میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:18 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-09-12

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:18



اردو ڈارلنگ! میں نہ کہتا تھا کہ یہ سب تمہارے دوست، دوست نہیں ہیں بلکہ دوستی کے پردے میں کام کرنے والے دشمن ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ تمہاری آستین میں چھپے ہوئے وہ سانپ ہیں جنہیں تم نے خود ہی دودھ پلا پلا کر پالا ہے اور پال رہی ہو۔ اگر تم اپنی آستین چڑھا لیتیں تو یہ نوبت ہی نہ آتی!
اب تو تم شرٹ اور شلوار نہیں پہنتی ہو ۔ لیکن سنا ہے کہ دلی، لکھنو، حیدرآباد اور دیسی ریاستوں کے درباروں میں تم اس لباس میں جایا کرتی تھیں۔ بادشاہ وقت کے قریب بیٹھی ہوئی اور سر پر اوڑھنی ڈالی ہوئیں۔ دلہن کی طرح جھکی جھکی مسکرایا کرتی تھیں۔ باادب باملاحظہ ہوشیار!
اس وقت کا جب میں تصور کرتا ہوں تو مجھے بے ساختہ ہنسی آ جاتی ہے ۔ بڑی دلچسپی اور چھوئی موئی کی طرح شرمانے والی لگتی ہوں گی۔ لیکن مجھے اس کا یقین ہے کہ اس وقت بھی سب کی نظریں تم پر ہی لگی رہتی ہوں گی۔ البتہ جب میں نے تمہیں ساڑھی میں دیکھا ہے۔ مجھے تو یوں لگا جیسے ساڑھی تمہارے ہی لئے ایجاد ہوئی ہے ۔ کیسی ابھر کر اور کھپ کر نظروں کے سامنے آ جاتی ہو۔ ماشاء اللہ۔ ماشاء اللہ! خدا تمہیں نظربد سے بچائے۔ حالانکہ ہر دیکھنے والا تمہیں نظر لگاتا ہے ۔ کبھی کبھی مجھے یہ خیال ستاتا ہے کہ کہیں میری نظر نہ لگ گئی ہو تمہیں!
ساڑی سے لے کر قسم قسم کے ہر لباس میں تمہیں دیکھا ہے ۔ پرسوں ہی میں نے تمہیں کنٹونمنٹ ایریا میں شام کے وقت ٹھنڈی سڑک پر سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے۔ تمہارے ساتھ کوئی نوجوان تھا ۔ اور تم پتلون اور شرٹ میں ملبوس تھیں۔ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے ابھی ابھی کوئن الزبتھ کے قصر بکنگھم سے آ رہی ہو ۔ لیکن تم نے مجھے پہچان لیا اور مسکراتے ہوئے کہا: ہلو۔۔۔
ہلو! تمہاری آواز پر میں نے فوراً چونک کر کہا۔
مجھے خوشی ہوئی کہ تم اپنے پرانے عاشق کو اب تک نہیں بھولی ہو ۔ لیکن حیرت بھی ہوئی کہ تم ایک انگریز یا امریکن نوجوان کے ساتھ کدھر اور کہاں جارہی ہو!
سچ مانو!! میرے دل میں کوئی رقابت کا جذبہ پیدا نہیں ہوا ۔ البتہ یہ ضرور سوچتا رہ گیا کہ دوسری زبان بولنے والوں کو تم کیسے اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہو!
مجھے یاد ہے وہ نوجوان فٹا فٹ اردو بول رہا تھا۔ اسے اردو بولتا سن کر مجھے لندن کا ایک اور نوجوان ڈیویڈ میتھوز یاد آگیا جو بڑی روانی کے ساتھ عمدہ اردو بولتا ہے اور جو لندن یونیورسٹی میں اردو کا لکچرر ہے۔
کمال ہے بھئی۔ یہ تمہارا جادو نہیں تو اور کیا ہے ۔ پتہ نہیں تم اپنے ہر ملنے والے پر کیا منتر پڑھ کر پھونکتی ہو!

میں نے کہا: ڈیوڈ صاحب ! واقعی آپ سے مل کر بےحد خوشی ہوئی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ لندن نہیں بلکہ حیدرآباد کے کسی محلے میں پیدا ہوئے ہیں۔ کسی قسم کی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ لیکن یہ سب کچھ کیسے اور کیوں کر ہوا۔ بتائیے ان بی بی صاحبہ سے آپ کا تعارف کیسے ہوا؟ اور آپ کن کن مقامات سے گزر کر عشق کی منزل تک پہنچے اور موجودہ عہدے پر فائز ہوئے؟
ڈیوڈ میتھوز کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ بولے :
"آپ نے بہت ہی دلچسپ سوال کیا ہے ۔ میں ابھی اس کی داستان سناتا ہوں ۔ لیکن یہ داستان اتنی الجھی ہوئی اور پیچیدہ نہیں ہے ۔ وہی سمٹے تو دل عاشق اور پھیلے تو زمانہ والی بات ہے ۔"
"خوب۔ خوب۔۔" میں نے کہا۔
ایک ایرانی ہوٹل کی میز پر میرے اور میتھوز کے علاوہ دو تین کالج کے نوجوان طالب علم تھے اور ہم سب ابھی ابھی ایوننگ کالج کے ایک جلسے سے لوٹ رہے تھے ۔ جسے ڈیوڈ کے اعزاز میں طلبائے اردو نے منعقد کیا تھا اور جسے ڈیوڈ نے مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
"میں لندن یونیورسٹی میں اردو کا استاد ہوں۔ وہاں درجنوں طلبا ہر سال داخلے لیتے ہیں اور بڑی توجہ اورشوق سے اردو پڑھتے ہیں وہاں ریسرچ کا کام بھی بڑے زوروں پر چل رہا ہے ۔ ہر سال جب بھی موقع ملتا ہے تعلیمی دورے پر لڑکے اور لڑکیاں بھارت آتی ہیں۔ اور غالب کے شہر دہلی کو دیکھتی ہیں، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اور چاندنی چوک کی گلیوں میں گھومتے ہوئے غالب کے پیروں کی چاپ اور میر کی سسکیوں کو سننے کی کوشش کرتی ہیں!
میں کیا کہوں۔ آج اردو لندن میں رہنے اور بسنے والوں میں بے انتہا مقبول ہے۔ بی۔بی۔سی اردو کے بہت ہی عمدہ اور معیاری پروگرام پیش کرتا ہے ۔ لندن میں فیض سے لے کر آپ کے شہر کے مخدوم تک بے انتہا مقبول ہیں!"

تقریر کے بعد جب سوالات کا موقع دیا گیا تو ایک صاحب نے باآواز بلند فرمائش کی: "انگریزی میں تقریر کیجئے"۔
میں جیسے بڑبڑایا۔ کیا غلامانہ ذہنیت ہے ۔ انگریزی میں تقریر کیجئے؟ کوئی تک ہے اس فرمائش کی۔ جیسے اردو ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ پتہ نہیں اس سوال کا ڈیوڈ پر کیا اثر ہوا ہوگا؟ میں نے سوچا۔
ڈیوڈ ہنسے اور بولے:
حضرات ! ابھی میرے دوست نے مجھ سے جو خواہش کی ہے اسے شاید میں پورا نہ کر سکوں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب سے بھارت آیا ہوں اور آپ کے شہر حیدرآباد کی سرزمین پر قدم رکھا ہوں میں انگریزی بولنا بھول گیا ہوں۔ اب میں چاہوں بھی تو انگریزی نہیں بول سکتا!
اس فقرے پر بڑی دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ بھئی جواب نہیں ڈیوڈ میتھوز کا۔ اس سے بڑا طنز کیا اور کوئی ہوسکتا ہے؟


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-18

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں