حضرت سید احمد شہید - ایک مظلوم مصلح - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-23

حضرت سید احمد شہید - ایک مظلوم مصلح

syed-ahmed-shaheed
سید احمد شہیدؒ الف لیلیٰ کی کوئی افسانوی شخصیت یا ماقبل تاریخ کا کوئی انسانی کردار نہ تھے، انہوں نے تیرھویں صدی کے اوائل اور اٹھارہویں صدی کی آخری دہائیوں میں نشوونما پائی۔ ان کی تعلیم و تربیت اور ابتدائی سر گرمیوں کا مرکز شمالی ہند کا وہ آباد اور مرکزی خطہ تھا جو علم و ادب، تہذیب و تمدن اور سیاسی اہمیت کے اعتبار سے ہندوستان کا درجہ اول کا علاقہ تھا اور جس کو قدیم انگریزی اصطلاح میں صوبہ جات متحدہ آگرہ واودھ کہتے تھے پھر ان کا رابطہ دہلی اور دہلی کے شہرۂ آفاق خاندان ولی اللہی سے قائم ہوا جس کے علم و درس کا سکہ سارے ہندوستان میں چل رہا تھا ، خود ان کا خاندان اودھ کا مشہور و معروف سادات کا خاندان تھا جو کم سے کم پانچسو برس سے نامور علماء و مشائخ کی بدولت جو اس خاندان میں پیدا ہوتے رہے اور اپنی خاندانی روایات زاہدانہ زندگی اور وقار سنجیدگی کی وجہ سے قرب و جوار میں عزت و احترام کی نگاہ دیکھا جاتا تھا ، ہر دور میں دہلی کے مغل فرمانروا اس سے اپنی عقیدت کا اظہار اور اس کی عالی نسبی کا اعتراف کرتے رہے اور ان سب فارسی تذکروں میں جو مختلف عہدوں میں لکھے گئے اس خاندان کے ممتاز افراد کا ذکر ملتا ہے پھر وہ جنگی ترتیب و مہارت حاصل کرنے کے لئے وقتی طور پر سنبھل(یوپی) کے ایک بلند حوصلہ افغانی سردار نواب امیر خاں کی فوج میں رضا کارانہ خدمات انجام دیتے رہے( جو بعد میں راجپوتانہ کی اسلامی ریاست ٹونک کے بانی ہوئے) نواب ممدوح ان کی بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان سے عقیدت و محبت کا تعلق رکھتے تھے ۔ نواب امیر خاں کی زندگی اور حالات بھی تاریکی میں نہیں ہیں اور ان پر متعدد کتابیں لکھی جاچکی ہیں ان کو پنڈاروں اور اٹھارویں صدی کے وسط کے ٹھگوں سے کوئی تعلق نہیں تھا (جیسا کہ انگریز مورخین کو غلط فہمی ہوئی ہے یا انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔)
امیر خاں کے لشکر سے واپسی کے بعد ان کی طرف علماء و مشائخ ، شرفاء و امراء کا ایسا رجوع ہوا اور انہوں نے پروانوں کی طرح ان سے بیعت ہونے اور ان سے روحانی فائدہ اٹھانے کے لئے ایسا ہجوم کیا جس کی مثال ہندوستان میں بہت دور تک نہیں ملتی، پھر انہوں نے صوبجات متحدہ کے کئی دعوتی و تبلیغی دورے کئے جس میں یہ پورا علاقہ ان پر امنڈ آیا اور توبہ و اصلاح اور رد شرک و بدعت کی ایسی تیز رو چلی جس کی مثال عرصہ دراز سے دیکھنے میں نہیں آئی تھی، پھر انہوں نے ساڑھے سات سو آدمیوں کے ساتھ( جو اس زمانہ کے وسائل کے لحاظ سے بہت بڑی تعداد تھی) اس شان و شوکت سے حج کیا جس کی کوئی نظیر نہ ہندوستان کے بادشاہوں کی تاریخ میں ملتی ہے، نہ علماء و مشائخ کے سوانح و تذکروں میں۔ ا پنے وطن رائے بریلی سے لیکر جہاں سے انہوں نے یہ سفر شروع کیا تھا، کلکتہ تک جو ان کے خشکی کے سفر کا منتہیٰ تھا ، گنگا کے کنارے کا یہ پورا علاقہ ایک نئی زندگی سے آشنا اور ایک نئے جوش سے مخمور ہوگیا ، اور پورے کے پورے شہر ان کے حلقۂ ارادت اور دائرہ اصلاح میں داخل ہوگئے۔
پھر وہ مکہ اور مدینہ گئے، جہاں ان کا استقبال ہوا جو عرصہ سے کسی غیر عرب دینی شخصیت کا نہیں ہوا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حجاز میں وہابیت اور وہابیوں کا نام لینا بھی خطرے کو دعوت دینے اور اپنے کو مشکوک بنانے کے مرادف تھا، وہاں ان کے کسی وہابی مبلغ سے ملنے کی کوئی ادنی سی شہادت نہیں ملتی، ان کا دینی و ذہنی ارتقاء اس سفر سے پہلے اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکا تھا اور ان کی اصلاح عقیدہ اور اصلاح عمل کی دعوت جو قرآن و حدیث کے براہ راست مطالعہ پر مبنی تھی ، ہندوستان ہی میں واضح اور معین ہوچکی تھی۔
پھر انہوں نے جہاد اور خلافت اسلامیہ کے احیاء کے لئے جس کے حدود ان کے وسیع منصوبے اور بلند تخیل میں ہندوستان سے لے کر ترکستان ، بلکہ ترکی تک وسیع تھے ، ایک زبردست تحریک شروع کی اور آزاد قبائل کے علاقہ کو اپنی اس دعوت و جدو جہد کا مرکز بنایا ، اپنے مستقر سے ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پہنچنے کے لئے آپ نے ایک عظیم قافلہ کے ساتھ ہندوستان، بلو چستان اور افغانستان کا جو طویل اور پر مشقت سفر کیا، اس کی روئیداد اتنی مضبوط ، مفصل اور صحیح معلومات پر مشتمل ہے اور اس میں ایک ایک مقام اور ان کے فاصلے، ان کی جغرافیائی و تمدنی حالت کا اتنا مستند بیان موجود ہے جس کی کسی سرکاری دورے کی روئداد روزنامچے سے توقع کی جاسکتی ہے ۔ وہاں سے انہوں نے ہندوستان سے رابطہ قائم رکھا، وہ اپنے عزائم اور اقدامات کی اطلاع گشتی مراسلوں کے ذریعہ ہندوستان کے علماء اور بااثر لوگوں کو دیتے رہے۔ ان دعوتی و سرکاری خطوط کے مجموعے، ہندوستان کے مختلف خاندانوں اور کتب خانوں اور انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ہے ۔ میدانِ جنگ میں بھی ان کے حالات اور جنگی کارروائیوں کی روئداد لکھی جاتی رہی۔
ان کی شہادت کے بعد جو 24 ذی قعدہ 1246ھ مئی 1831ء کو بالا کوٹ میں پیش آئی۔ ا ن کے حالات اور ان کی زندگی کے جزئیات لکھنے کا اتنا اہتمام کیا گیا جو شاید ہی کسی مصلح اور قائد کے بارے میں مختلف صدیوں میں کیا گیا ہو ۔ اس سلسلہ میں دو کوششوں کا ذکر کرنا نامناسب نہیں ہوگا۔
ایک وہ کوشش جو اجتماعی اور منظم طریقہ پر والی ریاست ٹونک نواب وزیر الدولہ کے حکم و تعاون سے شہادت کے عین بعد ٹونک میں کی گئی جہاں ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ جو برسوں ان کے ساتھ رہے تھے، جنگی موقعوں پر شریک تھے اور ان کے شب و روز سے واقف تھے ، انہوں نے اجتماعی طریقہ پر اپنے چشم دید واقعات اور ذاتی معلومات قلمبند کرائے ، یہ گویا علمی انداز کا پہلا منظم(اکیڈمک) کام تھا جو انجام پایا، یہ قلمی دفتر چار ضخیم جلدوں میں ہے جس کا نام"وقائع احمدی" ہے ۔
دوسرا مستند ترین ذخیرہ مولوی سید جعفر علی نقوی(م 1288ھ) کی فارسی تصنیف"منظورۃ السعداء فی احوال الغزاۃ اوالشہداء" ہے، کتاب کے مصنف قدیم ضلع گورکھپور حال ضلع بستی کے ایک نامور سادات و علماء کے خاندان کے فرد اور جید عالم اور فارسی کے انشاء پرداز تھے ، وہ خود محاذ جنگ پر تھے اور لشکر کے میر منشی کی خدمت ان کے سپرد تھی جو ان کی گہری واقفیت اور مستند معلومات کی ضامن ہے ۔
تیسری تاریخی دستاویز سید صاحبؒ کے بڑے بھاجنے مولوی سید محمد علی(م 1266ھ) کی فارسی زبان میں تصنیف"مخزن احمدی" ہے جو سید صاحبؒ کی ولادت سے لے کر حج سے واپسی تک کے حالات میں سب سے بڑا قابل اعتماد مآخذ ہے ۔ اس لئے کہ وہ ان کے عزیز قریب کے قلم سے ہے، مصنف اکثر واقعات کے چشم دید گواہ اور سفر و حضر کے رفیق تھے، نواب محمد علی خاں والی ٹونک کے عہد میں یہ کتاب لکھی گئی اور آگرہ کے مطبع میں یہ کتاب چھپ کر شائع ہوئی۔
چوتھا مآخذ مولوی محمد جعفر تھانیسری اسیر پورٹ بلیئر و متہم مقدمہ سازش 1864ء کی تصنیف"سوانح احمدی" ہے جس نے سید صاحبؒ کے حالات کی اشاعت کی بڑی خدمت انجام دی۔ یہ اردو میں پہلی کتاب تھی جو سید صاحب کے حالات میں چھپ کر ہندوستان میں عام ہوئی اور گھر گھر پہنچی۔ مصنف سید صاحبؒ کے خلفاء سے بیعت اور سید صاح کے سچے اور پرجوش معتقد تھے ، وہ 18 برس تک کالا پانی رہ کر وطن واپس ہوئے تھے ۔ انگریز اس جماعت کی ہر چیز کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ اس لئے یہ کتاب خاص احتیاط سے لکھی گئی اور اس میں ان حقیقتوں کا اظہار نہ کیا جاسکا جس کا آزادی کے دور میں برملا اظہار کیاجاسکتا ہے۔
5۔ اس موضوع پر سب سے جامع اور مکمل تصنیف مولانا غلام رسول مہر مرحوم کی "سید احمد شہیدؒ" ہے ، یہ چار ضخیم جلدوں میں ہے، جن کے صفحات کی مجموعی تعداد ایک ہزار نو سو اکیس ہے، اس کو سید صاحبؒ کی سیر اور آپ کی تحریک جہاد و دعوت اور جماعت مجاہدین اور آپ کے ممتاز رفقائے کار کے حالات میں ایک انسائیکلو پیڈیا کہنا چاہئے ۔ یہ کتاب لاہور سے طبع ہوئی ہے اور علمی و ادبی حلقوں سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہے ۔
راقم سطور نے بھی اس موضوع پر ایک کتاب"سیرت سید احمد شہیدؒ" کے نام سے لکھی ہے ۔ 1939ء میں یہ کتاب ایک جلد میں چار سو باسٹھ صفحہ میں شائع ہوئی ، اس پر مولانا سید سلیمان ندویؒ کا ایک بلیغ اور دل آویز مقدمہ تھا، جس کا شمار سید صاحبؒ کی بہترین شگفتہ ادبی تحریروں میں ہے ۔ اس مقدمہ سے نو عمر مصنف کی جس کی عمر اس وقت 24 سال سے زیادہ نہ تھی، بڑی ہمت افزائی ہوئی۔ یہ مصنف کی پہلی کوشش اور اس کے قلم کا پہلا ثمر تھا، کتاب کا ہندوستان کے علمی و دینی حلقوں میں جس طرح غیر معمولی طور پر استقبال ہوا، اس سے اس پیاس کا اندازہ ہوتا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں میں موجود تھی ۔ ہندوستان کے مخصوص سیاسی حالات اور اسلام کے اقتدار و غلبہ کے شوق و آرزو نے ان کے اندر ایسی چیزوں کی طلب پیدا کردی جو ان کے اندر خود اعتمادی و خود شناسی اور ایمان و یقین کے کے سوئے ہوئے جذبات بیدار کرسکیں، چنانچہ پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ ختم ہوگیا اور اس کے بعد کئی ایڈیشن شائع ہوئے، اسی دوران مصنف نے اس میں اضافہ اور تحسین و تنقیح کا کام جاری رکھا اور ان اضافات کی وجہ سے کتاب کا حجم پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ۔ کتاب کا پانچواں ایڈیشن 1974ء میں پاکستان سے اور چھٹا 1978ء میں ہندوستان سے دو ضخیم جلدوں میں شائع ہوا ، جن کے صفحات کی مجموعی تعداد ایک ہزار ایک سو پینتالیس ہے اور اس میں جا بجا اہم تاریخی نقشے ، تاریخی مقامات کی تصویریں اہم دستاویزات شامل ہیں۔
آخر میں سید صاحب ؒ پر انگریزی میں ایک نئی کتاب(SAIYID AHMAD SHAHID, HIS LIFE AND MISSION) کے نام سے شائع ہوئی جو گہرے مطالعہ کا نچوڑ ہے ، اور جدید اسلوب میں لکھی گئی ہے ، اور بہت سی تاریخی دستاویزات سرکاری رپورٹوںا ور غیر ملکی شہادتوں اور بیانات پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب کے مصنف محی الدین احمد ہیں، یہ کتاب بڑے سائز کے اور باریک انگریزی حروف کے 427 صفحات میں آئی ہے، ان کتابوں کے علاوہ متعدد اور کتابیں، رسائل اور مقالات ہندو پاک نیز یورپ اور امریکہ میں شائع ہوچکے ہیں۔
افسوس ہے کہ عربی زبان میں اس موضوع پر بہت کم چیزیں ملتی ہیں اور عالم عربی اس اہم شخصیت اور اس کے نامور افراد کے کارناموں سے بالعموم ناواقف ہیں، اور شاید اس سلسلہ میں سب سے پہلی کوشش راقم السطور کا وہ رسالہ ہے جس کو علامہ سید رشید رضا مرحوم نے اپنے مشہور رسالہ "المنار"(1349ھ۔1350ھ) 1931ء میں شائع کیا اور پھر بعد میں اس کو ایک علیحدہ اور مستقل رسالے کی شکل میں چھپوایا ۔ اس رسالہ کا عنوان تھا۔"الید الامام احمد بن عرفان الشہید ، مجدد القرن الثالث عشر"اس رسالہ کی تحریر کے وقت مصنف کی عمر17 سال سے زیادہ نہ تھی۔ اس لئے اس میں ان کتابوں کا معیار نظر نہ آئے گا، جو فکری پختگی مکمل مطالعہ اور وسیع تجربے کے بعد لکھی جاتی ہیں، تاہم آگے چل کر مصنف کو عربی میں ایک نئی متوسط درجہ کی کتاب لکھنے کی توفیق حاصل ہوئی ، جس میں اس تحریک جہاد و قربانی کے ان مختلف اثر انگیز واقعات کو سلیس عربی زبان میں جمع کیا ہے جن سے سید صاحبؒ کی نگاہ کی دور رسی ان کی صحبت کی کیمیا اثری اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کی اسلامی سیرت و کردار اور ان کے بلند اخلاق کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اسی کے ساتھ دعوت و جہاد کی مختصر مرحلہ وار تاریخ بھی بیان کی گئی ہے تاکہ اس کا پورا پس منظر سامنے آجائے ۔ یہ کتاب "اذا ھب ریح الایمان" کے نام سے شائع ہوئی، اور لکھنو و بیروت سے اس کے تین ایڈیشن نکلے۔
ایک ایسی معروف شخصیت جس کی پیدائش سے لے کر شہادت تک کے حالات اس قدر تیز روشنی میں ہوں کہ صرف وہی شخص ان سے ناواقف ہوسکتا ہے جو اپنی آنکھیں پورے طور پر بند کرلے اور دیکھنے کا ارادہ ہی نہ کرے اور ایک ایسی تحریک کے متعلق جس کی جزئیات اس تفصیل کے ساتھ قلمبند کی گئی ہوں جو جدید عصری طریقوں سے کسی طرح کم نہ ہوں، قیاس آرائیاں، قصے کہانیوں پر انحصار اوربے سند لکھی ہوئی یا کہی ہوئی باتوں کو دہراتے رہنا عصر جدید کا ایک ایسا تضاد ہے اور علمی دنیا کی ایک ایسی بوالعجبی ہے جس کی کوئی تاویل آسانی سے ممکن نہیں ہے ۔

ماخوذ از کتاب: تحقیق و انصاف کی عدالت میں (ایک مظلوم مصلح کا مقدمہ)
تالیف : مولانا سید ابوالحسن علی ندوی

Saiyid Ahmed Shaheed, history and life mission.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں