خاموش نہ بیٹھے گا دستر پہ جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ میزباں چاک
جب جب دکن کے سوندھے سوندھے سالنوں کی مہک یادوں کے وسیع دسترخوان سے اٹھنے لگتی ہے تب کہیں یاد کی روشن سطع پر ہانڈی میں طویل انتظار کے بعد پکنے والا سوندھا سالن اچانک عقیدے کا حصہ بن جاتا تھا۔ تب ہر چیز محترم بلکہ مقدس سمجھی جاتی تھی۔ دراصل ہر علاقے کا پکوان نہ صرف چٹخارے کا موضوع ہے بلکہ متعلقہ خطہ کا تہذیبی نمائندہ بلکہ مقامی جمالیات کا حسین مرقع ہوتا ہے ۔
ہمارے علاقوں کا مٹیالہ سانولا رنگ، مہکتے ہوئے دستر، راستے میں دم بھر کو سستانے کے لئے چبوترے ، خوشبوؤں کو حسن فطرت کے تازہ تازہ تحفے جیسے۔۔۔ چمپا، چمبیلی، موگرا، موتیا، گلاب اور مٹی کے صحن کے کسی کونے میں مہکتی رات کی رانی، گرمی کی راتوں میں پوری شفقتوں سے پانی کا چھڑکاؤ اور اس کی روح میں اتر جانے والی سوندھی سوندھی بُو۔
کورے برتن سے پجرتا ہوا پانی جو صرف لب و دہن کی پیاس نہیں بلکہ روح کے ہنگام کو بھی آسودہ کر دیتا تھا ۔ کون ظالم ہوگا جس کو وطن کی نرم و نازک مٹی پر بوریا بچھا کربزرگوں کی بلائیں لیتی ہوئی دعاؤں میں لیٹنے کے بعد بھی کوئی اور آرزو مضطرب کر کے اٹھا دیتی ہو ۔ بلکہ ان معصوم منظروں کا چین پانے کی دھن میں نہ معلوم ہمارے کاندھے ہجرتوں کا بار ڈھوتے ڈھوتے کتنا تھک جائیں گے پھر بھی اسے نہ پاسکیں گے ۔ سچ پوچھو تو ہم غیر شعوری طور پر برگر اور شاورما کلچرکا حصہ بن چکے ہیں۔
ارے ہم وہ لوگ ہیں جو کھٹا کھاکر تلخئ حیات کو بھلا دیتے تھے۔ کڑی کھا کر کڑی سے کڑی مشکلوں کے آگے سینہ سپر ہو جاتے تھے ۔ وہ عالمی سطح پر رسوائے زمانہ بیگن جس کو ہم نے سلیقہ سے بگھار کر اس کے تاج کی عظمت بحال کر دی۔ جس سالن کو ہم دیوانی ہنڈی کہا کرتے تھے بلکہ شرما کر پیٹ بھرے مہمانوں سے چھپا کر کھاتے تھے، اس ڈش کو عالمی صحت کے ادارے نے ملی جلی سبزیوں کی وجہ سے کئی امراض کا طلسماتی علاج ٹھہرایا ہے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ دن جب ہم چند ایک دوست محلہ "اللہ بنڈہ" (اللہ میاں کا پتھر) کے بالائی حصہ پر بلکہ کسی بالائی بنڈہ پر بیٹھے بقراطی و افلاطونی بگھار رہے تھے کہ اچانک کسی جھونپڑی سے نکلنے والی دال کے بگھار کی مہک نے ہمیں نظریات کے بلند و بالا بنڈے سے اتار لیا ۔ نہ معلوم آج وہ بگھار کی مہک کہاں گئی جب کہ یار لوگوں نے بڑے بڑے موضوعات کو بگھارنے کا فن ایجاد کیا ۔ جیسے امن مذاکرات ، دہشت گرد قوم اور دہشت گردی کا امکانی خطرہ، نیوکلیئر توانائی کی بندر بانٹ اور انسانی حقوق وغیرہ وغیرہ۔
دکن میں ہم روکھی سوکھی کھاکر رب کی مناجاتیں پڑھا کرتے تھے۔ اب سب کچھ کھاتے ہیں مگر مناجات کی جگہ شکوے نے لے لی ہے۔ اسی احساس کے تحت آئیے ہم اپنی محرومیوں کا شمار کریں۔ ہمارے علاقوں کے مٹی کے مٹکے بلکہ (پیرپے) سے نکلنے والی انبیل اور ہریرہ تو جیسے من و سلویٰ تھا۔ موسموں کے انتظار کے بعد ملنے والے پھل کھاتے تو دعاؤں کے ثمر لگتے تھے ۔ بلکہ غزلوں کی شعری فضاؤں سے تراشا ہوا معاشرہ جس میں محبوب سے محبت، محبوب کا انتظار اور۔۔ غلبہ پا جانے کی آرزو محبوب اور میوؤں پر مشترک ہوتی ہے۔۔ وہ ہری ہری آنکھیں دکھاتا ہوا پھل جس کا نام اردو والوں نے اپنے مزاج کے اعتبار سے کسی نور چشمی سلمہا کی طرح "شریفہ" رکھا ہے اور ہندی والوں نے دیو مالائی اپسراؤں کی غذا بنا کر اسے"سیتا پھل" کہہ کر پاک دامن بنا دیا۔ جسے منہ گول گول کرکے کھاتے ۔ اسی منظر کو جب بابائے اردو مولوی عبدالحق نے دکن میں قیام کے دوران جب اختر حسین رائے پوری کی دلہن محترمہ حمیدہ صاحبہ (بحوالہ کتاب 'میرے ہم سفر') کو دیکھا تو بہو سمان دلہن کو پدرانہ شفقت سے ستانے کے لئے چلا اٹھے اور کہا:
"ہائے! ہائے!! اختر دیکھ تری دلہن کو لقوہ ہو گیا ہے ۔ اس کا منہ دیکھ ۔ دیکھ، لقوہ ہے۔ لقوہ۔"
اس سیتا پھل کو کھاتے ہوئے اس کے شوخ و چنچل بیج کرتب کا مزہ دے جاتے اور چند ایک دانے منہ کے ذریعہ گمنام جزیروں میں جا پہنچتے۔ گنے کی دس ہاتھ لمبی چھڑی جس کو ہم کھاتے کم بلکہ بھنبھوڑتے زیادہ تھے۔ وہ حوصلے آج دانتوں کے امراض کے ہتھے چڑھ گئے ۔ آم کھاتے ہوئے ایسا لگتا تھا جیسے حق و باطل کی کشمکش میں گھر چکے ہوں۔ بلکہ دشمن سے جہاد کر رہے ہوں ۔ اور دشمن کی گردن مروڑ کر غازی کہلائے جا رہے ہوں۔ خدشہ ہے کہ کسی نے ہمیں آم کی ٹوکری کے ساتھ وہ کچھ کرتے دیکھ لیا ہو جس کی بنیاد پر ہمیں دہشت گرد کہا جا رہا ہے ۔
ہائے! وہ ایک پھل جو غلط پیکنگ کی نذر ہو گیا "سنگاڑہ"۔ ایشیا میں افریقہ کا تہذیبی سفیر لگتا ہے ۔ وہ 'منجل' جو چمپئی رنگ لئے تھرکتے پیکر سا جس کا چکنا چکنا سا بدن ہاتھوں سے چھوٹ چھوٹ جاتا تھا۔ جس کی سوندھی تر بتر مٹھاس بیک وقت کھانے اور پینے کا شعو ر دے جاتی۔
ایک دلچسپ چیز تھی"گینگل" نام تھا جس کا جس کی نسیں نہ صرف منہ میں مہک اٹھتیں بلکہ دانتوں کی صفائی کا بھی مفت میں انتظام ہو جاتا ۔ مجھے"گینگل" کی پیداوار کی وجہ کبھی سمجھ میں نہیں آئی لیکن میں اسے کھاتا اس لئے تھا کہ اس کا اور میرا رب مشترک تھا۔ اس لئے کھاتے ہوئے اپنے پن کا احساس ہوتا تھا۔ بالکل ہماری طرح مغز بھرا غیر تربیت یافتہ۔۔ سنجیدہ اور علمی حلقوں میں لوگ "گینگل" کا نام لیتے گھبراتے ہیں۔ ہائے!
اچانک کیا چیز یاد آ گئی "ہری بوٹ" جب جب کھاتے آس پاس کے مقدس بکرے عقیدے کے اختلاف کے باوجود ہم نوالہ ہو جاتے، جیسے بوکڑ ہمارے ساتھ ہو جاتا۔ وہ ایک جانب سے کھاتا اور دوسری جانب سے ہم شوق فرماتے ۔ تب ہی ہمیں یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ مسلکی اختلافات کو ختم کرنے کے لئے کم از کم اتنا تو تال میل ضروری ہے جتنا بوٹ کھاتے ہوئے ہم میں اور بوکڑ میں تھا۔ بوکڑ کی وسیع المشربی نے ہمیں یہ پٹی پڑھائی کہ بوٹ کھاتے ہوئے غیر موجود کیڑے ڈھونڈنے سے (یعنی ساختیات و پس ساختیات) والی تنقیدی بصیرت سے کھانے کی فطری تخلیقی رفتار رک جاتی ہے۔ جب کہ شاید بوٹ کھانے کی وجہ سے یار لوگوں کو چبا چبا کر بات کرنے کی عادت ہو گئی ہے ۔ بلکہ بڑے عہدوں والی چھوٹی شخصیات کی علمی باتیں سن کر ایسا لگتا ہے جیسے بوٹ کھارہے ہوں۔
ایک اور پھل "بیر" جو خواتین کی داخلی سازش کا شکار ہو گیا۔ نہ جانے کیوں وہ ایک نسوانی پھل ہو کر رہ گیا جیسے "زن مرید شوہر"۔
ایک اور بھوک شکن تو پ کے گولے ہوتے تھے، اچھا بھلا نام تھا اس کا "غچپ"۔ غچپ کھاتے اور چپ چاپ ہوا خوری کیا کرتے۔ یار لوگوں نے اس کو پانی پوری کہہ کر اس کے صوتی ہلچل و ہنگام کو چپ کروا دیا ۔ ساتھ ہی تجربہ کار چٹورے گواہی دیں گے کہ بیر اور توتاپری کیری کھانے کی آرزو یکساں ہوتی ہے۔ توتا پری کے سجیلے ٹکڑے نمک مرچ کو اپنے بدن پر مل کر جب ہمارے منہ کے اکھاڑے میں اترتے، تب کھٹے کے دباؤ سے بھری محفل میں ایک آدھ آنکھ بھی بند ہوجاتی تھی جس پر بعض لوگ ہماری اخلاقی صحت پر شک کرتے تھے۔
بچپن کی بادشاہت میں جتنا "آنسو ٹیکس" ہمیں ملتا ہم اس کو کھوپرے کی مٹھائی ، ادرک کا مربہ، ابلے ہوئے رتالو وغیرہ پر خرچ کرتے ۔ کبھی کبھی گولی والا سسکیاں مارتا ہوا سوڈا جس کی آواز پر ہم خوشی سے چیخ پڑتے، کچی عمر میں سوڈا پیا نہیں جاتا تھا لیکن سوڈے والے کی تیز آنکھوں سے لرز کر گھونٹ گلے سے اترنے لگتے ، غالباً زندگی کے کڑوے گھونٹ پینے کا چسکا اسی عمر میں لگتا ہوگا۔
ایک اور پھل جو باہر سے چٹان کی طرح سخت اور اندر مخمل کا خزانہ تھا۔ ہاں! اسے کویٹ کہتے تھے۔ بڑا مومنانہ بلکہ صوفیانہ مزاج تھا اس کا۔ اردو کے عظیم شاعروں کے دواوین پڑھ کر یوں لگتا ہے انہوں نے کویٹ کھا کر ہی شاعری کی ہے ۔ اس کے علاوہ تل کے لڈو جب کھاتے تو دکنی ڈھولک کی تھاپ اور دلپذیر گیتوں کی دھمک دانتوں سے سنائی دیتی تھی۔ اس زمانے میں کھلونوں سے کھیلنے کا نہیں بلکہ کھلونوں کو کھاجانے کا تصور تھا۔ جس کا ثبوت وہ ہاتھ گھڑی تھی جسے جب تک چاہا دیکھا پھر گھڑی کے سہارے سے وقت کے لطیف احساس کو اپنے معصوم ذہن میں اتارا، پھر وقت کو مٹھیوں میں بھینچ لینے کی آرزو میں رنگین گھڑی کی مٹھاس کو چوس لیا۔
دکن کی سطح مرتفع پر بارش کا اپنا ایک فطری حسن ہوتا ہے ۔ جہاں ہلکی سے پھوار پر نمکین مونگ پھلی کا اہتمام ہوتا۔ پھلی یوں لگتی جیسے آج ہی نہا دھوکر بزم میں پہنچی ہو۔ رمضان میں ابلی ہوئی چنے کی دال کھاتے ہوئے روزوں کی قبولیت کا احساس ہوتا تھا۔ جبکہ آج سارے دستر خوان بحری، بری اور فضائی گھیراؤ سے میوزیم نظر آتے ہیں۔ لیکن روزوں کی قبولیت مشکوک رہتی ہے۔
مشرقی غذاؤں اور مغربی چٹورے پن میں ایک نمایاں فرق معصوم ذہنوں میں جمالیاتی قدروں کا نفوذ ہوتا ہے۔ اسی سچائی کو ہم بچپن میں ہی پا گئے تھے ۔ جب جب 'کمر گھٹ' کھاتے اور کمرِ ہمت باندھنے کا عزم کرتے۔ دلہن پٹی کھاتے تو بچوں کو مٹھائی کا مزہ ملتا اور بڑوں کی نام رعنائی و حرارت سے رال ٹپک جاتی ۔
دعائیں دیجئے اس تجارتی شعور کو جس نے اپنی چیزوں کو قدروں سے جوڑ رکھا ہے ۔ گلبرگہ کے ماموں کی مٹھائی جب جب کھاتے ، تب تب اپنے ماموں سے اور محبت کرنے لگتے۔ یہاں تک کہ وہ گھر سسرال میں تبدیل ہو جاتا ۔ بڈھی کا بال کھاتے، گھروں کی بڑی بوڑھیوں پر جان نچھاور کرتے ۔ جب جب طبیعت زیادہ شوخی پر اتر آتی تو کسی مشاق ہاتھوں کا چاکنہ کھایا جاتا ، نہ جانے کیوں اس شوخ ڈش کا سماجی رتبہ کم ہے ۔ یہ چاکنہ ہمیں بڑا تڑپاتا تھا۔ یہ ڈش ہمیں وہاں وہاں ملتی تھی جہاں جاکر آدمی خود چاکنہ ہو جاتا ہے۔
ہائے! ہم سے ہمارا شہر کیا چھوٹا ہمارے بچپن کی بادشاہتیں چھن گئیں لیکن اسے یادوں کے جزیروں میں ہمیشہ آباد رکھیں گے، جہاں کسی شناختی کارڈ اور اقامہ کی کوئی شرط نہیں۔
The fruits of Hyderabad deccan, A memoir.
واہ... خوبصورت
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںواہ کماال کی اور کیا خوبسورت تحریر ھے گو کہ مضمون میں شامل زیادہ تر پھلوں کے نام پہلی بار سن رھا ھوں کیونکہ ہمارے پھلوں اور دکن کے پھلوں کے درمیان نگوڑی سرحدی لکیر ھے جسے پھاندنا دونوں فریقین کے لئے گویا جوئے شیر لانا ھے لیکن ہر پھل کو بیان کئے گئےواقعات سے انادزہ لگا کہ منہ میں کھٹے میٹھے زایقے ضرور محسوس ھو رھے ہیں۔ واقعی وقت اور جدیدیت بہت کچھ بہا کہ لے گئی ھے۔۔۔۔۔ مزید مزے کی بات یہ ھے کہ میں بھی دمام میں ھوتا ھوں
جواب دیںحذف کریں