کلینڈر کی چوری - نک ویلوٹ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-09-10

کلینڈر کی چوری - نک ویلوٹ

nick-velvet-calendar-theft
نک ویلوٹ یوں تو ایک چور ہے لیکن کیسا چور؟
اسے ایک بےمثال چور کہنا مناسب ہوگا۔ وہ ہمیشہ ایسی چیزیں چراتا ہے جو بظاہر قطعی بےقیمت کہی جا سکتی ہیں۔ روپیہ پیسہ ، ہیرے جواہرات ، قیمتی شہ پارے وغیرہ کی طرف تو وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا ۔۔۔ ہر بےقیمت چیز چرانے کے لیے آپ بھی اس کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ آپ میں اتنی سکت ہو کہ آپ بیس ہزار ڈالر اس کی فیس ادا کر سکیں جسے وہ اپنی اصطلاح میں معاوضہ کہتا ہے۔
آپ کو یقین آئے یا نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے لیے گاہکوں کی کوئی کمی نہیں۔ ہر ماہ ایک آدھ کیس ملنا اس کے لیے ایک عام سی بات ہے۔ آئیے ہم آپ سے بھی اس کا تعارف کرا دیں۔
نام: نک ویلوٹ [Nick Velvet]
عمر : 30-35 سال کے درمیان
رہائش : نیویارک
تعلیم : ہائی اسکول سے نکالا ہوا
شخصیت : دراز قد ، غیرمعمولی طور پر خوش شکل، مضبوط جسم، بھوری آنکھیں۔ سیاہ بال۔
معمولات : ہمیشہ تنہا کام کرنے کا عادی ہے۔ کبھی کبھار کسی معمولی کام کے لیے یا اپنی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے کسی کو معاوضے پر ملازم رکھ لیتا ہے۔ اپنے آپ کو عام طور پر رائٹر یا رپورٹر ظاہر کرتا ہے۔ چوری میں غیرمعمولی مہارت ، ماہر قفل شکن ، چالاکی اور بازی گری میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔
پرائیویٹ زندگی : غیرشادی شدہ ہے۔ گلوریا مرچنٹ نامی ایک عورت کے ساتھ رہتا ہے۔ گلوریا ایک بتیس سالہ خوبصورت عورت ہے۔ وہ نک کو ایک صنعتی مشیر خیال کرتی ہے جسے اکثر و بیشتر کاروباری معاملات میں گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے۔ نک فرصت کا وقت کشتی رانی کرتے ہوئے اور بیر پیتے ہوئے گلوریا کے ساتھ گزارتا ہے۔ وہ ابھی تک کسی مہم میں ناکام نہیں ہوا۔
نک ویلوٹ ان دنوں بڑا بور ہو رہا تھا۔ زندگی بڑی یکساں اور ہموار چل رہی تھی ۔ معمولی چیزوں کی چوری کا پیشہ اس نے اسی لئے اختیار کیا تھا کہ اس میں ہر نیا کیس دوسرے کیس سے مختلف اور دلچسپ ہوتا تھا ۔ مگر آج کل یہ دلچسپی بھی معدوم ہوتی جا رہی تھی، اسے کم و بیش ایک ہی نوعیت کے کام مل رہے تھے۔ اگست کا آخری ہفتہ تھا اور وہ ابھی تک کئی پیشکشیں ٹھکرا چکا تھا ۔ جن میں سے ایک میں اسے کانگریس لائبریری سے کسی کتاب کا نایاب ترین ایڈیشن چرانے کے لئے کہا گیا تھا۔
وہ گلوریا کے ساتھ اپنی موٹر بوٹ میں کافی دیر تک سیر کرنے کے بعد کنارے پر واپس آیا۔ ابھی اتر ہی رہا تھا کہ ایک مچھیرا اس سے مخاطب ہوا۔
"ایک آدمی تم سے ملنا چاہتا ہے ۔" اس نے بتایا۔ "وہ میرینا شاپ کے قریب تمہارا انتظار کر رہا ہے ۔"
گلوریا یہ سنتے ہی فکر مند ہو گئی۔
"نک" اس نے کہا۔ "اب تم پھر مجھے چھوڑ کر کہیں چل دوگے، کیوں؟"
"ضروری نہیں۔" نک نے تسلی دی۔"آج کل میرا کام میں دل نہیں لگ رہا ہے ۔ تم کار میں چل کر بیٹھو، میں اس آدمی سے مل کر آتا ہوں۔"
وہ میرینا شاپ پہنچا تو ایک سفید بالوں والا آدمی بزنس سوٹ پہنے ہوئے دکان کی الماریوں میں رکھی ہوئی چیزیں دیکھ رہا تھا۔ نک اسے دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ وہی آدمی ہو سکتا ہے۔
"میں نک ویلوٹ ہوں۔" اس نے ا پنا تعارف کرایا۔ "کیا تم ہی مجھ سے ملنا چاہ رہے تھے۔"
"میں تقریباً دو گھنٹے سے تمہاری واپسی کا انتظار کر رہا ہوں۔" اس آدمی نے کچھ اطمینان ظاہر کرتے ہوئے بتایا۔
"تم نے گھر پر ملنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟"
"کام بہت ضروری تھا ، میرا نام سیمیول کرافٹ ہے اور میں ایک ایسی ہی نوعیت کا کام تمہارے سپرد کرنا چاہتا ہوں جس میں تم خاصی شہرت رکھتے ہو۔"
نک نے چاروں طرف دیکھا مگر آس پاس کوئی تیسرا فرد موجود نہ تھا۔
" اس سے قبل کہ تم اپنے کام کے بارے میں بتاؤ میں یہ واضح کردوں کہ میں صرف معمولی چیزیں چراتا ہوں، قیمتی پتھر، دولت، نایاب سکے، ٹکٹ یا کتاب کے ایڈیشنوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ۔"
"میں بھی ایسا کوئی کام تم سے لینا نہیں چاہتا" کرافٹ نے جواب دیا: "مجھ سے تمہاری سفارش ایک ایسی ہستی نے کی ہے جس کا کام تم پچھلے سال بڑے اطمینان بخش طریقے پر انجام دے چکے ہو ۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ جو چیز تمہیں چوری کرنا ہے وہ بالکل معمولی اور بے قیمت ہے ، یعنی صرف ایک کیلنڈر۔"
نک کی آنکھوں میں پہلی مرتبہ دلچسپی کی چمک نمودار ہوئی ۔"ایک کیلنڈر، تمہارا مطلب ہے وہ چیز جس میں تاریخیں وغیرہ ہوتی ہیں۔" اس نے پوچھا۔
"بالکل وہ ہی ، اسی سال کا ایک کیلنڈڑ جو کہ ہر دسمبر میں مفت تقسیم کئے جاتے ہیں۔"
"تم جانتے ہو کہ میری فیس بیس ہزار ڈالر ہوتی ہے ۔"
"ہاں جانتا ہوں۔"
" اور تم بیس ہزار ڈالر ایک معمولی کیلنڈر چرانے کے لئے خرچ کرنے پر آمادہ ہو۔"
"درست ہے ۔"
"وہ ہے کہاں؟"
"جون اوڈینیل نامی ایک شخص کی جیل کی کوٹھری میں۔"
کرافٹ نے جواب دیا: "جون میڈولی کے جیل خانے میں قید ہے ، مجھے معلوم ہوا ہے کہ کیلنڈر اس کی کوٹھری کی دیوار پر آویزاں ہے اور وہ مجرموں کے معروف طریقے کے مطابق اس کیلنڈر کو اپنی سزا کی مدت کو شمار کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے ۔ تم جانتے ہی ہوگے کہ قیدی دنوں کا حساب لگانے کے لئے ہر گزرنے والے دن کی تاریخ کو ایک کانٹا بنا کر کاٹتے رہتے ہیں۔"
"اور تم چاہتے ہو کہ میں ایک فیڈرل جیل سے کسی مجرم کی کوٹھری میں لٹکا ہوا کیلنڈر چرا لاؤں۔"
"ہاں میں تمہیں اس کام کے لئے تمہاری مقررہ فیس بیس ہزار ڈالر ادا کرنے کے لئے تیار ہوں۔"
"اچھی بات ہے مجھے منظور ہے ۔"نک نے حامی بھرلی۔
"بہت خوب۔ مزید ہدایات تمہیں ایک اور شخص سے ملیں گی جو عنقریب تم سے رابطہ قائم کرے گا۔"
کرافٹ گھومنے ہی والا تھا کہ نک نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
" یہ جون اوڈینل کس جرم میں سزا کاٹ رہا ہے؟ قتل، اغوا یا ناجائز منشیات کی اسمگلنگ؟"
"اس کے جرم کی تمہارے لئے کوئی اہمیت نہیں۔"
"پھر بھی میں جاننا چاہتا ہوں۔"
"اسے پانچ سے دس سال تک کے لئے قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔"
کرافٹ نے بتایا۔
"کس جرم میں؟"
"بحری قزاقی کے جرم میں۔" ایک گہری سانس کے ساتھ جواب دیا گیا۔

اور یہ اس کے تین دن بعد اتوار کی ایک ابر آلود صبح تھی جب نک ویلوٹ فرسٹ بیپ ٹسٹ چرچ کی پارکنگ لاٹ میں برما نامی ایک شخص سے مخاطب ہوا۔
"بڑی عجیب جگہ جلسہ ہو رہا ہے ۔" اس نے برما کی چھوٹی سی کار میں پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
برما چھوٹے قد کا ایک زرد رو آدمی تھا۔ جو کپڑے اس نے پہن رکھے تھے وہ اس کے جسم پر بالکل موزوں نہیں تھے۔ نہ سائز کے اعتبار سے نہ خوش ذوقی کے معیار سے ، اسے دیکھ کر مجموعی تاثر یہ ہوتا تھا کہ وہ کوئی سابقہ سزا یافتہ مجرم ہے، جو اپنا ماضی چھپانے کے لئے چرچ کی مذہبی میٹنگ کا سہارا لے رہا ہے ۔
"کرافٹ نے کہا تھا کہ مجھے تم سے ملاقات کرنا ہے" برما نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے جواب دیا۔
"مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اور جون اوڈینیل ایک ہی کوٹھری میں قید تھے۔"
"ہاں! ہم تقریباً ایک سال تک ساتھ رہے ہیں۔" برما نے بتایا "میں نے ایک پوسٹ مین کو مار اپیٹا تھا۔ گلی میں اتنا اندھیرا تھا کہ میں اس کی وردی بھی نہیں دیکھ سکا ۔ پھر مجھے کیسے معلوم ہوتا کہ وہ کون ہے؟ میں تھوڑا سا جیب خرچ حاصل کرنا چاہتا تھا مگر فیڈرل عملے کے ایک فرد پر حملہ کرنے کے جرم میں دو سال کی سزا حصے میں آئی۔ پورے دو سال میں نے اس جیل خانے میں گزارے ہیں، جس میں سے آخری گیارہ ماہ اوڈینیل کے ساتھ بسر ہوئے۔"
"مجھے اس کیلنڈر کے بارے میں بتاؤ۔" نک نے کہا۔
"وہ اوڈینیل کے بستر کے سامنے والی دیوار پر لٹکا ہوا ہے ، اور وہ ہر رات کو ایک تاریخ پر کانٹا بنا دیتا ہے ۔"
"کیلنڈر کتنا بڑا ہے ۔"
"زیادہ سے زیادہ دس انچ چوڑا اور پندرہ انچ لمبا ۔ بالکل عام طرح کا کیلنڈر ہے جیسا اکثر تجارتی کمپنیاں اپنی پبلسٹی کے لئے شائع کرتی رہتی ہیں۔ ہر مہینے کے لئے ایک علیحدہ ورق ہے مگر اوڈینیل مہینہ ختم ہونے پر ورق پھاڑتا نہیں اسے دوسری طرف الٹ دیتا ہے ۔"
"تجارتی کیلنڈر کس کمپنی کا ہے؟"
"بڑی دلچسپ بات ہے ۔" برما نے آہستہ سے کہا: "وہ کیلنڈر اس قانونی فرم کا ہے جس نے اوڈینیل کا مقدمہ لڑا تھا۔"

نک کا ذہن تیزی سے کام کررہا تھا ، اس نوعیت کے کام ہمیشہ اس کے تجسس کو ابھار دیا کرتے تھے۔ "میرا خیال ہے کہ وہ اس کیلنڈر پر بہت کچھ لکھتا رہا ہوگا۔" اس نے پوچھا۔
"بالکل نہیں، میں نے کبھی اسے کچھ لکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔"برما نے جواب دیا۔ "بس وہ تو ہر رات کو ایک بڑا سا کانٹا اس دن کی تاریخ پر لگا دیا کرتا تھا۔"
"اگر اس پر کچھ تحریر نہیں ہے تو کرافٹ اسے کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے ۔"
"یہ سوال تو تمہیں کرافٹ ہی سے پوچھنا چاہئے۔"برما نے شانے اچکاتے ہوئے کہا۔

نک جانتا تھا کہ کسی فیڈرل جیل کو توڑ کر اندر گھسنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی کا جیل سے فرار ہونے کی کوشش کرنا۔ اور اسے تو اندر جاکر باہر بھی آنا تھا اور اندر بھی کہاں۔ ایک قیدی کی کوٹھری میں۔ اس نے اپنے پلان کی تیاری ایک لائبریری میں مطالعہ سے شروع کی۔ اخبارات کے پرانے فائلوں سے اوڈنیل کے جرم اور سزا یابی کے بارے میں تفصیلات فراہم کیں۔ یہ ریکارڈایک مائکرو فلم پر محفوظ تھا۔ نک نے طاقتور لینس کے ذریعے فلم پراوڈنیل کا فوٹو بھی دیکھا۔ وہ اس کی توقع سے زیادہ نوجوان نظر آرہا تھا۔ ایک تصویر میں اسے اپنی دبلی پتلی بیوی کے ساتھ کمرۂ عدالت سے نکلتے ہوئے دکھایا گیاتھا۔ اس کے ساتھ جو تحریر تھی اس کے مطابق اس وقت اس کی عمر صرف ستائیس سال کی تھی لیکن اس کے باوجود اس کے جرائم کی فہرست کافی لمبی تھی۔ ان جرائم میں مسلح ڈاکہ سے لے کر مجرمانہ حملے تک سب ہی نوعیت کے جرم شامل تھے ۔ البتہ جس جرم میں وہ سزا کاٹ رہا تھا وہ سچ مچ بحری قزاقی ہی تھا۔ یعنی ایسا ڈاکہ جو سمندر میں ہتھیاروں کی مدد سے ڈالا گیا ہو ۔ اس واردات کے انوکھے پن نے بوسٹن کے اخبارات میں کافی پبلسٹی حاصل کی تھی۔ واقعات کے مطابق اوڈنیل اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ بوسٹن کے ساحل سے ایک اسٹیمر میں سوار ہوا تھا۔ وہ شمال مشرق کی طرف جارہے تھے ۔ پورٹ لینڈ سے تقریباً 40 میل کے فاصلے پر انہوں نے ایک تفریحی لانچ پر جس کا نام "کوکو" تھا حملہ کیا یہ لانچ ایک ٹیلیویژن کمپنی کے صدر کی تھی۔ لوٹ میں انہیں پونے چار لاکھ ڈالر کی قیمتی زیورات اور ہیرے جواہرات ہاتھ آئے جو کہ لانچ میں سوار بڑے بڑے خاندانوں کی خواتین سے حاصل کئے گئے تھے۔

مگر ڈاکہ انجام کارکامیاب ثابت نہیں ہوا۔ جب تینوں ڈاکو اپنے اسٹیمر پر واپس آئے تو لانچ کے ایک سیکوریٹی آفیسر نے فارئرنگ شروع کردی۔ نتیجہ میں دو ڈاکو زخمی ہوکر سمندر میں گر پڑے اور اس سے پہلے کہ انہیں باہر نکالا جاتا وہ ڈوب گئے ۔ تیسرا ڈاکو جون اوڈنیل اسٹیمر لے کر مینی کے ساحل کی طرف فرارہونے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے بعد مبینہ طور پر اوڈنیل اس ساحل کے جزیروں میں اس وقت تک بھٹکتا رہا جب تک کھانے پینے اور پیڑوں کی کمی نے اسے ساحل تک آنے پر مجبور نہیں کردیا۔
ساحلی گارڈر نے اس کا اسٹیمر دیکھ لیا تھا۔ چنانچہ جیسے ہی وہ ڈیزرٹ آئی لینڈ کے ساحل پر لنگر انداز ہوا اسے گرفتار کرلیا تھا۔ چوری شدہ زیورات اور قیمتی پتھراس کے پاس سے برآمدنہیں ہوئے۔ نہ اسٹیمر میں ان کا کہیں پتہ چلا۔ اوڈنیل کا بیان تھا کہ لوٹ کا مال اس کے دو ساتھیوں کے پاس تھا۔ جو ان کے ساتھ ہی سمندر میں تہہ نشین ہوگیا۔
اپنے سابقہ جرائم اور اس حقیقت کے باوجود کہ اس کے پاس سے لوٹ کامال نہیں مل سکا اسے صرف پانچ سے دس سال تک کی سزا سنائی گئی ، جو اس جیسے عادی جرائم پیشہ کے لئے بہت کم تھی۔ اس واقعہ کو ایک سال سے کچھ زیادہ ہوچکا تھا ۔ اس کا مطلب تھا کہ ابھی اسے مزید چند سال کا نٹا ہیں۔ نک نے یہ ساری تفصیلات دو تین بار پڑھیں اور مائکرو فلم واپس کر کے لائبریری سے نکل آیا۔ اب اسے ایک ایٹلس کی تلاش تھی۔

ایٹلس لے کر وہ دس پندرہ منٹ تک عینی کے ساحلی علاقے کو گھورتا رہا ۔ مگر اسے کوئی بات معلوم نہیں ہوسکی ۔ اس ساحل پر اس کثرت سے چھوٹے چھوٹے جزیرے پائے جاتے تھے کہ ان کے نام بھی یاد رکھنا مشکل تھا ۔ ہیلی، ڈیئر، سوانس، سینٹ مارک ہیڈ باربر اور پتہ نہیں کیا کیا۔ اگر اوڈنیل لوٹ کے بارے میں جھوٹ بول رہا تھا تو اسے گرفتاری سے قبل کافی وقت حاصل رہا تھا کہ وہ ان سینکڑوں جزیروں میں سے کسی ایک میں مال غنیمت زمین کھود کر دفن کردے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح پرانے زمانے کے بحری قزاق کیا کرتے تھے ۔ نک نے ایٹلس بند کردی اور سوچنے لگا کہ اب اسے اوڈنیل کی بیوی سے ملنا ہی پڑے گا۔
دوسری دستک پر اس نے دروازہ کھول دیا اور ہال سے آتی ہوئی مدھم روشنی میں نک کو غور سے دیکھنے لگی۔
"کیا تمہارا ہی نام مسٹر نکولس ہے۔" اس نے پوچھا۔"تم ہی نے فون کیا تھانا!"
"ہاں! کیا میں اندر آسکتا ہوں۔‘ ‘ نک نے جواب دیا۔
اس نے جو لباس پہن رکھا تھا وہ اس کے جسم پر بے حد تنگ تھا۔ دستک کی آواز سن کر اس نے غالباً جلدی جلدی کچھ میک اپ کرنے کی کوشش بھی کی تھی ، جو کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہی تھی۔ چھبیس سال کی عمرہونے کے باوجود وہ بہت تھکی اور پژمردہ نظر آرہی تھی ۔ کسی ایسی چیز کی طرح جسے ضرورت سے زیادہ استعمال کر کے خراب کردیا گیا ہو۔
"ضرور" وہ ایک طرف ہٹ گئی۔
نک اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اندر داخل ہوا تو اسے اس کی سانسوں سے شراب کی بو محسوس ہوئی۔
"تم مسزا اوڈنیل ہو؟"نک نے پوچھا۔
"تم مجھے میگی کہہ سکتے ہو۔" وہ بولی، کچھ پینے کو دوں؟"
"شکریہ اس کی ضرورت نہیں۔"نک نے جواب دیا، میں دراصل تمہارے شوہر کے بارے میں کچھ معلوم کرنے آیا ہوں۔"
"ارے وہ بڑا چالاک ہے ۔ ہیرے دبائے بیٹھا ہے اور مجھے نہیں بتاتا کہ کہاں چھپائے ہیں۔ ڈرتا ہے کہ کہیں میں ہیرے لے کر کسی اور کے ساتھ نہ بھاگ جاؤں۔" وہ شریر انداز میں مسکرائی ۔ ایک طرح سے اس کا ڈرنا بھی کچھ غلط نہیں ہے۔"
"بات یہ ہے میگی۔" نک نے کنکھارکر گلا صاف کرتے ہوئے کہا،"میں سمندر ی جرائم کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں، شاید تم نے میرے مضامین لائف اور نیویارک ٹائمز میں دیکھے بھی ہوں۔ بہر حال میں تمہارے شوہر سے اس کیس کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں تاکہ میں اسے بھی اپنی کتاب میں شامل کرسکوں۔"
"وہ تمہیں اس سے زیادہ نہیں بتا سکتا جتنا اس نے مجھے بتا رکھا ہے ۔"
"پھر بھی۔۔۔"
اگر میں اسے تم سے ملنے اور بات کرنے پر آمادہ کرلوں تو تم مجھے کیا دو گے؟ "میگی نے ایک دم سے بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔
"سو ڈالر۔"
"دو سو ڈالر اور وہ بھی ایڈوانس۔"
ایک سو پیشگی اور ایک سو اس وقت جب میں اس سے اپنی گفتگو مکمل کرلوں۔"
میگی نے کچھ دیر تک سوچنے کا بہانہ کیا۔
"بات پکی ہوئی، وہ بولی، تم اس سے کب ملنا چاہتے ہو؟"
"جتنی جلدی ممکن ہوسکے ۔"
"ملاقات کا دن اتوار کا ہوتا ہے ۔ میں اسے آمادہ کرنے کی کوشش کروں گی۔"
"اچھی بات ہے ۔ مگر ایک بات ایسی ہے جو وہ شاید تم سے چھپانے کی کوشش کرے گا۔"
"اسی واردات کے سلسلے میں" نک نے پوچھا۔
میگی نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ کچھ اور زیادہ تھکی ہوئی نظر آنے لگی تھی۔
"ہاں۔ ان دو آدمیوں کے بارے میں جو سمندر میں ڈوب کر مرگئے۔"
"ان کے متعلق ایسی کیا بات ہے؟"
"یہ کہ وہ دونوں میرے بھائی تھے۔"
فیڈرل جیل کے گنجے وارڈن کا نام پرکنس تھا، وہ دیکھنے میں جیل کے اورڈن کے بجائے کسی چھوٹے موٹے شہر کا سیاسی لیڈر معلوم ہوتا تھا۔
"تم سمجھتے ہو، مسٹر نکولس، فیڈرل جیل کے قواعد و جوابط اس کی اپنی سہولت کے اعتبار سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔"
اس نے بتایا۔" ایک جیل میں جو بات جائز ہو دوسری جیل میں ممنوع ہوسکتی ہے۔"
"مجھے معلو م ہے، نک نے جواب دیا، "میں اس سے صرف اپنی کتاب کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں ، اس کا انتظام تو زیادہ مشکل نہیں ہوسکتا۔"
"اگر اوڈونیل کو خود کوئی اعتراض نہ ہو تو تم اس سے کسی بھی ملاقات کے دن مل سکتے ہو۔"
"لیکن میں اس طرح ملنا نہیں چاہتا کہ ہمارے درمیان کوئی چیز حائل ہو۔‘نک نے جواب دیا، میرا مطلب ہے کہ جس طرح میں اور تم اس وقت باتیں کررہے ہیں۔ بالکل آمنے سامنے اس کی اپنی کوٹھری میں۔"
"یہ تو قطعی ناممکن ہے ، "پرکنس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا، کسی قیدی کی کوٹھری میں جاکر ملاقات کرنے کی اجازت تو ان کے وکیلوں کو بھی نہیں دی جاتی۔"
"تب پھر کسی پرائیوٹ آفس میں۔"
وارڈن پرکنس جواب دینے سے پہلے کچھ ہچکچایا۔
"یہ ممکن ہو سکتا ہے ۔اس نے رکتے ہوئے کہا، بشرطیکہ کچھ ضروری باتوں کا خیال رکھاجائے ، مثلاً ایک گارڈ ملاقات کے وقت تمہارے پاس موجود رہے۔ اور پھر ہر ملاقات سے پہلے تمہاری جامہ تلاشی لی جائے۔ بات یہ ہے کہ اکثر ایسی ملاقاتوں کے بہانے قیدیوں تک ناجائز منشیات پہنچادی جاتی ہیں۔"
"مجھے منظور ہے ۔"نک نے جواب دیا۔" پہلی ملاقات آئندہ پیر کے دن کرانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟"
"میں سمجھتا ہوں اس کا انتظا م کیاجاسکتا ہے ۔"پرکنس نے سوچتے ہوئے کہا۔
نک نے مسکراتے ہوئے اس کاشکریہ ادا کیا اور رخصت کی اجازت چاہی۔ اس کا منصوبہ بڑی عمدگی سے آگے بڑھ رہا تھا ۔
ملاقات سے پہلے کے دو تین دن نک نے جون اووڈنیل کی کوٹھری میں پہونچنے کی ترکیب کے بارے میں سوچتے ہوئے گزارے ۔ اس کے ذہن میں اس مشکل کے تین حل نظر آرہے تھے ایک میں ذاتی خطرہ بہت زیادہ تھا ۔ اس نے اس حل کو تیسرے نمبر پر رکھا باقی دو میں سے اس نے جسے پہلے آزمانے کا فیصلہ کیا وہ بڑا دیر طلب اور صبر آزما طریقہ تھا۔ اس کے مطابق اوڈونیل سے دو ابتدائی ملاقاتیں کیں، اور ان میں اپنی مفروضہ کتاب کے موضوع کی روشنی میں سوالات کرنے اور ان کے جوابات فٹ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔اوڈونیل اپنی عمر سے کہیں زیادہ بڑا نظر آرہا تھا اس کے بیان کے مطابق اس کی پرورش کیتھولک عقیدے پر کی گئی تھی۔ ابتدائی تعلیم بھی ایک مذہبی مدرسے میں حاصل کی تھی۔ وہ اب بھی مدرسے کے کسی انعامی مقابلے میں ملنے والا گولڈ میڈل اپنے گلے میں پہنے ہوئے تھا۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ اسے نک پر اعتماد نہیں ہے ۔ اس لئے وہ اس کے سوالات کے جوابات بہت رک رک کر اور مبہم انداز میں دے رہا تھا۔
ان دونوں نصف گھنٹے کی ملاقاتوں سے پہلے نک کی اچھی طرح تلاشی لی گئی تھی ۔ تیسری ملاقات پر بھی یہ شرط برقرار رہی۔ وہ اس چھوٹے سے خالی کمرے میں اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا، جو عموماً مجرموں اور ان کے وکیلوں کی ملاقاتوں کے لئے استعما ل ہوتا تھا ۔ اوڈونیل آیا تو حسب سابق اس کے ساتھ ایک مسلح گارڈ بھی تھا وہ بڑے اکتائے ہوئے انداز میں دیوار کے پاس کھڑا ہوگیا۔
اگر تمہاری کتاب کامیاب ثابت ہوئی تو کیا اس کے منافع میں سے مجھے کوئی حصہ ملے گا۔" اوڈونیل نے پوچھا۔
"میں یقین دلاتا ہوں کہ تمہارا پورا خیال رکھا جائے ۔"نک نے جواب دیا۔
نک نے نوٹ کیا تھا کہ اوڈونیل ہر ملاقات پر سگریٹ کا ایک پیکٹ ساتھ لاتا تھا اور گفتگو کے دوران مسلسل یکے بعد دیگرے سگریٹ پھونکتا رہتا تھا۔ ایک موقع پر نک بھی اس کے پیکٹ سے سگریٹ لے کر پی چکا تھا۔ آج بھی اس نے ہاتھ بڑھا کر پیکٹ اٹھالیا اور ایک سگریٹ لے کر واپس رکھ دیا۔
"تم اب اور کیا پوچھنا چاہتے ہو؟"اوڈونیل نے دھواں چھوڑتے ہوئے سوال کیا۔
"ہم اب چوری کے واقعات کی تفصیلات پر آرہے ہیں۔" نک نے کہا۔"وہ دو آدمی جو مارے گئے تمہاری بیوی کے بھائی تھے؟"
"ہاں۔"
تم نے متعلقہ حکام کو بتایا تھا کہ لوٹ کا مال ان کے ساتھ ہی سمندر میں ڈوب گیا تھا۔"
"ہاں میں نے اس وقت بھی یہی کہا تھا۔"اوڈونیل نے گردن میں لٹکتے ہوئے میڈل کو انگلیوں سے چھوتے ہوئے جواب دیا۔ اور اب بھی یہ ہی کہتا ہوں۔"
"گرفتار ہونے سے پہلے تم کیا کرتے رہے تھے۔"
"بس سمندر میں ادھر ادھر چکر لگاتا رہا تھا۔"اوڈونیل نے بتایا۔ "تم اس سے زیادہ مجھ سے اور کچھ معلوم نہیں کرسکتے، میں محسوس کررہا ہوں کہ اب تمہارے سوالات کا انداز کسی جاسوس کی طرح ہوتا جارہا ہے ۔"
"اگر تم اس سے زیادہ کچھ اور بتانا نہیں چاہتے تو ظاہر ہے کہ میں تمہیں مجبور نہیں کرسکتا۔" نک نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
گارڈ آگے بڑھا اور اوڈونیل کو آہستہ سے دھکا دیتے ہوئے کمرے سے باہر لے گیا۔ نک نے ا پنا سگریٹ ختم کرتے ہوئے کچھ دیر انتظار کیا۔ تین منٹ گزر گئے۔ یہ وقفہ اوڈونیل کو اپنی کوٹھری تک پہنچانے کے لئے کافی تھا۔ نک اپنی جگہ سے اٹھا اور باہر کوریڈور میں آگیا۔
"گارڈ۔۔اوگارڈ۔" اس نے بیرونی دروازے کی طرف منہ کرکے پکارا۔
ڈیوٹی پر موجود گارڈ نے آواز سنی، اخبار سے نظریں اٹھا کر نک کی طرف دیکھا۔"کیا بات ہے مسٹر نکولس۔"
"میرے پاس ایک چھوٹا سا چاقو تھا جو اب غائب ہے۔"نک نے بتایا۔ اور مجھے شبہ ہے کہ باتوں کے درمیان کسی نہ کسی طرح اوڈونیل وہ چاقو اڑا کر لے گیا ہے۔"
گارڈ نے زیر لب ایک گالی بکی۔
"تم یہیں ٹھہرو، میں وارڈن کو بلاکر لاتا ہوں۔" اس نے گھوم کر تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے کہا۔
پانچ منٹ کے اندر پرکنس کمرے میں موجود تھا ، اس کی پیشانی پر بل پڑے ہوئے تھے۔
"کیا معاملہ ہے۔" اس نے نکولس کو گھورتے ہوئے سوال کیا۔
"میرے پاس ایک چھوٹا سا قلم تراش چاقو تھا جسے اوڈونیل چراکر لے گیاہے۔"
پرکنس نے گھوم کر گارڈ کو قہر آلود نظروں سے دیکھا۔
"تم نے کس طرح تلاشی لی تھی، اس کی کہ اس کے پاس چاقو نہیں دیکھ سکے ۔" اس نے سخت لہجہ میں باز پرس کی۔
"اس میں گارڈ کا قصور نہیں۔" نک نے جلدی سے کہا۔ دراصل دراصل چاقو اس طرح کا بنا ہوا تھا کہ بند ہونے کی صورت میں بالکل کسی سکہ کی مانند نظر آتا تھا ۔ اور وہ میری چابیوں کے گچھے میں لگا ہوا تھا گارڈ کا اسے نظر انداز کردینا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ گفتگو کے دوران میں میں نے اس سے اپنا ایک ٹوٹا ہوا ناخن کاٹا تھا۔ اوڈونیل نے ضرور اسے دیکھ لیا ہوگا اور موقع پاکر اسے نکال لیا۔ اگرچہ مجھے حیرت ہے کہ اس نے یہ کام کس طرح کیا ہوگا۔"
"یہ بے قاعدگی ناقابل برداشت ہے ۔"پرکنس نے غصہ سے کہا ۔ "آئندہ تم اس سے کوئی ملاقات نہیں کرسکو گے۔"
اس نے گارڈ کی طرف دیکھا۔
"میرے ساتھ آؤ، ہمیں اس کی کوٹھری تلاش کرنا چاہئے۔"
نک کے اعصاب کشیدہ ہورہے تھے۔ یہ بڑا فیصلہ کن لمحہ تھا "میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔" اس نے سر سری لہجہ میں کہا۔"ممکن ہے گارڈ اسے پھر نظر انداز کرجائے جب کہ میں اسے شناخت بھی کرسکتا ہوں۔"
"ہوسکتا ہے کہ تم نے اسے دانستہ طور پرچاقو دیدیا ہو۔"پرکنس بولا۔"اگر دانستہ دیا ہوتا تو کیا میں تمہیں اس کے بارے میں بتاتا۔" نک نے جواب دیا۔
پرکنس نے کچھ سوچا، اس کا چہرہ ہر لمحہ پہلے سے زیادہ سرخ ہوتا جارہا تھا۔
"گارڈ اس آدمی کی اچھی طرح تلاشی لو اور دیکھو کہ کہیں چاقو اسی کے پاس تو موجود نہیں ہے ۔" اس نے حکم دیا۔
گارڈ نے اس کی ایک ایک جیب دیکھ ڈالی۔
"جی نہیں۔اس کے پاس کوئی چاقو نہیں ہے۔ "آخراس نے وارڈن کو بتایا۔
"اچھی بات ہے ، ہم سب اوڈونیل کی کوٹھری میں چل رہے ہیں۔"پرکنس نے گارڈ سے کہا۔"تم ایک لمحہ کے لئے بھی مسٹر نکولس پر سے اپنی نظریں مت ہٹانا۔"
نک نے دل ہی دل میں اطمینان کا سانس لیا ۔ اس بات کا امکان پچاس فیصد سے زیاد ہ نہیں تھا کہ پرکنس اسے اس عذر کی بناء پر کوٹھری میں لے جانے کے لئے آمادہ ہوجائے۔ مگر بہر حال وہ اس میں کامیاب ہوچکا تھا ۔ وہ سب اس طرح کوٹھری کی طرف چلے کہ وارڈن آگے تھا اس کے بعد نک اور اس کے پیچھے دو گارڈ۔ کوریڈور میں مختلف جگہ گھومتے ہوئے وہ آخر کار اوڈونیل کی کوٹھری تک پہنچ گئے۔
"وہ چاقو کہاں ہے۔"پرکنس نے اندر قدم رکھتے ہی سخت لہجے میں پوچھا۔
"کیسا چاقو!"
"وہ قلمتراش جو تم نے مسٹر نکولس کے پاس سے چرالیا ہے۔"
"تم احمق ہو ۔ میرے پاس کوئی چاقو نہیں ہے۔"
" اس کی تلاشی لو۔"پرکنس نے گارڈوں کو حکم دیا، کوٹھری میں بھی تلاش کرو اور اس کے ساتھی کے پاس بھی دیکھو۔"
گارڈز فوراً ہی اپنے کام میں مصروف ہوگئے ۔ نک نے دیواروں کا جائزہ لیا۔ کیلنڈر ٹھیک اسی جگہ پر موجود تھا جہاں برما نے بتایا تھا ستمبر کی ابتدائی تاریخیں بڑے بڑے کانٹوں سے بھری ہوئی تھیں، وہ آہستہ آہستہ قدموں سے دیوار کی طرف بڑھا۔ ایک گارڈ نے فوراً دھمکی دی کہ چپ چاپ ایک طرف کھڑے ہوجاؤ اور نک نے فوراً تعمیل کی وہ کیلنڈر سے اپنی پیٹھ لگا کر کھڑا ہوگیا۔
جلد ہی ایک گارڈ نے سگریٹ کے پیکٹ سے مطلوبہ چاقو برآمد کرلیا۔
"ہاں یہ ہی ہے۔"نک نے بلند آواز سے کہا۔
" یہ کیا مذاق ہے؟اوڈونیل نے اسے گھورا، تم کیا چکر چلا رہے ہو، اسے میں نے پیکٹ میں نہیں رکھا تھا۔"
پرکنس نے چاقو کھول کر دیکھا۔
" یہ تو بہت چھوٹا ہے، اس نے کہا، اور دھار بھی بالکل نہیں ہے، یہ تو کسی کام نہیں آسکتا تھا۔"
"مجھے اس ناخوشگوار واقعہ پر بے حد افسوس ہے۔"نک نے شرمندہ لہجہ میں کہا۔
"ہونا بھی چاہئے، پرکنس کا اضطراب ختم ہوچکا تھا، بہر حال اب یہاں سے چلو، اور تم اوڈونیل ، تم سے تو میں بعد میں بات کروں گا، تمہاری یہ حرکت ریکارڈ میں آئے بغیر نہیں رہے گی۔"

دس منٹ بعد نک ویلوٹ جیل کے صدر دروازے سے باہر نکل رہا تھا تو اوڈونیل کا کیلنڈر اس کے کوٹ کے اندر بائیں بازو کے نیچے دبا ہوا تھا۔اگر وہ اسے غائب دیکھے گا تو بھی اسے گارڈ ہی کی حرکت خیال کرے گا۔ یوں بھی وہ کوئی شکایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
بعد میں نک نے اپنی کار کے اندر سکون سے بیٹھ کر کیلنڈر کا جائزہ لیا۔ جیسا کہ برما نے کہا تھا کہ یہ ایک قانونی فرم کی طرف سے شائع کیا گیا تھا۔ نک نے گزشتہ مہینوں کے ور ق دیکھے ان سب کی تاریخیں ایک ہی انداز میں کاٹی گئی تھیں۔ سوائے ایک تاریخ کے اور وہ تھی ۲۵؍اپریل۔ اوڈونیل نے اسے کاٹنے کے بجائے اس کے گرد ایک حلقہ کھینچ دیا تھا ۔ نک حیران تھا کہ اس تاریخ کو اوڈونیل کے ساتھ کیا غیر معمولی بات ہوئی تھی جس نے اسے اپنا معمول تبدیل کرنے پر مجبور کردیا تھا۔کانٹوں کے علاوہ کیلنڈر پر کسی قسم کی تحریر نہیں تھی، نک نے ایک ایک ورق کو غور سے دیکھا مگر ان پر کوئی خفیہ تحریر بھی نہیں معلوم ہوتی تھی۔ وہ ہر اعتبار سے ایک عام کیلنڈر تھا، ایک عام کیلنڈر جو سیموئیل کرافٹ کے ن زدیک بیس ہزار ڈالر سے بھی زیادہ قیمت رکھتا تھا۔
پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق نک اگلی صبح کرافٹ سے وہائٹ پلین کے شاپنگ سنٹر میں ایک دکان کے پارکنگ پلاٹ پر ملا اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا برما بھی وہاں موجود ہے، اسے یہ خیال تک نہیں آیا تھا کہ یہ دونوں اس کام میں ایک دوسرے کے شریک ہونگے۔
"کیا تم کیلنڈر لے آئے۔" کرافٹ نے پوچھا۔
"جب میں نے وعدہ کیا تھا تو کسی نہ کسی طرح پورا کرنا ہی تھا۔ " نک نے ایک لمبے براؤن لفافے سے کیلنڈر نکال کر کرافٹ کے ہاتھ میں دے دیا۔" اب تم اپنے وعدے کے مطابق میری فیس میرے حوالے کرو۔"
"ضرور ضرور۔"برما تمہیں اپنے ساتھ لے جاکر رقم دے دے گا۔" کرافٹ نے کیلنڈر کے صفحات الٹتے ہوئے جواب دیا، ہم اتنی بڑی رقم کار میں لانے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے۔"
"کہاں تک چلنا ہوگا" نک نے پوچھا۔
بس وہ سلٹ تک وہاں میری اسٹیشن ویگن کھڑی ہے۔ یہ بات نک کو اچھی نہیں لگی تھی لیکن کوئی دوسرا چارہ کار بھی نہیں تھا۔"اچھی بات ہے،چلو، مجھے ذرا جلدی ہے ۔ ابھی ایک ضروری کام سے جانا ہے۔" اس نے دروازہ کھول کر نیچے اترتے ہوئے کہا۔
جیسے ہی و ہ اور برما کار سے اترے کرافٹ نے موٹر اسٹارٹ کی اور ہائی وے کی طرف روانہ ہوگیا۔ نک اسے جاتے دیکھتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اسے رقم لئے بغیر کیلنڈر نہیں دینا چاہئے تھا ، وہ برما کے پیچھے چلتا ہوا اسٹیشن ویگن تک پہونچا ۔ برمانے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا ، اور نک کو فوراً ہی اپنی حماقت کا احساس ہوگیا کوئی بیس ہزار ڈالر کی رقم ایک غیر مقفل ویگن میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا ، اس نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی مگر اب دیر ہوچکی تھی۔ برما پلٹا تو اس کے ہاتھ میں سائلنسر لگا ہوا ریوالوار دبا ہوا تھا۔
"چلو اندر بیٹھو۔" اس نے کہا۔
" یہ کیا قصہ ہے ۔ نک بولا۔ "میری رقم کہاں ہے ؟"
برما نے کوئی جواب نہیں دیا۔ نک کو اگلی سیٹ پر بیٹھنا ہی پڑا۔ برما نے اسٹیرنگ وہیل سنبھالا اور ویگن حرکت میں آگئی ۔
"کرافٹ کو تم پر قطعی اعتماد نہیں ہے، ویلوٹ کچھ دور جانے کے بعد برما نے بتایا۔ اس نے تمہارے بارے میں بہت سی کہانیاں سن رکھی ہیں ۔ وہ یہ نہیں چاہتا تھ اکہ تم ہم سے بیس ہزار ڈالر بھی وصول کرلو اور پھر ہیرے اڑانے کے لئے بھی پہونچ جاؤ۔"
"ہیرے۔"نک نے بھنویں اچکائیں۔ اسکا مطلب ہے کہ اوڈونیل غلط کہہ رہا تھا ، ہیرے سمندر میں نہیں ڈوبے۔"
" یہ بات تم بھی اچھی طرح جانتے ہو ،برما نے طنزیہ لہجہ میں جواب دیا ۔"خود اوڈونیل نے مجھ سے اس کا اعتراف کیاتھا۔ اس نے وہ سارا مال ان سینکڑوں جزیروں میں سے کسی ایک پر دفن کردیا ہے میرے لاکھ پوچھنے پر بھی اس نے کبھی اس جزیرے کا نام نہیں بتایا۔ پھر جب میں رہا ہونے والا تھا تو میں نے اس سے کہا کہ اگر وہ جیل میں مر گیا تب کیا ہوگا۔ اس نے جواب دیا کہ اسے بھی اس بات کا خیال تھا اور اسی لئے اس نے اس کیلنڈر میں یہ راز چھپا دیا ہے کہ ہیرے کہاں دبے ہوئے ہیں۔ میں نے ایک رات جب وہ سورہا تھا تو کیلنڈر کا ایک ایک ورق دیکھا ، لیکن کانٹوں کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آئی۔پھر جب میں جیل سے باہر ایا اور کرافٹ کو یہ بات بتائی تو اس نے مجھے احمق کا خطاب دیا اور کہا کہ وہ خود کیلنڈر کو دیکھ کرمعلوم کرے گا اوڈونیل نے اس میں خزانے کا راز کس طرح چھپایا ہے ۔ چنانچہ اس نے وہ کیلنڈر چرانے کے لئے تمہاری خدمات حاصل کیں۔ اسے تم پر اعتبار نہیں تھا ، مگر یہ بھی جانتا تھا کہ تمہارے سوا یہ کام اور کوئی کر بھی نہیں سکتا تھا۔"
"یہ کرافٹ ہے کون؟"
"اسی نے اوڈونیل اور اس کے سالوں کو اسٹیمر دیا تھا کہ وہ اس پر سوار ہوکر سمندر میں کسی لانچ کو لوٹیں ۔ لوٹ کے مال میں اس کا حصہ بھی تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ میں جیل سے نکل کر اسی کے پاس پہنچا۔ مجھے امید تھی کہ وہ اس اطلاع کے بدلے کہ لوٹ کا مال سمندر میں نہیں ڈوبا بلکہ کسی جزیرے میں دبا ہوا ہے مجھے بھی اس میں حصہ دار بنالے گا۔ اور اس کا اس نے وعدہ کیا ہے۔"
" اور میری طرف وہ تمہیں بھی فریب دے گیا، نک نے کہا، تمہیں میرے ساتھ الجھا دیا اور خود ہیرے نکالنے دوڑ گیا۔"
"اگر ایسا کوئی وقت آیا تو میں اس سے بھی نمٹ لوں گا ، برما نے ریوالور ہلاتے ہوئے جواب دیا،’سر دست تو مجھے تمہیں وہاں جانے سے روکنا ہے ۔"

نک اس پر جست لگانے کے لئے بالکل تیار تھا، مگر وہ جانتا تھا کہ اتنی تنگ جگہ میں گولی سے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اچانک اس نے ایک گرے سیڈان کار کو ویگن کے ساتھ چلتے دیکھا۔ ایک لمحے کے لئے اسے کار میں بیٹھی ہوئی عورت کا چہرہ نظرآیا۔ دوسرے لمحہ کار نے ویگن کے ٹکر ماری۔ برما کے لئے یہ حادثہ قطعی غیر متوقع تھا، وہ جھٹکا کھا کر نک کے اوپر لڑھک گیا، نگ نے جلدی سے ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ وہیل سنبھالا اور دوسرے ہاتھ سے ویگن روک دی۔سائلنسر لگا ہوا ریوالور اٹھایا اور دروازے کھولتے ہوئے نیچے کود گیا۔ سیڈان کار بھی رک گئی۔
"بہت بہت شکریہ، نک نے کار کے قریب جاکر عورت سے کہا۔
"مجھے تمہارا شکریہ نہیں چاہئے۔"عورت نے جواب دیا۔
تم مجھے اس جگہ لے چلو جہاں ہیرے دبے ہوئے ہیں۔"
یہ بتانے کی غالباً ضرورت نہیں کہ وہ عورت میگی تھی یعنی مسزاوڈونیل۔
جس وقت نک ویلوٹ اپنی کیبن والی موٹر بوٹ میں مینی کے ساحل تک پہنچا ہے تو دوسرے دن کا سورج طلوع ہورہا تھا ۔ وہ اور میگی تمام رات سفر کرتے رہے تھے اس کے باوجود انہیں خطرہ تھا کہ کہیں وہ کرافٹ سے پیچھے نہ رہ گئے ہوں۔
"میرے دو بھائی مارے جاچکے ہیں اور شوہر جیل میں ہے۔"میگی نے اس سے کہا تھا، ان زیورات اور ہیروں پر مجھ سے زیادہ کسی کا حق نہیں، اب وہ میری ملکیت ہیں۔"
جب اوڈونیل کو کیلنڈر کی گمشدگی کا احساس ہوا تو اس نے اس کی شکایت اپنے پہریداروں سے نہیں کی تھی بلکہ کسی طریقے سے میگی کو خبر پہونچا دی تھی، فطری طور پر اسے شک ہوا ہوگا کہ کیلنڈر کی چوری کی تہہ میں کرافٹ کا ہاتھ کام کررہا ہے ۔چنانچہ میگی اس دن صبح ہی سے کرافٹ کے پیچھے لگی ہوئی تھی اس نے نک کو کرافٹ اور برما سے ملاقات کرتے دیکھا اور پھر جب اس نے برما کو نک پر ریوالور نکالتے دیکھا تو سمجھ گئی کہ بات کس طرح پیش آئی ہوگی۔ اور پھر اس نے برما کا تعاقب کرکے نک کو آزاد ہونے کا موقع دیا۔
"میں بہر حال تمہارا ممنون ہوںِ تم نے میری جان بچائی ہے۔" نک نے بوٹ کو کیپ کوڈ نامی جزیرے کے قریب سے نکالتے ہوئے کہا۔
" تم مجھے میرا حق واپس دلا کر اپنا شکریہ ادا کرسکتے ہو۔"میگی نے ہیروں کے علاقہ کچھ سننے کے تیار نہیں تھی۔
جلدہی نک اس جزیرے تک پہنچ گیا۔ جس کی اسے تلاش تھی، یہ بھی مینی کے بیشمار ساحلی جزیروں کی طرح سمندر سے نکلا ہوا ایک چٹانی خطہ تھا۔ جس کا رقبہ چند مربع ایکڑ سے زیادہ نہیں تھا۔ بظاہر اس پر کسی آبادی یا کسی ذی روح کی موجودگی کا احساس نہیں ہورہا تھا۔
"تمہیں یقین ہے کہ وہ جزیرہ یہ ہی ہے۔"میگی نے پوچھا۔
"مجھے کسی بات کا یقین نہیں ہے ، محض ایک اندازہ ہے جس کی بنیاد پر یہاں آیا ہوں۔" نک نے جواب دیا اور موٹربوٹ ساحل کے قریب روک دی۔
"مگر یہاں کہیں کرافٹ کی موٹر بوٹ نظر نہیں آتی۔"
"ممکن ہے وہ یہاں آیا بھی ہو اور واپس بھی چلا گیا ہو۔" وہ دونوں بوٹ کو لنگر انداز کر کے پانی سے گزرتے ہوئے ساحل پر آگئے۔
"ا سنے ہیرے کہاں دبائے ہوں گے۔"میگی نے پوچھا، تم بہت سوالات کررہی ہو۔ نک نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ جزیرے پر چٹانیں، ریت جھاڑیاں درخت سب ایک دوسرے سے باہم ملے ہوئے نظر آرہے تھے۔ کوئی جھونپڑی یا عمارت تو نہیں تھی، مگر آس پاس ضائع شدہ کھانے کی چیزیں، خالی ڈبے ، بوتلیں، جگہ جگہ آگ جلائے جانے کے نشانات اس بات کا ثبوت تھے کہ پکنک منانے والوں نے بہر حال اس جزیرے کو بھی نظر نہیں کیا ہے ۔ نک جزیرے کے بلند حصہ کی طرف بڑھنے لگا ۔ راستہ میں جھاڑیوں اور درختوں پر مشتمل ایک جھنڈ سے گزرتے ہوئے وہ دائیں بائیں متجسس نظروں سے دیکھتا جارہا تھا۔ اچانک اسے کچھ گھنی جھاڑیوں کے پیچھے لکڑی کا ایک تختہ زمین میں گڑا ہوا نظر آیا۔ اس نے قریب جاکر دیکھا تختے پر بگڑے ہوئے الفاظ میں ایک فقرا لکھا تھا۔
"یہاں میرا وفادار کتا کو کو آرام کی نیند سورہا ہے ۔"
"کوکو" میگی ایک دم بول اٹھی، یہ تو اس لانچ کا نام تھا جسے جون نے لوٹا تھا۔"
"ہاں" نک نے کہا، معلوم ہوتا ہے ہم مدفون خزانے تک آپہنچے ہیں۔"

وہ فوراً واپس جاکر موٹر بوٹ سے کدال لایا اور اس کے دس منٹ بعد وہ زمین میں دبا ہوا ایک چمڑے کا بیگ نکال رہے تھے ، نک نے اسے کھول کر دیکھا اور جواہرات کی چمک نے اس کی آنکھوں کو چندھیادیا۔ لیکن ابھی وہ اس دریافت پر کسی رف عمل کا اظہار نہیں کرپائے تھے کہ ایک رائفل کے فائر نے انہیں چونکا دیا ، گولی نک سے چند انچ پیچھے زمین میں پیوست ہوگئی اور وہ میگی کا بازو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لیتے ہوئے زمین پر دراز ہوگیا۔ سر اٹھا کر دیکھا تو اس کی بوٹ کے قریب ایک طاقتور لانچ کھڑی نظر آئی۔ کرافٹ اور برما سمندر میں اتر کر خشکی کی طرف آرہے تھے، ان دنوں کے ہاتھ میں رائفلیں دبی ہوئی تھیں۔
"کیا تمہارے پاس کوئی ریوالور ہے۔"میگی نے نک سے پوچھا۔
"میرے پاس برما کا ریوالور ہے، نک نے ریوالور نکالتے ہوئے جواب دیا۔"مگر اتنے فاصلے سے اس کی گولی کا اثر نہیں ہوگا۔ یوں ہی پڑی رہو ۔ شاید وہ یہ خیال کریں کہ انہوںنے ہم میں سے کسی کو زخمی کردیا ہے۔"
"ویلوٹ، کرافٹ نے پکارا، مجھے معلوم ہے تم وہاں موجود ہو، بہتر ہے کہ سامنے آجاؤ، خزانہ اتنا زیادہ ہے کہ ہم سب کے حصہ میں معقول رقم آسکتی ہے ۔"
نک نے کوئی جواب نہیں دیا۔ برما آگے بڑھتے ہوئے اس کی زد میں آگیا تھا۔ نک نے فائر کردیا۔ برما کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ اس کی آواز سن کر کرافٹ نے نک کی طرف یونہی اندھا دھند دو فائر کئے اور پھر پلٹ کر اپنے ساتھی کو سنبھالنے لگا۔ نک کے لئے یہ موقع کافی تھا۔ وہ اپنی جگہ سے تیر کی طرح چلا، آہٹ سن کر کرافٹ نے گھوم کر دیکھا، چاہتا تھا کہ فائر کرے، مگر نک کی انگلی پہلے دب چکی تھی ، گولی چلی، کرافٹ لڑکھڑاتا ہوا زمین پر آرہا۔
"لعنت ہو تم پر ویلوٹ،"وہ دھاڑا، میں زخمی ہوگیا ہوں،
"اعشاریہ 22 بور کا ریوالور اتنے فاصلے سے زیادہ نقصان نہیں پہونچا سکتا۔"نک نے دونوں رائفلیں سنبھالتے ہوئے جواب دیا۔" تمہارا دوست مجھے اسی ریوالور سے قتل کرنے جارہا تھا۔ غنیمت جانو کے میں نے ایسی جگہ نشانہ نہیں لیا کہ تم دونوں مرجاتے، ہم تمہارے زخموں پر پٹی باند ھ دیں گے ۔ اس کے بعد تم اپنی لانچ میں واپس جاکر کسی ڈاکٹر کو بھی دکھا سکتے ہو۔"
"تمہیں اس جگہ کا پتہ کیسے چلا؟"کرافٹ نے پوچھا۔
"اسی طرح جس طرح تمہیں معلوم ہوا۔" نک مسکرایا، اوڈونیل نے برما سے کہا تھا کہ کیلنڈر میں اس خزانے کا راز پوشیدہ ہے ، مگر اس پر سوائے کانٹوں کی تحریر کے کوئی تحریر نہیں تھی، ہر تاریخ کو کاٹ دیا گیا تھا، سوائے ۲۵,اپریل کے، جس پر کانٹے کے بجائے دائرہ بناہوا تھا ، اوڈونیل کیتھولک مذہب کا ماننے والا ہے ۔ اس کی تربیت بھی اسی کے مطابق ہوئی ہے ، اور تعلیم بھی ایک مذہبی مدرسے میں پائی ہے ، چرچ کے کیلنڈر میں 25؍اپریل سینٹ مارک کا دن ہے، مجھے یاد تھا کہ ان ساحلی جزیروں میں ایک جزیرے کا نام سینٹ مارک بھی ہے ۔ چنانچہ میں سیدھا یہاں آیا۔"
نک نے میگی کی طرف دیکھا۔
"میرا خیال ہے کہ یہ بیچارے کچھ زیادہ ہی زخمی ہیں۔" اس نے کہا:
"تم انہیں لانچ میں کوسٹ گارڈ اسٹیشن تک لیجاؤ وہاں ڈاکٹر بھی موجود ہوتا ہے ۔"
"اور ہیرے۔۔۔ "میگی کہتے کہتے رک گئی، نک کے ہاتھ میں ریوالور تھا، اور بغل میں دونوں رائفلیں دبی ہوئی تھیں۔
"ہیرے میں اپنے پاس رکھوں گا" وہ بولا۔
"کرافٹ نے ابھی تک میری فیس ادا نہیں کی ہے ۔ مگر تم اطمینان رکھو میں تمہارا احسان قرض نہیں رکھوں گا، رقم تمہارے گھر پہونچ جائے گی، لیکن میرا مشورہ یہی ہے کہ اوڈونیل کے جیل سے رہا ہونے کا انتظار مت کرنا"۔

ماخوذ:
نک ویلویٹ کی چوریاں (حصہ اول) ، سن اشاعت: 1986 ، ناشر: کتابیات پبلیکیشنز کراچی۔

The Thefts of Nick Velvet, calendar theft. Story: Edward D. Hoch

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں