اردو میں طنز و مزاح - آل احمد سرور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-09-05

اردو میں طنز و مزاح - آل احمد سرور

طنز دراصل رومانیت کی ضد ہے ، رومانیت تخیل کے سہارے، ہر ذرے میں سورج، ہر عمارت میں تاج محل ، ہر پہاڑی میں ہمالیہ رکھتی ہے ۔ طنز بھی اسی صلاحیت سے کام لے کر ، ہر چاند کا مانگے کا اجالا۔ ہر قصر کے روزن اور ہر دیوتا کے مٹی کے پاؤں دکھاتی ہے۔ طنز کی ابتدائی شکل ہجو ہے ، طنز و مزاح میں گہرا تعلق ہے۔ طنز کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ یہ زخم لگا کر اصلاح کرنا جانتی ہے ۔ مزاح صرف تضادات ، عجائبات ، قول و فعل کے فرق، ظاہر اور باطن میں بھید کی طرف اشارہ کرکے ناگوار کو گوارا اور نشیب و فراز کو ہموار کرنا سکھاتا ہے۔مزاح میں طنز کی لے ضروری نہیںٰ مگر طنز میں ادبیت اور دلکشی مزاح کی چاشنی سے آتی ہے۔ ہجو اکثر اتلوار کے بجائے گرزسے کام لیتی ہے۔طنز کی تلوار کے بجائے مزاح کا نشتر زیادہ لطیف ہے اور اس نشتر کی کھٹک زندگی سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ اور ایک طور پر جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے ۔ ہجو شروع سے ملتی ہے اسے طنز خصوصاً اعلی طنز بننے میں وقت لگتا ہے در مزاح کی حس تو ایک پختگی، ایک تہذیبی رچاؤ مانگتی ہے۔
ہجو میں مبالغے کی بہتات ہوتی ہے ۔ طنز میں مبالغے کو پر لطف ہونا چاہئے۔ مزاح زیادہ تر ہجو ملیح سے کام لیتا ہے اور اس میں کنائے کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ ہر ادبی سرمائے میں طنز و مزاح کے سرمائے کی اہمیت ظاہر ہے۔ انگریزی اور فرانسیسی ادب میں طنز اور مزاح دونوں کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ ارد و ادب نو عمر ہے اس لئے ان مغربی زبانوں کا تو مقابلہ نہیں کرسکتا مگر اس میں ہجو ، طنز، ظرافت لفظی شوخی اور مزاح سبھی کے اچھے نمونے مل سکتے ہیں۔ چنانچہ انیسویں صدی سے ساری دنیا میں نثر کو بڑی ترقی ہوئی ہے ۔ اور یہ متمدن انسان کے بیشتر افکار و اقدار اور جذبات و خیالات کے اظہار کا آلہ بن گئی ہے ۔ اس لئے آج شاعری میں طنز و مزاح کے مقابلے میں نثر میں طنز و مزاح کا سرمایہ زیادہ وقیع ہے ۔ اردو میں بھی یہی بات نظر آتی ہے ۔
شاعری میں سودا ہمارے سب سے بڑے ہجو نگار ہیں۔ان کے دور میں ہجو نگاری بہت مقبول تھی مگر سودا کی ہجوؤں میں شخصی کمزوریوں کا مذاق اڑانا ہی نہیں ہے ۔سماجی طنز بھی ہے ان کے مخمس "شہر آشوب" اور "قصیدہ"،"تضحیک روزگار" اور سیدی کو قوال کے ہجو میں قہقہے اور بلند آہنگ شہنائی کے ساتھ ایک درد مند دل کے گداز کا بھی احساس ہوتا ہے ۔ انشا کھلنڈر ے ہیں وہ چٹکیوں اور لطیفوں کے ہی بادشاہ نہیں ہیں۔ ان کے یہاں ایک رعنائی خیال کے ساتھ زبان سے کھیل بھی ملتا ہے۔ سودا کے یہاں بلند پایہ تشبیہات ہیں اور خیرہ کن تصویریں، انشاء کے یہاں ایک چمک دمک ہے اور ایک ہنسٹور کے پیترے۔ پھر نظیر کے یہاں ہمیں ایک نشاط زیست ملتا ہ اور میں نظیر کو علاوہ اور خصوصیات کے ایک مزاح نگار اس لئے بھی مانتا ہوں کہ وہ زندگی کے تضادات اور عجائبات کو ہاں کہتا ہے ان پر کڑھتا نہیں جو نماز پڑھتا ہے وہ بھی آدمی ہے اور جو نمازیوں کے جوتے چراتا ہے وہ بھی آدمی ہے ۔ برسات میں جو گھر کے دروازے پر آکر کیچڑ میں پھسل جاتا ہے۔ وہ بھی زندگی کے حوادثات کا نقشہ رکھا کہ ہمیں محفوظ کرتا ہے۔ لیکن مزاح کے اس سے زیادہ کے اعلیٰ درجے کے نمونے غالب کی شاعری میں ملتے ہیں جو ایسے اشعار کہہ سکتے ہیں:

چاہتے ہیں خوب رو یوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہئے
یا
میں نے کہا کہ بزم ناز چاہئے غیر سے ، تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھادیا کہ یوں

یا یہ اشارہ:
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

غالب کی ظرافت کا بھرپور اظہار ان کی نثر میں ہوا ہے مگر ان کی شاعری بھی اپنی شوخی اور نکتہ سنجی کی وجہ سے مزاح کی دنیا میں اہمیت رکھتی ہے ۔ اردو شاعری میں طنز و مزاح کے لحاظ سے اکبر سب پر فوقیت لے گئے ہیں۔ اکبر کی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ ان کے پیام سے اتفاق نہ کرتے ہوئے بھی ان کی شوخی، ظرافت ، طنز و مزاح ، ہجو ملیح کنائے سب کا قائل ہونا پڑتا ہے ، اکبر کی طنز بھرپور بھی ہوتی ہے اور پر لطف بھی۔ وہ اصلاحیں بھی وضع کرتے ہیں۔ ان کا قلم صنعت ، لفظی میں بھی قاتل ہے، وہ با محاورے یا ذو معنی الفاظ یا قافیے کے صوتی حسن سے بھی بڑا کام لیتے ہیں۔ ان کے یہ اشعار:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خداکا اس زمانے میں

شیخ جی کے دونوں بیٹے باہنر پیدا ہوئے
ایک ہیں خفیہ پولس میں ایک پھانسی پا گئے

بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے ایک مضمون لکھا
ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

دختر رز نے اٹھارکھی ہے آفت سر پر
خیریت گذری کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا

یوسف کو نہ سمجھے کہ حسیں بھی ہے جواں بھی
شاید نرے لیڈر تھے زلیخا کے میاں بھی

ان کی عظمت اور معنویت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔
اکبر کے بعد ظریف لکھنوی کا نام لیاجاسکتا ہے مگر ان کے یہاںWIT یا لفظی ظرافت زیادہ ہے HUMOUR یا مزاح کم۔ اس سے زیادہ تو اقبال کے یہاں طنزوظرافت ہے شیر خچر سے پوچھتا ہے تو کون ہے اور کس قبیلے سے ہے۔ خچر جواب دیتا ہے:
میرے ماموں کو نہیں پہچانتے شاید حضور
وہ صبا رفتار شاہی اصطبل کی آبرو

اقبال کے بعد ظفر علی خاں کے یہاں بھی طنز و ظرافت کی چاشنی جابجا مل جاتی ہے، مگر وقتی موضوعات یہاں زیادہ اہم ہیں ۔ ہاں اقبال کی پیروی کرتے ہوئے ظفر علی خاں کی طنز آج بھی پرلطف ہے:
گاندھی از گجرات بھاوے از دکن
ننگے پاؤں ننگے سر ننگے بدن
ان کے بعد ظرافت کے لحاظ سے شاعری میں سید محمد جعفری کا نام اہم ہے جو اول تو غالب اور اقبال کے اشعار کی پرلطف پیروڈی کرتے ہیں دوسرے اپنے تخیل کی مدد سے کلرک، تجریدی آرٹ اور بوفے پر بڑے مزے کی نظمیں لکھتے ہی ں۔ بے گھر لوگوں کے متعلق ان کا یہ شعر:
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
ان کے حسن تخیل کی لازوال علامت ہے۔
نثر کے سلسلے میں غالب کے خطوط کی طرف اشارہ کیاجاچکا ہے ۔ غالب اپنے پر ہنسنے کا سلیقہ جانتے ہیں اور موت پر بھی ہنس سکتے ہیں۔ مرنے سے دو دن پہلے علائی کو لکھا تھا:
میرا حال مجھ سے کیا پوچھتے ہو :: چند روز کے بعد ہمسایوں سے پوچھنا
بیماری پر بھی ان کی رگ ظرافت پھڑک اٹھتی ہے :: پھوڑوں کی کثرت سے جسم سرد چراغاں ہو گیا ہے

مزاح کی چاشنی طنز و مزاح میں بہر حال آہی جاتی ہے ۔ غالب نے جس طرح شہد کی مکھی پر مصری کی مکھی کی فوقیت ثابت کی ہے یا جنت کے ایک قصر میں ایک حور کے ملنے پر زندگی کے اجیرن ہوجانے کا ذکر کیا ہے اس میں مزاح کی بڑی لطیف چاندنی ہے۔ سرسید اپنے مخالفوں کے جواب میںجا بجا طنز سے کام لیا ہے ۔ مگر یہاں ان کے بجائے نذیر احمد کا ذکر زیادہ ضروری ہے ۔ کیوں کہ نذیر احمد کی کڑھی ہوئی شخصیت میں طنزو مزاح کی وجہ سے بڑی دلآویزی پیدا ہوگئی تھی ۔ نذیر احمد کا تخیل اور ان کی زبان کی ساحری خصوصاً محاورے پر عبور ان کے ناولوں ہی میں نہیں ان کی سنجیدہ تصانیف میں بھی جھلک جاتا ہے ۔ طنزو مزاح میں زیادہ تر نئے خیالات پروار ہوتا ہے اور اودھ پنچ کی ظرافت یہی ہے ۔ اس میں لفظی ظرافت کا زیادہ دخل ہے ۔ مگر سہ شار کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ اپنی شوخی اور طنز کے سارے ہتھیار لکھنو کی زوال آمادہ تہذیب پر ضرب لگانے میں صرف کردیتے ہیں مگر اسلوب میں وہ اودھ پنچ کے دبستان کے ہی فرد ہیں۔ فسانہ آزاد ہو یا سیر کہسار سرشار نے جس تہذیب اور معاشرت پر طنز کی ہے وہ اسی کے عاشق بھی ہیں ، اس وابستگی کی وجہ سے ان کی طنز میں گہرائی اور دلآویزی ہے گو اس میں رطب و یابس زیادہ ہے۔ ہمواری سرشار کے بس کی نہیں ان کے مزاحیہ کردار کارٹون ہو جاتے ہیں ۔ خوجی سب سے دلآویز کارٹون ہے ۔
بیسویں صدی میں جو مزاح نگار سامنے آئے ان میں سید محفوظ علی، فرحت اللہ بیگ ، پطرس، رشید احمد صدیقی، فلک پیما ،عبدالمجید سالک، کنہیا لال کپور اور مشتاق احمد یوسفی میرے نزدیک زیادہ اہم ہیں۔ سید محفوظ علی سے لوگ زیادہ واقف نہیں مگر وہ"ہمدرد"میں مزاحیہ کالم لکھا کرتے تھے ۔ ان کی علمیت اور زبان پر عبور کی وجہ سے ان کی طنز پر لطف ہوتی ہے۔
فرحت اللہ بیگ اگر اور کچھ نہ لکھتے تو "نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی" انہیں زندہ جاوید رکھتی۔ ان کے یہاں طنز سے زیادہ مزاح ہے ، اس میں شخصیات پر آزادانہ نظر اور زبان اور محاورے پر عبور سے بڑا بانکپن آگیا ہے ۔ نذیر احمد اور وحید الدین سلیم کے خاکے بڑے جاندار ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس دور میں سب سے بلند پایہ کارنامہ پطرس اور رشید احمد صدیقی کے ہیں۔ دونوں کے یہاں طنز سے زیادہ مزاح کی اہمیت ہے۔ پطرس ہماری ادبی دنیا کے ایک مجموعے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کے تضادات سے لطف اٹھانے کا ملکہ فوراً ہمیں متوجہ کرتا ہے۔"کتے" ہو یا"لاہور کا جغرافیہ" یا"سویرے کل جو میری آنکھ کھلی" یا "مرحوم کی یاد میں" ان سب میں آرٹ بن گیا ہے ۔
رشید احمد صدیقی کے یہاں زیادہ ہمہ گیری ہے ۔اور ان کا سرمایہ پطرس سے زیادہ ہے ۔ وہ قول محال سے خوم کام لیتے ہیں۔ صوتی مناسبت سے بھی اور مترادفات میں ہم صوت الفاظ سے بھی ان کے یہاں مقامی رنگ خصوصاً علی گڑھ کا ماحول ان کی کمزوری ہی نہیں طاقت ہے ۔ ان کے یہاں ربط و تسلسل کی کمی شعوری طور پر ہے ۔ چار پائی ہو یا شیطان کی آنت، مرشد یا پاسبان، اپنی یاد میں ہو یا کچھ کا کچھ۔ بہر کجار کی رسید یم کار واں پیداست ہو یا شیخ نیازی۔ رشید احمد صدیقی ہمیں اپنے تخیل، اپنی تشبیہات ، اپنے مرقعوں ، اشعار کے بر محل استعمال اور سب سے زیادہ اپنے قول محال کی وجہ سے اپنے ساتھ ضرور بہالے جاتے ہیں۔ وہ اردو نثر کے اکبر تو ہیں ہی، مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ اکبر سے کم بلند پایہ مزاح نگار نہیں۔ کنہیا لال کپور نے"غالب ترقی پسندوں کی محفل میں" لکھ کر شہرت حاصل کی۔ ان کے یہاں بھی مزاح کی لطیف چاندنی ہے۔ ایک طور پر وہ پطرس کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور مشتاق احمد یوسفی، رشید احمد صدیقی کے قبیلے سے۔ یوسفی ، رشید احمد صدیقی کے جانشین ہی نہیں ہیں میرے نزدیک زر گزشت میں وہ نئی بلندیوں کو چھولیتے ہیں۔ اخباری کالموں کی وجہ سے ابن انشا کو بجا شہرت حاصل ہوئی، یہاں تک کہ ان کی شاعری کی خوبیوں کو نظر انداز بھی کیا گیا ۔ ان کے سفر نامے، "ابن بطوطہ کے تعاقب میں" اور "چلتے ہو تو چین کو چلیے" مزاح کے اچھے نمونے ہیں۔ اردو میں طنز کا سرمایہ اب خاصا وقیع ہے ، لیکن ابھی مزاح کی دنیا میں خوب سے خوب تر کی جستجو کی خاصی بڑی گنجائش ہے ۔

مآخذ : سہ ماہی "ادیب" ، جامعہ اردو ، علیگڑھ
(خصوصی شمارہ : اردو زبان و ادب کی تاریخ) ۔ جلد:17 ، شمارہ: 3-4 ، جولائی تا دسمبر 1993

Humour and Satire in Urdu literature. Article: Prof. Aal-e-Ahmad Suroor

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں