تاریخ و فلسفہ عید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-22

تاریخ و فلسفہ عید

eid-history-philosophy
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا کی ہر قوم، خواہ وہ مذہب پرست ہو یا مذہب بیزار ، اور خواہ وہ مہذب و شائستہ اور ترقی یافتہ ہو، یا تہذیب و تمدن کے نام سے نا آشنا، اس کے لئے کوئی نہ کوئی دن اجتماعی طور پر خوشی و مسرت کے اظہار کے لئے متعین و مقرر ہے ۔ یہ ایک ایسی قومی عادت ہے جس کے ذکر سے کسی بھی زمانے میں کسی قسم کی تاریخ خالی نظر نہیں آتی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مذہبی اقوام کی عیدوں کو مذہبی تقدس حاصل ہوتا ہے اور جہاں مذہب سے کسی کو کوئی سروکار نہ ہو، وہاں کسی سیاسی یا سماجی راہنما کی یاد میں یا آزادی کے دن کی مناسبت سے تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے ۔
مذہب اسلام نے بھی اپنے ماننے والوں کے فطری جذبہ اظہار مسرت کا لحاظ رکھتے ہوئے انہیں بھی اس کے مواقع مہیا کئے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی بعثت کیو قت اس ماحول میں وہ ساری برائیاں موجود تھیں جنہیں برائی کا نام دیاجاسکتا ہے۔ شرک تھا، بت پرستی تھی اور ہر طرح کا اخلاقی انحطاط تھا ۔ وہ لوگ"ابراہیمی" کہلوانے کے باوجود غیروں کے نقال اور مقلد تھے یہاں تک کہ عید کے معاملے میں بھی وہ نوروز اور مہرجان جیسی مجوسی عیدوں یا تہواروں کے پابند تھے ، اور کسی قوم کی ذلت و پستی کی یہ انتہا ہوتی ہے کہ وہ غم اور خوشی کے اظہار کے معاملوں میں بھی دوسروں کی نقال ہو اس کی اپنی تاریخ اس معاملے میں اس کی کوئی راہنمائی نہ کرے ۔ یا پھر وہ اپنے قومی مآثر کو ویسے ہی چھوڑ چکی ہو ۔
ہمارے رسول مقبول ﷺ کی بعثت نے جزیرہ نمائے عرب میں ایک ایسا عظیم اور پر امن انقلاب برپا کیا جس سے زندگی کے تمام گوشے متاثر ہوئے ۔ شرک کی جگہ توحید باری تعالیٰ نے لے لی۔ بت پرستی کی بجائے عبادت الٰہی اور صرف رب واحد کی پرستش کے چرچے ہونے لگے ۔ اخلاقی قدریں اپنا مقام پانے لگیں اور اغیار کی غلامی کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹنے لگیں۔ اس کے ساتھ فطرت انسانی کے مسلمہ جذبات اور جذبہ اظہار مسرت کا بھی خیال رکھا گیا، جیسا کہ سنن ابو داؤد، ترمذی، نسائی، معانی الآثار طحاوی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ اہل مدینہ نے بھی کھیل کود اور خوشی منانے کے دو دن مقرر کئے ہیں ، تو حضرت انسؓ کے بقول آپ ﷺ نے فرمایا:
"تم نے کھیل کود اور خوشی منانے کے دو دن مقرر کئے ہوئے تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان جاہلی تہواروں کے بدلے میں تمہارے لئے دو بہترین دن مقرر کئے ہیں، اور وہ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن ہیں۔"
اس حدیث میں عیدین سے پہ لے جن دو دنوں میں کھیل کود کا ذکر آیا ہے ، صاحب التنقیح کے حوالے سے شیخ احمد عبدالرحمن البنا نے لکھا ہے کہ"ان دو نوں سے مراد نوروز اور مہرجان کے مجوسی تہوار ہیں۔"
اس تبدیلی سے ایک طرف تو یہ بڑا فائدہ ہوا کہ ان جاہلی تہوارں ، جو مشرکانہ رسوم سے وابستہ تھیں، کا خاتمہ یوگیا اور دوسری طرف زیب و زینت اور خوشی و مسرت کے اظہار کے ساتھ ساتھ شعائر دینیہ کی عظمت لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہونے لگی، جب کہ مسلمانوں اور دوسری قوموں کی عیدوں میں یہی بنیادی اور امتیازی فرق ہے کہ دوسری قوموں کی عیدیں لہو لعب، کھیل تماشا اور خرافات و لغویات کا مجموعہ ہوتی ہیں مگر مسلمان عید کے دن بھی نازیبا حرکات و اعمال کو دوسرے دنوں کی طرح ہی ناجائز سمجھتے ہیں ۔
مسلمانوں کی عیدوں کا ایک خاص مقصد ہے اور وہی مقصد اس کی اصل روح و جوہر ہے ۔ عیدالفطر کا مقصد رب العالمین کے انعامات اور احسانات کا شکر ادا کرنا اور انتہائی عجز و انکساری کے ساتھ اپنی بے بضاعتی، کم مائیگی اور کوتاہ عملی کا اعتراف کرنا ہے ، اور عیدالاضحیٰ کا مقصد زندگی کے ہر موڑ پر قربانی، جانثاری، تسلیم و رضا اور اخلاص و تقوی کی روح پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی راہ میں سب کچھ لٹادینے اور قربان کردینے کا وہ جذبہ پیدا کرنا ہے جس کا نمونہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کی زندگی میں قدم قدم پر ملتا ہے ۔
گویا ایک عید(عیدالفطر) بھوک و پیاس کی یادگار ہے ، رمضان المبارک غذا و خوراک کے غیر معتاد نظام کے ساتھ ختم ہوا۔ اس امتحان میں کامیابی کے بعد ایک دن مسرتوں کے لئے وقف ہوگیا۔ دوسری عید میں حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی جفا کشی، ہجرت اور قربانی کے امتحانات میں کامیابی پر مسرت فرمائی گئی ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس پاکیزہ خاندان کے ایثار ووفا کو تاریخی حیثیت عطا فرماکر اسے بقا و دوام عطا فرمادیا۔ اس طرح جہاں ملت اسلامیہ کو اغیار کی نقالی سے بچایا وہاں اپنی تاریخ کو عملاً زندہ فرمادیا۔
اور دوسری عید(عیدالاضحیٰ) حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کے اس عظیم کارنامے کی یادگار بھی ہے جس میں وہ پیرانہ سالی کے باوجود حکم الٰہی کا اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے لخت جگر حضرت اسماعیلؑ کی قربانی پیش کردیتے ہیں۔ عیدالاضحٰی اور قربانی ہی نہیں بلکہ پورا موسم حج اور اس کے ہر ہر رکن کے ساتھ تاریخ ابراہیمی کے ابواب منسلک ہیں۔ تعمیر کعبہ ہو کہ مقام ابراہیم، چاہ زمزم ہو کہ حجر اسماعیل(حطیم) صفاو مروہ کی پہاڑیاں ہوں کہ ان کے مابین "سعی" منیٰ کی قربان گاہ ہو یا کنکریاں مارے جانے(رمی کیے جانے) والے جمرات۔ الغرض ! خود شہر مکہ سمیت یہ سب مقامات و خاندان خلیل اللہ ؑ کی تاریخ ہی کے ابواب ہیں اور یہ سب مناسک حج و عمرہ اسی خاندان کی خلوص و وفا سے بھرپور اداؤں کی یادگار ہیں۔ اسی طرح ان دونوں عیدوں کے ذریعے خوشی و مسرت کے علاوہ اجتماعی انداز میں حمد ثنائے باری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ باہم میل ملاپ کے مواقع مہیا ہوگئے۔
اسی طرح یہ دونوں عیدیں عبادت و ذکر الٰہی کے علاوہ شوکت اسلام کے اظہار کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں۔ عید کی اجتماعیت کو مزید وسعت دینے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی عید گاہ میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے ۔ حتی کہ صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتب میں وارد صحیح حدیث کی رو سے وہ عورتیں بھی اس عظیم اجتماع عید میں ضرور شامل ہوں جو فطری عذر (حیض) میں مبتلا ہوں ۔ لیکن فرمایا کہ وہ نماز تو نہ پڑھیں البتہ
"وہ مسلمانوں کے ساتھ خیروبرکت اور ان کی دعاؤں میں شریک ہو جائیں۔"
اس پر بس نہیں بلکہ عید کی اس اجتماعیت اور شوکتِ اسلام کے اظہار کو مزید موثر بنانے کے لئے نبی اکرم ﷺ نے یہ انداز بھی اختیار فرمایا کہ عید گاہ جانے اور واپس لوٹنے کے لئے الگ الگ راستے اختیار کیے تاکہ مسلمان بھی آپ کی اس سنت پر عمل کریں تو عید کے دن شہر، گاؤں، سڑکیں بازار اور تمام گلی کوچے اللہ کی تکبیریں پکارنے والے مسلمانوں سے بھر جائیں ۔ یہ راستہ بدلنے کے فوائد و حکمتوں میں سے ایک ہے جیسا کہ اس کی تفصیل زاد المعاد، فتح الباری، نیل الاوطار، غنیۃ الطالبین اور الفتح الربانی میں ذکر کی گئی ہے۔

ماخوذ از کتاب: عیدین و قربانی (فضیلت و اہمیت، احکام و مسائل)
تالیف : مولانا محمد منیر قمر

The history and the philosophy of Eid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں