راجندر سنگھ بیدی - یوسف ناظم کے خاکوں کی روشنی میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-09-18

راجندر سنگھ بیدی - یوسف ناظم کے خاکوں کی روشنی میں

yusuf-nazim-rajinder-bedi
راجندر سنگھ بیدی سے یوسف ناظم کے قریبی مراسم تھے اسی لئے انہوں نے بیدی پر بڑے خلوص سے ایک خاکہ لکھا ۔ اس خاکے میں زیادہ تر بیدی کی بیماری کا ذکر ہے ۔ بیمار بیدی کی زندہ دلی کی باتیں ہیں۔ بطور "شخص" بیدی کی شخصیت اس خاکے میں جگہ جگہ ہمہ رنگی صفات لئے ابھرتی ہے ۔ یوسف ناظم کے مشاہدے کا اظہار دیکھئے۔
لڑکپن کے بم ساز راجندر سنگھ بیدی آگے چل کر دوستوں کے دم ساز تو بنے لیکن زمانہ ساز نہ بن سکے۔ یہ فن انہیں نہیں آیا۔ وہ بس دوستوں پر جان اور محفلوں پر پان چھڑکتے رہے۔ جب وہ بے تماشہ پان کھاتے تھے تو نہ رستم کی پروا کرتے تھے نہ سکندر کی، ان کے اپنے کپڑے تو خیر ان کے اپنے ہی تھے لیکن دوسروں کے کپڑوں سے بھی انہوں نے غیرت نہیں برتی ، ان کا مخاطب ہمیشہ لہولہان ہو جاتا تھا ۔ کہتے تھے یہ خلوص کی نشانی ہے اور کیا یاد کرو گے کہ کسی رئیس سے سابقہ پڑا تھا۔ ایک مرتبہ بیمار پڑے تو کھار(ممبئی) کے کسی نرسنگ ہوم میں رکھے گئے۔ جب بھی ان کے تیمادار ان ان سے ملنے جاتے، انہیں نرسنگ ہوم میں داخل ہو کر ان کے کمرے تک جانے کی کبھی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی تھی۔ راجندر سنگھ بیدی نرسنگ ہوم کے قریب ہی کی ایک پان کی دکان پر کھڑے مل جاتے تھے۔ کئی پان ان کے منہ میں اور پانوں کا پلندہ ان کے ہاتھ میں ہوتا۔ پان انہوں نے گن کر کبھی نہیں کھائے ۔ انکا عقیدہ ہے کہ گننے سے پان کا مزا بگڑ جاتا ہے ۔
اقتباس کے شروع میں "لڑکپن کے بم ساز" پر چونکنے یا شک کرنے یا جھوٹ قرار دینے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ یہ سچائی بیدی کے قلم نے ہی ظاہر کی ہے ملاحظہ کیجئے:
کچھ لڑکوں کو ساتھ لے کر میں نے ایک کھنڈر میں بم بنانے کی کوشش کی، انگریز گورنر مونٹ مورنسی تو جوں کا توں سلامت رہا لیکن میرے ایک ساتھی کا ہاتھ اڑ گیا۔ وہ میرا ہاتھ بھی ہو سکتا تھا، جس سے میں نے بعد میں کہانیاں لکھیں اور اب اسے آپ کے ہاتھ پر رکھے ہوئے ان گناہوں کا اعتراف کر رہا ہوں۔

اس خاکے میں بیدی کی تحریر کے اقتباس کے بعد یوسف ناظم لکھتے ہیں:
"کیا بیدی صاحب کہہ سکتے ہیں کہ ان کی کہانیاں بم نہیں ہیں؟ دستی بموں اور قلمی بموں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔"
انہوں نے یہ بات کہہ کر بیدی کی کہانی کے فن کی دل کھول کر داد دی ہے ۔ یوسف ناظم کے تحریری فن کا یہ بھی ایک خاص وصف ہے کہ وہ اچانک ایک ایسا جملہ لکھ جاتے ہیں کہ قاری سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ ان کے مضامین میں اچانک آنے والے پرلطف جملے قاری سے ان کے آگے کی تحریر پڑھوا لیتے ہیں۔

بیدی کی شرافت، ایمانداری اور وضعداری دوستوں، رشتہ داروں اور ان کے چاہنے والوں میں بہت مشہور تھی ۔ جنہوں نے بیدی صاحب کو قریب سے دیکھا ہے وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ بیدی ایک مثالی انسان تھے۔ (یہ بات کہنے میں مَیں اس لئے حق بجانب ہوں کہ میں اور پرویز یداللہ مہدی اکثر بیدی کے ماٹونگا والے گھر یا پھر ان کے بیٹے نریندر بیدی کے فلمی دفتر پر ملنے جایا کرتے تھے) یوسف ناظم نے اپنے خاکے میں بیدی کی شرافت اور سعادت مندی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔
وہ اب بھی اپنے آپ کو طالب علم بلکہ شاگرد سمجھتے ہیں (طالب علم اور شاگرد میں فرق یہ ہوتا ہے کہ شاگرد زیادہ مطیع و فرماںبردار ہوتا ہے) عالم شاگردی میں میں نے انہیں اس وقت دیکھا جب پانچ چھ سال پہلے اپندر ناتھ اشک بمبئی آئے تھے۔ لنکا یا نیپال سے کسی ہندی کانفرنس سے لوٹے تھے اور بیدی صاحب ہی کے ہاں ٹھہرے تھے ۔ مجروح سلطانپوری کے ہاں ایک محفل میں، جس میں زہرہ نگاہ بھی شریک تھیں۔ بیدی صاحب مع اشک کے موجود تھے اور بالکل زانوئے تلمذ تہہ کئے ہوئے تھے (بلکہ اشک بدیدہ تھے) کہہ رہے تھے۔ اشک صاحب کو میں اپنی کہانیاں دکھایا کرتا تھا۔
یہ واقعہ لکھ کر یوسف ناظم نے بیدی کی شخصیت کے ایک خاص پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے لکھا ہے:
"آل احمد سرور سے بھی انہیں اتنی ہی رغبت تھی"
اس سے ظاہر ہوا کہ یوسف ناظم کی نظر میں بیدی کے اخلاقی پہلوؤں پر بھی تھی، جس سے وہ متاثر تھے۔
بیدی کی رنگا رنگ شخصیت ، خوش گوئی اور زندہ دلی بمبئی کے علمی، فلمی اور ادبی حلقوں میں مشہور تھی ، لیکن بیدی ادب والوں سے گفتگو کر کے خوش اور مطمئن ہوا کرتے تھے۔ ہر ملنے والے کو وہ برابری کا درجہ دیتے، خود نمائی یا بڑا پن ان کی شخصیت سے کبھی ظاہر نہیں ہوتا تھا۔ گفتگو کے فن سے وہ خوب واقف تھے ۔ خالص اردو کے لفظ ان کے پنجابی لہجے میں بہت اچھے لگتے تھے ۔ اور لطیفے سنانا تو کوئی ان سے سیکھے! ان کی زندہ دلی اور لطیفہ گوئی کے بارے میں یوسف ناظم کے خیالات ملاحظہ کریں۔
بمبئی میں لطیفوں کی سب سے اونچی دکان راجندر سنگھ بیدی کی تھی ان کے ہاں سیکنڈ ہینڈ مال نہیں ملتا تھا، صرف منتخب چیزیں ہوتیں جن میں سردارجیوں کے لطیفے ہوتے ۔ بیدی صاحب ان لطیفوں کو ہر جگہ تقسیم کرتے تھے ۔ گویا ان کی ترویج و اشاعت تنہا انہیں کی ذمہ داری تھی ۔ اس معاملے میں وہ ہمیشہ فرض شناسی سے اپنا کام انجام دیتے تھے۔
راجندر سنگھ بیدی مرغن غذاؤں کے بھی شوقین تھے ۔ باتوں میں بھی اکثر وہ اچھی لذیذ غذاؤں کے بارے میں بتاتے کہ کون سی غذا کس شہر کی لذیذ ہوتی ہے ۔ ڈشس کے نام بھی وہ بتایا کرتے تھے ۔ بیدی کی گوشت خوری کے بارے میں یوسف ناظم کا بیان ملاحظہ کریں۔
گوشت خوری ان کا محبوب مشغلہ رہا ہے اور مرغے کے شکار کو وہ سب سے بہتر شکار سمجھتے تھے ۔ کہتے ہیں شکار کے لئے بیاباں کیوں جایا جائے، دستر خوان ہی کیوں نہ چنا جائے ، کسی مسلمان دوست کے ہاں کھانا کھاتے تو ضرور داد دیتے۔
راجندر سنگھ بیدی کی شخصیت کے جن پہلوؤں پر یوسف ناظم نے روشنی ڈالی ہے وہ قابل داد تو ہے ہی لیکن شاید یوسف ناظم کو اس بات کا احساس تھا کہ اس خاکے میں بیدی کی شخصیت کا پوری طرح احاطہ نہیں کیا گیا ۔ اسی لئے تو انہوں نے اس خاکے کا نام رکھا "پورا آدمی، ادھورا خاکہ"

ماخوذ از کتاب:
طنز و مزاح کے تین ستون۔ از: رفیق جعفر

Bedi in the writings of Yusuf Nazim. Kids Story by: Rafiq Jaffar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں