سیدھے دل پر اثر انداز ہوجاتے ہیں۔
شاہدہ احمد برصغیر کی خواتین افسانہ نگاروں میں ایک اہم و معتبر نام ہے۔ ان کی زیادہ تر کہانیاں یوروپ کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں ۔ ان کے کرداروں میں دکھ آفاقی ہیں۔ انسانی قدروں کی شکست کا نوحہ ان کے ہاں نمایاں ہے۔
شاہدہ احمد کی کہانی "بیرنگ چٹھی " اگلی نسل کے بہتر مستقبل کی خاطر یوروپ کا سفر کرنے والی اس لڑکی کی کہانی ہے جو آج خود ماں کے روپ میں اپنی بیٹی کے مستقبل سے ہراساں اور خوفزدہ ہے۔ وہ بیٹی جو اپنے وطن میں اپنی ماں کو اپنا انتظار کرتا دیکھ آپے سے باہر ہوجاتی ۔ آج خود انتظار کے دیے جلائے دہلیز پر بیٹھ کر اپنی بیٹی کا انتظار کرتی ہے۔
اماں کو مغرب کی وہ کہانیاں سناتی ہے جو امید افزا ہیں۔ وطن کے نام بے ٹکٹ چٹھی کے وسیلے سے شاہدہ احمد نے مغرب کی ان سچائیوں کا تذکرہ کیاہے جن سے قرار ممکن نہیں۔ مٹھی بھر دھوپ ، نمک لگی کیریاں ، سنترے کی شاخیں یادوں کا ایسا درپن جگاتی ہیں کہ خشک میوے سے بھری ٹوکریاں بھی شرما جائیں۔
ہجرت کا کرب شیریانوں میں خون کے ساتھ دوڑتا ہے۔ مگر لبوں پر "شکر الحمداللہ "، "سب ٹھیک ہے " کی جھوٹی گردان سے اپنے دل کو بہلانا مغرب کی مجبوری کے سودے ہیں۔
وطن کا کرب جملوں میں اس طرح ادا ہوتا ہے۔
"یہ کیسے ممکن ہے۔ گھر بدلنے سے دلی تعلقات اور دماغی سوچ بدل جائے۔ نئے ملک میں نئے رشتے قائم کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ حقیقی رشتوں کو رَد کردیا جائے۔ "
(بیرنگ چٹھی ، ہجرتوں کا بھنور)
سفر کی کوئی تو قیمت چکانی پڑتی ہے۔ بعض سفر ایسے ہوتے ہیں جن میں منزل کا پتہ ہوتا ہے اور بعض سفر انجانی راہوں پر چلتے رہنے کا نام ہے۔
مختصر افسانہ مکمل انسان کی مصوری کا نام نہیں بلکہ کسی ایک رُخ کو اجاگر کرنا افسانہ نگار کا کام ہوتا ہے۔ یہی کام شاہدہ احمد نے کیا اور اس میں مغرب کے ایک رُخ کو کامیابی سے دکھایا جس تجربہ سے وہ گزریں وہ فطری لگتا ہے۔
محترمہ محسنہ جیلانی BBC کے سامعین کے لیے ایک جانا پہچانا نام ہے۔ انہوں نے بھی ہجرت کے موضوع کو اپنے افسانوں میں برتا ہے۔
افسانہ "آخری ہجرت "اس ماں کی کہانی ہے جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کرگئیں۔ اور بیٹا کراچی سے ہجرت کر لندن میں آبسا۔
مغرب میں اولاد کی پرورش کے لیے ماں کو آیا سمجھ کر لندن لے آیا اور ایک حادثہ میں جب وہ معذور ہوجاتی ہے تب بیٹا اور بہو اسے Oldage home چھوڑ آتے ہیں۔
محسنہ جیلانی ریڈیو سے وابستہ رہیں اس لیے انہیں کہانی بُننے کا فن آتا ہے۔ وہ یہ بھی اچھی طرح مانتی ہیں کہ کب کہنا ہے اور کب خاموش رہنا ہے۔
ان کی کہانی ایک ندی کی طرح بہتی ہے اور اپنے ساتھ اچھائیوں کے علاوہ برائیوں کو بھی بہا لے جاتی ہیں۔ وہ کسی رائے سے گریز کرتی ہیں۔ واقعہ شعوری طور پر ان کی ترجمانی کرنے لگتا ہے اور ایک کامیاب افسانہ شاید یہی ہے۔
یہ کہانی ان خواتین افسانہ نگاروں کی رہی جنہوں نے ماضی کی یادوں کا بھاری بوجھ لیے مشرق سے مغرب کی طرف ہجرت کی۔ مختلف عوامل نے ہجرت کی طرف انھیں مائل کیا۔ مغرب کی چمکدار و اعلیٰ اقدار نے انہیں گلے لگایا۔ محرومی ، مایوسی ، خوف ،ا ستحصال سے انہوں نے اپنے آپ کو الگ کیا اور اپنی ایک نئی دنیا بسائی۔
Gonduz Golomu ترکی مصور کے اس قول پر میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں۔
In my country I lost everything. In America I am reborn.
ماخوذ از:
سوونیر برائے: شعبہ اردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد [تلنگانہ] کا ایک روزہ قومی سمینار بعنوان "اردو ادب تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل"۔
***
ڈاکٹر سید شجاعت علی
سابق چیئرمین ، اُردو بورڈ آف اسٹڈیز ،
ایس آر ٹی ، مراٹھواڑہ یونیورسٹی ، ناندیڑ (مہاراشٹر )
سوونیر برائے: شعبہ اردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد [تلنگانہ] کا ایک روزہ قومی سمینار بعنوان "اردو ادب تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل"۔
***
ڈاکٹر سید شجاعت علی
سابق چیئرمین ، اُردو بورڈ آف اسٹڈیز ،
ایس آر ٹی ، مراٹھواڑہ یونیورسٹی ، ناندیڑ (مہاراشٹر )
Migration issues in urdu stories of European Women writers.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں