شوہر بیوی کا تعلق - ہم بستری پر ثواب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-18

شوہر بیوی کا تعلق - ہم بستری پر ثواب

copulation-of-husband-wife-reward
ہم بستری پر بھی ثواب مل سکتا ہے (1)

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
بعض اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے حضور ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! مالدار اجروثواب میں آگے بڑھ گئے ۔ حالانکہ وہ بھی نماز ویسے ہی پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں، وہ بھی ویسے ہی روزے رکھتے ہیں، جیسے ہم رکھتے ہیں۔۔ اور اپنے فاضل اموال کو خیرات کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ تمہارے لئے اللہ نے ایسی چیزیں نہیں بنائیں جنہیں تم خیرات کرسکتے ہو؟ اس لئے سنو ! ایک بار سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے ایک بار اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔ ایک بار لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے۔برائی سے روکنا صدقہ ہے، اور تمہاری شرمگاہوں کے اندر بھی صدقہ ہے ۔(2)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کیا ہم میں سے کوئی شہوت پوری کرے، تویہ بھی اس کے لئے صدقہ بن سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: بتاؤ، اگر اس نے حرامکاری میں اس کو استعمال کیا، تو کیا اسے گناہ نہ ہوگا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا ،کیوں نہیں(آپ نے فرمایا) بس اسی طرح حلال موقعہ پر استعمال کرنے سے ماجور ہوگا۔(3)
پھر آنحضرت ﷺ نے اور چیزوں کے خیرات ہونے کا ذکر فرمایا۔ اور کہا ان سب کے مساوی چاشت کی دو رکعت ہے ۔
(مسلم، نسائی)

حوالہ (1) :
بشرطیکہ مرد و عورت نے ہم بستری کے ذریعہ پاکدامنی اور عفت کی نیت کی ہو ۔

حوالہ (2) :
اس حدیث کے حاشیہ میں صاحب مدخل نے لکھا ہے:
یہ حدیث بتاتی ہے کہ اخلاص کی یہ شرط نہیں کہ شہوت عقل کے تابع ہو۔ بلکہ اخلاص کی اولین شرط یہ ہے کہ لذتیت اور تمام تر خواہشات نیک نیتی کے تابع ہوں اور نیت ہر طرف سے یکسو ہوکر صرف عبادت کے لئے خاص ہو۔ (3۔174)
کہاں اسلام کا یہ بلند نظری، اور کہاں دیگر مذاہب کا تخیل جو ہم بستری کو سراسر گناہ، گندگی اور شیطنت سمجھتا ہے ۔ جس کا لازمی نتیجہ طاقتور اور پرجوش جنسی توانائی کی بابت یہ ہوتا ہے کہ ان سے متاثر ہوکر آدمی یا شہوتوں سے پرہیز کرتا ہے یا انہیں مکمل طور پر اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے ۔ جس سے بے راہ روی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر جنسی قوت کا بدھن ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور آدمی حرام کاری میں مبتلا ہوکر ناک تک اس میں ڈوب جاتا ہے ۔ جیسے آج یورپ میں ہورہا ہے ۔
پھر بات یہیں تک محدود نہیں رہ جاتی ۔ بلکہ یورپین سماج عورت کو شر اور فساد کی پتلی سمجھتا ہے ۔ کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو ورغلا کر پھل کھلانے میں حوا نے شیطان کے ساتھ حصہ لیا ۔ اور آدم کی اولین لغزش کا باعث بنی۔ پھر یہی چیز بنت حوا کی سرشت میں پیوست ہوکر ان کی نسل میں مدتوں برقرار رہی۔
جب کہ قرآن پاک اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اکیلے شیطان نے آدم و حوا( علیھما السلام) کو یکساں گمراہ کیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دونوں کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں معاف کر دیا۔ قرآن پاک یہ فیصلہ بھی سناتا ہے کہ گناہ اور لغزش موروثی نہیں ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: سورۃ النجم:38
“اور کوئی جان کسی جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔”
تورات میں ہے۔ بیٹے کی غلطی پر باپ کو قتل نہیں کیاجائیگا، نہ باپ کے گناہ پر بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار ا جائے گا۔ ہر کوئی اپنی غلطی پر مارا جائے گا۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضور اکرم ﷺ نے اس علاج(مجامعت) کی خود تلقین فرمائی ۔ اس کے استعمال کی ترغیب دی ۔ اسے اجروثواب اور خیر کا باعث قرار دیا ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ عمل کامل لذت کا سبب، محبوب کے ساتھ نیکی اور احسان کا ذریعہ ، اجروثواب کا باعث، خیر خیرات کا وسیلہ، دل کی خوشی کا سامان، غلط افکار کے ازالہ کی تدبیر اور روح کے ہلکے پھلکے ہونے کی علت ہے ۔ اس عمل سے روح کی کثافت اور سختی دھل جاتی ہے، جسم ہلکا اور مزاج معتدل ہوجاتا ہے ۔، صحت بحال اور فاسد مواد کی صفائی ہوتی ہے ۔ اور اگر یہ عمل خوشدلی ، خوبصورتی، خوش اخلاقی اور میل محبت سے انجام پایا، کامل رغبت اور ثواب کی نیت دل کے اندر موجزن رہی، تب وہ لذت حاصل ہوگی جس کے برابر کوئی لذت نہیں ہوسکتی۔ بالخصوص جب کہ یہ عمل کامل طریقہ سے انجام پائے۔ جس کی علامت یہ ہے کہ اس کے بعد ہر جزوبدن کو تسکین نصیب ہوتی ہے ، محبوب کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے۔ اس کی نرم و شیریں باتوں کو سن کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کی خوشبو سے مشام جان معطر ہوتا ہے ۔ اس کا بوسہ لینے سے منہ کا مزہ بدل جاتا ہے، ہاتھ سے چھونے پر الگ لذت ملتی ہے ، اور اس طرح جسم کے ہر عضو کو خاطر خواہ تسکین نصیب ہوتی ہے ۔ محبوب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ہے ۔ اور اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی مفقود ہوتی ہے تو نفس کو اس کا انتظار رہتا ہے اور کامل سکون حاصل نہیں ہوتا ۔ چونکہ عورتیں تسکین قلب کا باعث ہوتی ہیں اس لئے انہیں”تسکین جان” بھی کہاجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“ اور اس کی (قدرت کی)نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں۔ تاکہ ان کی طرف مائل ہوکر سکون حاصل کرو۔
اس نعمت کی تکمیل تب ہوتی ہے جب اس تمام تر عمل سے محبت کرنے والے کی غرض اللہ کی خوشنودی اور رضائے الہی ہو ۔ اس لذت کا وہ گاہے گاہے احتساب کرتا ہو۔ اپنے میزان کو وزنی بنانے کے لئے کوشاں ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان اس سے بڑا خوش ہوتا ہے کہ دو محبت کرنے والے مردوزن کو ایک دوسرے سے جدا کردے اور میل محبت کی بجائے دونوں ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوکر رہ جائیں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں رسول خدا ﷺ کا یہ ارشاد درج ہے کہ ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے ، پھر اپنے منتخب ماتحتوں کو لوگوں کے اندر بھیجتا ہے ، ان میں جو زیادہ فتنہ مچاتا ہے وہی اس کی نظر میں زیادہ مقرب ہوتا ہے ، پھر یہ ماتحت جب اکٹھے ہوتے ہیں، تو ایک کہتا ہے میں نے فلاں کا پیچھا اسی وقت چھوڑا جب اس نے زنا کا ارتکاب کیا ۔ دوسرا کہتا ہے، میں نے تو فلاں دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دم لیا ہے ۔ یہ سن کر شیطان اسے شاباش دیتا ہے، اس کی پیٹھ تھپتھپاتا ہے۔ ہاںتو ہی ہے ، ہاںتو ہی ہے۔
معلوم ہوا کہ دو دلوں کا ملاپ اگر اللہ اور رسول کو زیادہ محبوب ہے تو ان کے اندر بگاڑ پیدا کرنا خدا کے دشمن شیطان کو زیادہ پسند ہے ۔ اس لئے شیطان بھی ایسے دو آدمیوں کی میل محبت میں تفرقہ ڈالنے کے لئے پورا زور صرف کرتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتا اور ناراض ہوتا ہے ۔ اور اکثر عاشق شیطانی لشکر کے کارندے اور اس کی فوج کے سپاہی ہوتے ہیں۔ لیکن بسا اوقات ان کا معاملہ اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ شیطان خود کو اپنے چیلوں کی فوج کا ادنیٰ سپاہی اور لشکری تصور کرنے میں عافیت سمجھتا ہے ۔ لیکن اپنی سرداری برقراررکھتے ہوئے بے حیائی کے کاموں کو آراستہ کرکے ان کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ اور نہی چیزوں پر انہیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے جیسا کہ کسی نے کہا ؎
عجبت من ابلیس فی نخوتہ وقبح ما اظھر من سیرتہ
ابلیس کی تمام تر اکڑ فوں کے باوجود مجھے حیرت ہے کہ وہ بدکردار ہوتے ہوئے بھی
تاہ علی ادم فی سجدۃ وصار قوادا لذریتہ
بجائے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے گمراہ ہوا ، اور آج نسل آدم کو گمراہ کرنے میں پیش پیش ہے ۔
حضور اکرم ﷺ نے عشق کا شکار ہونے والے نوجوانوں کو نہایت کار گردوا بتائی ۔
چنانچہ صحیحین میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے گروہ جواناں! تم میں سے جسے نکاح کرنے کی توفیق ہو، وہ نکاح کرلے ، کیونکہ نکاح، نگاہوں کو بہت زیادہ نیچا رکھنے والا، اور زنا سے بچانے والا ہے ۔(خلاصہ روضۃ المحبین،ص:216،217)
اس لئے شیطان کی مکاری اور میاں بیوی میں تفرقہ ڈالنے کی پر فریب چالوں سے ہوشیار رہنا بہت ضروری ہے ۔ اس حدیث کے حاشیہ پر امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
“دار آخرت کی لذت میں جس سے اضافہ ہو، وہی لذت خداوند عالم کے نزدیک پسندیدہ اور محبوب ہے ۔ اوریہ لذت والا دووجہ سے اس سے لطف اندوز ہوتا ہے ایک اس وجہ سے کہ وہ نعمت اور اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ دوسرے یہی لذت اسے رب کی خوشنودی اور رضائے الٰہی تک پہنچاتی ہے ۔ اسی لذت کے حصول کے لئے بندوں کو سر توڑ کوشش کرنی چاہئے۔ اور کسی ایسی لذت کے پیچھے نہ پڑنا چاہئے جس کا انجام المناک ہو ۔ اور بڑی سے بڑی لذت اس کے آگے ہیچ اور بے وقعت ہوجانے والی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہر مباح چیز سے لطف اندوز ہونے پر بندہ مومن کو اجرملے گا۔بشرطیکہ دار آخرت کی لذت اور وہاں کی نعمتوں تک پہنچنے کے لئے اس دنیا کی لذت سے لطف اٹھایا ہوگا۔ اس لئے اگر کوئی اپنی بیوی سے محض اپنی چہیتی اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کی وجہ سے ملذذ ہوا، دل و دماغ اور جسم و جان کو اس کی لذت سے شاد کام کیا، تو اس لذت کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی ۔ اور جیسے حرام لذت سے لطف اندوز ہونے پر لطف اٹھانے والا سزا کا مستحق ہوتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں اول الذکر لطف اٹھانے والا اجروثواب کا مستحق ہرگز نہیں ہوگا۔ جیسے خود حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہاری شرمگاہ میں بھی اجر ہے۔۔۔الخ

حوالہ (3) :
شادی کرنے ، بیوی کے ساتھ نرمی برتنے اور اس کا مرتبہ بڑھانے کی کہاں تو یہ ترغیب اور کہاں تحریف کئے گئے مذاہب کا حال، جو بیوی کو شر اور فساد کی جڑ تصور کرتے ہیں۔ شوہر کو آلودگی اور گندگی کی پوٹ سمجھتے ہیں ۔ اور شادی کرنے کی بجائے خصی ہونے کا ترجیح دیتے ہیں۔
عبارت بالا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عبادت صرف اسی کا نام نہیں کہ اعمال میں بس خشوع وخضوع پیدا کیاجائے۔ جیسے استاد محمد اسد نے نماز اور روزے کی مثالیں دیتے ہوئے کہا ہے ۔ بلکہ عبادت انسان کی ساری عملی زندگی سے عبارت ہے ۔ اور جب ہماری اس ساری زندگی کا حاصل خداوند قدوس کی عبادت ہے تو یہ ضروری ہے کہ ہم اسی رخ سے اپنی پوری زندگی کے نشیب و فراز پر نظر ڈالیں ۔ اور جب ہم غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ زندگی بڑی شائستہ، بڑی با سلیقہ اور کئی گوشے اپنے اندر رکھگی ہے ۔ اس لئے ہماری تگ و دو اور کوشش بھی ہر جہت سے یہی ہونی چاہئے اور زندگی کے معمولی لمحات کو بھی عبادت کے کاموں میں لگانا چاہئے ۔ اور عبادت عبادت ہے۔ اس لئے پورے ہوش سے اسے انجام دینا چاہئے ۔ نیز اس لئے کہ یہ خدا کے بنائے ہوئے عالمی نظام کی اہم کڑی ہے ۔
(اسلام ترا ہے پر ۔۔۔ ، طبع چہارم - ص:23)

ماخوذ از کتاب: تحفۃ العروس
تالیف : محمود مہدی استنبولی - اردو ترجمہ : مختار احمد ندوی

The reward on copulation of husband wife.

1 تبصرہ:

  1. It's really a feel-good factor while going through topics like these in Urdu considered taboo in Urdu speaking society. A closed box mindset. Thanks for your courageous initiative.

    جواب دیںحذف کریں