شکل ظاہر کچھ بھی ہو جائے وہی رہتے ہیں ہم
ہم کہیں بھی ہوں مگر امروہوی رہتے ہیں ہم
جب یہ شعر ہم نے استاد لاغر مرادآبادی کو سنایا تو پھڑک اٹھے، کہنے لگے:
"سہل ممتنع کی ایسی مثال نظر سے کم گزری ہے۔"
ہم نے پوچھا: "سہل ممتنع کسے کہتے ہیں؟"
تو فرمایا: "ویسے تو اس شعر کو کہتے ہیں جس کی نثر نہ ہو سکے، لیکن آپ نے جو شعر سنایا ہے، اس کے پیش نظر اب سبل ممتنع کی تعریف یہ ہوگی، ایسی نثر جسے شعر کے سانچے میں نہ ڈھالا جا سکے ۔"
یہ بڑی فلسفیانہ بات تھی، ہماری سمجھ میں نہ آئی، خود لاغر صاحب کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا فرما رہے ہیں، اس لئے ہم نے بات یہیں ختم کر دی اور لاغر صاحب کو یہ بھی نہ بتایا کہ کہ یہ شعر کس کا ہے؟ وہ دوسرے مصرے کے آخری ٹکڑے (مگر امروہوی رہتے ہیں ہم) سے یہی سمجھے ہوں گے کہ شعر مگر امروہوی کا ہے ۔۔ لیکن ہم اپنے قارئین سے کوئی بات چھپاتے نہیں، لہذا غرض ہے کہ یہ خوبصورت شعر حضرت رئیس امروہوی کا ہے اور پاکستان میں پہلی مرتبہ ہمارے کالم کے ذریعے منظر عام پر آ رہا ہے۔
دہلی سے "یادوں کی پرچھائیاں" نام کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کے مصنف جناب رحمت امروہوی ہیں۔ جناب رئیس امروہوی نے اس کا دیباچہ لکھا ہے۔ جس کا آغاز مذکورہ شعر سے ہوتا ہے ۔ مصنف اور دیباچہ نگار کے حوالے سے ہمارا خیال تھا کہ اس کتاب میں امروہے سے متعلق یادوں کی پرچھائیاں ہوں گی کہ یہ شہر دلپذیر ہمارے تہذیبی ثقافتی ماضی کا خوبصورت مرقع ہے ، لیکن پڑھی تو معلوم ہوا کہ اس کا تعلق احمد آباد سے ہے۔ جناب مصنف نے عمر کا بڑا حصہ احمد آباد میں گزارا ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے اس کی ادبی محفلوں، مشاعروں اور کانفرنسوں وغیرہ کی روداد لکھی ہے۔ ان شعراء کے حالات اور انتخاب کلام بھی درج کیے ہیں۔ جنہوں نے احمد آباد کی ادبی فضا کی تشکیل کی ۔ یہ ایک دلچسپ کتاب ہے اور اس سے احمد آباد کے گزشتہ چالیس، پچاس برسوں کی ادبی سرگرمیوں کا بھرپور انداز ہوتا ہے ۔
جناب مصنف کا نام ہم نے پہلی مرتبہ اس کتاب ہی کے ذریعے سنا ہے ، حالانکہ وہ بقول خود "ہندوستان گیر" شہرت کے مالک ہیں۔ وہ شاعر ہیں، لیکن ان کا کلام ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ انہوں نے دوسرے شعراء کے بہت سے شعر اپنی کتاب میں درج کئے ہیں ۔ لیکن اپنے کسی شعر کو اپنی نثر کے ساتھ پیش کرنے کے لائق نہیں سمجھا۔ معلوم نہیں ، یہ انکسار ہے یا احتیاط؟ پہلی صورت میں وہ مبارکباد کے اور دوسری صورت میں وہ شکریے کے مستحق ہیں۔ یہ بات ہم نے اس لئے لکھی ہی کہ اس کتاب میں جناب مصنف نے جتنے شعر بھی درج کئے ہیں وہ جناب رئیس امروہوی کے مذکورہ شعر کی طرح سبل ممتنع کا نمونہ ہیں ۔ یعنی شعرو تو سہل ہیں ، لیکن پڑھنے والے مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔
جناب رحمت امروہوی کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین سے ہے۔ حالانکہ اصولاً انہیں انجمن سادات امروہہ سے تعلق رکھنا چاہئے ۔ ان کی ترقی پسندی کو ایک اور دیباچہ نگار ، ڈاکٹر قمر رئیس نے ان الفاظ میں سراہا ہے:
"ان کی اس لگن اور حوصلہ مندی میں شاید انجمن ترقی پسند مصنفین کا بھی حصہ ہے جس سے وہ اس زمانے سے وابستہ ہیں جب وارث علوی اس کے سکریٹری ہوتے تھے ۔ اس زمانے میں وارث علوی اپنی تحریروں اور تقریروں میں جس دیوانگی اور جوش سے ترقی پسندوں کے موقف کی حمایت کرتے تھے، اس کف در دہانی سے وہ اب اس کی مذمت کرتے ہیں ۔ لیکن اس تحریک سے رحمت امروہوی کی وفاداری ، بشرط استواری رہی ہے ، اس کے واضح نقوش ان کی عملی زندگی اور شاعری دونوں میں نظر آتے ہیں۔"
ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وارث علوی کسی زمانے میں ترقی پسند بھی رہ چکے ہیں۔ ہم اکثر سوچتے تھے کہ ان کی تحریروں میں کہیں کہیں جارحیت کے جو عناصر ملتے ہیں اس کا سبب کیا ہے؟ اب یہ عقدہ کھلا کہ یہ ان کی ترقی پسندی کے زمانے کی باقیات ہیں۔ ویسے ڈاکٹر قمر رئیس کو اس سے آزردہ خاطر نہیں ہونا چاہئے کہ وارث علوی کے بچھڑ جانے سے ترقی پسندوں کے موقف کی تائید کرنے والوں میں ایک کمی ہو گئی ہے ۔ بلکہ انہیں خوش ہونا چاہئے کہ ترقی پسندوں میں کم از کم ایک تو ایسا نکلا جس نے بالغ نظری کا ثبوت دیا۔ کف در دہانی سے ادب تخلیق کرنے سے بہتر ہے کہ کف در دہانی سے ایسا کرنے والوں کی مخالفت کی جائے ۔ ادب آرایش گیسو یا جفت سازی کا پیشہ نہیں ہے جو اس کے لئے کوئی انجمن بنانے کی ضرورت ہو۔
رحمت امروہوی کو بھی اس کا بہت صدمہ ہے کہ وارث علوی نے انجمن ترقی پسند مصنفین سے علیحدگی کیوں اختیار کی ۔ انہوں نے علوی کا ذکر قدرے "سخن گسترانہ" انداز میں کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
"وارث علوی کا چونکہ پیشہ ہی پڑھنا پڑھانا ہے اور اس پیشے کے لوگ بولتے کم اور لکھتے زیادہ ہیں۔ بولنے کا تو یہ عالم ہے کہ آپ ادب کا کوئی بھی موضوع انہیں دے دیجئے اور کہئے کہ وارث صاحب آپ کو دو گھنٹے بولنا ہے ۔ یقین جانئے، ڈھائی گھنٹے تو ہو سکتے ہیں پونے دو گھنٹے ہرگز نہیں ہو سکتے ۔۔۔ وارث صاحب کسی زمانے میں کٹر ترقی پسند تھے ۔ اب وارث صاحب کے نظریات بدل چکے ہیں اور جب سے امریکہ کا دورہ کرکے آئے ہیں ، اس میں کچھ سختی آ گئی ہے ۔ ویسے یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وارث صاحب آج جو کچھ ہیں یہ سب انجمن ترقی پسند مصنفین کی دین ہے ۔ بلکہ قلم چلانے کی تحریک اور قلم کو سلیقہ انجمن ہی سے ملا ہے ۔ اس بات کا اعتراف وارث صاحب بھلے ہی نہ کریں ، لیکن ان کا دل اس بات کی گواہی ضرور دے گا۔"
رحمت امروہوی کی آہِ نیم شبی سننے کے بعد وارث صاحب کا دل ہی نہیں، ہم بھی اس کی گواہی دیں گے کہ وارث علوی کے پاس جو کچھ ہے ، وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی دین ہے اور اب وہ جو اس انجمن کے خلاف ہیں تو اس کا سبب بھی یہی انجمن ہے ۔ انہوں نے انجمن کو باہر سے نہیں اندر سے دیکھا ہے ۔ اگر وہ انجمن کے سکریٹری نہ ہوتے تو آج وہ بھی رحمت امروہوی کی طرح قمر رئیس سے نیک چلنی کا سرٹیفکیٹ لے کر گزر اوقات کرتے۔
1947ء میں احمد آباد میں ترقی پسند مصنفین کی جو کانفرنس ہوئی تھی، زیر نظر کتاب میں اس کی روداد شامل ہے ۔ یہ اتنی دلچسپ ہے کہ اسے اردو کے مزاحیہ ادب میں گرانقدر اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ سجاد ظہیر کی صدارت میں جو اجلاس ہوا، اس کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیے:
"وحشی صاحب جب اسٹیج پر آئے تو حاضرین نے بہت ہا ہو کی اور خوب شور و غل مچایا۔ نفرین کے شوروغل سے تمام ہال گونج اٹھا ۔۔۔ حاضرین نے بجائے وحشی صاحب کی تقریر سننے کے ان پر پھبتیاں کسیں، اسٹیج پر پیسے پھینکے اور زور زور سے آوازے کسنے لگے کہ لائیے حضرت آپ کو ن سی دوائی فروخت کرتے ہیں۔"
ہم نے استاد لاغر مرادآبادی کو یہ اقتباس پڑھ کر سنایا اور پوچھا:
"یہ وحشی صاحب کون ہیں اوراب کہاں ہیں؟"
استاد نے فرمایا: "پہلے آپ یہ بتائیے کہ ترقی پسند مصنفین کون تھے اور اب کہاں ہیں؟"
(25/ جون 1987ء)
ماخوذ از کتاب:
سن تو سہی (مشفق خواجہ کی منتخب تحریریں)
مرتبین : ڈاکٹر انور سدید ، خواجہ عبدالرحمن طارق
سن تو سہی (مشفق خواجہ کی منتخب تحریریں)
مرتبین : ڈاکٹر انور سدید ، خواجہ عبدالرحمن طارق
Anjuman taraqqi pasand musannifeen. Column: Mushfiq Khwaja [khama-bagosh].
nice
جواب دیںحذف کریں